سفر میں قصر کے لیے مسافت کا تعین اور دیگر امور
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

● مسافر کی نماز :

❀ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾

(البقرة : ١٨٥)

’’اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ دشواری نہیں چاہتا اور یہ ( چاہتا ہے ) کہ تم گنتی پوری کرو ، اور یہ کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘

دین اسلام آسان دین ہے ، وہ بندے کو اتنا مکلف کرتا ہے جتنے کی وہ طاقت رکھتا ہے ، اور ایسے احکامات کی تعمیل کا وہ حکم نہیں دیتا جس کے کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔

سفر کے دوران چونکہ مشقت و دشواری سے دو چار ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں دو چیزوں کی رخصت دی ہے:

◈ نماز میں قصر کرنا :

نماز میں قصر اس طرح کیا جائے گا کہ چار رکعت والی نمازوں کو دو رکعت پڑھا جائے گا، لہذا اگر کوئی سفر میں ہے تو ظہر ، عصر اور عشاء کی نمازوں کو بجائے چار کے دو رکعتیں پڑھے، البتہ دو یا تین رکعت والی نماز میں قصر نہیں ہے ، لہٰذا فجر اور مغرب کی نمازیں پوری پڑھی جائیں گی۔

نماز میں قصر کی مشروعیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نیک بندوں کے لیے ایک آسانی اور رخصت ہے، اور اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کی عطا کی ہوئی رخصت پر عمل کیا جائے جس طرح وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے فرائض کو ادا کیا جائے ۔

قصر کی یہ رخصت کسی مخصوص سواری کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ سفر خواہ موٹر کار سے ہو یا ہوائی جہاز سے یا پانی کے جہاز سے یا ریل گاڑی سے یا کسی جانور پر ہو یا پیدل چل کر ہو ، ان تمام ذرائع کے استعمال کو سفر کہا جاتا ہے ، لہذا ان تمام صورتوں میں نماز قصر کی جائے گی بشرطیکہ وہ سفر ، سفر معصیت نہ ہو۔

◈ قصر کے لیے مسافت کا تعین :

❀ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:

کہ شریعت میں امت کے لیے قصر اور افطار کے لیے مسافت کی کوئی حد متعین نہیں کی گئی، بلکہ مطلق سفر (( ضَرْبٌ فِي الْأَرْضِ )) کے لیے اس حکم کو عام رکھا ہے جیسے کہ تیمم کا حکم ہر سفر میں مطلق رکھا ہے۔ اور جن روایات میں ایک، دو یا تین دن کی تحدید وارد ہے تو ان میں سے کوئی بھی درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔
زاد المعاد : ٤٦٣/١.

جناب شعبہ، یحییٰ بن یزید ہنائی سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا انسؓ سے قصر کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:

’’رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر جانے کے لیے نکلتے تو دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔‘‘
مسند احمد : ۱۲۹/۳- صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم: ٦٩١ .

علامہ البانیؒ سلسلة الصحيحة : ۱/ ۳۰۷، ۳۰۸ میں رقم طراز ہیں:

’’یہ حدیث دلیل ہے کہ مسافر جب تین فرسخ ( تقریباً ۲۳ ، ۲۴ کلومیٹر) کی مسافت پر جا رہا ہو تو اس کے لیے قصر کرنا جائز ہے۔‘‘

◈ قصر کی مدت:

سید نا جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ تبوک میں بیس دن ٹھہرے اور قصر کرتے رہے۔
سنن أبو داؤد، كتاب صلاة السفر، رقم: ۱۲۳۵ – مسند احمد : ٢٩٥/٣ – محدث البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اگر انیس (۱۹) دن سے زیادہ اقامت کا عزم کر لیا جائے تو پوری نماز پڑھنی چاہیے، جیسا کہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ نے مکہ فتح کر لیا تو آپ وہاں انیس دن ٹھہرے رہے اور دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب ہم سفر پر جاتے ہیں اور کسی جگہ انیس دن ٹھہرتے ہیں تو قصر کرتے ہیں، اگر اس سے زیادہ قیام ہو تو پوری نماز پڑھتے ہیں۔
صحيح بخارى، كتاب التقصير، رقم : ۱۰۸۰ – مسند احمد: ٣١٥/١۔

◈ سفر میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنا:

مسافر کے لیے جائز ہے کہ دو نمازوں کو ایک وقت میں باہم جمع کر کے پڑھ لے، چنانچہ ظہر اور عصر کے درمیان اور اسی طرح مغرب اور عشاء کے درمیان جمع کر کے دو نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھی جائیں گی۔ بایں طور کہ وقت تو ایک ہو گا مگر ہر نماز الگ الگ پڑھی جائے گی ، چنانچہ پہلے ظہر کی نماز پڑھی جائے گی، پھر اس کے فوراً بعد عصر کی نماز پڑھی جائے گی، اور اس طرح مغرب اور عشاء کا معاملہ بھی ہے کہ پہلے مغرب کی نماز پڑھی جائے گی پھر اس کے فوراً بعد عشاء کی نماز ۔

واضح رہے کہ جمع بین الصلاتین صرف ظہر اور عصر کے درمیان اور مغرب اور عشاء کے درمیان ہی کیا جا سکتا ہے، چنانچہ فجر اور ظہر یا عصر اور مغرب میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔

◈ دلائل:

سید نا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ دوران سفر ظہر اور عصر کو، اور مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تھے۔
صحیح بخاری، کتاب تقصير الصلاة، رقم : ۱۱۰۷ – صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين رقم : ٧٠٦ .

اور سیّدنا معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر اگر رسول اللہ ﷺ سورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر کو اس وقت جمع فرما لیتے ، اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ ادا فرماتے ۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تو مغرب اور عشاء اسی وقت پڑھ لیتے ، اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے سفر شروع کرتے تو مغرب کو مؤخر کر کے عشاء کے ساتھ پڑھتے ۔
سنن ابوداؤد، ابواب صلاة المسافرين، رقم: ۱۲۲۰ ـ صحيح ابن حبان : ٤١٤،٤١٣/٤ ـ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!