شراب اور دیگر منشیات کے ذریعہ علاج معالجہ کرنا
سوال: شریعت اسلامیہ میں بوقت ضرورت شراب پینے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ڈاکٹر نے اس کو (بطور علاج ) شراب پینے کا حکم دیا ہو؟
جواب: جمہور علماء کے نزدیک شراب اور خبیث اشیاء میں سے کوئی بھی ایسی چیز ، جس کو اللہ نے حرام کیا ، پی کر علاج کرنا حرام ہے ۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ طارق بن سوید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے استعمال کے متعلق سوال کیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کے استعمال سے منع کر دیا ۔ انہوں نے عرض کیا: میں اس کو دوائی میں استعمال کرتا ہو تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه ليس بدواء ، ولكنه داء [صحيح مسلم ، رقم الحديث 1984]
”بلاشبہ وہ (شراب) دوائی نہیں ہے وہ تو خود بیماری ہے ۔“
اس کو امام احمد اور مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے ۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ خواتین سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله أنزل الدواء و الداء ، وجعل لكل داء دواء فتداووا ولا تداووا یحرام [ضعيف ۔ سنن أبى داود ، رقم احدنيت 3874]
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے دوائی بھی نازل کی ہے اور بیماری بھی ، اور ہر بیماری کا علاج بھی اتارا ہے ، لہٰذا تم علاج کرو ، لیکن حرام چیز سے علاج نہیں کرو‘ اس کو ابوداود سے روایت کیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدواء الخبيث وفي لفظ: يعني السم [صحيح ۔ سنن ابن ماجه ، رقم الحديث {3459]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دوائی کے استعمال سے منع کر دیا ۔
اور ایک روایت کے الفاظ ہیں:
خبیث دوائی یعنی زہر (وغیرہ سے علاج معالجہ کرنا )“
اس کو احمد ، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ عدالت نے اپنی صحیح ابن مسعود کی روایت ذکر کی ہے:
إن الله لم يجعل شفاء كم فيما حر م عليكم [صحيح البخاري ، رقم الحديث 5291]
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری شفاء اس چیز میں نہیں بھی ہے جس کو اس نے تم پر حرام کیا ہے ۔ “
ابن مسعود کی موقوف روایت کو ابو حاتم بن حبان نے اپنی ”صحیح“ میں نبی سلام سے مرفوع بیان کیا ہے ۔ یہ اور اس جیسی نصوص خبیث چیز سے علاج کرنے کی ممانعت میں صریح ہیں اور شراب سے علاج کرنے کے حرام ہونے کی صراحت کرتی ہیں ، کیونکہ شراب ام الخبائث اور گناہوں کا مجموعہ ہے ۔
علماء کوفہ میں سے جس نے شراب سے علاج کو مباح قرار دیا ہے اس نے اس کو مجبور آدمی کے مردار کھانے اور خون پینے پر قیاس کیا ہے ، مگر یہ قیاس نص کے خلاف ہونے کی وجہ سے کمزور ہے ، کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے ، وہ اس طرح کہ مردار کھانے اور خون پینے سے ضرورت پوری ہوتی ہے اور زندگی بچ جاتی ہے اور یقیناًً اللہ نے اس کو زندگی بچانے کے لیے متعین کیا ہے ، لیکن علاج کی خاطر شراب پینا تو اس سے بیماری کا ازالہ متعین و مقرر نہیں ہے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ شراب خود بیماری ہے ، دوائی نہیں ہے ۔ اور نہ ہی آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے شراب کو طریقہ علاج کے طور پر متعین و مقرر کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اس مسلمان پر جس نے اپنی بیماری کے علاج کے لیے صرف انھیں چیزوں پر اکتفاء کیاجن کو اللہ نے طیب اور پاکیزہ چیزوں میں سے جائز اور مباح قرار دیا ہے ، اور مباح چیزوں پر اکتفاء کرتے ہوئے ان چیزوں سے بے پرواہی اختیار کی جن کو اللہ نے خبیث اور ممنوعہ چیزوں میں سے حرام قرار دیا ہے ۔ (سعودی فتوی کمیٹی )
سوال: بلاشبہ ایک شخص کو کوئی بیماری لاحق ہو گئی ، وہ علاج کے لیے ہسپتال گیا ، وہاں ہسپتال میں اس کو ایک شخص نے کہا: شراب پیو اس سے تمھاری بیماری دور ہو جائے گی ، سوال یہ ہے کہ کیا دوائی کے طور پر شراب کا استعمال جائز ہے؟ ہمیں فائدہ پہنچایئے گا ، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرماے ۔
جواب: یہ باطل ہے ، شراب کبھی دوائی نہیں بن سکتی ہے ، کیونکہ حدیث میں موجود ہے کہ طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے شراب کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے استعمال سے منع فرمایا یا شراب بنانے کو ناپسند کہا: ، انہوں نے عرض کیا: میں تو اس کو صرف دوائی کے لیے بناتا ہوں تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنہ لیس بدواء ولکنہ داء [صحیح: مسلم ، رقم الحديث 1984]
بلاشبہ وہ (شراب ) دوائی نہیں ہے ، یقیناًً وہ تو خود بیماری ہے ۔“
پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ شراب بیماری سے علاج نہیں ہے ۔ اور اس صلى اللہ علیہ وسلم حقیقت کو انگریز اور دیگر ڈاکٹروں نے ثابت بھی کیا ہے ۔ ان سب محقق ڈاکٹروں نے تحقیق کر کے وضاحت کی ہے کہ بلاشبہ شراب دوائی اور علاج نہیں ہے ، حتی کہ جرمنی کے بعض ڈاکٹروں نے کہا ہے: بلاشبہ شراب پینے والے اور اس کے نشے میں دھت رہنے والے کی عقل کمزور ہو جاتی ہے اور شراب پینے سے ضعف عقل اور پراگندہ خیال کی بیماری اس کی نسل میں بھی منتقل ہوتی ہے ، لہٰذا ہر شخص کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ صحت کی حفاظت کرتے ہوئے شراب پینے سے گریز کرے ۔ ایسے ہی بعض فرانسیسی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بلاشبہ ہمیشہ شراب پینے والے کے جسم کی ہیئت اور کیفیت اس طرح کی ہو جاتی ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر میں ساٹھ سالہ دکھائی دیتا ہے ، اس لیے کہ شراب اعصاب اور سوچ و فکر کو کمزور کرتی ہے اور جسم کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ شراب کے عادی لوگ ساٹھ سال کی عمر سے کم ہی آگے بڑھتے ہیں ، تو اس سب کے باوجود شراب دوائی کیسے قرار دی جا سکتی ہے؟ !
جان لیجیے کہ اہل علم نے دوائی کے طور پر کسی حالت میں شراب پینا کبھی جائز نہیں قرار دیا ۔ سوائے ایک مسئلہ کے اور وہ ہے جب گلے میں لقمہ پھنس جائے اور بندے کو ڈر ہو کہ وہ اس سے مر جائے گا اور اس کے پاس شراب کے علاوہ پینے کی کوئی اور چیز بھی نہ ہو تو وہ پھنسے ہوئے اس لقمے کو حلق سے نیچے اتارنے کے لیے صرف ایک گھونٹ شراب پی سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ● إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ [5-المائدة: 90]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں ، شیطان کے کام سے ہیں ، سو اس سے بچو ، تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے ، تو کیا تم باز آنے والے ہو؟ “
پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے کسی حالت میں بھی شراب پینا جائز اور مباح قرار نہیں دیا ہے ، نہ جسم میں خون پیدا کرنے کے لیے اور نہ کسی اور غرض کے لیے ، بلکہ شراب تو بذات خود ایک بیماری ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق خبر دی ہے اور طب جدید نے بھی اس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے ۔
لہٰذا یہ مریض جس کے متعلق میں بات کر رہا تھا اس کے لیے بطور علاج شراب پینا جائز نہیں ہے ۔ (عبداللہ بن حمید رحمہ اللہ )