وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم أُتِيَ بِسَارِقِ قَدْ سَرَقَ شَمَلَةٌ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، (إِنَّ) هَذَا قَدْ سَرَقَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ: ( (مَا إِخَالُهُ سَرَقَ)) فَقَالَ السَّارِقُ: بَلَى يَارَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: ( (اذْهَبُوا بِهِ فَاقْطَعُوهُ ثُمَّ احْسِمُوهُ، ثُمَّ ائْتُونِي بِهِ)) – فَقُطِعَ فَأْتِيَ بِهِ، فَقَالَ: ( (تُبْ إِلَى اللَّهِ)) فَقَالَ: (قَدْ) تُبَتُ إِلَى اللَّهِ ، قَالَ: ( (تَابَ اللَّهُ عَلَيْكَ)) – أَخْرَجَهُ الدَّارَ قُطَنِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے ایک چادر چوری کرلی تھی انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے چوری کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے خیال میں اس نے چوری نہیں کئی چور نے کہا میں نے چوری کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو لے جاؤ اس کا ہاتھ کاٹ دو پھر اسے داغ دو پھر اسے میرے پاس لاؤ اس کا ہاتھ کاٹا گیا پھر اسے لایا گیا، آپ نے فرمایا: ”تو بہ کرو اللہ سے اس نے کہا میں نے اللہ کے حضور توبہ کی آپ نے فرمایا: ”اللہ نے تیری توبہ قبول کر لی۔ “
تحقيق و تخریج:
حدیث حسن ہے۔
[دار قطني فى الحدود: 871، حاكم: 381/4]
فوائد:
➊ چور کا بغیر کسی مار، زجر اور جبر کے چوری کرنے کا خود اعتراف کر لینا اس پر حد سرقہ نافذ عمل ہوگی۔ یا پھر دو گواہوں کو گواہی پر حد لگے گی۔
➋ چور سے قاضی یا حاکم خود اعتراف کرواسکتا ہے۔ تفتیش کے بعد حد لگے گی قاضی یا حاکم مجرم سے اعتراف کروانے کے لیے مختلف طریقے اور انداز تکلم اختیار کر سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چور سے اعتراف کروانے کے لیے منفی انداز سے پوچھا ”میرا خیال ہے اس نے چوری نہ کی ہو گی“ ۔
➌ چور کا ہاتھ کاٹتے وقت گرم تیل پاس رکھنا جس سے چور کی مقطوعہ جگہ کو داغ دیا جائے ضروری ہے۔ اسی طرح اور بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
➍ چور کا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس کو توبہ کرنے کی دعوت دینا سنت ہے۔ چور کے لیے ضروری ہے کہ وہ توبہ تائب بھی ہو جائے ۔ معلوم ہوا کہ چوری ایک ایسی عادت ہے کہ ہاتھ کٹ جانے کے بعد بھی اس کا نشہ نہیں اترتا الا یہ کہ جس کو اللہ توفیق دے دے۔
➎ جو بھی صدق دل سے معافی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دیتے ہیں۔ خواہ کتنا بڑا پاپی ہو۔ اللہ تعالی تو سوال نہ کرنے والے سے ناراض ہوتے ہیں۔