سوال : ایک شخص سودی لین دین کرتا رہا، پھر اللہ نے اسے ہدایت دے دی اور اسے چھوڑ دیا اب جو سودی رقم ہے اس کا کیا کرے؟
جواب : اس مسئلہ میں لازماً دو صورتیں ہوں گی۔ ایک صورت یہ ہے کہ توبہ کے بعد بہت زیادہ سودی رقم ابھی لوگوں کے ذمے ہے، جو ان سے وصول کرنی ہے تو اس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
« ﴿وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ﴾ » [البقرة : 279]
”اگر تم نے توبہ کرلی تو تمہارے لیے تمہارے اصل اموال ہیں، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر کوئی ظلم کرے۔“
حضرت سلیمان بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم سے سن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :
«الا إن كل ربا من ربا الجاهلية موضوع لكم رءوس اموالكم، لا تظلمون ولا تظلمون» [ابوداؤد، كتاب البيوع : باب فى وضع الرباء 3334]
”خبردار ! آج سے جاہلیت کا سود ختم کر دیا گیا ہے، اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لیے تمہارے اصل اموال ہیں، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔“
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ جو سود ابھی تک نہیں لیا گیا اسے لینا حرام ہے۔ صرف اپنا اصل مال واپس لے اور اگر واپس کرنے والا تنگ دست ہے تو اسے خوش حالی تک مہلت دے دینی چاہیے یا ویسے ہی اسے معاف کر دیا جائے تو بہت بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
« ﴿ و ان كان ذو عسرة فنظرة الي ميسرة و ان تصد قوا خير لكم ان كنتم تعلمون﴾ » [البقرة : 280]
”اور اگر وہ تنگ دست ہو تو آسانی تک مہلت دو اور اگر تم صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔“
اور دینے والے کو بھی چاہیے کہ وہ اس کا اصل مال ہی واپس کرے، زیادہ مت دے۔ نہ اسلام میں سود لینا جائز ہے اور نہ دینا۔ افسوس ہے کہ ہمارے مسلمان حکمران سود دینے کے لیے لوگوں سے دولت جمع کر رہے ہیں۔ باقی یہ بات ہے کہ طرفین کی رضامندی حرام کام کو حلال نہیں کر سکتی جیسا کہ زنا اور قومِ لوط کا فعل ہے، بالکل سود بھی ایسے ہی ہے۔ اس مسئلہ کی دوسری صورت یہ ہے کہ سائل نے بہت سا سودی مال اپنے پاس جمع کیا ہوا ہے اب توبہ کے بعد وہ اس کا کیا کرے ؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک قاعدے کے تحت اس کا حل پیش کیا ہے، ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ چیز جو کسی فاسد سودے سے حاصل کی جائے اسے دو لحاظ سے دیکھا جائے گا۔ اگر تو بیع کرنے والا اس بیع کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اور وہ بیع کی وجہ سے یا طرفین کی رضامندی کی وجہ سے جس چیز پر قابض ہوتا ہے تو وہ اس کا غاصب شمار ہو گا کیونکہ اس نے ایسی چیز حاصل کی ہے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ غلط ہے، اس لئے وہ اس کا مالک نہیں بن سکتا اور لئے اگر عقد کرنے والا اس کو صحیح سمجھتا ہے جیسا کہ ذمی لوگ خنزیر، سود، شراب وغیرہ کی آپس میں بیع کرتے ہیں۔ جو اس نے مسلمان ہونے سے پہلے خرید و فروخت سے رقم حاصل کی ہے وہ اس کا اصل مال شمار ہو گا۔ اسی طرح اگر مسلمان اجتہاد یا کسی کی تقلید کی بنا پر اس کو صحیح سمجھتے ہوئے بیع کرتا رہا ہے اور مال اس کے ہاتھ میں ہے تو وہ اس کا اصل مال ہی شمار ہو گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
« ﴿وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ﴾ » [البقرة : 278]
”اور جو سود سے باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے باقی کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے، یہ حکم نہیں دیا کہ جو پہلے بھی لیا ہوا ہے اسے واپس کرو۔ [مجموع الفتاويٰ لابن تيمية 211/29، تفسير المنار لرشيد رضا 97/3]
پہلی صورت میں جب کہ ایک مسلمان جان بوجھ کر، حرام کو حرام جانتے ہوئے سودی کاروبار کرتا رہا، بعد میں توبہ کر لی، اب اس کے پاس اس حرام سودی کمائی کا مال موجود ہے اور وہ اس سے جان چھڑانا چاہتا ہے تو اس کا حل یہی ہے کہ وہ مال جس سے لیا ہے اسے واپس کر دے کیونکہ لیتے وقت وہ جانتا تھا کہ میں ظلم وزیادتی سے یہ مال حاصل کر رہا ہوں۔ اب اگر وہ مال واپس کرنا ممکن ہی نہیں ہے تو « ﴿لَا يُكَلِّفُ اللهَ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ » پر عمل ہو گا۔ اگر چاہے تو صدقہ کر دے اور سچے دل سے توبہ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ سودی کاروبار کرتا ہے اور کہے کے بعد میں صدقہ کروں گا۔ یہ تو توبہ کے بعد اس کے لئے حلال اور جائز نہیں۔ اس صدقہ سے نیت یہ ہوا کہ میں اس مال سے بچ جاؤں۔ اس صدقہ سے نیکی، ثواب اور تقرب الی اللہ کی نیت نہ ہو کیونکہ حرام چیز سے ثواب اور تقرب الی اللہ حاصل نہیں ہوتا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ”اللہ پاک ہے اور پاکیزہ چیزہی کو پسند کرتا ہے،“