دنیا کا پہلا دستوری معاہدہ (میثاق مدینہ )
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

مدینہ منورہ میں قیام امن و امان کی خاطر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تابناک کارنامہ سر انجام دیا جسے ”مواخات“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک اور عہد و پیمان کرایا جس کی ذریعے ساری جاہلی اور قبائلی کشمکش کی بنیاد ڈھادی، اور دورے جاہلیت کے رسم و رواج کے لیے کوئی گنجائش نہ چھوڑی۔ یہ دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور تھا جس نے مختلف مذاہب کے قبائل اور جماعتوں کو ایک نظام کے تحت انسانیت کے بہترین مقاصد کے لیے متحد کر دیا، اس میں ہر گروہ کے تمام جائز حقوق کی حفاظت کے ساتھ سب کو اجتماعی امن و سکون اور تعمیر و ترقی کی راہ پر لگانے کا ذکر ہے، کوئی مقنن ریفا مر اس طرح کا نقشہ حقوق پیش نہیں کر سکتا ۔ معروف محقق ڈاکٹر حمید اللہ حیدر آبادی مرحوم نے اسے بالکل بجاطور پر دنیا کا سب سے پہلا تحریر دستور قراردیا۔
(عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظام حکمران، ص76)

پہلے دستور کی دفعات:

ابو محمد عبد الملک بن ہشام نے اس کی (53) دفعات ذکر کی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
بسم الله الرحمن الرحيم
یہ دستوری معاہدہ اللہ کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور قریش و یثرب کے اُن لوگوں کے مابین ہے جو مومن ہیں، اطاعت گزار ہیں، جو اُن کے تابع ہیں، جو اُن کے ساتھ شامل ہو جا ئیں اور ان کے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ لیں ۔
1 : یہ سب مسلمان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک علیحدہ سیاسی وحدت (امت) ہوں گے۔
2 : قریشی مہاجر اسلام سے پہلے کے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کیا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کیا کریں گے، تا کہ مومنوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہو۔
3 : بنی عوف کے لوگ اپنے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کیا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کر کے انہیں رہائی دلایا کریں گے، تا کہ مومنوں کا برتاؤ آپس میں نیکی اور انصاف کی بنیاد پر مستحکم ہو۔
4: بنی حارث اپنے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کرنے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے، تا کہ اہل ایمان کے باہمی تعلقات نیکی اور انصاف کے مطابق اُستوار ہوں۔
5 : بنو ساعد اپنے دستور کے مطابق خوں بہا کی ادائیگی اور اپنے گروہ کے قیدیوں کا فدیہ دے کر انہیں آزاد کرانے کے ذمے دار ہوں گے، تا کہ مومنوں کے تعلقات نیکی اور انصاف کی بنیاد پر قائم ہوں ۔
6: بنو جشم اپنے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ دے کر آزاد کرائیں گے، تاکہ مسلمانوں میں نیکی اور انصاف کی بنیاد پر باہمی خیر سگالی و خیر خواہی کی فضا قائم ہو۔
7 : بنو نجار اپنے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ کی ادائیگی کے ذمے دار ہوں گے، تا کہ اہل ایمان کے باہمی روابط بھلائی اور انصاف کی بنیاد پر مضبوط ہوں ۔
8 : بنو عمرو بن عوف اپنے دستور کے مطابق خوں بہا کی ادائیگی اور فدیہ دے کر اپنے قیدیوں کی رہائی کے پابند ہوں گے، تا کہ مومنوں کا باہمی اعتماد نیکی اور انصاف کی بنیاد پرمستحکم ہو۔
9 : بنونبیت اپنے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کرنے اور اپنے گروہ کے قیدیوں کا فدیہ ادا کر کے رہائی دلانے کے ذمے دار ہوں گے، تاکہ اہل ایمان کا باہمی میل جول بھلائی اور انصاف کا آئینہ دار ہو۔
10 : بنو اوس اپنے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کر کے رہائی دلا یا کریں گے، تا کہ مومنوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور اور انصاف پر مبنی ہو ۔

اہل ایمان کی ذمے داریاں:

1 : اہل ایمان میں سے اگر کوئی شخص مفلس اور قلاش ہے یا قرض کے بوجھ تلے بری طرح دبا ہوا ہے، تو اُس کے مومن دوست ایسے شخص کو لازمی طور پر امداد دیں گے تا کہ اُس کے حق کا خوں بہا یا فدیہ بخوبی ادا ہو سکے۔
2 : کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی اجازت کے بغیر اُس کے مولیٰ (معاہداتی بھائی) سے معاہدہ نہیں کرے گا۔
3 : اہل تقویٰ اور اہل ایمان ہر اُس شخص کی مخالفت متحد ہو کر کریں گے جو سرکشی ظلم ، زیادتی اور گناہ کا مرتکب ہو۔ ایسے شخص کے خلاف تمام اہل ایمان کے ہاتھ ایک ساتھ اُٹھیں گے، خواہ وہ اُن میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
4: کوئی مومن کسی مومن کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کرے گا اور نہ کسی مومن کے خلاف کسی کافر کو امداد دی جائے گی۔
5 : اللہ تعالیٰ کا ذمہ وعہد ایک ہی ہے۔ اہل اسلام کا ایک معمولی درجے کا فرد بھی کسی شخص کو پناہ دے کر سب پر پابندی عائد کر سکے گا۔ اہل ایمان دوسروں کے مقابلے میں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
6 :یہودیوں میں سے جو اس معاہدے میں شریک ہوں گے، انہیں برابر کی حیثیت حاصل ہوگی۔ ایسے لوگوں پر ظلم ہوگا اور نہ اُن کے خلاف کسی کو مدددی جائے گی ۔
7: اہل اسلام کی صلح ایک ہی ہوگی ۔ اللہ کی راہ میں جنگ کے موقع پر کوئی مسلمان دوسرے مسلمانوں کو چھوڑ کر دشمن سے صلح نہیں کرے گا اور یہ صلح سب مسلمانوں کے لیے برابر اور یکساں ہونی چاہیے۔
8 : وہ تمام گروہ جو ہمارے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ لیں گے باری باری انہیں آرام کا موقع دیا جائے گا۔
9 : مومنوں کو اللہ کی راہ میں جو جانی نقصان اٹھانا پڑے اُس کا بدلہ وہ سب مل کر لیں گے۔
10 : بلاشبہ متقی مومن سب سے اچھے اور سب سے سیدھے راستے پر ہیں۔
11 : اس معاہدے میں شریک کوئی مسلمان مشرک قریش کے مال و جان کو پناہ نہیں دے گا، اور اس سلسلے میں وہ کسی مسلمان کی راہ میں رکاوٹ نہیں کھڑی کرے گا۔
12: جو شخص کسی مومن کو قتل کرے گا اُس کا ثبوت ملنے پر اُس سے قصاص لیا جائے گا۔ ہاں اگر مقتول کا وارث خوں بہا لینے پر راضی ہو جائے تو قاتل قصاص سے بچ سکتا ہے۔ تمام اہل ایمان پر لازم ہوگا کہ وہ مقتول کے قصاص کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے سوا اُن کے لیے کوئی صورت جائز نہیں ہوگی۔
13 : کسی ایسے مسلمان کے لیے جو اس عہد نامے کو تسلیم کر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے جائز نہ ہوگا کہ وہ ایسے شخص کو پناہ دے جونئی بات نکالنے والا اور فتنہ انگیزی کرنے والا ہو ۔ جو ایسے شخص کی حمایت کرے گا یا اُسے پناہ دے گاوہ قیامت کے دن اللہ کی لعنت اور غضب کا مستوجب ہوگا، جہاں کوئی فدیہ اور ہدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
14: اس عہد نامے کی پابندی کرنے والے لوگوں کے درمیان جب کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف رجوع کریں گے۔

یہودیوں کے حقوق:

1 : یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر جب تک جنگ کرتے رہیں گے تو وہ اپنے حصے کے جنگی اخراجات بھی خود ہی برداشت کریں گے۔
2: بنی عوف کے یہودی، مسلمانوں کے ساتھ ایک سیاسی وحدت متصور ہوں گے۔ یہودی اپنے دین پر رہنے کے مجاز ہیں اور مسلمان اپنے دین پر ۔ خواہ موالی ہوں یا اصل، لیکن ظلم اور جرم کے مرتکب افراد اپنی ذات اور اپنے گھرانے کے سوا کسی اور کو مصیبت میں نہیں ڈالیں گے۔
3: بنو نجار کے یہودیوں کے بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کے ہیں ۔
4: بنو حارث کے یہودیوں کے وہی حقوق ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کے ہیں۔
5 : بنو ساعد کے یہودیوں کے حقوق بھی وہی ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کے ہیں۔
6 بنو جشم کے یہودیوں کے حقوق بھی وہی ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کے ہیں۔
7: بنو اوس کے یہودیوں کے بھی وہی حقوق ہیں جو بنو عوف کے یہودیوں کے ہیں۔
8 : بنو ثعلبہ کے یہودی بھی انہی حقوق کے مستحق ہوں گے جن کے بنو عوف کے یہودی ہیں، مگر جو ظلم اور جرم کا ارتکاب کرے گا اُس کی مصیبت اور اُس کا وبال صرف اُس کی ذات اور اُس کے گھرانے پر ہوگا۔
9 : جفنہ، بنو ثعلبہ کی شاخ ہیں، لہذا جفنہ کے یہودیوں کے حقوق بنو ثعلبہ کے یہودیوں کے حقوق کے برابر ہوں گے۔
10: وفاشعاری کی صورت میں یہود بنی شطبیہ کے حقوق وہی ہوں گے جو یہود بنی عوف کے ہیں۔
11: بنو ثعلبہ کے موالی کے حقوق وہی ہوں گے جو اصل کے ہیں۔
12: یہودیوں کے تمام موالی کے وہی حقوق ہوں گے جو اصل کے ہیں۔

قیام امن اور دفاع کی مشترکہ ذمے داریاں :

1: معاہدے کا کوئی فریق بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کسی سے جنگ کرنے یا جنگ کے ارادے سے نکلنے کا مجاز نہیں ۔
2: زخم کا بدلہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ خونریزی کے مرتکب کی ذمے داری اُس کی ذات اور اُس کے گھر پر عائد ہوگی ۔ مظلوم کے ساتھ اللہ ہے۔
3: یہودی اپنے خرچ کے ذمے دار ہوں گے اور مسلمان اپنے خرچ کے ذمے دار ہوں گے۔
4: اس معاہدے کے شریک کسی فریق کے خلاف اگر کوئی جنگ کرے گا تو تمام شرکا ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ آپس میں مشورہ کریں گے۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی اور وفاشعاری کا رویہ اختیار کریں گے اور عہد شکنی سے اجتناب کریں گے۔
5 : کسی شخص کو حلیف کی بد عملی کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ مظلوم کی ہر حالت میں مدد کی جائے گی۔
6: یہودی جب تک مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کرتے رہیں گے، وہ جنگ کے اپنے مصارف خود برداشت کریں گے۔
7: معاہدے میں شریک تمام فریقوں کے لیے یثرب کا میدان مقدس و محترم ہوگا۔
8: پناہ حاصل کرنے والے کے ساتھ وہی برتاؤ ہو گا جو پناہ دینے والے کے ساتھ ہو رہا ہو، نہ اُسے نقصان پہنچایا جائے گا اور نہ وہ عہد شکنی کرے گا۔
9: کسی عورت کو اُس کے خاندان والوں کی اجازت کے بغیر پناہ نہیں دی جائے گی۔
10 : اس معاہدے میں شریک افراد یا گروہوں کے درمیان کوئی نئی بات ، معاملہ یا جھگڑا پیدا ہو جائے ، جس سے فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ عہد نامے کی اس دستاویز میں جو کچھ درج ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پوری احتیاط اور وفاشعاری کے ساتھ اس کی پابندی کی جائے۔
11 : نہ قریش کو پناہ دی جائے گی اور نہ اُن کے کسی معاون کو ۔
12: یثرب پر حملے کی صورت میں معاہدے کے شرکا یعنی مسلمانوں اور یہودیوں پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔
13 : اگر یہودیوں کو صلح کر لینے اور اس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی تو وہ اُسے قبول کریں گے۔ اسی طرح اگر یہودی مسلمانوں کو شرکت کی دعوت دیں گے تو اُسے قبول کرنا بھی ان پر لازم ہوگا لیکن اس کا اطلاق ایسی جنگ پر نہ ہو گا جو خالص دین کے لیے ہو۔
14: معاہدے میں شریک ہر شخص اور گروہ پر یثرب کے اُسی حصے کی ذمے داری ہوگی جو اُس کے سامنے یعنی بالمقابل ہوگا۔
15 : اوس کے یہودیوں کو خواہ وہ مولی ہوں یا اصل وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اس معاہدے کو قبول کرنے والوں کو حاصل ہیں۔
16: اس عہد نامے کے حکم میں ظالم اور خطا کار داخل نہیں۔ جو جنگ کے لیے نکلے وہ بھی اور جو گھر میں بیٹھا رہے وہ بھی اس کا حقدار ہوگا۔
17: اللہ تعالیٰ اُس کا حامی و نگہبان ہے جو اس اقرار و عہد میں مخلص اور سچا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے حامی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے