روزے کی حالت میں میاں بیوی کے بوس و کنار کا حکم
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

روزے کی حالت میں میاں بیوی کے تعلقات کا شرعی حکم

➊ قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ” (البقرة: 187)

ترجمہ: "روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے۔”

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کے وقت میاں بیوی کے تعلقات جائز ہیں، لیکن دن کے وقت روزہ جاری رہتے ہوئے ان چیزوں میں احتیاط ضروری ہے۔

➋ حدیث کی روشنی میں

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

"نبی اکرم ﷺ روزے کی حالت میں اپنی کسی زوجہ کا بوسہ لے لیتے تھے اور مباشرت (قریب ہونا) کرتے تھے، لیکن آپ ﷺ خود پر قابو رکھتے تھے۔”
(صحیح بخاری: 1927، صحیح مسلم: 1106)

نتیجہ: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر شوہر بیوی کا بوسہ لے یا گلے لگائے، لیکن خود پر قابو رکھے اور خواہشات میں اضافہ نہ ہو، تو یہ جائز ہے۔

➌ نوجوان اور بزرگ کے لیے حکم میں فرق

ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے پوچھا:

"کیا روزے کی حالت میں بوسہ لینا جائز ہے؟”

نبی ﷺ نے جواب دیا:

"بزرگ آدمی کے لیے جائز ہے، لیکن نوجوان کے لیے خطرہ ہے۔”
(ابو داؤد: 2387)

وضاحت: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کو یہ خدشہ ہو کہ بوس و کنار سے شہوت میں اضافہ ہو جائے گا اور روزہ توڑنے والے عمل (جماع یا انزال) کا سبب بن سکتا ہے، تو پھر اس سے بچنا بہتر ہے۔

➍ اگر انزال ہو جائے؟

  • اگر بوسہ لینے یا گلے لگانے سے شہوت میں اضافہ ہو لیکن منی خارج نہ ہو، تو روزہ برقرار رہے گا۔
  • اگر منی نکل جائے (جیسے احتلام کی صورت میں)، تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس دن کے بدلے میں قضا ضروری ہوگی۔
  • اگر شوہر اور بیوی روزے کی حالت میں مکمل جسمانی تعلق (جماع) قائم کر لیں تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم آئے گا، یعنی یا تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا ہوں گے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ (صحیح بخاری: 1936)

➎ نتیجہ

  • جائز: اگر شوہر بیوی کا بوسہ لے یا محبت کا اظہار کرے، لیکن اپنے جذبات پر قابو رکھے اور اس سے روزہ متاثر نہ ہو، تو یہ جائز ہے۔
  • اجتناب بہتر: اگر بوس و کنار سے شہوت بھڑک سکتی ہو اور روزہ توڑنے والے کسی عمل کا اندیشہ ہو، تو پھر اس سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔
  • مکمل مباشرت (جماع) دن کے وقت قطعی حرام ہے اور اس پر سخت کفارہ لازم آتا ہے۔

لہٰذا، ہر شخص کو اپنی حالت کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ روزے کی روحانیت کو متاثر کیے بغیر کہاں تک جا سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1