سورہ الفیل کی تفسیر اور ابرہہ کے انجام کا واقعہ
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

سورہ الفیل

سورہ الفیل قرآن مجید کی 105ویں سورت ہے، جو مکی سورتوں میں شامل ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تاریخی واقعہ بیان کیا ہے، جس میں یمن کے بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی، مگر اللہ نے اسے اور اس کی فوج کو عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا۔

آیات کا خلاصہ اور تفسیر

1. أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ

"(کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟)”

تفسیر:

یہاں "أَصْحَابِ الْفِيلِ” (ہاتھی والے) سے مراد ابرہہ اور اس کی فوج ہے، جو بڑے ہاتھیوں کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوئی تھی۔
لفظ "أَلَمْ تَرَ” کا مطلب ہے "کیا تم نے نہیں دیکھا؟” یعنی یہ واقعہ اتنا مشہور اور عام فہم تھا کہ گویا سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔

2. أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ

"(کیا اس نے ان کی چال کو ناکام نہیں بنا دیا؟)”

تفسیر:

ابرہہ نے کعبہ کو گرانے کے لیے بڑی سازش کی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے تمام منصوبوں کو ناکام و بیکار کر دیا۔

3. وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ

"(اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے)”

تفسیر:

اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پرندے بھیجے، جو اپنے پنجوں اور چونچ میں چھوٹے چھوٹے کنکر لیے ہوئے تھے۔

4. تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ

"(جو ان پر کنکر کی پتھریاں برسا رہے تھے)”

تفسیر:

یہ کنکر آگ سے پکے ہوئے سخت پتھر تھے، جو ان کے جسموں کو چھیدتے اور ہولناک عذاب کا سبب بنتے۔

5. فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ

"(پس انہیں ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھوسا)”

تفسیر:

یعنی اللہ تعالیٰ نے ابرہہ اور اس کی فوج کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا، یہاں تک کہ وہ ایسے ہو گئے جیسے جانوروں کے چبائے ہوئے بھوسے کے ذرات۔

سورہ الفیل کے پیغامات اور اسباق

اللہ کی قدرت:

اللہ تعالیٰ کسی بھی بڑی سے بڑی طاقت کو معمولی ذریعے سے ہلاک کر سکتا ہے، جیسے چھوٹے پرندوں کے ذریعے ابرہہ کی طاقتور فوج کو تباہ کیا گیا۔

حرمتِ کعبہ:

اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس گھر (خانہ کعبہ) کی حفاظت فرمائی، اور یہ ثابت کر دیا کہ وہی اصل محافظ ہے۔

باطل کی ناکامی:

جو بھی اللہ کے دین کے خلاف سازش کرے گا، اس کا انجام عبرتناک ہوگا، جیسے ابرہہ اور اس کی فوج ہلاک ہوئی۔

یہ واقعہ نبی کریم ﷺ کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے پیش آیا، اور اہلِ مکہ کے لیے ایک واضح نشانی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی خود حفاظت کی اور وہی سب سے بڑی قوت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1