حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا روزہ
 تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

اللہ رب العزت کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے آسان ترین دین کا انتخاب کیا ہے اور ان کو رخصتوں سے نوازا ہے، حاملہ عورت اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو یہ رخصت عنائت فرمائی ہے کہ کہ اگر وہ اپنی جسمانی کمزوری یا اپنے بچے کی کمزوری یا دودھ میں نقصان کا خدشہ محسوس کریں تو روزہ نہ رکھے، بلکہ ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھادے، اس پر قضاء بھی نہیں ہے، جیساکہ سیدنا انس بن مالک الکبعیؓ سے روایت ہے:

أ غارت علینا خیل رسول اللہ ﷺ فاتیت رسول اللہ ﷺ، فو جد تّہ یتغدّی، فقال : ادن ، فکل ، فقلت: انّی صائم ، فقال: ادن أحدّثک عن الصّوم أوالصّیام، انّ اللہ تعالیٰ وضع عن المسافر الصّوم وشطر الصّلاۃ، وعن الحامل أو المرضع الصّوم أالصّیام، واللہ !لقد قالھما النّبیّﷺ کلتیھما أو احد اھما، فیالھف نفسی أب کا أکون طعمت من طعام النّبیّ ﷺ۔ 

"ہم پر اللہ کے رسول ﷺ کے گھوڑے چڑھ آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ دوپہر کا کھانا کھارہے تھے ، آپ نے فرمایا، قریب ہو اور کھا، میں نے عرض کی، میں روزے دار ہوں ، فرمایا ، قریب ہو جا کہ میں تجھے روزے یا روزوں کے بارے میں بتاؤں ، یقیناََ اللہ تعالیٰ نے مسافر کو روزہ اور آدھی نماز معاف کردی ہے، نیز حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی روزہ یا روزے معاف کریئے ہیں ، اللہ کی قسم ! نبی کریم ﷺ نے یہ دونوں کلمات (روزہ یا روزے) کہے یا ان دونوں میں سے ایک کہا ، افسوس کہ میں نے نبی کریم ﷺ کا کھانا نہ کھایا!”( سنن ابی داؤ د: ۲۴۰۸، سنن النسائی۲۲۷۹، سنن الترمزی:۷۱۵، واللفظ لہ، سنن ابن ماجہ:۱۶۶۷، حسن) .

اس حدیث کو امام ترمذی ؒ نے "حسن ‘‘ اور امام ابنِ خزیمہ ؒ (۲۰۴۴) نے "صحیح‘‘ کہا ہے۔

۞     سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا جسے اپنے بچے کے نقصان کا خطرہ  ہو، آپ نے فرمایا ، وہ روزہ چھوڑدے ، اس کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک”مد”(تقریباََ نصف کلوگرام) گندم دے دے ۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی : ۲۳۰/۴، وسندۂ صحیح )

۞     سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے ایک حاملہ عورت نے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

أفطری، أطعمی عن کل یوم مسکیناً ولا تقضی.

تو روزہ چھوڑدے اور ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھا نا کھلا دے ، پھر قضائی نہ دے۔” (سنن الدار قطنی : ۲۰۷/۱، ح : ۲۳۶۳، وسندۂ صحیح) .

۞  نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ  کی ایک بیٹی ایک قریشی کے نکاح میں تھی ، وہ حاملہ  تھی، رمضان میں اس نے پیاس محسوس کی تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ روزہ چھوڑدے ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلادے۔ (سنن الدار قطنی : ۲۰۷/۱، ح:۲۳۶۴، وسندۂ صحیح) .

۞     سیدناعبد اللہ بن عباس ؓ فرمان، باری تعالیٰ ( وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ) (البقرۃ:۱۸۴) کی تفسیر میں فرماتے ہیں (اثبتت للحبلی والمرضع . "یہ آیت حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے ثابت (غیر منسوخ ) رکھ گئی ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد : ۳۲۱۷، وسندۂصحیح) .

۞     عظیم تابعی سعید بن جبیر ؒ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عوت جو اپنے بچے کے حوالے سے خائف ہو، کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلادیں ، چھوڑے ہوئے روزے کی قضائی بھی ان دونوں پر نہیں ہے۔ (مصنف عبد الرزاق: ۲۱۶/۴، ح ۷۵۵۵، وسندۂ صحیح ).

بعض اہل علم کا یہ کہنا کہ یہ دونوں روزے کی قضائی بھی دیں گی، بے دلیل ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔

الحاصل:

حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھا نا کھلادیں ، ان پر کوئی قضائی نہیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!