سوال : سجدے کے دوران دعا کرنا کیسا ہے ؟ اور کیا صرف مسنون دعا ہی کرنا جائز ہے ؟ تفصیل سے بتا دیں۔
جواب : فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ [مسلم، كتاب الصلاة : باب ما يقال فى الركوع والسجود 482، شرح السنة 151/3 ]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے کی حالت میں ہو، پس (تم سجدے کی حالت میں) کثرت سے دعا کرو۔ “
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” كَشَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السِّتَارَةَ، وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ، إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، يَرَاهَا الْمُسْلِمُ، أَوْ تُرَى لَهُ، أَلَا وَإِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاكِعًا، أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ، فَعَظِّمُوا فِيهِ الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا السُّجُودُ، فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ
[مسلم، كتاب الصلاة : باب النهي عن قراءة القرآن فى الركوع والسجود 479، أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب فى الدعاء فى الركوع والسجود 876، نسائي 1044، ابن ماجه 3899، أحمد 219/1، دارمي 1331، ابن خزيمة 303/1 ]
”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا، لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے لوگو ! نبوت کی بشارتوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے اچھے خواب کے جسے مسلمان دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔ خبردار ! مجھے رکوع یا سجدے میں قرآن پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ رکوع میں تم اپنے رب کی تعظیم کرو اور سجدے میں دعا کرنے میں مبالغہ کرو، یہ تمہاری دعا کی قبولیت کے زیادہ لائق ہے “۔
➌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ رَفَعَهُ اَنَّهُ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهٰي اَنْ يَّقْرَأَ الْقُرْآنَ وَ هُوَ رَاكِعٌ وَقَالَ اِذَا رَكَعْتُمْ فَعَظِّمُوْا اللهَ وَاِذَا سَجَدْتُّمْ فَادْعُوْا فَقَمِنٌ اَنْ يُّسْتَجَابَ لَكُمْ [أحمد 55/1 ]
” سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالتِ رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے اور فرمایا : ”جب تم رکوع کرو تو اللہ کی تعظیم کرو اور جب تم سجدہ کرو تو دعا کرو کیونکہ یہ تمہاری دعا کی قبولیت کے زیادہ لائق ہے۔“
مذکورہ بالا صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ سجدے میں دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ احادیث عام ہیں، لہٰذا فرض اور نفلی تمام سجدوں کو شامل ہیں اور ان میں دنیا و آخرت کی خیر طلب کرنا اور ان کے شر سے پناہ مانگنا جائز ہے۔
◈ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَالْحَدِيْثُ دَلِيْلٌ عَلٰي مَشْرُوْعِيَةِ الدُّعَاءِ حَالَ السُّجُوْدِ بِأَيِّ دُعَاءٍ كَانَ مِنْ طَلْبِ خَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَالْاِسْتِعَاذَةُ مِنْ شَرِّهِمَا [ مرعاة المفاتيح 197/3 ]
”یہ حدیث سجدوں کی حالت میں دعا کی مشروعیت پر دلیل ہے، دنیا و آخرت کی خیریت طلب کرنے اور ان کے شر سے پناہ مانگنے پر مشتمل کوئی بھی دعا ہو سکتی ہے۔“
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اَلْاَمْرُ بِاِكْثَارِ الدُّعَاءِ فِي السُّجُوْدِ يَشْمَلُ الْحَثَّ عَلٰي تَكْثِيْرِ الطَّلَبِ لِكُلِّ حَاجَةٍ كَمَا جَاءَ فِيْ حَدِيْثِ اَنَسٍ لِيَسْئَلَ اَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَةً كُلَّهَا حَتّٰي شِسْعَ نَعْلِهِ اَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ وَيَشْمَلُ التَّكْرَارُ لِلسُّوَالِ الْوَاحِدِ [مرعاة المفاتيح 188/3، فتح الباري 300/2 ]
”سجدوں میں کثرت سے دعا مانگنے کا حکم ہر قسم کی حاجت کو کثرت سے طلب کرنے کی ترغیب پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے : ”تم میں سے ہر ایک اپنی تمام حاجات اپنے رب سے مانگے یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ بھی۔“ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور یہ حدیث ایک ہی سوال بار بار کرنے کو بھی شامل ہے۔ “
◈ سید سابق رحمہ اللہ سجدے کی مقدار اور اذکار کے تحت رقمطراز ہیں :
وَالْمُسْتَحَبُّ لَا يَقْتَصِرُ الْمُصَلِّيْ عَلَي التَّسْبِيْحِ بَلْ يَزِيْدُ عَلَيْهِ مَا شَاءَ مِنَ الدُّعَاءِ [فقه السنة 148/1 ]
”مستحب یہ ہے کہ نمازی صرف تسبیح پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس پر جو بھی دعا چاہے اضافی طور پر مانگے۔ “
◈ قاضی شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اَلْاِسْتِكْثَارُ مِنَ الدُّعَاءِ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ بِمَا وَرَدَ وَبِمَا لَمْ يَرِدْ [الدرر البهية ص/32 ]
”نماز میں دنیا وآخرت کی بھلائی کی دعا کثرت سے مانگنی چاہئیے خواہ وہ دعا منقول ہو یا نہ ہو۔“
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : [الدراري المضية 91/1، السموط الذهبية ص/59، الروضة الندية 105/1 ]
اگر آپ کہیں کہ کس دلیل سے قاضی شوکانی رحمہ اللہ نے نماز کے اندر ماثور و غیر ماثور دعاؤں کو جائز قرار دیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جس میں دو سجدوں میں دعا مانگنے کا کہا گیا ہے اور تشہد میں دعا کے لیے اس حدیث کو پیش کیا ہے :
ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ اَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ مِمَّا اَعْجَبَهُ اِلَيْهِ [أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب التشهد 968، بخاري 831 ]
”پھر تم میں سے ہر کسی کو جو دعا پسند ہو اختیار کرے۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے لیے دعا میں اختیار دے دیا ہے کہ وہ جو چاہے دعا کرے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ عبادات چونکہ توفیقی ہوتی ہیں اس لیے دعا عربی زبان ہی میں مانگی جائے۔ قرآن و سنت میں کتنی ایسی دعائیں مذکور ہیں جو دنیا وآخرت کی بھلائیوں کو شامل ہیں، ان میں سے کوئی اختیار کر لی جائے۔ اگر کوئی شخص واقعی ایسا ہے کہ وہ عربی میں دعائیں یاد نہیں کر سکتا تو اس کے لیے گنجائش ہو سکتی ہے کیونکہ معذوروں کے لیے الگ شرعی قاعدہ موجود ہے۔