حائضہ کی طلاق کا حکم
سوال: (سائلہ ) دو بچوں کی ماں ہے اور اس کے خاوند نے اس کو طلاق دے دی ہے ، لیکن وہ طلاق کے وقت پاک نہ تھی اور اس نے اپنے خاوند کو اپنی ناپاکی کی خبر نہ دی ، حتی کہ جب وہ فیصلے کے لیے قاضی کے پاس گئے تو اس نے قاضی سے بھی اس کو مخفی رکھا ، اس نے صرف اپنی ماں کو بتایا کہ وہ طلاق کے وقت پاکی کی حالت میں نہ تھی ۔ چنانچہ اس کی ماں نے کہا کہ قاضی کو اس بات کی خبر نہ دینا وگرنہ تجھ پر طلاق نہیں پڑے گی ۔ (بہرحال قاضی سے طلاق کا فیصلہ لے کر) پھر وہ اپنے میکے میں چلی گئی ۔ پھر اس نے بچوں کے آوارہ ہو کر ضائع ہونے کے خوف سے اپنے خاوند سے رجوع کرنے کا ارادہ کیا ، لہٰذا عورت کی ماہواری کے دوران دی جانے والی مذکورہ طلاق کاکیا حکم ہے؟
جواب: عورت کو ماہواری کے دوران دی جانے والی طلاق میں اہل علم کا اختلاف ہے اور انہوں نے اس پر طویل بحث کی ہے کہ ماہواری میں دی جانے والی طلاق واقع ہونے والی ہو گی یا لغو اور فضول ۔ جمہور اہل علم کا مؤقف یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہو جائے گی اور مرد کی طرف سے ایک طلاق شمار ہوگی ، لیکن مرد کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنی بیوی کو واپس لوٹائے اور اس کو حیض سے پاک ہونے تک چھوڑ دے ، پھر جب اسے دوبارہ حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہو تو اب وہ چاہے تو اسے اپنے پاس روکے اور چاہے تو اسے طلاق دے دے ۔ یہ مذہب جمہور اہل علم کا ہے ، جن میں ائمہ اربعہ امام احمد ، شافعی ، مالک اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ شامل ہیں ۔
لیکن ہمارے نزدیک راجح مذہب وہ ہے جس کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے کہ بلاشبہ حالت حیض میں دی گئی طلاق واقع اور جاری نہیں ہوتی ہے ، کیونکہ حالت حیض میں طلاق دینا اللہ اور اس کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہے ۔ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد [صحيح مسلم ، رقم الحديث 11718]
”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں تو وہ عمل (اللہ کے ہاں ) مردود ہے ۔ “
اس خاص مسئلہ کے خلاف شریعت ہونے کی دلیل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جب وہ حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے بیٹھے تھے ، عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کی اس کارستانی سے آگاہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آگئے اور فرمایا:
مرہ فليراجعها ثم يتركها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر ثم إن شاء أمسك وإن شاء طلق ، قال النبى صلى الله عليه وسلم: فتلك العدة التى أمر الله أن تطلق عليها النساء [صحيح البخاري ، رقم الحديث 4953 صحيح مسلم ، رقم الحديث: 1471]
” (اے عمر ! ) اس (عبداللہ ) کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے ، پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے ، پھر حیض آئے اور پھر پاک ہو جائے ، پھر چاہے تو اسے رو کے رکھے اور اگر چاہے تو اس کو طلاق دے دے ، نبی صلى اللہ علیہ وسلم فرمایا:
پس یہی وہ عدت ہے جس کے حساب سے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے ۔“
پس وہ عدت جس میں اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے وہ یہ کہ انسان ان کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے جماع نہ کیا ہو ، اس بنیاد پر اگر وہ حالت حیض میں ان کو طلاق دے گا تو گویا اس نے اللہ کے حکم کے مطابق طلاق نہیں دی ، لہٰذا وہ مردود ہوگی ۔ پس وہ طلاق جو مذکورہ عورت کو دی گئی ہے ہمارے خیال کے مطابق وہ واقع نہیں ہوئی ہے اور عورت اپنے خاوند کے نکاح میں ہی رہے گی ۔ مرد کے اس کو طلاق دیتے وقت اس کے پاک یا ناپاک ہونے کے متعلق علم ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔
جی ہاں ! اس کے علم کا کوئی اعتبار نہیں لیکن اگر وہ جانتا تھا کہ عورت ناپاک ہے پھر اس نے طلاق دی تو وہ اس میں محض گنہگار ہوگا ، طلاق واقع نہیں ہوگی ۔ اور اگر اسے عورت کے ناپاک ہونے کا علم نہیں تھا تو وہ وقوع طلاق میں بری الذمہ ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ (محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ )