سود اور تبادلہ کا بیان
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا ، إلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا ، إلَّا هَاءَ وَهَاءَ . وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا ، إلَّا هَاءَ وَهَاءَ } .
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو چاندی کے بدلے بیچنا سود ہے مگر دست بدست ہو، (تو جائز ہے) گندم کا گندم کے بدلے بیچنا سود ہے مگر دست بدست ہو اور جو کا جو کے بدلے بیچنا سود ہے مگر دست بدست ہو ۔
شرح المفردات:
هاء وهاء: اس کا مطلب ہے کہ اپنے قبضہ میں لینا، ادھر سے ایک چیز دینا اور اُدھر سے دوسری پکڑنا ، ایک ہاتھ دینا ایک ہاتھ لینا۔
شرح الحدیث:
یعنی جب بھی کوئی چیز اپنی جنس کی چیز کے بدلے میں بیچی جائے تو اس میں دو امور کا پایا جانا ضروری ہے: ایک تو یہ کہ سود انقد ا ہو اور دوسرا یہ کہ دونوں چیزیں وزن میں برابر ہوں۔
(275) صحيح البخارى، كتاب البيوع ، باب ما يذكر فى بيع الطعام ، ح: 2134 – صحيح مسلم ، كتاب المساقاة ، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقداً ، ح: 1586
276 – الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: { لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ . وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ . وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ . وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ . وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ } . وَفِي لَفْظٍ { إلَّا يَدًا بِيَدٍ } . وَفِي لَفْظٍ { إلَّا وَزْنًا بِوَزْنٍ ، مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ } .
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سونے کی سونے کے بدلے خرید و فروخت نہ کرو مگر (جب ) دونوں ایک ہی مثل کے ہوں (تو کر لیا کرو ) اور کسی کو دوسری پر نہ بڑھاؤ ، اسی طرح تم چاندی کی چاندی کے بدلے بیچ نہ کرو، جب دونوں برابر برابر ہوں اور کسی ایک شے کو دوسری پر نہ بڑھاؤ اور تم موجود چیزوں کی غیر موجود چیزوں کے بدلے خرید و فروخت نہ کرو۔
ایک روایت میں دست بدست کے الفاظ ہیں۔
اور ایک میں یہ بھی الفاظ ہیں مگر دونوں وزن میں برابر ہوں، ایک ہی مثل کے ہوں اور برابر حالت و قیمت کے ہوں۔
شرح المفردات:
لا تشقوا: یعنی ایک کے سودے کو ناقص کرنے کے لیے دوسرے کو بڑھا چڑھا کر اس پر فضیلت نہ دو۔ / جمع مذکر حاضر، فعل نہی معلوم، باب افعال۔
شرح الحديث:
گزشتہ حدیث کے ہم معنی ہے۔
(276) صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب بيع الفضة بالفضة ، ح: 2177 – صحيح مسلم ، كتاب المساقاة، باب الربا ، ح: 1584
277 – الْحَدِيثُ الثَّالِثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ { جَاءَ بِلَالٌ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيِّ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ أَيْنَ لَكَ هَذَا؟ قَالَ بِلَالٌ : كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيءٌ ، فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ ، بِصَاعٍ لِيَطْعَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: أَوَّهْ ، أَوَّهْ ، عَيْنُ الرِّبَا ، عَيْنُ الرِّبَا ، لَا تَفْعَلْ . وَلَكِنْ إذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعْ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ . ثُمَّ اشْتَرِ بِهِ } .
سیدنا ابوسعید خدری رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس برنی کھجور لے کر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تم نے کہاں سے لی ہے؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس ناقص کھجور میں تھیں تو میں نے ان کے دو صاع بیچ کر ان کا ایک صاع خرید لیا تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اچھی کھجور ) کھائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا: اوہ ! اوہ ! یہ تو سراسر سود ہے، یہ تو عین سود ہے ، ایسا نہ کیا کرو، ہاں جب تم (اچھی کھجوریں ) خریدنا چاہو تو (ان ناقص کھجوروں کو ) کسی اور کو بیچو، پھر (ان پیسوں سے ) تم انھیں (یعنی اچھی کھجوریں) خرید لیا کرو۔
شرح المفردات:
برني: مدینہ کی کھجوروں میں سے یہ بہترین قسم کی کھجور ہے ۔
ردىء: ناقص ، فضول، ناکارہ ، گھٹیا۔
أوه أوه: ایسا کلمہ جو کراہت و نا پسندیدگی کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ، جیسے ہم اپنی زبان میں ”اوہ ، اوہ“ کہتے ہیں۔
(277) صحيح البخاري ، كتاب الوكالة ، باب اذاباع الوكيل شيئًا فاسداً فبيعه مردود ، ح: 2312 – صحيح مسلم ، كتاب المساقاة ، باب بيع الطعام مثلاً بمثل ، ح: 1594
شرح الحديث:
اس حدیث میں کسی بھی چیز کی اعلیٰ قسم کو اس کی ادنیٰ قسم کے بدلے میں بطور تفاضل بیچنا یا خریدنا سود ہے اور سود قرار دیا گیا حرام ہے ۔
278 – الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ قَالَ { سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ وَزَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، عَنْ الصَّرْفِ؟ فَكُلُّ وَاحِدٍ يَقُولُ: هَذَا خَيْرٌ مِنِّي . وَكِلَاهُمَا يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ دَيْنًا . }
ابو منہال بیان کرتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے بیع صرف کے بارے میں پوچھا تو (ان دونوں میں سے ) ہر ایک کہنے لگا کہ یہ مجھ سے بہتر ہیں (ان سے پوچھو ) اور پھر دونوں ہی نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی، چاندی کے بدلے بصورت قرض (یعنی ادھار ) خرید و فروخت کرنے سے روکا ہے۔
شرح المفردات:
الصرف: ایک چیز کو دوسری چیز کے بدلے میں بیچنا یا خریدنا۔
شرح الحدیث:
اس روایت میں جہاں بیع الصرف کی ایک نوع کا حکم بیان ہوا ہے وہاں اس میں تواضع کی مشروعیت اور اکابر کے حقوق کے اعتراف پر بھی دلیل ہے۔ لہذا اگر کسی عالم سے کوئی سائل مسئلہ پوچھے اور اس کے پاس ایک اور عالم بھی بیٹھا ہو تو وہ سائل کو اس کی طرف رجوع کرنے کا کہہ سکتا ہے کہ یہ مجھ سے بہتر بتا سکیں گے، ان سے پوچھیں ۔ پھر اگر وہ دوسرا عالم پہلے کو جواب دینے کے لیے کہے یا پھر اسے اس مسئلہ کی بابت علم نہ ہو تو پہلا عالم خود جواب دے سکتا ہے۔ اسی طرح ایک یہ بھی سبق مل رہا ہے کہ مسئلہ بتانے سے پہلے دوسرے عالم سے مشورہ بھی کیا جا سکتا ہے، تاکہ پختہ طور پر جواب دیا جا سکے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں دونوں صحابیوں نے جب ایک ہی جواب دیا تو سائل کو کامل تشفی ہو گئی ۔
(278) صحيح البخارى، كتاب البيوع، باب بيع الورق بالذهب نسيئة ، ح: 2180 – صحيح مسلم ، كتاب المساقاة ، باب النهي عن بيع الورق بالذهب ديناً ، ح: 1589
279 – الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: { نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ ، وَالذَّهَبِ بِالذَّهَبِ ، إلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ ، وَأَمَرَنَا: أَنْ نَشْتَرِيَ الْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ ، كَيْفَ شِئْنَا . وَنَشْتَرِيَ الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ كَيْفَ شِئْنَا . قَالَ: فَسَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَدًا بِيَدٍ؟ فَقَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ } .
سیدنا ابوبکرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونے کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، مگر اس صورت میں کہ وہ دونوں برابر ہوں (تو جائز ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اجازت دی تھی کہ ہم سونے کے بدلے چاندی خرید لیں جیسے بھی ہم چاہیں اور ہم چاندی کے بدلے سونا خرید لیں جس طرح بھی ہم چاہیں۔ ایک آدمی نے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ دست بدست؟ تو انھوں نے جواب دیا: میں نے اسی طرح سنا ہے ۔
شرح المفردات:
سواء بسواء: یعنی جنس میں دونوں برابر ہوں ۔
شرح الحديث:
امام نووی وہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں یہ شرط ہے کہ جس مجلس میں سودا ہواس مجلس میں یہ قبضے میں لی جائیں۔ [شرح صحيح مسلم للنووى: 16/11]
راوی الحدیث:
ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام فصیح بن حارث بن کلدۃ ہے۔ پہلے بصرہ میں سکونت پذیر تھے، پھر کوفہ منتقل ہو گئے ۔ اٹھارہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا ۔ سو احادیث کے راوی ہیں ۔ 50 ہجری میں بصرہ میں وفات پائی۔
(279) صحيح البخاري، كتاب البيوع ، باب بيع الذهب بالورق يدابيد ، ح: 2182 – صحيح مسلم ، كتاب المساقاة، باب النهي عن بيع الورق بالذهب ديناً ، ح: 1590

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!