(قرآن، حدیث، آثارِ سلف اور فقہاء کی روشنی میں تفصیلی وضاحت)
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ”
(سورۃ البقرہ: 187)
ترجمہ:
"اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ظاہر ہو جائے، پھر روزہ مکمل کرو رات تک۔”
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹتا ہے، لیکن اگر کوئی چیز نگلی نہ جائے، تو روزہ برقرار رہے گا۔
حدیث کی روشنی میں
➊ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان:
"لَا بَأْسَ أَنْ يَذُوقَ الطَّبَّاخُ الْمَرَقَ بِالسُّكَّةِ مَا لَمْ يَدْخُلْ حَلْقَهُ”
(ابن ابی شیبہ: 9274، بیہقی: 8160)
ترجمہ:
"اس میں کوئی حرج نہیں کہ باورچی چمچ سے سالن کا ذائقہ چکھے، جب تک کہ وہ حلق میں داخل نہ ہو۔”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی روزے کی حالت میں کھانے کا ذائقہ چکھ کر فوراً تھوک دے اور کچھ بھی حلق میں نہ جائے، تو روزہ صحیح رہے گا۔
➋ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"إنَّما الأعمالُ بالنِّيَّاتِ”
(صحیح بخاری: 1، صحیح مسلم: 1907)
ترجمہ:
"اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔”
یعنی اگر نیت کھانے کا نہ ہو بلکہ صرف چکھنا ہو اور حلق میں کچھ نہ جائے، تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ:
"لَا بَأْسَ أَنْ يَذُوقَ الطَّبَّاخُ الْمَرَقَ بِالسُّكَّةِ مَا لَمْ يَدْخُلْ حَلْقَهُ”
(ابن ابی شیبہ: 9274، بیہقی: 8160)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ماں یا باورچی کھانے کا ذائقہ چکھ کر فوراً تھوک دے اور کچھ حلق میں نہ جائے تو روزہ برقرار رہے گا۔
➋ حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (تابعی):
"لَا بَأْسَ أَنْ يَذُوقَ الشَّيْءَ فِي رَمَضَانَ مَا لَمْ يُدْخِلْهُ حَلْقَهُ”
(مصنف عبدالرزاق: 7445)
اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں کھانے کا ذائقہ چکھنا جائز ہے، بشرطیکہ کچھ حلق میں نہ جائے۔
➌ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ (تابعی):
"لَا بَأْسَ بِذَوْقِ الطَّعَامِ لِلصَّائِمِ، مَا لَمْ يَبْلَعْهُ”
(مصنف عبدالرزاق: 7447)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق ہے، یعنی کھانے کا ذائقہ چکھنے میں کوئی حرج نہیں، جب تک کہ اسے نگلا نہ جائے۔
➍ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
"إِنْ قَاءَ فَلَا يُفْطِرُ، وَإِنِ اسْتَقَاءَ فَلْيَقْضِ”
(سنن ابی داؤد: 2380، ترمذی: 720)
ترجمہ:
"اگر روزے دار کو قے آ جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اگر خود قے کروائے تو اس پر قضا لازم ہوگی۔”
اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر کھانے کا ذائقہ چکھنے کے بعد تھوک دیا جائے اور کچھ حلق میں نہ جائے، تو روزہ برقرار رہے گا۔
فقہائے کرام کی آراء
➊ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ:
اگر ضرورت ہو، جیسے بچے یا شوہر کے لیے نمک وغیرہ چیک کرنا، تو جائز ہے، مگر فوراً تھوک دینا ضروری ہے۔
➋ امام مالک رحمہ اللہ:
کھانے کا ذائقہ چکھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر بغیر ضرورت کے ایسا کرنا مکروہ ہے۔
➌ امام ابو یوسف رحمہ اللہ (شاگردِ امام ابو حنیفہ):
اگر عورت کو شک ہو کہ کھانے میں نمک زیادہ یا کم ہے، تو وہ زبان سے چکھ سکتی ہے، مگر فوراً تھوک دے، کیونکہ حلق میں جانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
(البدائع والصنائع: 2/96)
➍ امام مالک رحمہ اللہ:
کھانے کا ذائقہ چکھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر یہ پسندیدہ (مستحب) عمل نہیں ہے۔
(المدونة الکبری: 1/282)
نتیجہ
جائز صورت:
اگر ماں یا کوئی اور شخص کھانے کا ذائقہ چکھ کر فوراً تھوک دے اور کچھ بھی حلق میں نہ جائے، تو روزہ صحیح رہے گا۔
مکروہ صورت:
بغیر کسی ضرورت کے کھانے کا ذائقہ چکھنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ روزے کے روحانی اثر کو کم کر سکتا ہے۔
روزہ ٹوٹنے کی صورت:
اگر غلطی سے کچھ حلق میں چلا جائے، تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہوگی۔
دعا
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور روزے کے آداب کو مکمل طور پر اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین!