حاملہ اور مرضعہ کے روزے کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

حاملہ اور مرضعہ کے روزے کا حکم
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت بھی حکم میں مسافر کی طرح ہی ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة وعن الحبلى والمرضع الصوم
”بیشک الله تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور نصف نماز ، اور حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون سے (صرف) روزہ ساقط کر دیا ہے۔“
[حسن صحيح: صحيح أبو داود: 2107 ، أحمد: 347/4 ، أبو داود: 2308 ، ترمذي: 715 ، نسائي: 180/4 ، ابن ماجة: 1667 ، ابن خزيمة: 2032 ، عبد بن حميد: 431]
جو شخص ایسی حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمے روزے تھے تو اس کا ولی (یعنی وارث ) اس کی طرف سے روزے رکھے
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من مات وعليه صيام صام عنه وليه
[بخاري: 1952 ، كتاب الصوم: باب من مات عليه صوم ، مسلم: 1147 ، أحمد: 69/6 ، أبو داود: 2400 ، بيهقى: 255/4 ، أبو يعلى: 4417 ، ابن خزيمة: 2052 ، دار قطني: 194/2 ، بيهقي: 255/4]
مسند بزار کی جس روایت میں یہ لفظ زائد ہیں ان شاء ”اگر چاہے (تو وارث روزے رکھے ) ۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: التعليقات الرضية على الروضة الندية: 23/2 ، كشف الأستار عن زوائد البزار: 1023 ، 481/1 ، مجمع الزوائد ميں هے كه اس كي سند حسن هے۔ 179/3 ، حافظ ابن حجرؒ نے ابن لهيعه راوي كي وجه سے اسے ضعيف كها هے۔ تلخيص الجير: 457/6 ، فتح الباري: 157/4]
امام بیہقیؒ ”خلافیات“ میں رقمطراز ہیں کہ یہ سنت ثابت ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ اہل حدیث کے درمیان اس مسئلے میں (کہ ولی روزے رکھے گا ) کوئی اختلاف ہو۔
[فتح الباري: 706/4 ، نيل الأوطار: 213/3]
(احمدؒ ، اوزاعیؒ) اس کے قائل ہیں (لیکن ان کے نزدیک میت کی طرف سے صرف نذر کا روزہ ہی رکھا جا سکتا ہے)۔ ایک روایت کے مطابق امام شافعیؒ بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
(مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) کسی صورت میں بھی میت کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جا سکتا۔ بلکہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دینا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی فتوی ہے اور امام شافعیؒ سے بھی ایک روایت کے مطابق یہی قول مروی ہے ۔
[الحاوي: 452/3 ، المغنى: 399/4 ، الأم: 144/2 ، بدائع الصنائع: 103/2 ، المبسوط: 89/3 ، الكافي: ص / 122 ، الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف: 334/3 ، نيل الأوطار: 214/3]
(راجح) میت کی طرف سے میت کا ولی روزے رکھ سکتا ہے اور اس میں نیابت درست ہے کیونکہ صحیح حدیث اس پر شاہد ہے ۔ جو لوگ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کے قائل ہیں ان کی دلیل ضعیف روایت ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من مات وعليه صيام أطعم عنه مكان كل يوم مسكينا ”جو شخص اس حال میں فوت کہ اس کے ذمے روزے تھے تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 389 ، كتاب الصيام: باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه ، ترمذي: 718 ، ابن ماجة: 1757]
علماء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ میت کی طرف سے روزے رکھنا واجب ہے یا مستحب ۔
(جمہور ) استحباب کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 214/3]
(ابن حزمؒ) میت کی طرف سے روزے رکھنا واجب ہے۔
[المحلى: 420/4]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[الروضة الندية: 551/1]
(امیر صنعانیؒ ) اس میں اصل وجوب ہی ہے۔
[سبل السلام: 894/2]
(البانیؒ) یہ عمل واجب نہیں ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 25/2]
◈ واضح رہے کہ وعليه صيام سے نقل نہیں بلکہ ایسے روزے مراد ہیں جو اس پر فرض ہوں مثلا رمضان یا نذر وغیرہ کے روزے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1