سوال : ایک عورت نے رمضان 1382 ھ میں معقول عذر یعنی اپنے بچہ کو دودھ پلانے کی وجہ سے صو م نہیں رکھا۔ اب وہ بچہ بڑا ہو کر 24 سال کا ہو گیا ہے اور اس عورت نے اس مہینہ کے صوم کی قضا نہیں کی۔ اور ایسا قصد و ارادہ اور سستی و کاہلی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض لاعلمی اور نادانی کی وجہ سے ہوا ہے۔ امید کہ اس سلسلہ میں آپ رہنمائی فرمائیں گے۔
جواب : اس عورت پر قریب ترین وقت میں اس مہینہ کے صیام کی قضا ضروری ہے، اگرچہ متفرق طور پر سہی۔ اس سال مسلمانوں نے جتنے دن کا صوم رکھا تھا اتنے دن یہ صوم رکھے۔ اس پر صیام کے ساتھ صدقہ بھی ضروری ہے۔ جو ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ قضا کو مؤخر کرنے کا کفارہ ہے۔ کیونکہ جو شخص دوسرے رمضان تک قضا کو مؤخر کر دے اس پر قضاکے ساتھ کفارہ بھی لازم ہے۔ پورے مہینہ کے بدلہ 45 کلو گرام چاول کی ایک بوری کافی ہے۔
اس عورت پر اپنے دین کے معاملہ میں بحث و تحقیق اور اہل علم سے دریافت کرنا ضروری تھا۔ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو لوگوں میں معروف و مشہور ہے کہ جو کسی عذر کی بنا پر صوم چھوڑ دے اس پر جلد سے جلد قضا کرنا لازم ہے اور بغیر کسی عذر کے اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “
جواب : اس عورت پر قریب ترین وقت میں اس مہینہ کے صیام کی قضا ضروری ہے، اگرچہ متفرق طور پر سہی۔ اس سال مسلمانوں نے جتنے دن کا صوم رکھا تھا اتنے دن یہ صوم رکھے۔ اس پر صیام کے ساتھ صدقہ بھی ضروری ہے۔ جو ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ قضا کو مؤخر کرنے کا کفارہ ہے۔ کیونکہ جو شخص دوسرے رمضان تک قضا کو مؤخر کر دے اس پر قضاکے ساتھ کفارہ بھی لازم ہے۔ پورے مہینہ کے بدلہ 45 کلو گرام چاول کی ایک بوری کافی ہے۔
اس عورت پر اپنے دین کے معاملہ میں بحث و تحقیق اور اہل علم سے دریافت کرنا ضروری تھا۔ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو لوگوں میں معروف و مشہور ہے کہ جو کسی عذر کی بنا پر صوم چھوڑ دے اس پر جلد سے جلد قضا کرنا لازم ہے اور بغیر کسی عذر کے اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “