تقلید کیا ہے؟
لفظ تقلید کو کئی معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔ بعض علماء کی طرف سے اتباع کو بھی تقلید کہا گیا ہے وہاں پر لغوی تقلید مراد ہے جبکہ اصطلاحی تقلید ان کے نزدیک بھی ناجائز ہے۔ حنفیہ جس تقلید کے قائل و فاعل ہیں وہ اصطلاحی تقلید ہے، مقلدین کی جانب سے علماء امت کے ایسے اقوال کو اپنی تقلید کے حق میں پیش کرنا ظلم عظیم ہے، ائمہ عظام ایسی تقلید سے بری ہیں۔
حدیث کی طرف رجوع اتباع کہلاتا ہے بعض ائمہ نے اسے تقلید کہہ دیا ہے جیسا کہ امام طحاوی نے فرمایا:
’’ فذهب قوم إلى هذا الحديث فقلدوه‘‘
پس ایک قوم اس حدیث کی طرف گئی ہے، پس انہوں نے اس حدیث کی تقلید کی ہے۔
(شرح معانی الآثار ٣/٤)
اور اسی طرح شاہ ولی اللہ دہلویؒ کہتے ہیں:
وجـمہـور الـمـجتهدين لا يقلدون إلا صاحب الشرع .
جمهور مجتہدين رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی کی بھی تقلید نہیں کرتے تھے۔
(حجۃ اللہ البالغہ ۱۵۲/۱)
بعض نے عامی کا اہل علم سے سوال کرنے پر بھی اسی لفظ کا اطلاق کیا ہے جیسا کہ امام خطیب بغدادی وغیرہ نے علماء سے سوال کو بھی تقلید کہہ دیا ہے۔
(الفقيه والمتفقه ۲/ ۱۳۱)
اسی طرح بعض کی طرف سے اجماع امت کے ماننے کو بھی تقلید کہا گیا ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
فإن علم أن مقلده مصیب كتقليد الرسول أو أهل الإجماع فقد قـلـده بـحـجة وهو العلم بأنه عالم وليس هو التقليد المذكور وهذا التـقـلـيـد واجب؛ للعلم بأن الرسول معصوم؛ وأهل الإجماع معصومون .
اگر مقلد کو یقین ہو کہ وہ جس کی تقلید کر رہا ہے وہ حق پر ہے جیسے رسول اللہ ﷺ اور اہل اجماع کی تقلید کرنا تو گویا کہ اس نے دلیل کی تقلید کی ہے اور وہ علم ہے، یہ مذکورہ (مروجہ ) تقلید نہیں ہے اور یہ تقلید ( یعنی حدیث اور اجماع کو ماننا) واجب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ معصوم ہیں اور اہل الا جماع بھی معصوم ہیں۔
(مجموع الفتاوٰى ١٦/٢٠)
فائده:
علامہ ابن تیمیہ کی مذکورہ عبارت کو منظور مینگل صاحب نے اپنی تقلید کے حق میں پیش کیا ہے۔
(تحفة المناظر ، ص : ۱۱۰)
اور آدھی عبارت پیش کی ہے، ہم نے مکمل عبارت پیش کر دی ہے اور یہ بھی معلوم رہے کہ اس عبارت سے ایک دو صفحہ پہلے علامہ ابن تیمیہ مروجہ تقلید کا تفصیل رد کر آئے ہیں وہ مینگل صاحب کو نظر ہی نہیں آیا۔ نیز کتاب وسنت کی تشریح میں سلف صالحین کے آثار کی پیروی کرنے کو بھی بعض اہل علم نے تقلید کہا ہے۔
(مجموع الفتاویٰ : ۲۰/ ۹)
حقیقت یہ ہے کہ حدیث اور اجماع امت کے ماننے ،سلف صالحین کے آثار کی پیروی کرنے اور عامی کا اہل علم سے مسائل دریافت کرنے کو تقلید کا نام دینا درست نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث کو ماننا اتباع کہلاتا ہے نہ کہ تقلید، جیسا کہ ابواسحاق ابراہیم بن علی الشیرازیؒ (المتوفی ۴۷۶ھ) نے فرمایا:
’’ ولا يلزم قبول قول النبي عليهم لأن ذلك ليس بتقليد لأن التقليد قبول قول الغير حجة وقول رسول الله حجة .‘‘
نبی اکرم ﷺ کی بات قبول کرنے سے تقلید لازم نہیں آتی کیونکہ تقلید غیر نبی کی بات کو دلیل سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے جبکہ نبی اکرم ﷺ کی بات بذات خود دلیل ہے۔
التبصرة في أصول الفقه، ص : ٤٠٤)
جناب اشرف علی تھانوی صاحب نے کہا:
تقلید کہتے ہیں امتی کا قول ماننا بلا دلیل ۔ اللہ اور رسول کا حکم ماننا تقلید نہیں کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے۔
(مـلـفـوظــات حکیم الامت ١٥٩/٣)
اس پر مستزاد یہ کہ تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے جیسا کہ اس کی تعریف سے واضح ہے جبکہ حدیث بذات خود دلیل ہے۔
اور اسی طرح عامی کا علماء سے مسائل پوچھنا حکم الہٰی کے تحت واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
( فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ)
(النحل : ۴۳)
یہی بات ائمہ حدیث بلکہ علماء احناف نے بھی فرمائی ہے۔ حنفی اصول فقہ کی مشہور و معتبر کتاب ’’مسلم الثبوت‘‘ میں لکھا ہوا ہے:
فالرجوع الى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الإجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي الى العدول لايجاب النص ذلك عليهما .
پس نبی اکرم ﷺ کی طرف ( یعنی حدیث کا ماننا ) اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس ( تقلید ) میں سے نہیں ہے، اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع ( تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (کتاب وسنت کی دلیل) نے واجب کیا ہے۔
(ص: ۲۸۹)
یعنی حدیث کو ماننے ، علماء سے سوال کرنے اور گواہوں کی گواہی ماننے کو تقلید نہیں کہا جاتا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رواۃ پر جرح کو تسلیم کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ یہ بھی گواہی ہے یہی بات دیگر علماء احناف مثلاً علامہ ابن ہمام، ابن امیر الحاج، محمد بن عبد الرحمٰن الجرجانی، قاضی محمد اعلی تھانوی وغیرہ نے بھی کہی ہے حوالہ جات کے لیے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی اللہ کی کتاب ”دین میں تقلید کا مسئلہ‘‘ (ص ۸ تا ۱۲) کی طرف رجوع کریں۔
علاوہ ازیں جناب سرفراز صفدر صاحب مسلم الثبوت کی بالا عبارت کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
اس عبارت سے واضح ہوا کہ اصطلاحی طور پر تقلید کا یہ مطلب ہے کہ جس کا قول حجت نہیں اس کے قول پر عمل کرنا،
مثلاً:
عامی کا عامی کے قول اور مجتہد کا مجتہد کے قول کو لینا جو حجت نہیں ہے بخلاف اس کے آنحضرت ﷺ کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں کیونکہ آپ کا فرمان حجت ہے اور اسی طرح اجماع بھی حجت ہے اور اسی طرح عام آدمی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا ( فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) کے تحت واجب ہے اور اسی طرح قاضی کا (مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ ) اور (يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ) کی نصوص کے تحت عدول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ شرعاً ان کا قول حجت ہے۔
(الکلام المفيد، ص : ٣٥، ٣٦)
بریلوی مکتب فکر کے مشہور عالم جناب غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
شیخ ابو اسحاق نے کہا:
بلا دلیل قول قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا تقلید ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے قول کی طرف رجوع کرنا یا مجتہدین کے اجماع کی طرف رجوع کرنا، یا عام آدمی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا یا قاضی کا گواہوں کے قول پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔
(شرح صحیح مسلم : ۳۲۹/۳)
بریلوی مکتب فکر کے دوسرے مشہور عالم جناب احمد یار خان صاحب لکھتے ہیں:
مسلم الثبوت میں ہے:
التقليد العمل بقول الغير من غير حجة .
ترجمہ:
وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضورؑ کی اطاعت کرنے کو تقلید نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ ان کا قول و فعل دلیل شرعی ہے۔ لہذا ہم حضور علیہم کے امتی کہلائیں گے نہ کہ مقلد ، اسی طرح صحابہ کرام و ائمہ دین حضور ﷺ کے امتی ہیں نہ کہ مقلد، اسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گا کیونکہ کوئی بھی ان عالموں کی بات یا ان کے کام کو اپنے لیے حجت نہیں بناتا بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات مانتا ہے کہ مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے۔
(جاء الحق : ١٦/١)
ان عبارات سے چار باتیں ثابت ہوتی ہیں:
➊ رسول اللہ علیم کی طرف رجوع کرنا (یعنی حدیث کو ماننا ) تقلید نہیں ہے۔
➋ اجماع امت کو مانا تقلید نہیں ہے۔
➌ جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ہے۔
➍ قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔
اہل تقلید بھی دینی مسائل اپنے علماء ہی سے پوچھتے ہیں اس کے باوجود اپنے آپ کو اپنے علماء ومفتیان کا مقلد نہیں کہلواتے بلکہ حنفی ہی کہلوانے پر مصر ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی علماء سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے۔ محدث العصر حافظ زبیر علی زئیؒ فرماتے ہیں:
بعض لوگ غلطی اور غلط فہمی کی وجہ سے اسے ( یعنی علماء سے سوال کرنے کو ) تقلید کہتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔ ایک جاہل آدمی جب تقی عثمانی دیوبندی یا غلام رسول سعیدی بریلوی سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ شخص تقی عثمانی کا مقلد ( تقی عثمانوی) یا غلام رسول کا مقلد ( غلام رسولوی) ہے۔
(دین میں تقلید کا مسئلہ، ص : ۲۱)
اسی طرح فوت شدہ علماء و محدثین سے کتاب وسنت کی تشریح و تفصیل اور اجتہادی مسائل کا حل اخذ کرنے کو بھی بعض نے لغوی طور پر تقلید کہا ہے اسے بعض تقلید مطلق کا نام دیتے ہیں، لیکن ہم اسے تقلید نہیں کہتے۔ یہ بھی ہمارا ان (خطیب بغدادی، ابن تیمیہ وغیرہ) سے لفظی اختلاف ہے کیونکہ کتاب وسنت کی تفہیم میں ائمہ سلف واکابرین امت (صحابہ، تابعین و ائمہ دین) کا ہی فہم معتبر ہے اسی کی پر چار علماء اہل حدیث کرتے ہیں، یہی مسلک اہل حدیث ہے۔
الحمد للہ
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ فرماتے ہیں:
ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم اتباع سلف کے مامور ہیں، تقلید سلف کے مامور نہیں ہیں، تقلید اور اتباع میں بہت فرق ہے تقلید محض قول بلا معرفہ دلیل قبول کرنے کا نام ہے اور اتباع علی وجہ البصیرت قبول کرنے کا نام ہے۔
(ملاحظہ ہو: اعلام الموقعین ، تقلید شخصی و سلفی ، ص :۴۲)
عامی بھی اجتہاد کرے گا، عامی کا اجتہاد (حق تک پہنچنے کی کوشش ) علماء حق سے سوال کرنا ہے اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ اجتہاد کے بہت سے درجات ہیں، عامی کا اجتہاد علماء سے سوال کرنا اور کتاب وسنت کی دلیل طلب کرنا ہے اور دلیل کا مطالبہ کرنا تقلید نہیں ہے۔
امام شیرازیؓ نے فرمایا:
’’قلنا إنما استـوى الـعـامـي والعالم في العقليات لأنهما متساويان في آلة الإجتهاد فيها وطلب الدليل عليها‘‘
ہم کہتے ہیں کہ عقلیات میں عالم اور عامی برابر ہیں کیونکہ اس میں ان کے ملکہ اجتہاد میں برابر ہے اور دلیل کا مطالبہ کرنے کی صلاحیت بھی برابر ہے۔
(التبصرة : ٤٠٥ )
علامہ ابن حزمؒ فرماتے ہیں:
” و الـعـامي والعالم في ذلك سواء وعلى كل أحد حظه الذي يقدر عليه من الإجتهاد“
عالم اور عامی ( دونوں ) اس بارے میں برابر ہیں، ہر ایک اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق اجتہاد کرے گا۔
(النبذة الكافية، ص ۷۲)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے فرمایا:
’’ و أما أن يقول قائل إنه يجب على العامة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم“
اور اگر کوئی کہنے والا کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے تو یہ قول کسی مسلمان کا نہیں ہے۔
(مجموع الفتاوى : ٢٢/ ٢٤٩)
یمن کے مشہور عالم علامہ ابو عبد الرحمٰن مقبل بن ہادی المدخلی (المتوفی ۱۴۲۲ھ ) فرماتے ہیں:
” فالتقليد لا يجوز، والذين يبيحون تقليد العامي للعالم نقول لهم: أين الدليل؟ ثم هل العامة أكثر أم العلماء؟“
تقلید جائز نہیں ہے اور جو لوگ عامی کے لیے تقلید کو جائز کہتے ہیں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اس کی دلیل کہاں ہے؟ پھر کیا عامی زیادہ ہیں یا علماء؟
(تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب، ص : ٢٠٦)
شاہ ولی اللہ دہلویؒ (المتوفی ۱۱۷۶ھ) فرماتے ہیں:
”وقال النووي الذي يــقـتـضـيـه الدليل أنه لا يلزمه المتذهب بمذهب بل يستفتي من شاء“
نووى فرماتے ہیں دلیل اس بات کا متقاضی ہے کہ عامی پر کسی بھی (فقہی ) مذہب کی پابندی نہیں ہے، بلکہ اس کی مرضی ہے جس (عالم) سے چاہے مسئلہ پوچھ لے۔
(عقد الجيد، ص ۲۱)
مزید کہا:
” أن العامي لا مذهب له عامی کا کوئی فقہی مذہب نہیں ہوتا۔“
(ص : ٣٥)
یعنی شاہ ولی اللہ کے نزدیک عامی تقلید شخصی نہیں کرے گا بلکہ مختلف اہل علم سے مسائل پوچھ کر عمل کرے گا۔
محدث العصر حافظ زبیر علی زئیؒ فرماتے ہیں:
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جاہل آدمی پر یہ ضروری ہے کہ وہ کتاب وسنت کے صحیح العقیدہ عالم سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے لیکن اسے تقلید کہنا غلط ہے۔
(دین میں تقلید کا مسئلہ ص : ۱۲۱)
مقلدین سے سوال :
مروجہ تقلید کے قائلین کا کہنا ہے کہ عقائد، ایمانیات اور ضروریات دین میں تقلید جائز نہیں ہے جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا:
اور دین کے بنیادی عقائد میں تقلید ہمارے نزدیک بھی جائز نہیں ہے تمام اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ تقلید عقائد اور ضروریات دین میں نہیں ہوتی کیونکہ یہ اجتہاد کا محل ہے نہ تقلید کا۔
( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص: ۱۱۶)
ثابت ہوا کہ مقلدین کے نزدیک بھی عقائد اور ضروریات دین میں تقلید جائز نہیں ہے تو کیا عقائد اور ضروریات دین پر مشتمل مسائل علماء سے نہیں پوچھے جائیں گے؟ جب یہ مسائل بھی عوام علماء ہی سے پوچھے گی اور اس کے باوجود مقلد نہیں بنتی تو فروعی مسائل میں کیونکر مقلد بنے گی ؟ اگر سوال کرنا ہی تقلید ہے تو مذکورہ مسائل کے بارے میں سوال کرنے پر پابندی عائد کر دیجیے۔
کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے؟
جناب امین اوکاڑوی صاحب لکھتے ہیں:
شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :
۳۰۰ ھ کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا اور امام نووی نے بھی شرح مہذب میں یہی فرمایا ہے۔ اب مجتہد مطلق کا آنا نہ تو محال شرعی ہے نہ ہی محال عقلی ، ہاں محال عادی ہے لیکن وہ آ کر کیا کرے گا؟
(تجلیات : ۳۸۳/۳)
اجتہاد کے باقی رہنے پر علامہ جلال الدین سیوطی نے ایک مستقل رسالہ ”الرد علی من أخلد إلى الأرض“ لکھا ہے۔ اسی کتاب میں امام ذہبی سے نقل کرتے ہیں:
اے مقلد و اجتہاد کے باقی نہ رہنے کا گمان رکھنے والو! تمہیں اصول فقہ پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اصول فقہ پڑھنے کا تو فائدہ صرف اس شخص کو ہوتا ہے جو مجتہد بن سکے اگر کوئی شخص اصول فقہ جاننے کے باوجود اپنے آپ کو تقلیدی قید سے آزاد نہیں کرتا تو اس نے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالا اور اگر اس علم کو تنخواہ داری کے لیے حاصل کیا گیا ہے تو یہ بہت بڑا وبال ہے۔
(الرد على من أخلد إلى الارض ص ١٥٣)