تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ
روضہ اقدس کے چور اور سلطان نورالدین زنگی کا خواب
مشہور واقعہ ہے کہ سلطان نور الدین محمود شہید بن عمادالدین زنگی نے ایک رات نماز تہجد کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور گر بہ چشم (کرتجی آنکھوں والے) آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں ”مجھے ان دونوں سے نجات دو۔‘‘
سلطان گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور وضو کیا نوافل پڑھے اور لیٹ گئے ابھی لیٹے ہی تھے کہ آنکھ لگ گئی اور پھر یہی خواب دیکھا وہ پھر اٹھے وضو کیا اور نوافل پڑھے اور لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی پھر یہی خواب دیکھا اور پھر تیسری بار بھی یہی خواب دیکھا۔ اس پر نیند اڑ گئی اور بے چین ہو کر اپنے وزیر جمال الدین اصفہانی کو طلب کر کے اسے سارا واقعہ سنایا۔ وزیر نے کہا دیر نہ کیجیے فوراً مدینہ طیبہ چلیے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کیجیے۔ یہ خیال کر کے کہ ضرور مدینہ طیبہ میں کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے وہاں جلد از جلد پہنچنا چاہیے۔ سلطان اپنے وزیر بیس اراکین مجلس اور دو سو سپاہیوں کو ہمراہ لے کر بہت سے زمرد اور جواہر کے ساتھ نہایت تیز رفتار سانڈنیوں پر سوار ہو کر رات دن سفر کر کے سولہ روز میں شام سے مدینہ طیبہ پہنچا۔ اس زمانہ میں عرب سلطان کے زیر اثر آ چکا تھا۔ اس لیے سلطان کی اچانک آمد سے مدینہ طیبہ والے حیران رہ گئے مدینہ کے گورنر نے اچانک تشریف آوری کی وجہ دریافت کی تو سلطان نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ گورنر نے سلطان سے کہا : میں انعام و اکرام کے بہانے مدینہ کے تمام لوگوں کو آپ کے سامنے سے گزاروں گا۔ آپ ان میں سے ان دونوں آدمیوں کو پہچان لیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا لیکن مطلوبہ شخص نظر نہ آئے۔ سلطان حیران ہوا آخر اس نے پوچھا کہ شہر کی آبادی میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جو انعام لینے سے محروم رہ گیا ہو۔
خدام نے عرض کی بادشاہ سلامت صرف دو اہل مغرب باقی ہیں جو نہایت صالح، دین دار اور گوشہ نشین ہیں وہ جنت البقیع میں پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے ہیں اور سارا دن اپنے مکان میں محو عبادت رہتے ہیں۔ سلطان نے ان کو طلب کیا اور جونہی وہ سلطان کے سامنے آئے اس نے انھیں پہچان لیا مگر تفتیش سے پہلے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ ان سے مصافحہ کیا عزت سے بٹھا کر ان سے باتیں کیں اور پھر گفتگو کرتے ہوئے ان کے حجرے میں پہنچا جہاں فرش پر ایک معمولی سی چٹائی پڑی ہوئی تھی۔ طاق میں قرآن مجید اور دینی کتابیں اور صدقہ و خیرات کرنے کے لیے تھوڑا سامان موجود تھا۔ سلطان حیران تھا کہ یا الہٰی یہ کیا ماجرا ہے مایوس ہو کر واپس جانے کا ارادہ کیا تو چٹائی کے نیچےکوئی چیز ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ چٹائی کو ہٹایا گیا تو ایک تختہ نظر آیا جس کو اٹھایا تو ایک سرنگ دکھائی دی۔ جو روضہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھودی گئی تھی۔ اس وقت ان دونوں کو گرفتار کر لیا گیا اور جب ان سے ساری کیفیت دریافت کی گئی تو دونوں نے اقبال جرم قبول کر لیا اور اعتراف کیا کہ وہ اولی عیسائی ہیں جنھیں عیسائی بادشاہوں نے بہت سا مال دیا تھا تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک نکال کر روم لے جائیں اور مسلمانوں کا مرکز ختم ہو جائے۔ مدینہ کے لوگ ہمارے اس بہروپ کے جال میں پھنس گئے اور میں روضہ مبارک کے سامنے رہنے کے لیے ایک ہجرہ مل گیا۔ ہم رات بھر سرنگ کھودتے ہیں اور صبج سویرے چمڑے کے دو تھیلوں میں اسی مٹی کو بھر کر فاتحہ پڑھنے کے بہانے جنت البقیع میں جا کر ڈال دیتے ہیں، دن بھر زیارت گاہوں میں گھومتے رہتے ہیں اور رات بھر اس کام میں مصروف رہتے ہیں کئی برسوں کی محنت کے بعد آج ہم جسد مبارک کے قریب گئے تھے (کہتے ہیں جس رات یہ سرنگ جسد اطہر کے قریب پہنچنے والی تھی اس رات سخت بارش اور ہوا کا طوفان آیا اور بجلی زور زور سے کڑکتی رہی جس کی وجہ سے لوگ سخت پریشان ہوئے) یہ واقعات سن کر سلطان زار و قطار رویا اور اس وقت ہجرہ کے عین سامنے ان دونوں لعنتیوں کے سر تن سے جدا کر دیا پھر سجدہ شکر بجا لایا اور اس کے بعد روضہ اقدس کے ارد گرد اتنی گہری خندق کھدائی کے پانی نکل آیا۔ پھر اس خندق میں سطح زمین تک سیسہ پگھلا کر ڈالا گیا تاکہ آئندہ کوئی خطرہ نہ رہے اور اس کے اوپر چار دیواری تعمیر کر دی گئی۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھیے: [وفاء الوفاء باخبار المصطفى للسمهودي جلد 2 ص 185، 188]
یہ قصہ اس وجہ سے ضعیف اور غیر ثابت ہے کہ جمال الدین الاسنوی نے نورالدین الشہید کے معاصرین میں سے کسی ثقہ و صدوق گواہ تک کو متصل سند بیان نہیں کی اور بے سند و منقطع روایت مردوو ہوتی ہے۔ نور الدین زنگی کے حالات ابن جوزی، ابن عساکر اور دیگر علماء نے لکھے ہیں مگر کسی نے اس واقعہ کا تذکرہ نہیں کیا لہٰذا وہ کون سا ذریعہ تھا جس سے اسنوی مذکور جو زنگی کی وفات کے (135) سال بعد پیدا ہو ئے کو اس واقعہ کا پتا چل گیا۔ سمہودی نے المجد اور معطری کا بھی ذکر کیا ہے مگر یہ دونوں بھی زنگی رحمہ اللہ کی وفات کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔
خلاصہ یہ کہ خواب و الا یہ قصہ باسند صحیح ثابت نہیں۔ [بحواله ماهنامه اله پيش شماره نمبر 62 ص 11]
مشہور واقعہ ہے کہ سلطان نور الدین محمود شہید بن عمادالدین زنگی نے ایک رات نماز تہجد کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور گر بہ چشم (کرتجی آنکھوں والے) آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں ”مجھے ان دونوں سے نجات دو۔‘‘
سلطان گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور وضو کیا نوافل پڑھے اور لیٹ گئے ابھی لیٹے ہی تھے کہ آنکھ لگ گئی اور پھر یہی خواب دیکھا وہ پھر اٹھے وضو کیا اور نوافل پڑھے اور لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی پھر یہی خواب دیکھا اور پھر تیسری بار بھی یہی خواب دیکھا۔ اس پر نیند اڑ گئی اور بے چین ہو کر اپنے وزیر جمال الدین اصفہانی کو طلب کر کے اسے سارا واقعہ سنایا۔ وزیر نے کہا دیر نہ کیجیے فوراً مدینہ طیبہ چلیے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کیجیے۔ یہ خیال کر کے کہ ضرور مدینہ طیبہ میں کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے وہاں جلد از جلد پہنچنا چاہیے۔ سلطان اپنے وزیر بیس اراکین مجلس اور دو سو سپاہیوں کو ہمراہ لے کر بہت سے زمرد اور جواہر کے ساتھ نہایت تیز رفتار سانڈنیوں پر سوار ہو کر رات دن سفر کر کے سولہ روز میں شام سے مدینہ طیبہ پہنچا۔ اس زمانہ میں عرب سلطان کے زیر اثر آ چکا تھا۔ اس لیے سلطان کی اچانک آمد سے مدینہ طیبہ والے حیران رہ گئے مدینہ کے گورنر نے اچانک تشریف آوری کی وجہ دریافت کی تو سلطان نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ گورنر نے سلطان سے کہا : میں انعام و اکرام کے بہانے مدینہ کے تمام لوگوں کو آپ کے سامنے سے گزاروں گا۔ آپ ان میں سے ان دونوں آدمیوں کو پہچان لیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا لیکن مطلوبہ شخص نظر نہ آئے۔ سلطان حیران ہوا آخر اس نے پوچھا کہ شہر کی آبادی میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جو انعام لینے سے محروم رہ گیا ہو۔
خدام نے عرض کی بادشاہ سلامت صرف دو اہل مغرب باقی ہیں جو نہایت صالح، دین دار اور گوشہ نشین ہیں وہ جنت البقیع میں پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے ہیں اور سارا دن اپنے مکان میں محو عبادت رہتے ہیں۔ سلطان نے ان کو طلب کیا اور جونہی وہ سلطان کے سامنے آئے اس نے انھیں پہچان لیا مگر تفتیش سے پہلے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ ان سے مصافحہ کیا عزت سے بٹھا کر ان سے باتیں کیں اور پھر گفتگو کرتے ہوئے ان کے حجرے میں پہنچا جہاں فرش پر ایک معمولی سی چٹائی پڑی ہوئی تھی۔ طاق میں قرآن مجید اور دینی کتابیں اور صدقہ و خیرات کرنے کے لیے تھوڑا سامان موجود تھا۔ سلطان حیران تھا کہ یا الہٰی یہ کیا ماجرا ہے مایوس ہو کر واپس جانے کا ارادہ کیا تو چٹائی کے نیچےکوئی چیز ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ چٹائی کو ہٹایا گیا تو ایک تختہ نظر آیا جس کو اٹھایا تو ایک سرنگ دکھائی دی۔ جو روضہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھودی گئی تھی۔ اس وقت ان دونوں کو گرفتار کر لیا گیا اور جب ان سے ساری کیفیت دریافت کی گئی تو دونوں نے اقبال جرم قبول کر لیا اور اعتراف کیا کہ وہ اولی عیسائی ہیں جنھیں عیسائی بادشاہوں نے بہت سا مال دیا تھا تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک نکال کر روم لے جائیں اور مسلمانوں کا مرکز ختم ہو جائے۔ مدینہ کے لوگ ہمارے اس بہروپ کے جال میں پھنس گئے اور میں روضہ مبارک کے سامنے رہنے کے لیے ایک ہجرہ مل گیا۔ ہم رات بھر سرنگ کھودتے ہیں اور صبج سویرے چمڑے کے دو تھیلوں میں اسی مٹی کو بھر کر فاتحہ پڑھنے کے بہانے جنت البقیع میں جا کر ڈال دیتے ہیں، دن بھر زیارت گاہوں میں گھومتے رہتے ہیں اور رات بھر اس کام میں مصروف رہتے ہیں کئی برسوں کی محنت کے بعد آج ہم جسد مبارک کے قریب گئے تھے (کہتے ہیں جس رات یہ سرنگ جسد اطہر کے قریب پہنچنے والی تھی اس رات سخت بارش اور ہوا کا طوفان آیا اور بجلی زور زور سے کڑکتی رہی جس کی وجہ سے لوگ سخت پریشان ہوئے) یہ واقعات سن کر سلطان زار و قطار رویا اور اس وقت ہجرہ کے عین سامنے ان دونوں لعنتیوں کے سر تن سے جدا کر دیا پھر سجدہ شکر بجا لایا اور اس کے بعد روضہ اقدس کے ارد گرد اتنی گہری خندق کھدائی کے پانی نکل آیا۔ پھر اس خندق میں سطح زمین تک سیسہ پگھلا کر ڈالا گیا تاکہ آئندہ کوئی خطرہ نہ رہے اور اس کے اوپر چار دیواری تعمیر کر دی گئی۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھیے: [وفاء الوفاء باخبار المصطفى للسمهودي جلد 2 ص 185، 188]
یہ قصہ اس وجہ سے ضعیف اور غیر ثابت ہے کہ جمال الدین الاسنوی نے نورالدین الشہید کے معاصرین میں سے کسی ثقہ و صدوق گواہ تک کو متصل سند بیان نہیں کی اور بے سند و منقطع روایت مردوو ہوتی ہے۔ نور الدین زنگی کے حالات ابن جوزی، ابن عساکر اور دیگر علماء نے لکھے ہیں مگر کسی نے اس واقعہ کا تذکرہ نہیں کیا لہٰذا وہ کون سا ذریعہ تھا جس سے اسنوی مذکور جو زنگی کی وفات کے (135) سال بعد پیدا ہو ئے کو اس واقعہ کا پتا چل گیا۔ سمہودی نے المجد اور معطری کا بھی ذکر کیا ہے مگر یہ دونوں بھی زنگی رحمہ اللہ کی وفات کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔
خلاصہ یہ کہ خواب و الا یہ قصہ باسند صحیح ثابت نہیں۔ [بحواله ماهنامه اله پيش شماره نمبر 62 ص 11]