سوال : کیا حائضہ عورت مسجد میں جا سکتی ہے ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب : حائضہ عورت کے مسجد میں جانے کے بارے میں کافی اختلافات ہیں لیکن زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ حائضہ اور جنبی مسجد میں سے باہر مجبوری گزر سکتے ہیں۔ انہیں وہاں ٹھہرنا نہیں چاہیے، قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا جا سکتا ہے :
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ [4-النساء:43]
” نشے کی حالت میں نماز ( اور نماز کی جگہ) کے قریب نہ جاؤ حتیٰ کہ ( تمھارا نشہ اتر جائے اور ) تمہیں معلوم ہو جائے جو تم کہہ رہے ہو، نیز جنبی بھی (مسجد کے قریب نہ جائے ) گر راہ عبور کرنے یا گزرنے کے لیے۔ “
نوٹ : جس جگہ واقعتاً نماز ادا کی جا رہی ہے، وہ جگہ تو مسجد ہے لیکن اگر چھت پر نماز ادا نہیں کی جاتی تو وہ مسجد کے حکم میں نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ کون سی جگہ مسجد قرار دی گئی ہے ؟ اگر چھت پر جماعت نہیں ہوتی تو کوئی حرج نہیں وہاں حائضہ اور جنبی جا سکتے ہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان المسجد لا يحل لجنب و لا خائض
[ابن ماجه، كتاب الطهارة وسننها : باب فى ما جاء فى أجتناب الحائض المسجد 645 ]
” مسجد میں حائضہ اور جنبی کا داخل ہونا حلال نہیں۔ “
سوال : میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ عورت کا حیض و نفاس کی حالت میں نماز پڑھنا، اس سے جماع کرنا، مسجد میں داخل ہونا، روزہ رکھنا اور قرآن چھونا وغیرہ سب حرام ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں، خاص طور پر مسجد میں داخل ہونا اور قرآن کو چھونے کے متعلق وضاحت کریں ؟
جواب : حیض و نفاس کی حالت میں نماز، روزہ، وطی اور مسجد میں داخل ہونا منع ہے، قرآن کو چھونا مختلف فیہ ہے۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عید الاضحیٰ یا عیدالفطر کو عیدگاہ کی طرف نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : ’’ اے عورتوں کے گروہ صدقہ کیا کرو تم مجھے اکثر جہنم میں دکھلائی گئی ہو۔ “ اُنھوں نے کہا: ”کس وجہ سے اے اللہ کے رسول ! ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم کثرت سے لعن طعن کرتی ہو اور شوہروں کے ساتھ کفر کرتی ہو، میں نے کوئی ایسا کم عقل اور کم دین نہیں دیکھا جو تم سے بڑھ کر عقل مند آدمی کی عقل کو زائل کرنے والا ہو۔ “ عورتوں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! ہمارے دین اور عقل کا نقصان کیا ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل ؟ قلن بلى
”کیا عورت کی گواہی آدمی کی گواہی سے آدھی نہیں ہے ؟“ انہوں نے کہا: ”کیوں نہیں۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ ان کی عقل کا نقصان ہے۔ “ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أليس إذا حاضت لم تصل و لم تصم ؟ قلن بلى، قال فذلك من نقصان دينها [ بخارى، كتاب الحيض، باب ترك الحائض الصوم 304 ]
”کیا جب عورت ایام ماہواری میں ہو گی تو (کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ ) نہ نماز پڑھے گی اور نہ روزہ رکھے گی ؟ “ (طہارت کی حالت میں روزہ قضا کرے گی، نماز کی قضا نہیں ہو گی) انہوں نے کہا: ”کیوں نہیں۔ “ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ یہ ان کے دین کا نقصان ہے۔ “
حالت نفاس کا بھی یہی حکم ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كانت النفساء على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم تقعد بعد نفاسها اربعين يوما، او اربعين ليلة [ ابوداود، كتاب الطهارة : باب ما جاء فى وقت النفساء 311، ابن ماجه، كتاب الطهارة : باب النفساء كم تجلس 648، ترمذي، كتاب الطهارة، باب ما جاء فى كم تمكث النفساء 139 ]
”نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اپنے نفاس کے بعد چالیس دن یا چالیس راتیں بیٹھی رہتی تھیں۔ “
ایک دوسری روایت میں ہے کہ مسہ ازدیہ کہتی ہیں کہ میں نے حج کیا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، میں نے کہا: ”اے ام المؤمنین ! بے شک سمرہ بن جندب عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ حیض والی نمازیں قضا کریں۔ “ وہ کہنے لگیں : ”قضا نہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ایک عورت چالیس راتیں نفاس میں بیٹھتی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نفاس کی حالت والی نماز قضا کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔ “ [ابوداؤد، كتاب الطهارة، باب ما جاء فى وقت النفساء 312، حاكم 175/1، بيهقي 341/1]
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام ذھبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
و قد اجمع اهل العلم من أصحاب النبى والتابعين و من بعدهم على ان النفساء تدع الصلاة أربعين يؤما إلا أن ترى الطهر قبل ذلك فإنها تغتسل و تصلى [ترمذى مع تحقيق احمد شاكر 258/1]
شیخ احمد شاکر فرماتے ہیں کہ یھی مذہب صحیح ہے اور حدیث کے موافق ہے۔
” اہل علم اصحاب النبی، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن نماز چھوڑیں گی۔ ہاں اگر وہ چالیس دن سے پہلے طہر کی حالت دیکھ لیں تو غسل کریں اور نماز پڑھیں۔ “
حالت حیض میں جماع اور ہم بستری بھی ممنوع ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ [2-البقرة:222]
” اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیں وہ گندگی ہے۔ حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ جب وہ ستھرائی کر لیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ “
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حیض والی ہو جاتی تو وہ اسے گھر سے نکال دیتے اور گھر میں نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ جماع کرتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی : وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ آخر آیت تک۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ان کو گھروں میں رکھو اور اجماع کے علاوہ باقی تمام کام کرو۔ “یہودیوں نے کہا کہ یہ شخص ہر معاملے میں ہماری مخالفت چاہتاہے۔ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگئے : ”اے اللہ کے رسول ! بے شک یہودی اس طرح کہتے ہیں، کیا ہم حالت حیض میں عورتوں سے جماع نہ کریں ؟“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا حتی کہ ہم نے سمجھ لیا کہ آپ ان دونوں سے ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ دونوں وہاں سے نکلے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو دودھ کا تحفہ بھیجا گیا تو ہم نے سمجھا کہ آپ ان سے ناراض نہیں ہیں۔ “
[ ابوداؤد، كتاب الطهارة، باب فى مؤاكلة الحائض و مجامعتها 258، مسلم، كتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها 302، ترمذي، كتاب تفسير القرآن، باب و من سورة البقرة 2977، نسائي، كتاب الطهارة، باب تاويل قول الله عزو جل وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ 289، ابن ماجه، كتاب الطهارة و سننها : باب ما جاء فى مواكلة الحائض و سورها 644]
اس آیت قرانی اور صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت سے حالت حیض میں صحبت و جماع حرام ہے۔ البتہ اس کے ہاتھ کا کھانا پینا، کنگھی وغیرہ جیسے دیگر امور جائز و درست ہیں۔
اگر حالت حیض میں صحبت کر بیٹھتے تو اسے ایک دینار یا نصف دینار صدقہ دینا پڑے گا جیسا کہ صحیح حدیث سے یہ مسلہ ثابت ہے۔
[ ابوداود، كتاب الطهارة، باب فى اتيان الحائض 264، ترمذي، ابواب الطهارة : باب ما جاء فى الكفارة فى ذالک 136، ابن ماجه، كتاب الطهارة و سننها، باب فى كفارة من اتي حائضا 630 ]
حالت حیض میں عورت مسجد کے اندر عبادت کے لیے نہیں جا سکتی البتہ مسجد سے گزر سکتی ہے اور کوئی چیز مسجد سے اٹھانا ہو تو اٹھا سکتی ہے۔ اس کی رخصت ہے، جیسا کہ سورۂ نساء آیت (33) میں جنبی کو جنابت کی حالت میں مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی رخصت دی گئی ہے۔ حیض و نفاس کی ناپا کی جنابت سے بڑی معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا حیض و نفاس کی صورت میں بھی مسجد کے اندر ٹھہرنا نہیں چاہیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” ناوليني الخمرة من المسجد، فقلت : إني حائض، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن حيضتك ليست فى يدك
[ ابوداود، كتاب الطهارة : باب فى الحائض تناول من المسجد 261، مسلم، كتاب الحيض : باب جواز غسل الحائض رأس زوحها 298، ترمذي، ابواب الطهارة : باب ما جآء فى الحائض تناول الشي ء من المسجد 134، نسائي، كتاب الطهارة : باب استخدام الحائض 383 ]
”مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مجھے مسجد سے چٹائی پکڑا دو“ میں نے کہا: ”میں حائضہ ہوں۔ “ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بلاشبہ تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ “
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے :
وهو قول عامة أهل العلم لا نعلم بينهم إختلافا فى ذلك بأن لا بأس أن تتناول الحائض شيئا من المسجد [ ترمذي بتحقيق احمد شاكر 242/1 ]
یہ عام اہل علم کا قول ہے۔ اس مسئلہ میں ہم ان کے درمیان اختلاف نہیں جانتے کہ حائضہ کا مسجد سے کسی چیز کے پکڑا نے میں کوئی حرج نہیں۔ “
رہا حائضہ عورت کا قرآن پاک کو چھونا تو اس کی ممانعت میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔ اہل علم اس کے بارے میں مختلف ہیں۔ البتہ افضل اور بہتر یہی ہے کہ مسلمان عورت طہارت کی حالت میں قرآن حکیم کو چھوئے یا کوئی صاف ستھرا کپڑا قرآن مجید کے اوراق کو پلٹنے کے لیے استعمال کرے، ہاتھ لگانے سے اجتناب کرے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس صورت کے بارے میں لکھتے ہیں : ”یہ اختلاف کے بغیر جائز ہے۔ “ [ المجموع شرح المهذب 372/3 ]