سجدہ سہو کے تین مستند طریقے اور شرعی احکام
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

سجدہ سہو (نماز میں بھول چوک کے سجدے) کے تین طریقے ثابت ہیں

پہلا طریقہ:

نمازی کو چاہیے کہ نماز مکمل کرے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے اور پھر نماز کا سلام پھیر دے۔

مثال: سیدنا عبداللہ بن بحینہ الاسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ ظہر میں (بھول کر) درمیانی تشہد پڑھے بغیر کھڑے ہوگئے۔ جب نماز مکمل کی تو:

سجد سجدتین یکبّر فی کلّ سجدۃ وہو جالس قبل أن یّسلّم وسجدہما النّاس معہ مکان ما نسی من الجلوس۔
"(اس بھولے ہوئے تشہد کے بدلے میں) آپ نے بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے دو سجدے کر لیے، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔”
(صحیح بخاری: 1/164، حدیث: 1230، صحیح مسلم: 1/211، حدیث: 580)

دوسری روایت: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو اسے چاہیے کہ شک کو ختم کرے اور یقین پر عمل کرے،
ثمّ یسجد سجدتین قبل أن یسلّم۔
"(پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرلے)، اگر اس نے (بھول کر) پانچ رکعتیں پڑھ لیں، تو وہ (ان دو سجدوں کی وجہ سے) اس کی نماز کو جفت کر دیں گے، اگر اس نے چار رکعت مکمل کرنے کے لیے ایک رکعت پڑھی ہے، تو وہ دونوں (سجدے) شیطان کی تذلیل کے لیے ہیں۔”
(صحیح مسلم: 1/211، حدیث: 571)

امام مکحول شامی تابعی اور امام اہلِ سنت زہری فرماتے ہیں:

سجدتان قبل أن یسلّم۔
"سلام سے پہلے دو سجدے ہیں۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: 2/30، وسندہ، حسن)

دوسرا طریقہ:

سلام کے بعد دو سجدے کرے، پھر دوبارہ سلام پھیرے۔

مثال: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے (بھول کر نماز میں) کمی کی یا زیادتی کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کیا گیا:

اے اللہ کے رسول! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا، وہ کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے ایسے ایسے نماز ادا فرمائی ہے۔ اس پر آپ نے اپنے پاؤں مبارک کو دوہرا کیا، قبلہ کی طرف رخِ انور فرمایا،
وسجد سجدتین، ثمّ سلّم۔
"اور دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔” جب ہماری طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا، اگر نماز میں کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں آگاہ کرتا، لیکن میں بشر ہوں، جیسے تم بھول جاتے ہو، اسی طرح میں بھی بھول جاتا ہوں۔ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔ جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو تو درستی کے لیے غور کرے اور اسی پر اپنی نماز پوری کرے،
ثمّ یسلّم، ثمّ یسجد سجدتین۔
"پھر سلام پھیرے، پھر دو سجدے کرے۔”
(صحیح بخاری: 1/58، حدیث: 601)

دوسری روایت: سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی۔ تین رکعات کے بعد سلام پھیر دیا، پھر اپنے گھر تشریف لے گئے۔ خرباق نامی ایک شخص، جس کے ہاتھ لمبے تھے، کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا:

اے اللہ کے پیغمبر! (اس نے آپ کا یہ فعل ذکر کیا)، آپ غصے میں چادر گھسیٹتے ہوئے واپس آئے اور فرمایا، کیا یہ سچ کہتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا، جی ہاں! اس پر آپ نے ایک رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرا،
ثمّ سجد سجدتین، ثمّ سلّم۔
"پھر دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔”
(صحیح مسلم: 1/214، حدیث: 574)

مزید وضاحت: سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے سجدہ سہو کے بارے میں فرمایا:

یسلّم، ثمّ یسجد، ثمّ یسلّم۔
"سلام پھیرے، پھر سجدہ کرے، پھر سلام پھیرے۔”
(شرح معانی الآثار للطحاوی: 1/442، وسندہ، حسن)

تیسرا طریقہ:

نماز مکمل کرنے کے بعد، سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے، پھر تشہد پڑھے، اور پھر دوبارہ سلام پھیرے۔ اس طریقہ کا ذکر سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت میں آتا ہے:

انّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّٰی بھم، فسہا، فسجد سجدتین، ثمّ تشہّد، ثمّ سلّم۔
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھائی، آپ بھول گئے، (سلام پھیرنے کے بعد) دو سجدے کیے، پھر تشہد پڑھا، پھر سلام پھیرا۔”
(سنن ابی داود: 1039، سنن ترمذی: 395، وسندہ، صحیح)

