مضمون کے اہم نکات:
امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفانؓ کی شہادت
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ کا دور خلافت بارہ سالوں پر محیط ہے۔ اس دوران میں ملک نے بڑی ترقی کی، بہت سے علاقے زیر نگیں ہوئے ، مال کی فراوانی ہوئی لیکن افسوس کہ خلافت کے آخری دور میں آپؓ سخت مشکلات اور مصیبتوں میں گھر گئے ۔ آپ کے خلاف سازشیں ہونے لگیں اور پھر ایک ایسے فتنے نے جنم لیا جس کے نتیجے میں آپ شہید کر دیے گئے۔ آپ کی شہادت کے ساتھ ہی امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور فتنوں کا ایسا سیلاب امنڈ آیا جو آج تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
امام ابو بکر محمد بن حسین الآجری فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ عثمان کو کس نے شہید کیا تھا تو اسے کہا جائے گا کہ (ان کو شہید کرنے والے) مختلف لوگ تھے جنھیں اللہ نے بدنصیبی کا شکار کیا کہ انھوں نے عثمان سے حسد رکھتے ہوئے اور ان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے انھیں شہید کیا۔ وہ لوگ فتنہ پیدا کرنا چاہتے تھے اور محمد ﷺ کی امت کے درمیان اختلاف پیدا کرنا چاہتے تھے۔ دنیا میں انھیں جو بدنصیبی حاصل ہوئی وہ تو ہوئی، آخرت میں انھیں جو کچھ ملے گا وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
(الشريعة، ص : ٥٣٣)
◈ نبوی پیشین گوئیاں:
❀ نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں اس بات کی پیش گوئی فرما دی تھی کہ سیدنا عثمانؓ آزمائش میں مبتلا ہوں گے۔
سیدنا ابو موسیؓ سے مروی ہے کہ وہ مدینہ کے باغوں میں سے کسی باغ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ نبی ﷺ کے دست مبارک میں ایک چھڑی تھی جسے آپ مٹی اور پانی میں مار رہے تھے ۔ اس دوران میں ایک آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھلوانا چاہا۔ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”دروازہ کھول دو اور اس ( آنے والے) کو جنت کی خوش خبری سنا دو ۔“ میں گیا تو وہاں سیدنا ابو بکرؓ موجود تھے، میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی خوش خبری سنائی پھر ایک اور آدمی نے دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے فرمایا: ”اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے بھی جنت کی خوش خبری سنا دو ۔ اس مرتبہ عمرؓ تھے۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی۔ پھر ایک تیسرے آدمی نے دروازہ کھلوانا چاہا اس وقت آپ ﷺ ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اب سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوش خبری سنا دو، لیکن اس کو دنیا میں آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ میں گیا تو وہاں سیدنا عثمانؓ تھے میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور جنت کی خوش خبری سنائی اور وہ بات بھی بتائی جو آپ ﷺ نے فرمائی تھی ۔ سیدنا عثمانؓ نے کہا: اللہ ہی مددگار ہے۔
(صحیحح البخاری: ٦٢١٧)
❀ آپ ﷺ نے یہ بھی پیش گوئی فرمائی تھی کہ عثمانؓ شہید ہوں گے۔ چنانچہ سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے، آپ کے ساتھ ابوبکر ، عمر اور عثمانؓ بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ لرزنے لگا تو آپ نے فرمایا:
”احد ٹھہر جا، کیونکہ اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔“
(صحیح البخاری: ٣٦٧٥)
سیدنا عبداللہ بن حوالہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو تین چیزوں سے بچ گیا وہ نجات پا گیا۔ آپ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔ (تین چیزیں یہ ہیں): ”میری موت ، فتنہ دجال اور حق پر ڈٹ جانے والے فیاض و سخی خلیفہ قتل ۔“
(مسند احمد: ٤ / ١٠٦ وسنده حسن)
سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں:
اس امت میں بارہ خلیفے ہوں گے، ان میں سیدنا ابوبکرؓ الصدیق ہوں گے تم نے انھیں اسم بامسمی پایا اور سیدنا عمر بن خطابؓ الفاروق ہوں گے (گویا) وہ لوہے کے بنے ہوئے ہیں تم نے انھیں بھی اسم بامسمی پایا اور سیدنا عثمان بن عفانؓ ذو النورین ہوں گے وہ دوگنی رحمت سے نوازے گئے ہیں مظلوم شہید کیے جائیں گے تم نے انھیں بھی اسم بامسمی پایا۔
(تاریخ دمشق : ٤٧٦/٣٩ وسنده حسن)
◈ منصوبہ بند سازش:
شہادت عثمان کے پیچھے وہ خفیہ قوتیں تھیں جنہیں اسلام کا عروج ایک پل بھی گوارا نہ تھا۔ جہادی میدانوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں پٹنے کے بعد انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ اب ہم میدانوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے سو انھوں نے ایسے افراد تیار کیے جنھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی ہی میں ان منافقین کے اس مکروہ چہرے کی خبر دے دی تھی۔
سیدنا نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:
ایک دن رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن عفانؓ کی طرف پیغام بھیجا جب وہ آئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے ، ہم نے جب رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں دیکھا تو ہم ایک طرف جا کر جمع ہوگئیں۔ تا کہ آپ آزادی سے گفتگو کر سکیں ، بات چیت ہوتی رہی۔ آخر میں آپ نے ان کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا:
”عثمان ! امید ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں ایک قمیص پہنائے گا۔ اگر منافقین تم سے اس قمیص کو اتارنے کا مطالبہ کریں تو مجھے ملنے تک اس قمیص کو نہ اتارنا “
آپ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔ سیدنا نعمانؓ کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہؓ سے کہا:
یہ حدیث اب تک کہاں تھی؟ تو انھوں نے فرمایا:
میں بھول گئی تھی، اللہ کی قسم! مجھے یاد نہیں رہی تھی۔ سیدنا نعمانؓ کہتے ہیں:
میں نے یہ حدیث سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ کو بتلائی لیکن انھیں میری خبر پر تسلی نہ ہوئی یہاں تک کہ انھوں نے سیدہ عائشہؓ کی طرف خط لکھا کہ وہ یہ حدیث لکھ بھیجیں چنانچہ آپؓ نے ایک تحریر ان کو بھجوا دی جس میں یہ حدیث لکھی ہوئی تھی۔
(مسند احمد: ٦ / ٨٦ ، ٨٧ وسنده صحيح)
ان منافقین نے اندر ہی اندر حکومت کے خلاف لوگوں کو بھڑ کانا شروع کر دیا۔ یہ لوگ امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ کے ہر کام میں میخ نکالتے اور آپ کو ہر طریقے سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ۔ یوں انھوں نے بہت جلد کمزور ایمان والے لوگوں کو اپنے ساتھ ملالیا۔
ابوسعید مولٰی ابی اسید کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
ذوالحلیفہ میں ایک قافلہ ٹھہرا ہے، میں ان کی طرف جا رہا ہوں تم میں سے جو شخص (میرے ساتھ ) جانا چاہے وہ ضرور چلے۔
ابوسعید کہتے ہیں:
میں (ان کے ہمراہ) جانے والوں میں سے تھا۔ ہم ان (قافلے والوں) کے پاس آئے وہ جانوروں کے باڑے کی چھت تلے بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے باغ کے درمیان سے ان کو دیکھا، ان میں ایک نوجوان گود میں قرآن لیے بیٹھا تھا وہ کہنے لگا:
امیر المومنین! آپ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
مَّا أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ ﴿٥٩﴾
(يونس: 59)
’’جو اللہ نے تمھارے لیے رزق اتارا پھر تم نے اس میں سے کچھ حلال اور کچھ حرام بنالیا، کہ دو: کیا اللہ نے تمھیں یہ اجازت دی ہے یا تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔”
تو آپؓ نے فرمایا:
بے شک عمر نے ایک چراگاہ مقرر کی تھی اب جب صدقہ بڑھ گیا ہے تو میں نے اس میں اضافہ کر دیا۔ بہر حال جو کوئی اس میں (اپنے جانور ) چرانا چاہے وہ چرا سکتا ہے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں توبہ کرتا ہوں اور اس سے معافی مانگتا ہوں۔ یہ سن کر وہ سب کہنے لگے: امیر المؤمنین! آپ نے (رجوع کر کے) بہت اچھا کیا ہے۔ پھر انھوں نے کہا: امیر المؤمنین ! کیا بیت اللہ کے (حج کے) لیے اجازت ضروری ہے؟
آپ نے فرمایا:
میری رائے یہ تھی کہ جہاد حج سے افضل ہے (جب جہاد کے لیے اجازت ضروری ہے تو حج کے لیے بھی ہونی چاہیے) بہر حال اب اگر تم سب کی یہ رائے ہے تو میں سب لوگوں کو اجازت دیتا ہوں کہ جو کوئی حج کرنا چاہے وہ ضرور حج کرے (کوئی روک ٹوک نہیں)۔ میں اللہ کے ہاں تو بہ کرتا ہوں اور اس سے معافی مانگتا ہوں۔ اس پر وہ کہنے لگے : امیر المؤمنین ! بے شک آپ نے بہت اچھا کیا ہے۔ انھوں نے چند اور باتیں بھی آپ سے پوچھیں آپ نے ان سے توبہ کی اور رجوع کیا۔ ہر بار وہ یہی کہتے کہ امیر المؤمنین! آپ نے بہت اچھا کیا۔ پھر سیدنا عثمانؓ نے فرمایا: اب تم (اپنے علاقے کی طرف ) لوٹ جاؤ اور وہ لوٹ گئے۔ پھر آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: میں نے ایسا کوئی قافلہ نہیں دیکھا جو امیر المومنین کے حق میں اس قافلے سے بہتر ہو۔ اللہ کی قسم ! انھوں نے حق ہی کہا اور حق ہی پوچھا۔ پھر وہ قافلے والے آپ کی طرف واپس آگئے ۔ آپ نے انھیں جھانکا اور فرمایا: جب میں نے تمھیں حق دے دیا ہے تو پھر اب تمھیں کون سی چیز واپس میری طرف لے آئی ہے؟ انھوں نے کہا: تمھارا خط ۔ آپ نے فرمایا: تم پر افسوس! اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو ہلاک نہ کرو۔ اللہ کی قسم ! میں نے یہ خط نہیں لکھا اور نہ ہی میں نے لکھوایا ہے۔ یہ سن کر اشتر کہنے لگا: اللہ کی قسم ! میں اس بندے کی قسم سن رہا ہوں۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ اس کے ساتھ چال چلی گئی ہے اور اس نے تمھارے ساتھ چال چلی ہے۔ یہ سنتے ہی وہ لوگ آپ پر چڑھ دوڑھے اور (مار مار کر) آپ کو نیچے بچھا دیا حتی کہ آپ شدید زخمی ہو گئے ۔ یہ منظر دیکھ کر سیدنا سعد بن مالکؓ ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور فرمایا: تم کس جرم میں ان کو قتل کر رہے ہو؟ جب وہ خطا پر تھے اس وقت تم نے انھیں چھوڑے رکھا اور جب وہ (خطا سے) پاک وصاف ہو گئے ہیں تو تم انھیں قتل کر رہے ہو۔ یہ سننا تھا کہ وہ لوگ ان کو بھی نیزوں کے ساتھ مارنے لگ پڑے، حتی کہ وہ پہلو کے بل گر پڑے اور فرمانے لگے: آؤ، مجھے قتل کرو۔ بے شک میری ماں نے میرا نام درست رکھا تھا جس وقت اس نے میرا نام سعد (نیک بخت) رکھا تھا (کہ اب اگر امیر المؤمنین کے دفاع میں شہید ہو جاؤں تو اس سے بڑی نیک بختی کیا ہوگی ) اشتر نے آ کر ان لوگوں کو روکا اور کہا: اللہ کے بندو! تم نے محمد ﷺ کے صحابہ کو قربانی کے جانور سمجھ لیا ہے؟ سعد وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ یا اللہ ! میں مکہ سے اپنے دین کو لے کر مدینہ کی طرف بھاگا تھا اور اب میں مدینہ سے واپس مکہ کی طرف بھاگ رہا ہوں ۔
(تاريخ المدينة المنورة لابن شبة: ۱۹۷۱ وسنده صحيح)
ابوسعید ہی سے مروی ہے، کہتے ہیں:
سیدنا عثمانؓ نے سنا کہ اہل مصر کا ایک وفد آیا ہے تو آپ نے ان کا استقبال کیا اس وقت آپ مدینہ سے باہر ایک بستی میں تھے جب انھوں نے آپ کی ادھر موجودگی کا سنا تو وہ آپ سے ملاقات کے لیے اس جگہ آئے جہاں آپ موجود تھے۔ آپ نے اس بات کو نا پسند کیا کہ وہ مدینہ میں آکر آپ سے ملیں۔ بہر حال وہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: قرآن منگوائیے ۔ آپ نے قرآن منگوایا تو انھوں نے کہا: ساتویں سورت نکالیں۔ وہ لوگ سورہ یونس کو ساتویں سورت کا نام دیتے تھے۔
آپ اس سورت کی تلاوت کرنے لگے یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے :
قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ ﴿٥٩﴾
(يونس : 59)
” کہہ دو، کیا تم نے دیکھا جو اللہ نے تمھارے لیے رزق اتارا پھر تم نے اس میں سے کچھ حرام اور کچھ حلال بنا لیا۔ کہہ دو: کیا اللہ نے تمھیں اجازت دی ہے یا تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔“
تو وہ لوگ کہنے لگے: ٹھہر جائیے ، بتائیے کہ تم نے جو چراگاہ بنائی ہے کیا اس کی اجازت تم کو اللہ نے دی ہے یا پھر تم اللہ پر افترا پردازی کر رہے ہو؟آپ نے فرمایا: اس آیت کو پیش نہ کرو، یہ تو فلاں فلاں امور کے متعلق نازل ہوئی ہے اور جہاں تک چراگاہ کا تعلق ہے تو مجھے سے پہلے عمرؓ نے بھی یہ چراگاہ صدقے کے اونٹوں کے لیے مخصوص کی تھی میں نے تو بس یہ کیا ہے کہ جب صدقے کے اونٹوں میں اضافہ ہو گیا تو میں نے چراگاہ کو بھی بڑھا دیا۔ لہذا یہ بات نہ کرو۔
راوی کہتا ہے لیکن وہ لوگ اس آیت کو بنیاد بنا کر آپ کا مواخذہ کرتے رہے اور آپ یہی فرماتے رہے کہ اسے پیش نہ کرو یہ تو فلاں فلاں امور کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ راوی کہتا ہے : اور سیدنا عثمان رضی اللہ نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ اس وقت تک مسلمانوں میں دراڑ نہیں ڈالیں گے اور نہ ہی مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوں گے جب تک وہ (عثمان) ان کی شرائط کو پورا کرتے رہیں گے۔ پھر آپ نے ان سے پوچھا: تم کیا چاہتے ہو؟
انھوں نے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ اہل مدینہ عطیات وصول نہ کریں کیوں کہ اس مال پر مجاہدین اور بزرگ اصحاب محمد کا حق ہے (آپ نے ان کا یہ مطالبہ بھی مان لیا) اس کے بعد وہ راضی ہو گئے اور خوشی خوشی سیدنا عثمانؓ کے ساتھ مدینہ آگئے ۔ مدینہ تشریف لانے کے بعد سیدنا عثمانؓ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: (مدینے والو ) سن لو! جس کے پاس کھیت ہیں وہ اپنے کھیتوں میں چلا جائے اور جس کے پاس دودھ دینے والے جانور ہیں وہ جا کر ان کا دودھ دو ہے، کیوں کہ اب تمھارے لیے ہمارے پاس کوئی مال نہیں ہے، یہ مال صرف مجاہدین اور محمد ﷺ کے بزرگ صحابہ کے لیے ہے۔ یہ سن کر لوگ غضب ناک ہو کر کہنے لگے: یہ بنو امیہ کا مکروفریب ہے۔ پھر مصری وفد راضی خوشی واپس چلا گیا۔ ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ ایک سواران کے پاس آیا پھر وہ ان سے آگے نکل گیا پھر ان کی طرف واپس آیا پھر ان سے جدا ہوا اور انھیں گالیاں دینے لگا۔ یہ حرکت دیکھ کر انھوں نے اس سے کہا: تجھے کیا مسئلہ ہے؟ کیا تجھے کوئی حکم ملا ہے؟ یا کوئی اور معاملہ ہے؟
اس نے کہا: میں امیر المؤمنین کا قاصد ہوں اور مصر میں ان کے گورنر کے پاس جا رہا ہوں۔ تب انھوں نے اس کی تلاشی لی تو اس سے سیدنا عثمانؓ کی طرف سے لکھا ہوا خط برآمد ہوا جس پر آپ کی مہر بھی ثبت تھی اور وہ مصر کے گورنر کے نام لکھا گیا تھا۔ جس میں اسے حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس وفد کے ارکان کو سولی دے دے یا انھیں قتل کر دے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے۔ یہ دیکھ کر وہ وہیں سے پلٹے اور مدینہ آگئے یہاں وہ سیدنا علیؓ سے ملے اور ان سے کہنے لگے:
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اس (عثمان) نے ہمارے بارے میں یہ حکم دیا ہے؟ آپ اس کے پاس جانے کے لیے ہمارے ساتھ آئیں۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! میں تمھارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ انھوں نے کہا: پھر آپ نے ہماری طرف (اپنی حمایت اور بغاوت عثمان کے لیے ) خط کیوں لکھے تھے؟
آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم ! میں نے تو کبھی تمھاری طرف کوئی خط نہیں لکھا۔ یہ سن کر وہ ایک دوسرے کی طرف ( تعجب سے) دیکھنے لگے اور کہنے لگے : کیا تم اس شخص کی خاطر لڑتے پھرتے ہو اس کی خاطر غیض و غضب میں مبتلا ہو؟
سیدنا علیؓ چل پڑے اور مدینہ سے نکل کر ایک بستی کی طرف روانہ ہو گئے۔ پھر وہ لوگ خود ہی سیدنا عثمانؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے :
تم نے اس اس طرح کا خط ہمارے خلاف لکھا ہے۔ آپ نے فرمایا: دو ہی صورتیں ہیں یا تو دو مسلمان آدمی میرے خلاف گواہی دے دیں یا پھر میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ نہ میں نے یہ خط لکھا ہے اور نہ کسی سے لکھوایا ہے اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے۔ اور یہ بات تم بھی جانتے ہو کہ خط کسی دوسرے آدمی کی طرف سے بھی لکھا جا سکتا ہے (یعنی جعلی خط بھی لکھا جا سکتا ہے) اور مہر جیسی دوسری مہر بھی بنوائی جاسکتی ہے۔
راوی کہتا ہے کہ پھر انھوں نے آپ کو قصر خلافت میں محصور کر دیا۔
(المصنف لابن ابي شيبة : ٣٨٨٤٥- فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل : ٧٦٥ ، واللفظ له، وسنده صحيح)
ان روایتوں سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ سیدنا عثمانؓ کو ایک بہت بڑی منصوبہ بند سازش کے ذریعے شہید کیا گیا اور اس کے پیچھے وہی لوگ تھے جنھیں اسلام کی ترقی اور امن و امان گوارا نہ تھا۔ پہلے امیر المؤمنین کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کرنا، پھر لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑکانا اور براہ راست لوگوں کے سامنے خلیفہ سے مناظرہ اور مجادلہ پر اتر آنا، اسی طرح سیدنا علیؓ کے نام سے منسوب جعلی اور من گھڑت خطوط کو پھیلانا، اسی منظم سازش کا حصہ تھا۔ غور طلب بات ہے کہ مصری وفد جب اپنے مطالبے منوا کر واپس جا رہا تھا تو ایک قاصد کا ان سے ملنا، کبھی آگے بڑھنا، کبھی پیچھے ہونا اور پھر بلاوجہ انھیں گالیاں دینا یہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ سیدنا عثمانؓ ان کی طرف سے خط لکھنا اور مہر عثمانی جیسی مہر لگانا یہ سب ایک پلاننگ تھی۔ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے، ان کا اتحاد ختم کرنے ، معاشرے کا امن وسکون برباد کرنے اور اسلامی مملکت کو اندر سے سبوتاثر کرنے کے لیے سیدنا عثمانؓ کو راستے سے ہٹانے کا ایک منصوبہ تھا ۔ اگر سیدنا عثمان رضی اللہ نے قاصد کو خط دے کر بھیجا ہوتا تو اسے بار بار قافلے سے ملنے اور انھیں گالیاں دینے کی کیا ضرورت تھی؟ اسے تو چاہیے تھا کہ وہ قافلے سے نظر بچا کر نکلتا اور ان سے پہلے مصر جا پہنچتا۔
انا لله وانا اليه راجعون۔
