حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو حکومت نہیں مل سکتی
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو امیروں (کام) کا تذکرہ آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی رائے زنی کرنی چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم نہ بولو اس لیے کہ یہ امارت نہ تمہارے لیے ہے اور نہ تمہاری اولاد کے لیے۔
[ميزان الاعتدال : 360/1 وذكره ابن الجوزي فى الموضوعات 98/3 وذكره السيوطي فى اللالي 227/1]
اس روایت کا راوی اسحاق بن یحیی بن طلحہ بن عبید اللہ ہے۔ یہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔ اور حضرت طلہ رضی اللہ عنہ چونکہ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکریوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ اس لیے اغلب گمان یہ ہے کہ ان کا یہ پوتا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض معلوم ہوتا ہے۔ اور اپنے مافی الضمیر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسو ب کر کے بیان کرنا چاہتا ہے۔
اسحق بن یحیی :
یحیی بن سعید القطان فرماتے ہیں یہ اسحاق کچھ نہیں۔ یحیی بن معین کا قول ہے کہ اس کی روایت نہ لکھی جائے۔ امام احمد اور نسائی کا قول ہے کہ یہ متروک ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ محدثین کو اس کے حافظہ میں کلام ہے۔
ابن حبان کتاب الثقات میں فرماتے ہیں اسحق کا انتقال خلافت مہدی میں ہوا ہے۔ یہ حدیث میں غلطیاں کرتا ہے۔ اور اس میں وہم کا مادہ بھی ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا تذکرہ ضعفا میں کیا ہے لیکن اگر وہ ایسی روایات پیش کرے جنہیں کوئی اور روایت نہ کرتا ہو تو وہ قابل قبول نہیں۔ اور اگر اسے دیگر لوگ بھی روایت کر رہے ہوں تو پھر اس کی روایت کوتسلیم کیا جائے گا۔ اور اتفاق سے اسے وہ تنہا روایت کر رہا ہے۔ اس لیے ابن عدی اور ذہبی نے اس کی اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ [ميزان الاعتدال : ج 1، ص 204]
علماء حدیث کو اس کے حافظ میں کلام ہے۔ اس کی حدیث بطور یاداشت لکھ لی جائے۔ [تاريخ الصغير : 17]
نسائی لکھتے ہیں یہ اسحق متروک الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين للنسائي : 19]
لیکن ہمارے نزدیک یہ اسحاق ضرور ضعیف ہے۔ لیکن کذاب اور وضاع الحدیث نہیں۔
اس لیے یہ روایت خود اس کی وضع کردہ نہیں۔ بلکہ یہ روایت کسی نے گھڑ کر اس کی جانب منسو ب کی ہے۔ کیونکہ اس روایت کو اس اسحاق بن یحیی سے عثمان بن فائد نقل کر رہا ہے۔
عثمان بن فاند :
یہ اسحاق اس عثمان سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ اس عثمان کی حدیث قطعا حجت نہیں۔ ذہبی نے اس کی ایک روایت نقل کر کے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے یہ تمام آفت اس عثمان کی ڈھائی ہوئی ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ اس عثان سے سلیمان کے علاوہ کوئی نقل نہیں کرتا اور اس کی روایت پر اعتراض ہے۔ ذہبی نے اس کی متعدد روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔ یحیی بن معین کا بیان ہے یہ کچھ نہیں ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی عام روایات درست نہیں۔ [ميزان الاعتدال : ج 3، ص51]