سوال : کیا شادی کے لیے فراوانی کا ہونا ضروری ہے اگر تنگدست شخص شادی کر لے تو کوئی شرعی قباحت تو نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب : دنیا کے رسوم و رواج سے دور رہ کر اگر آپ اسلامی نقطہ نظر سے سوچیں تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے، آپ کا فقر اور تنگدستی ممکن ہے کہ اللہ نکاح کے ذریعے دور کر دے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ» [النور : 32]
”تم سے جو مرد عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک غلام اور باندیوں کا بھی اور وہ مفلس ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت والا، علم والا ہے۔“
یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیئے، ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ تنگ دستی، فقر اور محتاجی اپنے خاص فضل و کرم سے وسعت اور فراخی میں بدل دے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے :
”تین شخص ایسے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے، ایک نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے، دوسرا مکاتب غلام جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے اور تیسرا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔“
[ترمذي، ابواب فضائل جهاد : بات ما جاء فى المجاهد ولمكا تب والنكا ح 1655، عبدالرزاق 9542، مستدرك حاكم 217/2، نساءي، كتاب الجهاد : باب فضل الروحته فى سبيل الله 3122، ابن ماجه، كتاب العتق، باب المكا تب2518، صحيح ابن حبان 1653، الموارد، مسند ابي يعلي 11/ 410، شرح السنة 719]
سہل بن سعدالساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ”ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اس نے کہا: ”اے اللہ کے رسول !
میں اس لئے آئی ہوں کہ آپ کے لئے اپنے نفس کو ہبہ کروں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اوپر سے نیچے تک نظر دوڑائی پھر اپنا سر نیچے کر لیا۔ جب اس عورت نے دیکھا کہ آپ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو بیٹھ گئی۔ آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا، اس نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں تو اس کو میرے ساتھ بیاہ دیجیئے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے ؟“ اس نے کہا: ”اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! (میرے پاس کچھ) نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اپنے گھر جا کر دیکھ کہ تیرے پاس کچھ ہے کہ نہیں۔“ وہ چلا گیا پھر واپس آیا اور اس نے کہا: ”اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! میں نے کچھ نہیں پایا۔“ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تلاش کر اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔“ وہ واپس گیا اور پھر آیا اور کہنے لگا : ”اے اللہ کے رسول ! لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی لیکن میرا یہ تہ بند ہے، اس کا آدھا حصہ اسے دے دوں گا۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تو اپنے تہ بند کے کیا کرے گا ؟ اگر تو پہنے گا تو اس عورت پر اس میں سے کچھ نہ ہو گا اور اگر یہ عورت پہن لے گی تو تیرے اوپر کچھ نہ ہو گا۔“ وہ آدمی بیٹھ گیا، یہاں تک کہ اس کی مجلس لمبی ہو گئی، وہ پھر کھڑا ہوا اور چل دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منہ پھیر کرجاتے ہوئے دیکھا تو اسے بلایا۔ جب وہ آیا تو آپ نے کہا: ”تیرے پاس قرآن کریم میں سے کیا ہے ؟“ اس نے کہا: فلاں فلاں سورتیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”تو انہیں اچھی طرح یاد رکھتا ہے۔“ اس نے کہا: ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جا، میں نے اس سورتوں کے عوض اس عورت سے تیرا نکا ح کر دیا۔“ [بخاري، كتاب النكا ح : باب تزويج المعسر 5087]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے شریعت میں لمبے چوڑے اخراجات نہیں ہیں، جس صحابی کا نکا ح رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اس کے پاس تو سوائے تہ بند کے کچھ نہ تھا۔ آج کون سا ایسا شخص ہے جس کے پاس کم از کم ایک جوڑا کپڑوں کا نہ ہو۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس لباس وافر ہیں، رہائش کے لیے گھر موجود ہے۔ صحابی سے بڑھ کر معاشی حالت درست ہے۔ لہٰذا آپ رسومات اور رواجوں سے ہٹ کر سنت نبوی کے مطابق نکا ح کروا لیں۔ حق مہر کی بھی شرع میں کوئی مقدار کم یا زیادہ متعین نہیں، حسب استطاعت مہر ادا کر دیں۔ بدکاری و فحاشی کے اس رواں میں پاکدامنی اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے اور نکا ح بدکاری سے بچنے کا بہتریں راستہ ہے۔ اس لیے گھر والوں کی بات تسلیم کر کے نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں، اللہ تعالیٰ مالی مشکلات کو اپنے فضل و کرم سے درست کر دے گا۔