اہل جاہلیت کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ جن باتوں کو وہ خالق کی طرف منسوب کرتے تھے انہیں سے مخلوق کو بچاتے تھے۔ مثلاً وہ اپنے علماء و مشائخ کو اولاد اور بیوی کے تعلق سے روکتے تھے کیونکہ ایسا خیال تھا کہ علماء اور مشائخ جو فضل و کمال کے حصول کے خواہش مند ہوتے ہیں انہیں حضرت عیسی علیہ السلام کی اقتداء میں عورتوں کے ساتھ لطف اندوری جیسے کمتر کام میں ملوث ہونے سے بلند ہونا چاہئیے۔ ان جاہلوں کی عقل کی پستی اور ذلالت کو دیکھئے اور سوچئے کہ ان کی گمرائی نے انہیں کہاں پہونچایا یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شادی بیاہ پر بھی انہوں نے اعتراض کیا اس بارے میں شاعر عراق عبدالباقی العمری الفاروقی نے بعض علماء نصاریٰ کے رد میں کتنی اچھی بات کہی ہے :
انت الذى زعم الزواج نقيصة . . . ممن حماه الله عن نقصان
تم ہی شادی کو عیب سمجھتے ہو . . . اس کے لئے جس کو اللہ نے عیب ونقص سے محروم رکھا ہی
ونسيت تزويج الاله بمريم . . . فى زعم كل مثلث نصراني
اور تم بھول گئے کہ نام تثلیت پرست عیسائی (معاذ اللہ) مریم کے ساتھ اللہ کی شادی کے معتقد ہیں
اور وہی عرب جو ایک طرف ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہا کہتے تھے وہی دوسری طرف لڑکیوں سے نفرت بھی کرتے تھے، بلکہ ان کو مار ڈالنے اور زندہ درگور کرنے کی بری رسم کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اور اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جنہیں خود اپنے لئے برا سمجھتے تھے۔
حاصل کلام یہ کہ یہ سب خرافات ان میں محض اس لئے تھیں کہ وہ انبیاء کی تعلیمات سے ناواقف اور عقل و شعور سے کورے تھے، ورنہ اہل فکر و نظر کو ان باتوں سے کیا واسطہ؟