سفر میں نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے
وثبت من حديث عمران بن حصين رضى الله عنه قال: كنا فى سفر مع النبى صلى الله عليه وسلم وفيه: ثم نزل فدعا بالوضوء فتوضأ ونودي بالصلاة فصلى بالناس، فلما انفتل من صلاته إذا هو برجل معتزل لم يصل مع القوم فقال: ما منعك يا فلان أن تصلي مع القوم؟ قال: أصابتني جنابة ولا ماء قال: عليك بالصعيد فإنه يكفيك – ثم سار النبى صلى الله عليه وسلم فاشتكى الناس إليه من العطش فنزل فدعا فلانا كان يسميه أبور جاء فنسيه عوف ودعا عليا فقال: اذهبا فابغيا الماء
فانطلقا فتلقيا امرأة بين مزادتين أو سطيحتين من ماء على بعير لها قال: فقالا لها: أين الماء؟ فقالت: عهدي بالماء أمس هذه الساعة ونفرنا خلوف قالالها: إنطلقي إذا وفيه: ودعا النبى صلى الله عليه وسلم بإناء فأفرغ فيه من أفواه المزادتين أو السطيحتين وأو كا أفواههما وأطلق العزالي ونودي فى الناس أن اسقوا واستقوا فاستقى من سقي واسقى واستسقى من شاء وكان آخر ذلك أن أعطى الذى أصابته الجنابة إناء من ذلك (الماء فقال: اذهب فأفرغه عليك)

[متفق عليه]
عمران بن حصین کی حدیث سے ثابت ہوا کہتے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے پھر آپ نے پڑاؤ کیا پانی مانگا وضو کیا نماز کے لیے اذان دی گئی آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی جب آپ نماز سے پلٹے تو دیکھا کہ ایک شخص الگ ہے اس نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی آپ نے دریافت فرمایا: ”اے فلاں تجھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ “ اس نے کہا: میں جنبی ہو گیا پانی نہیں تھا آپ نے فرمایا: ”مٹی لے لیتے وہ تیرے لیے کافی ہوتی (یعنی تیمم کر لیتے) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلئے لوگوں نے پیاس کی شکایت کی ، آپ سواری سے اترے کسی شخص کو بلایا آپ اس کا نام لے رہے تھے ابو رجاء (عوف کو بھول ہوئی ہے) آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا تو ارشاد فرمایا: ”جاؤ دونوں پانی تلاش کرو دونوں چل دئیے تو دونوں ایک عورت سے ملے جو اپنے اونٹ پر پانی کے دو مشکیزوں کے درمیان سوار تھی راوی کا بیان ہے کہ دونوں نے اس عورت سے کہا: پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا: گذشتہ کل اسی وقت پانی کا یہاں میرا وعدہ تھا لوگ ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں دونوں نے اس خاتون سے کہا: پھر تم چلو اس روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا دونوں مشکیزوں کے منہ سے پانی اس برتن میں انڈیلا گیا اور دونوں توشہ دانوں کے منہ اوپر سے بند کر دئیے اور لوگوں میں اعلان کر دیا گیا پیؤ پلاؤ جس نے پیا سو پیا جس جس نے چاہا پانی طلب کیا ، آخر میں اس شخص کو پانی کا برتن دیا جو جنبی ہو گیا تھا ، آپ نے ارشاد فرمایا: جاؤ یہ پانی اپنے اوپر ڈال لو ۔ [متفق عليه]
تحقیق و تخریج: بخاری: 348 344 ، 3571 ، مسلم: 283
فوائد:
➊ سفر میں نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے اور ایک امیر سفر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ہر فرد پر نظر رکھے کس نے نماز پڑھ لی ہے اور کس نے نہیں پڑھی؟ سبھی کا جائزہ لے ۔
➋ اگر پانی نہ ملے تو جنبی آدمی تیمم کوغسل کا قائم مقام بنا سکتا ہے بعد میں پانی ملنے پر غسل کرے ۔
➌ امیر کارواں سے رعایا اپنی بھوک و پیاس کی شکایت کر سکتی ہے اور امیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کے کھانے پینے کا بندو بست کرے ۔
➍ بوقت حاجت کوئی چیز ادھاری لی جاسکتی ہے حتی کہ پینے کے لیے پانی بھی کسی سے مانگا جا سکتا ہے ۔ سبھی ساتھی مل کر کھائیں پئیں تو برکت ہوتی ہے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل