الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: { نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ . وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا يَبِعْ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ . وَلَا يَخْطُبْ عَلَى خِطْبَتِهِ . وَلَا تَسْأَلْ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْفِئَ مَا فِي صَحْفَتِهَا } .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے خرید وفروخت کرے، تم قیمت بڑھانے کے لیے بولی نہ لگاؤ، نہ ہی کوئی شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے سودے پر سودا کرے اور نہ وہ اس کے شادی کے پیغام پر (اپنی) شادی کا پیغام بھیجے اور نہ ہی کوئی عورت اپنی (مسلمان) بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تا کہ جو اس کی پلیٹ میں ہے وہ خود حاصل کرلے ۔
شرح المفردات:
خطبة: شادی کا پیغام منگنی ۔
صحفه: پلیٹ نما کوئی بھی برتن ۔
شرح الحديث:
اگر ایک شخص کسی کے ساتھ خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کر رہا ہو تو دوسرے کو ان کے سودے میں دخل اندازی کر کے خریدار کو اپنے سودے کی طرف ہرگز نہیں بلانا چاہیے، اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مشتری کسی بائع سے کوئی چیز خرید رہا ہو تو کوئی دوسرا بائع پہلے کے گاہک کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے جان بوجھ کر اپنی چیز کی کم قیمت کی آواز میں لگانا شروع ہو جائے تاکہ وہ اسے چھوڑ کر اس کے پاس چلا آئے۔ لیکن اگر خریدار کا پہلے بائع سے سودا نہ ہو پائے اور وہ اپنی مرضی سے اس سے نہیں خرید تا تو پھر اسے دوسرا بائع اپنے سودے کی طرف بلا سکتا ہے۔
(274) صحيح البخاري، كتاب البيوع ، باب لا يبيع على بيع أخيه — ، ح: 2140 – صحيح مسلم ، كتاب النكاح ، باب تحريم الخطبة على خطبة أخيه — ، ح: 1413