فطرانہ یا صدقۃ الفطر یا زکاۃ الفطر کیا ہے؟
فطرانہ کو مختلف ناموں جیسے صدقۃ الفطر، زکاۃ الفطر، یا فطرہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ صدقہ ہے جو ہر مسلمان عید الفطر سے پہلے ادا کرتا ہے۔ اس کے چند اہم مقاصد ہیں:
◈ طُهرةٌ للصَّائِمِ مِنَ اللَّغوِ والرَّفث: روزہ دار کی روزے کے دوران ہونے والی لغزشوں کا کفارہ۔
◈ طُعمةٌ للمساكين: مساکین کے لیے مدد اور تعاون۔
یہ دونوں مقاصد قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، بچوں کے لیے بھی فطرانہ ادا کرنا ضروری ہے، چاہے وہ روزے نہ رکھتے ہوں۔
شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کے مطابق:
فطرانہ کے کچھ مزید فوائد یہ ہیں:
◈ یہ بدن کی زکاۃ ہے، چاہے روزہ رکھا ہو یا نہ رکھا ہو، ہر شخص کے لیے ادا کرنا ضروری ہے۔
◈ رمضان مکمل ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
حوالہ: (إرشاد أولى البصائر والألباب، ابن سعدی، ص: 134-135)
صدقۃ الفطر کا حکم
صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر فرض ہے۔ حدیث مبارک میں آیا ہے:
“فرَض رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم صدقةَ الفِطرِ…”
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر فرض کیا…”
(بخاري:1512، مسلم:984)
فقہاء کے مطابق، اس کے فرض ہونے پر اجماع بھی ہے۔
حوالہ: (الإجماع، ابن المنذر، ص: 47؛ بداية المجتهد، ابن رشد، 1/279)
فطرانہ کس پر واجب ہے؟
ہر مسلمان پر فطرانہ واجب ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:
“فرَض رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم زكاةَ الفِطر… على العبدِ والحُرِّ، والذَّكرِ والأنثى، والصَّغير والكبيرِ مِنَ المسلمينَ.”
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ الفطر فرض کی… غلام اور آزاد، مرد اور عورت، اور چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر۔”
(بخاري:1503، مسلم:984)
◈ فقیر بھی اگر صدقہ وصول کرے، تو اسے اپنی طرف سے فطرانہ ادا کرنا ہوگا۔
◈ نوزائیدہ بچہ جو رمضان کے آخری دن پیدا ہوا ہو، اس کی طرف سے بھی فطرانہ واجب ہوگا۔
فطرانہ کی مقدار
نبی کریم ﷺ نے صدقہ الفطر کی مقدار ایک ’صاع‘ مقرر فرمائی ہے:
“صاع” ایک عربی پیمانہ ہے جو اجناس کے ناپنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
حوالہ: (بخاري:1510)
مختلف اجناس کے لیے وزن کا تعین:
◈ گندم یا آٹا: تقریباً 2100 سے 2500 گرام
حوالہ: (لجنۃ العلماء للإفتاء، فتوی نمبر: 290)
فطرانہ کس چیز سے ادا کیا جائے؟
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کھجور، جو، منقی، اور پنیر جیسے اجناس سے صدقہ الفطر ادا کیا جاتا تھا۔
حوالہ: (بخاري:1510)
آج کے دور میں گندم، چاول، یا دیگر بنیادی غذائی اجناس سے فطرانہ ادا کرنا مناسب ہے۔
اجناس کی قیمت نقدی میں ادا کرنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ اس سے مستحقین کو فائدہ ہو۔
رواں سال گندم کے حساب سے فطرانے کی رقم تقریباً 300 سے 400 روپے ہے۔
فطرانہ کب ادا کرنا چاہیے؟
فطرانے کی ادائیگی کا وقت:
◈ آغاز: رمضان کے آخری دن غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔
◈ اختتام: عید نماز سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔
حدیث مبارک میں ہے:
“أمر بها أن تُؤدَّى قبل خُروجِ النَّاسِ إلى الصَّلاةِ.”
"حکم دیا کہ اسے لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے۔”
(بخاري:1503، مسلم:984)
عید سے ایک یا دو دن پہلے فطرانہ ادا کرنا بھی جائز ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔
حوالہ: (بخاري:1511)
فطرانہ کس کو دیا جائے؟
حدیث میں فطرانے کے مستحقین کا ذکر ہے:
“طُعمةً للمَساكينِ.”
"مساکین کے لیے خوراک کے طور پر۔”
(ابوداود:1609، صحيح الجامع:3570)
◈ فطرانہ صرف فقراء و مساکین کو دینا چاہیے۔
◈ اگر براہ راست دینا ممکن نہ ہو تو کسی معتبر ادارے کے ذریعے بھی مستحقین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
بیرون ملک فطرانہ ادا کرنے کا حکم
شرائط:
◈ مقامی مستحقین کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
◈ فطرانہ عید کی نماز سے پہلے مستحقین تک پہنچ جائے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جہاں فقراء نہ ہوں، وہاں فطرانہ منتقل کیا جا سکتا ہے، لیکن بغیر کسی ضرورت کے ایسا کرنا مناسب نہیں۔
حوالہ: (مجموع فتاوى ابن عثيمين:18)
سعودی فتویٰ کمیٹی کے مطابق:
فطرانہ منتقل کرنا جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عید نماز سے پہلے مستحقین تک پہنچا دیا جائے۔
حوالہ: (فتاوى اللجنۃ الدائمۃ، 9/369-370)
اہم نکات
◈ فطرانہ رمضان کے اختتام اور عید نماز سے پہلے ادا کرنا مسنون ہے۔
◈ مقامی یا بیرون ملک فطرانے کی ادائیگی میں وقت کا خیال رکھیں۔
◈ ضرورت مندوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کے لیے فطرانے کو ترجیح دیں۔
یہ فطرانے سے متعلق اکثر پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات ہیں، جو مسلمانوں کو اس اہم عبادت کو بہتر طریقے سے ادا کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