◈ خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ:
باغیوں نے قصر خلافت کو گھیرے میں لے کر امیر المؤمنین سیدنا عثمان کو نظر بند کر دیا اور خلافت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرنے لگے لیکن آپ ان کا یہ مطالبہ ماننے سے انکاری تھے کیونکہ:
❀ایک تو جناب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو وصیت فرمائی تھی کہ منافقین کے مطالبے پر خلافت مت چھوڑنا ، چنانچہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عثمان بن عفانؓ کی طرف پیغام بھیجا جب وہ آئے تو آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے ہم نے جب آپ کو اس حالت میں دیکھا تو ایک طرف جا کر جمع ہو گئیں تا کہ آپ آزادی کے ساتھ گفتگو کرسکیں۔ بات چیت ہوتی رہی۔ آخر میں آپ نے سیدنا عثمانؓ کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا:
” عثمان! امید ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ تمھیں ایک قمیص پہنائے گا اگر منافقین تم سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کریں تو مجھے ملنے تک اس قمیص کو مت اتارنا۔“
آپ ﷺ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔
(مسند احمد: ٦ / ٨٦ وسندہ صحیح)
سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:
”میرے بعد بارہ خلیفے ہوں گے ان میں سے ابوبکر بھی ہیں اور پورے جزیرۃ العرب پر حکمرانی کرنے والا بھی ہے جس کی زندگی قابل ستائش اور موت شہادت والی ہوگی ۔“
ایک نے پوچھا: وہ کون ہے؟
آپ نے فرمایا: ” عمر بن خطاب“ پھر رسول اللہ ﷺ سیدنا عثمان بن عفانؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
” عثمان ! اگر اللہ تعالیٰ تمھیں (خلافت کی) قمیص پہنائے اور لوگ تجھ سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کریں تو اسے مت اتارنا۔ اللہ کی قسم ! اگر تو نے اسے اتار دیا تو جنت نہیں دیکھے گا، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔‘‘
(المعجم الاوسط للطبراني: ٨٧٤٠ – تاریخ دمشق: ۳۹/ ۱۸۳ وسنده حسن)
❀دوسرا کبار صحابہ کا بھی یہی مشورہ تھا کہ آپ خلافت نہ چھوڑیں، چنانچہ سیدنا ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ محاصرے کے دوران میں سیدنا عثمانؓ نے مجھ سے مشورہ طلب کرتے ہوئے فرمایا:
مغیرہ بن اخنس کے قول کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟
میں نے کہا: وہ کیا کہتا ہے؟ انھوں نے فرمایا: وہ کہتا ہے کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ خلافت سے دستبردار ہو جائیں اور اس چیز کو چھوڑ دیں جو ان کے اور آپ کے درمیان ہے۔ میں (عبد اللہؓ) نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر آپ دستبردار ہو گئے تو کیا آپ دنیا میں ہمیشہ رہیں گے؟
سیدنا عثمان اللہ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: اگر آپ دستبردار نہ ہوں تو کیا وہ آپ کے ساتھ قتل سے بڑھ کر کوئی معاملہ کر سکتے ہیں؟
انھوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: کیا وہ جنت اور دوزخ کے مالک ہیں؟ فرمایا: نہیں۔ تو میں نے کہا: پھر میں تو یہ ٹھیک نہیں سمجھتا کہ آپ اسلام میں یہ طریقہ جاری کر دیں کہ جب کوئی قوم امیر سے ناراض ہو تو وہ اسے (امارت سے) اتار دیں اور نہ ہی میں یہ ٹھیک سمجھتا ہوں کہ جو قمیص اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہنائی ہے آپ اسے (لوگوں کے مطالبے )پر اتار دیں۔
(تاریخ المدينة المنورة: ٢١٥٢ وسنده صحيح)
◈باغیوں کا کمینہ پن:
محاصرے کے دوران میں باغیوں نے ایسی ایسی حرکتیں کیں جو رسول اللہ ﷺ کے پاک اور امن والے شہر مدینہ میں اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھیں ۔ ظالموں نے آپ کا پانی بند کر دیا ، آپ کو مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے سے روک دیا۔
ابوسعید مولٰی ابو اسید کہتے ہیں کہ ان (باغیوں) نے آپ کو قصر خلافت میں محصور کر دیا تو ایک دن آپ نے گھر کی چھت سے ان کی طرف جھانکا اور السلام علیکم کہا، لیکن کسی آدمی کو بھی آپ کے سلام کا جواب دیتے ہوئے نہیں سنا گیا، ہاں اگر کسی نے دل میں خاموشی سے جواب دیا ہو تو الگ بات ہے۔
آپؓ نے فرمایا:
میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تمھیں پتا ہے کہ میں نے میٹھا پانی حاصل کرنے کے لیے اپنے مال سے بئر رومہ خریدا تھا اور میرا اس میں اتنا ہی حصہ تھا جتنا کہ عام مسلمانوں کا ؟
جواب آیا۔ جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر تم مجھے اس کا پانی پینے سے کیوں روکتے ہو؟ یہاں تک کہ مجھے سمندر کے (کھاری) پانی سے روزہ افطار کرنا پڑ رہا ہے؟
آپ نے مزید فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تمھیں پتا ہے کہ میں نے اتنی اتنی زمین خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کی تھی؟
جواب ملا: جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: کیا تم ایسے کسی بھی شخص کو جانتے ہو جسے مجھ سے پہلے مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہو؟ جواب آیا۔ نہیں۔
(فضائل الصحابة لاحمد : ٧٦٥ – المصنف لابن ابي شيبة: ٣٨٨٤٥ وسنده صحيح)
باغیوں کی طرف سے آپ پر شدید سنگ باری بھی کی گئی۔ چنانچہ ابان بن عثمان کا بیان ہے کہ جب سیدنا عثمانؓ پر مسلسل سنگ باری کی جانے لگی تو وہ سیدنا علیؓ کے پاس آئے اور کہا:
چچا جان! ہمیں تو پتھروں نے مار ڈالا۔ یہ سن کر سیدنا علیؓ تشریف لائے تو باغیوں نے ان کے دائیں بائیں اس قدر پتھر برسائے کہ ان کے دونوں کندھے بے حس ہو کر رہے گئے تو انھوں نے فرمایا: بھتیجے ! اپنے رعب اور وقار کو قائم رکھو اور ایسے ہی کرو جیسے میں کر رہا ہوں ۔
(تاریخ دمشق : ٣٦٨/٣٩، ٣٦٩ وسنده حسن)
◈قتل کی دھمکیاں:
باغیوں کو جب اپنی دال گلتی نظر نہ آئی تو وہ آپ کو قتل کی دھمکیاں دینے پر اتر آئے ، وہ کہتے تھے کہ چونکہ اس شخص نے ہمارے ساتھ بدعہدی کی ہے ۔ اس لیے اب اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اس کا خون حلال کر دیا ہے اور ہمارے درمیان طے پانے والے تمام عہد و پیمان بھی اب ختم ہو چکے ہیں۔
(المصنف لابن ابي شيبة: ٣٨٨٤٥ وسنده صحيح)
سیدنا ابو امامہ بن سہیلؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا عثمانؓ کے ہاں تھے جب کہ وہ اپنے گھر میں محصور تھے۔ گھر میں ایک ایسی جگہ تھی کہ جو وہاں داخل ہوتا وہ مقام بلاط پر بیٹھے لوگوں کی باتیں سن سکتا تھا۔ سیدنا عثمانؓ اس جگہ گئے اور پھر ہمارے ہاں واپس آئے تو ان کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ لوگ اب مجھے قتل کر دینے کی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔
ہم نے کہا: امیر المؤمنین! اللہ عزوجل ان کی جانب سے آپ کو کافی ہے۔ انھوں نے کہا: یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟
میں نے تو رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے : کسی مسلمان کا خون حلال نہیں سوائے اس کے کہ اس سے تین باتوں میں سے کوئی ایک صادر ہو :
➊ اسلام کے بعد کفر۔
➋ شادی شدہ ہونے کے بعد زنا۔
➌ قصاص کے بغیر کسی کو قتل کرنا ۔
اللہ کی قسم! میں نے کبھی زنا نہیں کیا، جاہلیت میں نہ اسلام لانے کے بعد اور جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا اس (اسلام) کے بدلے کوئی اور دین ہوتا اور میں نے کسی کو قتل بھی نہیں کیا تو پھر یہ لوگ میرے قتل کے درپے کیوں ہیں؟
(سنن ابی داود: ٤٥٠٢ وسنده صحيح)
◈دوران محاصرہ باغیوں سے خطاب:
سیدنا عثمانؓ کو جب اس بات کا یقین ہو گیا کہ یہ ظالم قتل کے بغیر ٹلنے والے نہیں تو آپ نے اتمام حجت کے طور پر ان کے سامنے مختلف تقریریں کیں۔ یہ تقریریں نہایت پر سوز تھیں ان میں آپ نے انھیں وہ مواقع یاد کرائے جب نبی ﷺ نے آپؓ کو جنت کی بشارت دی تھی۔
ثقہ تابعی ابو عبد الرحمن السلمی کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمانؓ کا محاصرہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے گھر کے اوپر سے جھانک کر ان (باغیوں) سے فرمایا:
میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں اور یہ قسم صرف نبی کے اصحاب کو دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:
جس نے بئر رومہ جاری کیا اس کے لیے جنت ہے ۔ تو میں نے اسے کھود کر وقف کیا تھا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا:
”جو کوئی غزوہ تبوک کے لیے لشکر تیار کرے اس کے لیے جنت ہے۔“ تو میں نے لشکر تیار کیا تھا؟
تو لوگوں نے سیدنا عثمانؓ کے کلام کی تصدیق کی۔
(صحیح البخاری : ۲۷۷۸)
ایک موقع پر آپ نے باغیوں سے مخاطب ہوکر یہ بھی پوچھا کہ تم مجھے کس جرم میں قتل کرنا چاہتے ہو۔ شریعت نے جن تین صورتوں میں قتل کی اجازت دی ہے میں نے ان میں سے کسی کا بھی ارتکاب نہیں کیا۔
سید نا ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عثمانؓ محصور تھے تو انھوں نے اپنے گھر کے اوپر سے مجمع کی طرف جھانکا اور فرمایا: تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟
میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں سوائے اس کے کہ اس سے تین باتوں میں سے کوئی ایک صادر ہو: وہ آدمی جو شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے تو اسے رجم کیا جائے گا۔ یا جس نے (کسی بے گناہ کو ) جان بوجھ کر قتل کیا تو اس پر قصاص ہے۔ یا وہ شخص جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی زنا نہیں کیا، جاہلیت میں اور نہ ہی اسلام میں اور نہ میں نے کسی کو قتل کیا ہے کہ جس کا مجھ سے قصاص لیا جائے اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ مرتد ہو جاؤں۔ بے شک میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ (مسند احمد: ١/ ٦٣ وسنده صحيح)
❀جب باغیوں نے آپ کا پانی بند کر دیا اور آپ کو مسجد میں جانے سے روک دیا تو آپ نے انھیں مخاطب کیا۔
ابوسعید مولٰی ابی اسید کہتے ہیں:
ان (باغیوں) نے آپ کو قصر خلافت میں محصور کر دیا تو ایک دن آپ نے اپنے گھر کی چھت سے انھیں جھانکا اور السلام علیکم کہا لیکن کسی آدمی کو بھی آپ کا جواب دیتے ہوئے نہیں سنا گیا، ہاں اگر کسی نے دل میں خاموشی سے جواب دیا ہو تو الگ بات ہے۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تمھیں پتا ہے کہ میں نے میٹھا پانی حاصل کرنے کے لیے اپنے مال سے بئر رومہ خریدا تھا اور اس میں میرا اتنا ہی حصہ تھا جتنا کہ عام مسلمانوں کا۔ جواب آیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر تم مجھے اس کا پانی پینے سے کیوں روکتے ہو؟ یہاں تک کہ مجھے سمندر کے (کھاری) پانی سے روزہ افطار کرنا پڑتا ہے؟ آپ نے مزید فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تمھیں پتا ہے کہ میں نے اتنی اتنی زمین خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کی تھی؟ جواب ملا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: کیا تم ایسے کسی بھی شخص کو جانتے ہو جسے مجھ سے پہلے اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہو؟ جواب آیا: نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، کیا تم نے نبی ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے میرے بارے میں کسی چیز کا اس اس طرح ذکر فرمایا ہو؟ ابوسعید کہتے ہیں: میرے خیال میں آپؓ نے مفصل سورتوں (سورہ حجرات سے سورہ الناس تک ) کی کتابت کا ذکر کیا پھر محاصرے کی خبر پھیل گئی اور لوگ کہنے لگے: امیر المؤمنین سے رک جاؤ۔ امیر المؤمنین سے رک جاؤ۔
ابوسعید کہتے ہیں: پھر اشتر کھڑا ہوا مجھے نہیں معلوم کہ وہ اسی دن کھڑا ہوا یا کسی اور دن۔ وہ کہنے لگا ممکن ہے کہ عثمان اور تم لوگوں کے ساتھ کوئی چال چلی گئی ہو۔ تو باغیوں نے اسے پاؤں تلے روند ڈالا۔ سیدنا عثمانؓ نے پھر ان کی طرف جھانکا اور پند و نصائح کیں مگر ان پر کسی چیز کا کوئی اثر نہ ہوا۔ لوگوں کا یہ حال ہو گیا تھا کہ وہ پہلی دفعہ نصیحت سنتے تو اس کا اثر لیتے لیکن جب انھیں دوبارہ نصیحت کی جاتی تو ان پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔
(فـضــائــل الصحابة لاحمد بن حنبل : ٧٦٥ – المصنف لابن ابي شيبة : ٣٨٨٤٥ وسنده صحيح)
❀ سیدنا عثمانؓ نے یہ تنبیہ بھی کی کہ اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو یاد رکھو نہ تم کبھی اکٹھے نماز پڑھو گے نہ دشمن سے جنگ کرو گے۔
ابو یعلی الکندی کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمانؓ کے پاس حاضر ہوا، جب کہ وہ محصور تھے تو انھوں نے ایک کھڑکی میں سے سے جھانکا اور فرمایا: لوگو! مجھے قتل نہ کرو (اگر میری کوئی غلطی ہے تو ) مجھ سے (اس کی) تو بہ کروا لو۔ اللہ کی قسم ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی تم لوگ نہ تو اکٹھے ہو کر نماز پڑھو گے اور نہ کبھی اکٹھے ہو کر دشمن سے جہاد کرو گے اور تم ضرور ضرور باہم اختلافات کا شکار ہو جاؤ گے۔ یہاں تک کہ تم اس طرح ہو جاؤ گے۔ اور انھوں نے اپنی انگلیاں ایک دوسری میں داخل کیں (یعنی تم ایک دوسرے سے اس طرح گھتم گتھا ہو جاؤ گے ) پھر انھوں نے یہ آیت تلاوت کی:
وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ ﴿٨٩﴾
(هود : 89)
”اے میری قوم! میری مخالفت تمھیں اس کا مستحق ہرگز نہ بنا دے کہ تمھیں اس جیسی مصیبت آپہنچے جو قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح کو پہنچی تھی اور قوم لوط بھی ہرگز تم سے کچھ دور نہیں ہے ۔“
پھر آپ نے سیدنا عبد اللہ بن سلامؓ کو بلاوا بھیجا اور فرمایا:
تمھاری کیا رائے ہے؟ انھوں نے کہا: بس بس ، آپ نے ان پر حجت تمام کر دی ہے۔
(الطبقات لابن سعد : ٣/ ٦٧ – المصنف لابن ابي شيبة: ٣٨٢٣٥ وسنده حسن)
◈صحابہ کرام ؓ کی باغیوں کو نصائح :
بعض صحابہؓ نے بھی باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان باغیوں پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔
سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن سلامؓ مدینہ کے قریب رہائش پذیر تھے۔ وہ ہر جمعہ گدھے پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لاتے اور نماز جمعہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹ جاتے۔ جب باغی سیدنا عثمانؓ کو قتل کرنے کے لیے برانگیختہ ہوئے تو وہ ( عبد اللہ بن سلام) ان کے پاس آئے اور فرمایا: لوگو! عثمان کو قتل نہ کرو اور (اگر ان کی کوئی غلطی ہے تو ) ان سے توبہ کر والو۔ کیوں کہ دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں ہے جس نے اپنے نبی کو قتل کیا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملے کی کبھی اصلاح کی ہو یہاں تک کہ انھوں نے آپس میں ستر ہزار لوگوں کا خون نہ بہا لیا ہو۔ اور نہ ہی کوئی ایسی امت ہے جو اپنے خلیفہ کو قتل کرے اور پھر اللہ ان کے معاملے کی کبھی اصلاح کرے یہاں تک کہ وہ اپنے چالیس ہزار لوگوں کو قتل نہ کرلیں۔ اور کوئی امت ہلاک نہ ہو گی جب تک کہ وہ سلطان وقت کے خلاف قرآن نہ اٹھا ئیں۔
راوی سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے حمید بن ہلال سے پوچھا: سلطان وقت کے خلاف قرآن اٹھانے سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا: کیا تم نے نفسانی خواہشات کے پجاریوں کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح قرآن کی غلط تاویل کرتے اور اس کی آڑ میں سلطان پر لعن طعن کرتے ہیں۔
(بہر حال سید نا عبد اللہ بن سلامؓ نے کہا ) تم عثمان کو قتل نہ کرو، لیکن ان (باغیوں) نے اس سے انکار کر دیا، پھر جب ان لوگوں نے سیدنا عثمانؓ کو شہید کر دیا تو سیدنا عبد اللہ بن سلامؓ آئے اور سید نا علی بن ابی طالبؓ کے راستے میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ جب وہ تشریف لائے تو سیدنا عبد اللہؓ نے ان سے پوچھا: علی! آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: عراق جانا چاہتا ہوں؟ عبداللہؓ نے کہا: آپ نبی ﷺ کے منبر کی طرف لوٹ جائیں اس لیے کہ اگر آپ (اب) اس سے جدا ہو گئے تو پھر اسے کبھی دیکھ نہیں سکیں گے۔ یہ سن کر سیدنا علیؓ ان کے کسی ساتھی نے کہا: اگر اجازت ہو تو ہم اسے قتل کر دیں؟ سیدنا علی رضی اللہ نے فرمایا: رک جا، یہ عبد اللہ بن سلام ہیں۔ یہ ہم میں سے نیک آدمی ہیں۔
(السنة للخلال: ۷۱۱ – تاریخ دمشق : ٣٥٣/٣٩ و سنده صحيح)
ثقہ تابعی کثیر بن افلح سے مروی ہے کہ وہ سید نا عبد اللہ بن سلامؓ کے ہمراہ تھے اس وقت وہ (عبداللہ ) لوگوں کے ہجوم میں سے گزر رہے تھے اور فرما رہے تھے: اللہ سے ڈرو، عثمان کو قتل نہ کرو کیوں کہ عثمان کا تم پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ باپ کا اپنے بیٹے پر ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا: ہم انھیں قتل کر دیں گے؟ نہیں۔ اللہ کی قسم! ہم انھیں قتل نہیں کریں گے۔ سیدنا عبد اللہ نے فرمایا: اللہ کی قسم ! تم ضرور ضرور انھیں قتل کرو گے ۔ آپ مسلسل ان (عثمان) کے قتل کی مخالفت کرتے رہے یہاں تک کہ میں ( کثیر بن افلح ) نے اپنے دل میں صاف محسوس کیا (کہ آپ کس قدر سختی سے روک رہے ہیں)۔
(تــاريــخ الــمـدينة المنورة : ٢٠٥١، وسنده صحيح)
سیدنا ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ وہ دوران محاصرہ سیدنا عثمانؓ کے پاس آئے۔ سیدنا عثمانؓ ان سے مشورہ کرتے تھے تو سیدنا عثمانؓ نے کہا: تم ان لوگوں کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ سیدنا ابن عمرؓ نے کہا: میرا خیال ہے کہ یہ لوگ آپ سے جو چیز مانگ رہے ہیں آپ انھیں وہ دے ہی دیں۔ ہاں خلافت کا جو کرتا اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہنایا ہے اسے آپ (ان کے مطالبے پر) نہ اتاریں۔ اس پر سیدنا عثمانؓ نے کہا: تم اپنا حصہ لے لو اور وہ ان پر کچھ خفا تھے۔ انھوں نے کہا: یہ ایسا دن نہیں ہے (کہ اس میں عطیہ لیا جائے) پھر ابن عمران (باغیوں) کے پاس آئے اور کہا: تم اس بزرگ کو قتل کرنے سے بچو۔ اللہ کی قسم ! اگر واقعی تم نے ان کو قتل کر دیا تو نہ کبھی اکٹھے ہو کر بیت اللہ کا حج کرسکو گے، نہ کبھی اکٹھے ہوکر اپنے دشمن سے جہاد کر سکو گے اور نہ کبھی اکٹھے ہو کر اپنا مال غنیمت تقسیم کر سکو گے۔ ہاں، جسم اور مختلف خواہشات اکٹھی ہو جائیں گی۔ اللہ کی قسم! بلاشبہ میں نے اپنے آپ کو اور کثیر تعداد میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو دیکھا، ہم کہتے تھے : ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان۔
(تاریخ دمشق : ٣٥٦/٣٩ وسنده حسن)
◈لڑائی سے گریز :
سیدنا عثمانؓ کو امت میں خون ریزی اور خانہ جنگی گوارا نہ تھی ۔ باغیوں نے آپ کا پانی بند کر دیا۔ مسجد جانے سے روک دیا لیکن آپ نے ان تمام مصائب کو حیرت انگیز صبر و استقلال کے ساتھ برداشت کیا اور اپنی حمایت میں کسی کو بھی جنگ کی اجازت نہ دی اور نہ اپنے ذاتی تحفظ کے لیے مدینۃ الرسول کی حرمت پر آنچ آنے دی۔
سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں : محاصرے کے دن میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ سے کہا: آپ باہر نکلیں اور ان (باغیوں) سے لڑائی کریں۔ آپ کے ساتھ وہ لوگ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھی مدد کی تھی جب وہ اس سے بھی کم تھے۔ اللہ کی قسم ! ان لوگوں سے لڑنا حلال ہو چکا ہے۔ سیدنا عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ نے لڑائی سے انکار کر دیا اور فرمایا: جس پر میری سمع و طاعت فرض ہے وہ عبد اللہ بن زبیر یا اللہ کی اطاعت کرے۔
سیدنا عثمانؓ نے انھیں اس دن قصر خلافت کا امیر مقرر کیا تھا اور خود اس دن روزے سے تھے۔
(الطبقات لابن سعد : ٣/ ٦٧ – المصنف لابن ابي شيبة: ۳۸۲۳۸ وسنده صحیح)
عبد اللہ بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمانؓ کو یہ فرماتے سنا: بے شک تم میں سے میرا سب سے بڑا معاون و مددگار وہ ہے جو ( آج) اپنے ہتھیار اور ہاتھ روک لے گا۔
(المصنف لابن ابي شيبة: ٣٨٢٣٦ وسنده صحيح)
ابوحبیبہ کہتے ہیں کہ سیدنا زبیرؓ نے محاصرے کے ایام میں مجھے سیدنا عثمانؓ کے پاس بھیجا، میں سخت گرمی کے دن ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ ٹیک والے پلنگ پر تشریف فرما تھے ، ان کے پاس سیدنا حسن بن علی، ابو ہریرہ ، عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیرؓ بھی تھے۔ سیدنا عثمانؓ کے سامنے پانی سے بھرے ہوئے ٹب پڑے تھے اور ایک پاٹ کی چادر رکھی ہوئی تھی (یعنی وہ چادر جس میں جوڑ نہیں ہوتا)۔ میں نے کہا: مجھے زبیر نے آپ کی طرف بھیجا ہے وہ آپ کو سلام عرض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں آپ کا مطیع ہوں نہ میں بدلوں گا اور نہ بیعت توڑوں گا۔ لہذا اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے گھر میں آ جاتا ہوں اور قوم میں شامل ہو جاتا ہوں اور اگر آپ چاہیں تو میں یہیں قیام کرتا ہوں، نیز بنی عمرو بن عوف نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ کل صبح وہ میرے گھر آئیں گے پھر جو میں انھیں حکم دوں گا وہ اس کی تعمیل کریں گے۔ جب سیدنا عثمانؓ نے یہ پیغام سنا تو فرمایا: اللہ اکبر، سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے میرے بھائی کو محفوظ رکھا۔ میرا انھیں سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ وہ میرے گھر میں آجائیں اور قوم ہی کے ایک فرد بن جائیں کیوں کہ ان کا مقام ومرتبہ مجھے بہت محبوب ہے۔ شاید ان کی وجہ سے اللہ میری اس آزمائش کو ٹال دے۔
جب سیدنا ابو ہریرہؓ نے یہ پیغام سنا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا: میں آپ لوگوں کو وہ حدیث نہ سناؤں جسے میرے کانوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی سنائیں۔ تو انھوں نے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ میرے بعد ( عجیب و غریب ) فتنے ، معاملات اور نئے نئے امور رونما ہوں گے۔“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ان سے نجات پانے کی جگہ کہاں ہوگی ، تو آپ نے فرمایا: ”امیر اور اس کی جماعت کے پاس۔ ‘‘ اور آپ نے عثمان بن عفانؓ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ (ابو ہریرہ سے) یہ سن کر لوگ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے : ہمیں بصیرت حاصل ہوگئی ہے، سو آپ ہمیں جنگ کا حکم دیں لیکن سیدنا عثمانؓ نے فرمایا: جس بھی شخص پر میری اطاعت لازم ہے، میں اسے حکم دیتا ہوں کہ وہ جنگ نہ کرے۔ پھر آپ کے قاتلوں نے بنی عمرو بن عوف کے وقت مقررہ سے پہلے ہی آپ کو شہید کر دیا۔
(فضائل الصحابة لاحمد : ٨٣٦ وسنده حسن)
سیدنا عثمانؓ کے اپنے ساتھیوں کو باغیوں کے خلاف جنگ کی اجازت نہ دینے کا سب سے بڑا سبب وہ وصیت تھی جو نبی کریم ﷺ نے آپ کو کی تھی۔ چنانچہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے آخری ایام میں) فرمایا: ”میرے ایک صحابی کو بلاؤ “ میں نے کہا: ابوبکر کو؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: عمر کو؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: آپ کے چچا زاد علی کو؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: عثمان کو ؟ فرمایا: ”ہاں ۔“ جب سیدنا عثمانؓ آئے تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ”تم ذرا ایک طرف ہو جاؤ ۔ پھر آپ نے سیدنا عثمانؓ کے ساتھ چپکے سے باتیں کرنا شروع کیں۔ سیدنا عثمانؓ کا رنگ فق ہونے لگا۔
ابوسہلہ راوی حدیث کہتے ہیں، پھر جب سیدنا عثمانؓ کو ان کے گھر میں محصور کر دیا گیا تو ہم نے کہا: امیر المؤمنین ! آپ ان سے لڑتے کیوں نہیں؟ انھوں نے نے فرمایا: نہیں۔ (وجہ یہ ہے کہ) رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک وعدہ لیا تھا اور میں اس (وعدے) پر صبر کرنے والا ہوں۔
(سنن ابن ماجه: ١١٣ ـ مسند احمد: ٥٢/٦ واللفظ له ـ وسندہ صحیح)
اس وعدے سے مراد نبی کریم ﷺ کی وہی وصیت ہے کہ تم مفسدین کے غلط مطالبات کے سامنے مت جھکنا اور ان کی ایذا رسانیوں پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا۔
امام ابوبکر الآجریؒ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سیدنا عثمانؓ نے صحابہ کو مدد سے کیوں روکا جب کہ وہ مظلوم تھے اور وہ یہ جانتے تھے کہ ان (عثمان) کی طرف سے ان (صحابہ) کا لڑنا برائی سے روکنے کی مانند ہے اور حق کو قائم کرنے کی مانند ہے۔ تو اس شخص سے کہا جائے گا کہ یہ تیری غفلت ہے، اگر وہ کہے کہ وہ کیسے؟ تو اسے کہا جائے گا کہ عثمان کا ان حضرات کو اپنی مدد سے روکنا کئی پہلوؤں کا احتمال رکھتا ہے جو سب کے سب لائق تعریف ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ عثمانؓ یہ جانتے تھے کہ انھیں مظلوم ہونے کے طور پر قتل کر دیا جائے گا اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا کیوں کہ نبی ﷺ نے انھیں اس بات سے آگاہ فرما دیا تھا کہ بے شک تمھیں مظلو ماً قتل کیا جائے گا سوتم صبر کرنا۔ یہ سن کر عثمانؓ نے کہا تھا کہ میں صبر کروں گا اور جب ان لوگوں نے عثمانؓ کا محاصرہ کر لیا اور عثمانؓ کو پتا چل گیا کہ وہ قتل ہو جائیں گے اور انھیں یہ بھی پتا چل گیا کہ نبی ﷺ نے ان سے جو بات ارشاد فرمائی تھی وہ برحق ہے اور جیسا نبی ﷺ نے فرمایا تھا ایسا بہر صورت ہونا ہے تو انھیں یہ بات پتا چل گئی کہ نبی ﷺ نے ان سے ان کی ذات کے حوالے سے صبر کا وعدہ لیا تھا تو عثمانؓ نے اپنے کیے ہوئے وعدے کے مطابق صبر کیا اگر وہ اپنی ذات کے لیے دوسرے لوگوں سے مدد حاصل کرتے تو ایسی صورت میں وہ صبر کرنے والے شمار نہ ہوتے تو چونکہ انھوں نے اپنی ذات کے حوالے سے صبر کا وعدہ کیا تھا لہٰذا ایک وجہ تو یہ تھی۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ عثمانؓ یہ بات جانتے تھے کہ صحابہ کرامؓ کی تعداد تھوڑی ہے اور جو لوگ عثمانؓ کو شہید کرنا چاہتے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے اگر عثمانؓ ان حضرات کو لڑنے کی اجازت دے دیتے تو اس بات کا اندیشہ موجود تھا کہ ان کی وجہ سے نبی ﷺ کے بہت سے صحابہ کی جانیں ضائع ہو جاتیں لہٰذا آپ نے اپنی جان قربان کر کے ان حضرات کو بچالیا کیونکہ آپ نگران تھے اور نگران پر یہ واجب ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنی رعایا کا بچاؤ کرے پھر اس کے بعد یہ پہلو بھی ہے کہ عثمانؓ کو یہ تو پتا تھا کہ وہ شہید ہو ہی جائیں گے تو انھوں نے اپنی ذات کے مقابلے میں ان حضرات کا بچاؤ کیا۔ یہ وجہ بھی ہے۔
اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ جب عثمانؓ کو یہ پتا چل گیا کہ یہ ایک آزمائش ہے اور جب آزمائش کے دوران تلوار کو سونت لیا جائے تو پھر اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ ایسا شخص بھی مارا جائے گا جو قتل کا مستحق نہیں تھا تو انھوں نے اپنے ساتھیوں کے لیے یہ چیز اختیار نہیں کی کہ وہ دورانِ فتنہ تلوار سونت لیں۔ یہ بھی ان کی طرف سے اپنے ساتھیوں کے بچاؤ کی کوشش تھی کیوں کہ فتنہ عمومی ہوتا ہے اس میں اموال ضائع ہو جاتے ہیں، حرمتیں پامال ہوتی ہیں تو عثمانؓ نے ان تمام حضرات کو ان چیزوں سے بچایا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ عثمانؓ نے مدد حاصل کرنے کے حوالے سے اس لیے صبر سے کام لیا تا کہ صحابہ کرامؓ ان لوگوں کے خلاف گواہ بن جائیں جنھوں نے آپؓ پر ظلم کیا تھا اور آپ کے حکم کی مخالفت کی تھی اور ناحق آپ کا خون بہایا تھا کیوں کہ اہل ایمان زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ آپ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی وجہ سے کسی مسلمان کا خون بہہ جائے اور آپؓ کے بعد ایسے فرد بن جائیں جن کی وجہ سے کسی مسلمان کا خون بہایا گیا ہو۔ اس لیے آپ نے یہ طرز عمل اختیار کیا جب کہ آپ تو فیق یافتہ تھے معذور تھے ہدایت یافتہ تھے اور صحابہ کرام ؓ معذرت کے مقام پر تھے اور آپ کو شہید کرنے والے لوگ بد بخت تھے۔
(الشريعة، ص : ٥٣٥ ، ٥٣٦)
◈باغیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت:
عبید اللہ بن عدی سے مروی ہے کہ وہ سید نا عثمانؓ کے پاس اس وقت حاضر ہوئے جب آپ محصور تھے اور آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ تو تمام لوگوں کے امام ہیں اور آپ ایک ایسی آزمائش سے دو چار ہیں جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمیں امام فتنہ (باغیوں کا امام ) نماز پڑھاتا ہے جس سے ہم تنگ دل ہوتے ہیں تو سیدنا عثمانؓ نے فرمایا:
نماز لوگوں کے اعمال میں سے اچھا عمل ہے جب لوگ عمدہ کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھائی میں شامل ہو جاؤ اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو۔
(صحیح البخاری: ٦٩٥)
◈ام المؤمنین سیدہ صفیہؓ کی آمد:
سیدہ صفیہؓ کے آزاد کردہ غلام کنا نہ کہتے ہیں کہ میں سیدہ صفیہ کے آگے آگے چل رہا تھا۔ وہ باغیوں کو سیدنا عثمانؓ سے ہٹانا چاہتی تھیں۔ اشتر نخعی نے انھیں دیکھا تو ان کے خچر کے چہرے پر ضرب لگائی، یہاں تک کہ وہ ایک طرف جھک گئیں تو انھوں نے فرمایا:
مجھے واپس لے جاؤ، کہیں یہ کتا مجھے رسوا نہ کر دے۔ پھر انھوں نے اپنے اور سیدنا عثمانؓ کے گھر کے درمیان ایک لکڑی رکھ دی جس کے ذریعے سے وہ ان تک کھانا اور پانی بھجوایا کرتی تھیں۔
(تاریخ المدينة المنورة: ۲۳۸۳ وسنده حسن . )
کنانہ ہی سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے موقع پر موجود تھا۔ اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ سیدہ صفیہؓ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کے لیے خچر پر ہودج تیار کریں تو ہم نے ان کے لیے ہودج تیار کیا پھر ہم انھیں اپنے حصار میں لیے قصر خلافت کے دروازے پر پہنچے تو وہاں اشتر نخعی اور اس کے ساتھ کچھ لوگ موجود تھے۔ اشتر نے سیدہ صفیہؓ کو واپس اپنے گھر لوٹنے کو کہا لیکن انھوں نے انکار کر دیا اس پر اشتر نے ان کے خچر کو نیزہ مارا جس سے وہ اچھلا اور ہودج ایک طرف جھک گیا یہاں تک کہ وہ گرنے کے قریب ہو گیا۔ جب سیدہ صفیہؓ نے یہ صورت حال دیکھی تو فرمانے لگیں:
مجھے واپس لے چلو، مجھے واپس لے چلو۔ اسی دوران میں چار قریشیوں کو قصر خلافت سے اٹھا کر باہر لایا گیا ، انھیں زدو کوب کیا گیا تھا، وہ لوگ سیدنا عثمانؓ کا دفاع کر رہے تھے۔ اور وہ سیدنا حسن بن علی، سید نا عبد اللہ بن زبیر، سید نا ابو حاطبؓ اور مروان بن حکم تھے۔
(مسند اسحاق بن راهويه ٢٠٥٤ وسنده حسن)
◈شہادت سے متعلق خواب :
سیدنا ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ صبح کے وقت لوگوں کے سامنے یہ بات بیان فرما رہے تھے کہ آج رات میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے، آپ فرمارہے تھے :
” عثمان ! ہمارے پاس افطاری کرو ”
عثمان نے روزہ رکھا ہوا تھا اور اسی دن وہ شہید کر دیے گئے ۔
(المصنف لابن أبي شيبة: ٣١١٥١ وسنده صحيح)
شہادت:
ثقہ تابعی عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمانؓ کے ساتھ تھا جس وقت وہ گھر میں محصور تھے تو انھوں نے فرمایا:
ابن عمر! اٹھو اور قصر خلافت کا پہرہ دو۔ چناںچہ ابن عمرؓ بنو عدی کی ایک جماعت لے کر اٹھے اور ان کے ساتھ ابن سراقہ ، ابن مطیع اور ابن نعیم بھی کھڑے ہوئے۔ ابن عمرؓ قصر خلافت (کے دروازے پر) آئے (اسے) کھولا اور ان (لوگوں) کو نصیحت کی لیکن انھوں نے سیدنا ابن عمرؓ کو گریبان سے پکڑ لیا پھر اندر جا کر سیدنا عثمانؓ کو شہید کر دیا اور ان (ابن عمرؓ) کو خبر ہی نہ ہونے دی۔ عبد اللہ کہتے ہیں:
پھر میں اندر آیا تو دیکھا کہ ایک آدمی سیدنا عثمانؓ کی چار پائی کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا اس کی گردن میں تلوار تھی اور اس کے پیچھے سیدنا عثمانؓ کی بیوی بنت شیبہ بن ربیعہ تھی ۔ میں نے اس کو سنا، وہ کہہ رہی تھی :
اے ابن فلاں ! یعنی ابن ابی بکر ! آج ہمارا دفاع کرو۔ تو اس نے کہا:
واللہ! تم تو ہمارے گھر والے ہو۔
(تمھیں بچانا تو ہمارا فرض ہے۔)
(تاريخ المدينة المنورة: ٢٣٥٥ وسنده صحيح)
ابوسعید مولیٰ ابی اسید کہتے ہیں:
سیدنا عثمانؓ کو خواب میں نبی ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ فرما رہے تھے :
”عثمان ! آج روزہ ہمارے ہاں افطار کرنا ۔‘‘
پھر سیدنا عثمانؓ نے دروازہ کھولا اور قرآن سامنے رکھ لیا۔ ایک شخص اندر آیا تو آپ نے فرمایا:
میرے اور تیرے درمیان اللہ کی کتاب ہے تو وہ آپ کو چھوڑ کر باہر نکل گیا پھر ایک اور آدمی اندر داخل ہوا جسے’’الموت الاسود‘‘ (سیاہ موت ) کہا جاتا تھا اس نے آپ کا گلا گھونٹا اور پھر (دوبارہ) آپ کا گلا گھونٹا پھر وہ باہر نکلا اور کہنے لگا:
اللہ کی قسم! میں نے ان کے حلق سے زیادہ نرم کوئی چیز نہیں دیکھی، اللہ کی قسم! میں نے تو اس قدر( زور سے ) ان کا گلا گھونٹا، یہاں تک کہ میں نے ان کے سانس کو (یوں اکھڑتا ہوا) دیکھا جیسے کسی سانپ کا سانس اس کے جسم میں ہوتا ہے (کہ جس طرح وہ سانپ تڑپتا ہے ایسے ہی عثمان تڑپے تھے ) پھر ایک اور آدمی اندر آیا تو آپ نے فرمایا:
میرے اور تیرے درمیان اللہ کی کتاب ہے۔ اس وقت قرآن مجید آپ کے سامنے تھا اس نے آپ پر تلوار سے وار کیا، آپ نے اپنے ہاتھ سے وار کو روکنا چاہا، جس سے آپ کا ہاتھ کٹ گیا۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ ہاتھ کٹ کر جسم سے الگ ہو گیا تھا یا نہیں ۔ سیدنا عثمانؓ نے فرمایا:
واللہ! یہ وہ پہلا ہاتھ ہے جس نے سورہ حجرات تا الناس کی کتابت کی تھی۔ سیدنا عثمانؓ ان کی بیوی نائلہ بنت فرافصہ نے اپنا زیور اتار کر اپنی گود میں رکھ لیا تھا اور یہ آپؓ کی شہادت سے پہلے کی بات ہے پھر جب آپ کو شہید کر دیا گیا تو وہ آپ پر جھک گئیں اس پران (باغیوں) میں سے کسی نے کہا:
اللہ اسے ہلاک کرے اس کے کو لہے کتنے بڑے بڑے ہیں۔ یہ سن کر وہ جان گئیں کہ اللہ کے یہ دشمن صرف حصول دنیا کا ارادہ لے کر آئے ہیں۔
(المصنف لابن أبي شيبة : ٣٨٨٤٥ – فضائل الصحابة لاحمد: ٧٦٥ وسنده صحيح)
عبد الله بن شقیق فرماتے ہیں:
سیدنا عثمانؓ کے خون کا پہلا قطرہ قرآن مجید کی اس آیت پر گرا تھا:
﴿ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾
(البقره : ۱۳۷)
’’پس اللہ تجھے ان سے کافی ہو جائے گا اور وہی سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔“
(تاريخ المدينة المنورة: ۲۳۸۰ وسنده صحيح الى عبد الله بن شقيق)
ثقه ومتقن محدث معاذ بن معاذ کہتے ہیں:
مصحف عثمان میں( فَسَيَكفِيكَهُمُ اللهُ ) میں نے بھی خون کے نشانات دیکھے تھے۔
(تاریخ دمشق : ٣٩/ ٤١٥ وسنده حسن)
امام حسن بصری فرماتے ہیں:
میں نے قاتلین عثمان کو دیکھا کہ انھوں نے لوگوں کو اس قدر کنکریاں ماریں کہ مجھے آسمان تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسی اثناء میں امہات المؤمنین میں سے کسی کے حجرے سے قرآن بلند کیا گیا اور کہا گیا:
اسے ہر وہ شخص جانتا ہے جو اس امر سے آگاہ ہے کہ محمد ﷺ ہر اس شخص سے لاتعلق ہیں جو اپنے دین میں تفریق ڈالے اور گروہ بنا لے۔
(تاریخ المدينة المنورة: ۱۹۳۳ وسنده صحيح)
أم المؤمنین سیدہ صفیہؓ کے آزاد کردہ غلام کنانہ کہتے ہیں:
میں نے سیدنا عثمانؓ کے قاتل کو دیکھا وہ سیاہ رنگ کا مصری تھا وہ قصرِ خلافت میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یا پھیلائے ہوئے اعلان کر رہا تھا کہ میں اس بے وقوف بوڑھے کا قاتل ہوں۔
(مسند علی بن الجعد: ٢٦٦٤ وسنده حسن)
محمد بن طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے کنانہ سے پوچھا:
کیا سیدنا عثمانؓ کا خون کرنے میں محمد بن ابی بکر کا بھی کوئی کردار ہے؟ اس نے کہا:
معاذ اللہ ! وہ اندر گئے تھے لیکن سیدنا عثمانؓ نے ان سے کچھ بات چیت کی تو وہ باہر آگئے ان کا سیدنا عثمانؓ کی شہادت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں (محمد بن طلحہ ) نے پوچھا:
پھر سیدنا عثمانؓ کو کس نے شہید کیا تھا؟ اس نے کہا:
جبلہ بن ایہم نے جس کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا اور اس نے اس بات کا تین بار اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بے وقوف بوڑھے کا قاتل میں ہوں۔ میں ( محمد بن طلحہ ) نے کہا:
اس وقت عثمان کہاں تھے؟
اس نے کہا:
قصر خلافت میں ۔
(مسند اسحاق بن راهويه ٢٠٥٤ وسنده حسن)
امام نافع کہتے ہیں کہ اس دن (سیدنا عثمانؓ کے دفاع کے لیے ) سید نا ابن عمرؓ نے دو مرتبہ زرہ پہنی تھی ۔ راوی سلیم بن اخضر کہتے ہیں :
اس دن سے مراد سیدنا عثمانؓ کے گھر کا گھیراؤ اور ان کی شہادت کا دن ہے۔
(تاريخ المدينة المنورة : ۲۲۸۰ وسنده صحيح)
خالد بن عرعرہ کہتے ہیں :
شہادت عثمان کے دن لوگ بہت دہشت زدہ ہو گئے اور تلوار کا سونتا جانا ہم پر گراں ثابت ہوا، میں حالات سے بددل ہو کر گھر بیٹھ گیا پھر مجھے کسی کام سے بازار جانا پڑا تو میں گھر سے نکلا، دیکھا کہ قصر خلافت کے سائے میں تقریباً چالیس لوگ بیٹھے ہیں اور اس کے دروازے پر ایک زنجیر پڑی ہے۔ میں نے اندر جانا چاہا تو پہرے داروں نے مجھے روک دیا مگر لوگوں نے کہا کہ اسے جانے دو، میں اندر داخل ہوا تو وہاں کئی سرکردہ لوگ موجود تھے۔ اسی دروان میں ایک خوبرو آدمی حلہ زیب تن کیے ہوئے آیا۔ اس نے قمیص نہیں پہنی ہوئی تھی اور سر پر پگڑی بھی نہیں تھی وہ بیٹھ گیا۔ پتا چلا کہ وہ سید نا علی بن ابی طالبؓ ہیں۔
(مستدرك حاكم : ٤٥٧/١ اسناده حسن)
محمد بن الحنفیہ کہتے ہیں:
میں (اپنے والد ) علیؓ کے پاس تھا کہ ایک شخص نے انھیں آ کر کہا:
بے شک امیر المؤمنین شہید کر دیے گئے ہیں پھر ایک دوسرے شخص نے آ کر کہا:
بے شک امیر المؤمنین ابھی ابھی شہید کر دیے گئے ہیں۔ یہ سن کر سید نا علیؓ کھڑے ہوئے، میں بھی کھڑا ہوا۔ میں نے کسی اندیشے کے پیش نظر ان کو پکڑ کر روکا تو انھوں نے فرمایا:
مجھے چھوڑ دو۔ تیری ماں نہ رہے۔ پھر وہ بیت خلافت آئے اس وقت وہ ( عثمانؓ ) شہید کیے جا چکے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر سیدنا علی واپس اپنے گھر آئے اور دروازہ بند کر لیا۔
(تاریخ المدينة المنورة : ۲۱۵۱ وسنده صحيح)
امام حسن بصری کہتے ہیں:
میں سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے حلقے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچا نک سید نا عثمان بن عفانؓ کے گھر سے چیخ سنائی دی۔ میں نے سید نا علیؓ کو دیکھا، انھوں نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کیے اور فرمایا:
اے اللہ ! میں تیرے سامنے خون عثمان سے برأت کا اعلان کرتا ہوں۔
(تاریخ المدينة المنورة : ٢١٦٧ وسنده حسن)
عاصم کے والد کلیب بن شہاب کہتے ہیں کہ میں بصرہ آیا تو دیکھا کہ لوگ لشکر تیار کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا:
انھیں کیا ہوا ہے؟
تو لوگوں نے کہا کہ ان لوگوں کو یہ اطلاع ملی ہے کہ کچھ لوگ سیدنا عثمانؓ کی طرف گئے ہیں۔ ( تا کہ ان پر حملہ کریں ) اس لیے یہ لوگ لشکر تیار کر رہے ہیں تاکہ سیدنا عثمانؓ کے پاس جا کر ان کی مدد کریں۔ اتنے میں ابن عامر کھڑا ہوا، اس نے کہا:
بے شک امیر المؤمنین نے صلح کر لی ہے اور (ان پر حملے کے ارادے سے جانے والے) لوگ واپس لوٹ چکے ہیں۔ یہ سن کر وہ سب اپنے گھروں کو لوٹ گئے اس کے بعد سیدنا عثمانؓ کی شہادت نے ان کو سخت رنج میں مبتلا کر دیا۔ کلیب کہتے ہیں:
میں نے اتنی کثیر تعداد میں بوڑھے لوگوں کو اتنا روتے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو چکی تھیں۔
(المصنف لابن أبي شيبة: ۳۸۹۱۲ وسنده حسن)
◈صحابہ کا کردار:
سیدنا عثمان بن عفانؓ کو باغیوں نے شہید کر کے ملت اسلامیہ کا اتحاد ہمیشہ کے لیے پارہ پارہ کر دیا۔ آپ پر اعتراضات محض بہانہ تھے۔ اصل مقصد کچھ اور ہی تھا۔ اس پورے سانحے میں صحابہ کرام کا کردار کیا تھا؟
➊ صحابہ کرامؓ امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ پر اپنی جانیں نچھار کرنے کے لیے تیار تھے لیکن اس کے لیے امیر المؤمنین کی اجازت بھی ضروری تھی۔ وہ آپ سے بار بار اجازت مانگتے رہے لیکن آپؓ نے انھیں نہ صرف لڑائی کی اجازت نہ دی بلکہ سختی سے منع فرما دیا تھا جس کی وجوہات گذشتہ سطور میں بیان ہو چکی ہیں۔
➋ صحابہ کرام باغیوں کو بھی سمجھاتے رہے کہ امیر المؤمنین کو شہید نہ کرو۔ ملت اسلامیہ کا اتحاد ختم ہو جائے گا لیکن باغیوں پر ان کی نصیحتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔
➌ صحابہ کرام اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے امیر المؤمنین کا پہرہ بھی دیتے رہے۔
➍ صحابہ کرام میں سے بعض امیر المؤمنین کا دفاع کرتے ہوئے زخمی بھی ہوئے۔ چنانچہ:
❀ سیدنا علیؓ پر پتھروں کی بارش کی گئی جس سے ان کے دونوں کندھے بے بس ہو کر رہ گئے ۔
(تاریخ دمشق: ۳۹/ ٣٦٨ـ ٣٦٩ وسنده حسن)
❀ سیدنا حسن بن علیؓ شد ید زخمی ہوئے۔ انھیں زخمی حالت میں امیر المؤمنین کے گھر سے لایا گیا۔
(تاریخ المدينة: ٢٣٠٥ وسنده حسن)
❀ سیدنا حسین بن علیؓ بھی شدید زخمی ہوئے تھے۔
(ایضاً: ١٩٧٤ واسنادہ حسن)
❀ سید نا عبداللہ بن زبیرؓ بھی زخمی ہوئے تھے۔
(مسند اسحاق بن راهويه: ٢٠٥٤ وسنده حسن)
❀ سیدنا ابو حاطبؓ بھی زخمی ہوئے تھے ۔ (ایضاً)
❀ ام المؤمنین سیدہ صفیہؓ کی گستاخی کی گئی ۔ (ایضاً)
➎ صحابہ کرام اس سانحے پر بے حد پریشان ہوئے وہ اس پر افسوس کیا کرتے اور قاتلین عثمان پر لعنت کیا کرتے تھے:
❀ محمد بن الحنفیہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا علیؓ کو یہ اطلاع ملی کہ سیدہ عائشہؓ مقام مربد میں قاتلین عثمان پر لعنت کر رہی ہیں تو انھوں نے بھی اپنے ہاتھ اپنے چہرے تک بلند کیے اور دو یا تین بار فرمایا:
میں بھی قاتلین عثمان پر لعنت کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ ان ( قاتلین عثمان ) پر میدانوں اور پہاڑوں میں ( ہر جگہ ) لعنت کرے۔
(فــضــــائــل الصحابة لأحمد: ۷۳۳ وإسناده صحيح)
❀ سیدنا سعید بن زیدؓ فرماتے ہیں:
واللہ ! میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ سید نا عمرؓ نے اسلام لانے سے قبل مجھے اسلام لانے کی پاداش میں باندھ رکھا تھا لیکن تم لوگوں نے جو سلوک سیدنا عثمانؓ سے کیا ہے اس کی وجہ سے اگر احد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو یہ اس کے لائق ہے۔
(صحیح البخاری: ٣٨٦٢)
❀ ربعی بن حراش کہتے ہیں:
جس رات سیدنا حذیفہؓ فوت ہوئے ، اس رات انھوں نے پوچھا:
یہ کون سی رات ہے؟
پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا:
اے اللہ ! میں عثمانؓ کے خون سے تیرے حضور برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ میں نہ اس موقع پر حاضر ہوا، نہ میں نے ان کو قتل کیا اور نہ ہی کسی کو اس کا اشارہ کیا۔
(تاریخ المدينة المنورة : ٢٢١٤ و اسناده حسن)
❀ ابوالاشعث سے مروی ہے کہ سید نا ثمامہ القرشیؓ صنعا کے گورنر تھے۔ اور انھیں رسول الله ﷺ کی صحبت حاصل تھی۔ جب ان کے پاس شہادت عثمان کی خبر آئی تو وہ روئے اور بڑی دیر تک روتے رہے اور فرمایا:
آج محمد ﷺ کی امت سے خلافت چھن گئی اور (اب) بادشاہت اور جبری سلطنت ہوگی جس نے کسی چیز پر قابو پایا وہی اس کو کھائے گا۔
(التاريخ الأوسط : ٣٦٠ – الطبقات لابن سعد: ٧٦/٣ وسنده صحيح)
❀ زید بن وہب کہتے ہیں:
ہمارے پاس سیدنا عثمانؓ کا مکتوب گرامی آیا جسے لوگوں کے سامنے پڑھا گیا:
السلام علیکم ! اما بعد : ذی مروہ کا لشکر ہمارے پاس آیا تھا ہم نے جن باتوں پر ان سے مصالحت کی ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ہر حق والے کا حق ادا کریں گے۔ لہٰذا جس کا ہماری طرف کوئی حق ہے وہ اس لشکر کی طرف چلا جائے اگر اس نے تاخیر یاسستی کی تو اسے چاہیے کہ صدقہ کرتے ہوئے معاف کر دے کیوں کہ اللہ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ یہ سن کر لوگوں نے کہا:
یا اللہ ! ہم نے صدقہ کیا۔ ہم چالیس راتیں ٹھہرے پھر ہمارے پاس ان ( عثمانؓ ) کی شہادت کی خبر آگئی۔ لوگ اس خبر کو سن کر بے حد مغموم ہوئے۔ میں (زید) اپنے ایک دوست کی طرف گیا جس کے پاس میں آرام کیا کرتا تھا، میں نے (اسے) کہا:
لوگوں نے وہ کام کیا جو آپ دیکھ رہے ہیں ہم میں محمد ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت موجود ہے ۔ آؤ ہم ان کے پاس چلیں۔ چنانچہ ہم سید نا ابو موسیٰؓ کے پاس آئے۔ وہ اس وقت امیر کوفہ تھے انھوں نے (ہمیں) فتنے سے بچنے اور گھروں میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا۔ ہم (وہاں سے) نکلے اور حذیفہ کے گھر آئے لیکن انھیں موجود نہ پایا ہم مسجد میں آئے تو انھیں ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے پایا۔ ان کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا۔ میں نے کہا:
میرے خیال میں اس آدمی کو ( حذیفہؓ سے ) کوئی کام ہے سو ہم ان سے الگ جا کر بیٹھ گئے ۔ اسی اثناء میں ایک اور آدمی آیا اور ان دونوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا اب ہم بھی اٹھے اور ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ سیدنا حذیفہؓ اپنے انگوٹھے کو اپنے دانتوں کے نیچے دبائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے تمھارے پاس (فتنہ ) آئے گا جو سیاہ پتھر پھینکے گا پھر اس سے متصل دوسرا فتنہ آئے گا جو گرم پتھر پھینکے گا پھر ایسی اندھیر نگری ہوگی کہ بندہ صبح کو ہدایت یافتہ اور شام کو گمراہ ہوگا۔ شام کو ہدایت یافتہ اور صبح کو گمراہ ہوگا۔ اس دوران میں عقل مند شخص حیران و پریشان ہوگا ، اسے پتا نہیں چلے گا کہ وہ خود گمراہ ہے یا ہدایت یافتہ ۔ یاد رکھو! اس اندھیر نگری میں اتار چڑھاؤ ہوتے رہیں گے جو کوئی اس کے وقفوں میں مرسکتا ہو وہ مر جائے۔ یہ سن کر وہ آدمی جوان کے پاس بیٹھا ہوا تھا، کہنے لگا:
اصحاب محمد ! اللہ تمھیں بدترین جزا دے، اللہ کی قسم ! تم لوگوں نے ہم پر معاملہ خلط ملط کر دیا ہے، ہمیں نہیں پتا چل رہا کہ ہم بیٹھے رہیں یا کھڑے ہو جائیں ۔ آپ نے جمعہ کے دن ( جس دن ایک فتنہ رونما ہوا تھا ) لوگوں کو کیوں نہ روکا؟
سید نا حذیفہؓ نے کہا:
میں نے تو خود کو بھی اور ابن الخضرا مہ کو بھی اس سے روکا تھا اگر میں اسے نہ کہتا تو وہ ضرور اس میں کھڑا ہونے والوں اور گفتگو کرنے والوں میں سے ہوتا۔
(تاریخ دمشق : ٣٩/ ۳۷۸ – ٤٧٩ وسنده حسن)
❀ ابو خالد الوالبی کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:
ابو خالد ! انھوں نے (پہلے تو ) ان (عثمان) سے تلافی مافات کے مطالبات کیسے یہاں تک کہ انھیں دھلے ہوئے کپڑے کی مانند چھوڑ دیا پھر انھیں قتل کر ڈالا۔
(تاریخ المدينة المنورة: ۲۱۹۷، وسنده حسن)
❀ طلق بن خشاف کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہؓ کے پاس آیا اور عرض کیا:
امیر المؤمنین کو کس جرم میں شہید کیا گیا؟
انھوں نے فرمایا:
انھیں مظلوم شہید کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ان کے قاتلین پر لعنت کرے۔
(التاريخ الأوسط للبخاري : ٣٨٤ وسنده حسن)
➏ صحابہ کرامؓ میں سے کوئی بھی شہادت عثمان میں شریک نہیں ہوا۔ تمام صحابہ خونِ عثمان سے بری ہیں۔
سیدنا ابوبکرہؓ فرماتے ہیں:
اگر میں آسمان سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤں تو یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں سیدنا عثمانؓ کا خون کرنے میں شریک ہوتا۔
(المعجم الكبير للطبراني : ۱۳۲ – تاريخ المدينة المنورة : ۲۲۲۲ ، وإسناده صحيح)
❀ امام ابوبکر الا جریؓ فرماتے ہیں:
اور نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو سیدنا عثمانؓ کے قتل میں شریک ہونے سے محفوظ رکھا۔
(الشريعة ، ص : ٥٣٨)
❀ مورخ و مفسر علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
اور یہ جو بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعض صحابہ نے سید نا عثمانؓ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا اور آپ کے قتل کو پسند کیا تھا یہ بات صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی درست نہیں کہ وہ سیدنا عثمانؓ کے قتل کو پسند کرتا تھا بلکہ سب نے اس کو نا پسند کیا اور اس سے نفرت کی اور اس فعل کے مرتکب کو برا بھلا کہا۔
(البداية والنهاية : ٣٥٦/٧)
بعض لوگ جن صحابہ کے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قتل عثمان میں شریک تھے ان کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔
مثلاً :
❀ محمد بن ابی بکر :
محمد بن ابی بکرؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلوائیوں کے ساتھ تھے اور انھوں نے سیدنا عثمان کی ڈاڑھی بھی پکڑی تھی لیکن جب سیدنا عثمانؓ نے کہا کہ بھتیجے! اگر تیرا والد اس فعل کو دیکھتا تو اسے قطعاً پسند نہ کرتا تب انھوں نے شرمندہ ہو کر چھوڑ دی۔ یہ روایت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔
اولاً:
مؤرخین نے بغیر سند کے یہ بات بیان کی ہے اور اگر اس کی کوئی سند ہے بھی تو وہ ضعف سے خالی نہیں ۔ کوئی منقطع ہے۔ کسی میں کوئی ضعیف یا مجہول راوی ہے۔ کوئی ایک بھی صحیح یا حسن درجے کی ایسی روایت نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ محمد بن ابی بکر نے سیدنا عثمانؓ کی داڑھی پکڑی تھی۔
حیرت ہے کہ ان لوگوں کو ان ضعیف اور من گھڑت روایتوں میں محمد بن ابی بکر کا سیدنا عثمان کی ڈاڑھی پکڑنا تو نظر آ جاتا ہے مگر ان (ابن ابی بکر ) کے یہ الفاظ نظر نہیں آتے کہ
والله ! ما قتلته ولا امسكته۔
اللہ کی قسم! میں نے نہ تو ان ( عثمان ) کو قتل کیا اور نہ پکڑا۔
(تاريخ الإسلام للذهبي : ١٣٤/٣)
بہر حال سیدنا محمد بن ابی بکرؓ نے نہ سیدنا عثمان کی داڑھی پکڑی اور نہ ان کے قتل میں شریک ہوئے۔
محمد بن طلحہ بن مصرف ( وثقه المجهور ) کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ صفیہ کے آزاد کردہ غلام کنانہ سے پوچھا:
کیا سیدنا عثمان کا خون کرنے میں محمد بن ابی بکر کا کوئی کردار ہے؟
اس نے کہا:
معاذ اللہ! وہ اندر گئے تھے۔ سیدنا عثمانؓ نے ان سے کچھ بات چیت کی اور وہ باہر آگئے ان کا سید نا عثمانؓ کی شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
(مسند اسحاق بن راهويه: ٢٠٥٤ ، واسنادہ حسن)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد بن ابی بکرؓ کا شہادت عثمان سے کوئی تعلق نہیں۔
❀ عبد الرحمٰن بن عدیس:
اسی طرح سید نا عبد الرحمٰن بن عدیس رضی اللہ عنہ کا بھی نام لیا جاتا ہے کہ وہ اس مصری وفد کی قیادت کر رہے تھے جو سیدنا عثمانؓ کو شہید کرنے آیا تھا۔
ہمارے علم کے مطابق کسی بھی صحیح یا حسن روایت میں یہ نہیں ملتا کہ سیدنا عبد الرحمٰن بن عدیس شہادت عثمانؓ میں کسی بھی طرح سے ملوث ہوئے ہوں۔ اس سلسلے کی جتنی بھی روایات ہیں وہ یا تو محض باتیں ہیں، بلاسند ہیں، اور اگر کوئی سند ہے بھی تو وہ ضعیف ہے۔ الاستیعاب لا بن عبد البر اور تاریخ الاسلام للذہبی میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں وہ بلاسند ہیں۔ بے شک علامہ ذہبی رجال کے ماہر امام ہیں لیکن ان کی ذکر کردہ ایسی بات جس کی کوئی سند ہی نہ ہو کس طرح دلیل و حجت بن سکتی ہے؟
❀ عبد الله بن بدیل بن ورقا الخزاعی :
سیدنا عبداللہ بن بدیل بن ورقاء الخزاعیؓ کا نام لیا جاتا ہے کہ انھوں نے سیدنا عثمانؓ کے دفاع کے لیے آنے والے مغیرہ بن اخنس الشقفی کو قتل کیا تھا۔ (ضعیف تاریخ الطبری : ۸/ ٥٧٥) امام طبری کی بیان کردہ یہ روایت ضعیف ہے۔ جعفر بن عبد اللہ احمدی، حسین بن عیسی اور اس کا والد مجہول ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں انقطاع بھی ہے۔ سیدنا ابن بدیل دی اللہ کے حوالے سے ایک بھی صحیح یا حسن روایت ایسی نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ اس سانحہ میں ملوث تھے۔
❀ عمر و بن حمق الخزاعی :
محمد بن سعد لکھتے ہیں کہ یہ ( عمرو بن حمق ) ان لوگوں میں سے تھے جو سیدنا عثمان ( کو شہید کرنے) کے لیے نکلے تھے اور انھوں (عمرو) نے ان (عثمان) کی شہادت میں اعانت بھی کی تھی۔
(الطبقات : ١٤٧/٨)
ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ یہ ان چار آدمیوں میں سے تھے جو (سیدنا عثمانؓ کو شہید کرنے کے لیے ان کے) گھر میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے تھے۔
(الاستیعاب : ٣/ ٢٥٨)
امام ابن سعد اور ابن عبدالبر نے یہ باتیں کہاں سے لی ہیں؟
کوئی اتا پتا نہیں۔ اس طرح کی باتوں کو بنیاد بنا کر کیسے کسی کو قاتل کہا جاسکتا ہے؟ خصوصاً صحابہ کرامؓ کے متعلق وہ باتیں جن کی کوئی سند نہ ملے یا سند تو ملے مگر وہ بے کار اور فضول قسم کی ہو، اسے ہم کیسے حجت مان لیں۔
بہر حال سید نا عثمان یا انؓ کی شہادت میں کسی بھی صحابی کے ملوث ہونے کی کوئی صحیح و صریح دلیل نہیں۔ سب سنی سنائی باتیں ہیں جنھیں بعض علماء نے بغیر تحقیق اور چھان بین کے اپنی کتب میں بیان کر دیا ہے۔
➐ صحابہ کرام کو سیدنا عثمانؓ سے محبت تھی ۔ حمید کہتے ہیں:
میں نے سیدنا انس بن مالکؓ سے کہا:
کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علی و عثمان بھی انھیں (دونوں) کی محبت ایک دل میں اکٹھی نہیں ہو سکتی۔ تو انھوں نے فرمایا:
واللہ ! وہ جھوٹ کہتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے دلوں میں تو اللہ نے ان دونوں کی محبت کو اکٹھا کر دیا ہے۔
(تاریخ دمشق: ٣٩/ ۵۰۰ وسنده حسن)
➑ سیدنا عثمانؓ کو شہید کرنے والا سیاہ رنگ کا ایک مصری شخص تھا۔ (مســـــد ابـــن الجعد: ٢٦٦٤ وسنده حسن) جس کا لقب ’’الموت الاسود‘‘ (سیاہ موت ) تھا۔ (فضائل الصحابة لأحمد : ٧٦٥ وسندہ صحیح) اور نام جبلہ بن ایہم تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا۔ (مسند إسحاق بن راهويه: ٢٠٥٤ و سندہ حسن) اسے حمار ( گدھا) بھی کہا جاتا تھا۔ (تاریخ خليفة، ص ۱۰۳ وسنده حسن)
❀ قاتلین عثمانؓ کا انجام سید نا جندب ولی الله سید نا حذیفہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب لوگ سید نا عثمانؓ کی طرف (ان کو شہید کرنے) نکلے تو انھوں (سیدنا حذیفہ ) نے فرمایا:
اللہ کی قسم! یہ لوگ ضرور بالضرور ان کو شہید کر دیں گے۔ میں نے کہا:
اس صورت میں عثمان کہاں جائیں گے؟ انھوں نے جواب دیا:
جنت میں۔ میں نے کہا: اور ان کے قاتل کہاں جائیں گے؟ انھوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! وہ جہنم میں جائیں گے۔
(الشریعة لآجري : ١٥٢٢ وإسناده صحيح)