سوال
میرا خاوند اپنی ساری تنخواہ مجھے لا کر دیتا ہے تاکہ میں جس طرح چاہوں اسے خرچ کروں، کیا میرے لیے اس کی اجازت کے بغیر صدقہ و خیرات کرنا جائز ہے، یاد رہے کہ اگر اسے علم ہو جائے تو وہ خوش اور راضی ہو گا؟
جواب
اگر بیوی کو یہ معلوم ہو کہ اس کا خاوند اس عمل سے راضی ہو گا، تو اس کے لیے خاوند کے مال سے صدقہ و خیرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عورت اتنا صدقہ و خیرات کر سکتی ہے جس کے بارے میں اسے علم ہو کہ اس کا خاوند اس پر ناراض نہیں ہو گا، لیکن زیادہ مال صدقہ و خیرات کرنے کے لیے خاوند کی اجازت لینا ضروری ہے۔
قرآنی احادیث
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
"اگر عورت بغیر کسی خرابی کے خاوند کے گھر سے خرچ (صدقہ) کرتی ہے تو اسے اس کا اجر وثواب حاصل ہوگا، اور اس کے خاوند کو بھی کمائی کا اجر وثواب ملے گا، اور بیوی کو جو خرچ کیا ہے، کا اجر وثواب ملے گا، اور خزانچی کو بھی اسی طرح اجر حاصل ہوگا، ان کے اجر وثواب میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔”
(بخاری 1425، مسلم 1024)
سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا:
"اے اللہ کے نبی ﷺ! میرے پاس وہی کچھ ہوتا ہے جو مجھے زبیر دیتے ہیں، تو کیا اگر میں تھوڑا سا کسی کو دے دوں جو زبیر مجھے دیتا ہے تو مجھے کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟”
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"تم حسب استطاعت خرچ کیا کرو، اور جمع کر کے مت رکھو، ورنہ اللہ بھی تم پر روزی تنگ کر دے گا۔”
(بخاری 1434، مسلم 1029)
اجازت کی اقسام
امام نووی رحمہ اللہ مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
اجازت کی دو قسمیں ہیں:
➊ پہلی: صدقہ و خیرات اور نفقہ کی صریح اجازت۔
➋ دوسری: عرف و عادت کے مفہوم سے اجازت، مثلاً سوالی کو روٹی وغیرہ دینا جس کی معاشرت میں عادت ہو، اور اس کے متعلق عرف کے ذریعہ علم ہو کہ خاوند اور مالک ایسا کرنے پر راضی ہوگا، اس میں اس کی اجازت ہے چاہے اس نے کہا نہ بھی ہو۔
یہ علم میں رکھیں کہ یہ سب کچھ تھوڑی اور قلیل سی چیز میں ہے جس کے بارے میں علم ہو کہ عام طور پر خاوند راضی ہو گا، اور اگر متعارف اور عادت سے زیادہ چیز ہو تو جائز نہیں ہے۔
نتیجہ
رسول کریم ﷺ کا فرمان بھی اسی بات کی تصدیق کرتا ہے:
"اگر کوئی عورت اپنے گھر کا غلہ بغیر کسی خرابی کے خرچ (صدقہ) کرتی ہے تو”
نبی ﷺ نے اس مقدار کی طرف اشارہ کیا ہے جس پر عام طور پر خاوند راضی ہو جاتا ہے۔
مزید وضاحت
فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ کے فتاویٰ جات میں درج ہے:
"اصل یہ ہے کہ عورت کو اجازت کے بغیر اپنے خاوند کے مال سے صدقہ و خیرات کرنے کا حق حاصل نہیں، مگر تھوڑی بہت چیز جو عام طور پر معروف ہو کر سکتی ہے، مثلاً پڑوسی کے ساتھ صلہ رحمی کرنا، اور سوالی کو تھوڑی سی چیز دینا جس سے خاوند کو نقصان نہ ہوتا ہو، اور اس کا اجر وثواب دونوں کو حاصل ہوگا۔
کیونکہ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے:
"جب عورت اپنے گھر کا کھانا بغیر کسی خرابی کے خرچ کرتی ہے تو اس نے جو خرچ کیا ہے، اسے اس کا ثواب حاصل ہوگا، اور اس کے خاوند کو اس نے جو کمائی اس کا اجر وثواب ملے گا، اور خزانچی کو بھی اسی طرح، ان میں سے کسی ایک کے اجر وثواب میں بھی کمی نہیں کی جائے گی۔”
(متفق علیہ)
شیخ صالح الفوزان کا بیان
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"رہا مسئلہ عورت جو اپنے خاوند کے مال سے خرچ کرتی ہے اور خاوند اسے ایسا کرنے سے منع نہیں کرتا، اور بیوی کو بھی خاوند کے متعلق اس کا علم ہے تو پھر ایسا کرنے میں کوئی مانع نہیں، لیکن اگر خاوند اسے ایسا کرنے سے منع کرتا ہے تو پھر یہ جائز نہیں ہوگا۔”