اس حدیث کو امام ترمذی نے "حسن غریب صحیح”، امام ابنِ خزیمہ (1062) نے "صحیح”، اور امام ابنِ حبان (2670، 2672)، امام حاکم (1/323) نے بخاری و مسلم کی شرط پر "صحیح” قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

وضاحت:

"ثمّ تشہّد” کے الفاظ محمد بن سیرین کے شاگردوں میں سے صرف اشعث بن عبدالملک الحرانی نے بیان کیے ہیں، اور وہ "ثقہ” ہیں، لہٰذا یہ اضافہ محفوظ ہے۔ البتہ، محمد بن سیرین کا یہ کہنا:

لم أسمع فی التّشہّد وأحبّ الیّ أن یتشہّد۔
"میں نے تشہد کے بارے میں (کچھ) نہیں سنا، تشہد بیٹھنا ہی مجھے محبوب ہے۔”
(سنن ابی داود: 1010)

یہ اس روایت کے لیے ضعف کا باعث نہیں ہے۔ یہ "نَسِیَ بعد ما حدّث” کی قبیل سے ہے۔ لہٰذا امام ابن المنذر (الاوسط: 3/317)، امام بیہقی (2/355)، اور امام ابن عبدالبر (التمہید: 10/209) وغیرہ کا "ثمّ تشہّد” کے الفاظ کو غلطی اور غیر ثابت کہنا درست نہیں ہے۔

فائدہ نمبر 1:

حدیث ابنِ مسعود
(مسند الامام احمد: 1/428-429، سنن ابی داود: 1028، السنن الکبریٰ للنسائی: 605، السنن الکبریٰ للبیہقی: 2/355-356)
مرسل ہونے کی وجہ سے "ضعیف” ہے۔ ابو عبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:

والرّاجح أنّہ لا یصحّ سماعہ من أبیہ۔
"راجح یہی ہے کہ اس (ابو عبیدہ) کا اپنے والد سے سماع صحیح ثابت نہیں ہے۔”
(التقریب: 8231)

نیز فرماتے ہیں:

فانّہ عند الأکثر لم یسمع من أبیہ۔
"اکثر محدثین کے نزدیک ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع ثابت نہیں ہے۔”
(موافقۃ الخبر الخبر لابن حجر: 1/364)

امام ابن المنذر فرماتے ہیں:

الخبر غیر ثابت۔
"یہ روایت ثابت نہیں ہے۔”
(الاوسط: 3/317)

امام بیہقی فرماتے ہیں:

وہذا غیر قویّ ومختلف فی رفعہ ومتنہ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: 2/356)

فائدہ نمبر 2:

حدیث مغیرہ بن شعبہ
(السنن الکبریٰ للبیہقی: 2/355)
کی سند "ضعیف” ہے۔ اس میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ شامل ہیں جو جمہور کے نزدیک "ضعیف” اور "سیئ الحفظ” ہیں۔ ان کے بارے میں حافظ ابنِ کثیر فرماتے ہیں:

سیّیئ الحفظ، لا یحتجّ بہ عند أکثرہم۔
(تحفۃ الطالب لابن کثیر: 345)

حافظ بیہقی لکھتے ہیں:

وہٰذا ینفرد بہ ابن أبی لیلیٰ ہٰذا، ولا حجّۃ فیما ینفرد بہ لسوء حفظہ وکثرۃ خطئہ فی الرّوایات۔
(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: 3/282)

مزید علماء کے اقوال:

امام ابن سیرین
(سنن ابی داود: 1010، وسندہ، صحیح)
امام شافعی
(الام: 1/130)
امام احمد بن حنبل
(مسائل احمد لابی داود: 53)
امام ابراہیم نخعی
(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/31، وسندہ، صحیح)
حکم بن عتیبہ اور امام حماد بن ابی سلیمان
(مصنف ابن ابی شیبہ)

خلاصہ:

یہ مضمون سجدہ سہو کے تین مستند طریقوں کی وضاحت کرتا ہے جو نماز میں بھول چوک کی صورت میں ادا کیے جاتے ہیں:

  • پہلا طریقہ: نماز مکمل کرنے کے بعد سلام سے پہلے دو سجدے کیے جائیں۔
  • دوسرا طریقہ: نماز مکمل کرکے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے جائیں اور پھر دوبارہ سلام پھیر دیا جائے۔
  • تیسرا طریقہ: نماز کے بعد سلام پھیر کر دو سجدے کیے جائیں، پھر تشہد پڑھ کر دوبارہ سلام پھیرا جائے۔

ہر طریقے کی وضاحت احادیث، محدثین کے اقوال، اور ان کے درجے کے اعتبار سے کی گئی ہے، اور اس میں روایتوں کی صحت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے