تقلید کی شری حیثیت
تحریر: ابن جلال دین حفظ اللہ

تقلید کیا ہے ؟
◈ امام اندلس، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) نے تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
والتقليد أن تقول بقوله، وأنت لا تعرف وجه القول، ولا معناه، وتأبى من سواه، او أن يتبين لك خطأه، فتتبعه مهابة خلافه، وانت قد بان لك فساد قوله، وهذا محرم القول به فى دين الله سبحانه وتعالى.
’’ تقلید یہ ہے کہ آپ اس (معیّن شخص) کی بات کو تسلیم کر لیں، حالانکہ آپ کو نہ اس کی دلیل معلوم ہو، نہ اس کا معنیٰ اور اس کے علاوہ آپ ہر بات کا انکار کریں۔ یا یوں سمجھیں کہ آپ پر اس (معیّن شخص) کی غلطی واضح ہو جائے تو پھر بھی اس کی مخالفت سے ڈرتے ہوئے اسی کی پیروی کرتے رہیں۔ ایسا کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت میں حرام ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 787/2 ]

◈ علامہ محمد بن احمد بن اسحاق بن خواز، ابوعبداللہ مصری مالکی کہتے ہیں :
التقليد، معناه فى الشرع الرجوع إلى قول لا حجة لقائله عليه، وهذا ممنوع فى الشريعة.
’’ تقلید کا اصطلاحی معنیٰ یہ ہے کہ ایسے قول کی طرف رجوع کیا جائے جس کی قائل کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ میں یہ کام ممنوع ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 992/2 ]
↰ معلوم ہوا کہ تقلید ممنوع اور خلاف شرع ہے۔ وحی اور دین کے مقابلے میں انسانوں کی آراء کو عقائد و اعمال میں دلیل بنانا اہل ایمان کا شیوا نہیں۔ اہل علم و عقل کا اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید حرام و ممنوع ہے۔ قرآن و حدیث سے اس کی مذمت ثابت ہے، نیز ضلالت و جہالت کا دوسرا نام تقلید ہے۔

تقلید جہالت ہے :
◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) تقلید کرنے والوں کے بارے میں بیان فرماتے ہیں :
والمقلد لا علم له، ولم يختلفوا فى ذلك.
’’ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مقلد جاہل مطلق ہوتا ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 992/2 ]

◈ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) فرماتے ہیں :
والتقليد ليس بعلم باتفاق أهل العلم.
’’ اہل علم کا اتفاق ہے کہ تقلید، علم نہیں (جہالت ہے)۔ “ [اعلام االموقعين عن ارب العالمين : 169/2 ]

◈ نیز فرماتے ہیں :
فأنه ليس علما باتفاق الناس
’’ سب مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ تقلید علم نہیں (بلکہ جہالت ہے)۔ “ [اعلام االموقعين عن ارب العالمين : 215/2 ]

تقلید کی خرابیاں :
تقلید وہ بُری مؤنث ہے جو ہر وقت برائیاں جنم دیتی رہتی ہے۔ اس کے باعث انبیاء کرام علیہم السلام کو قتل کیا گیا، ان کی نبوت کا انکار کیا گیا اور ان کی دعوت کو جھٹلایا گیا۔ اسی تقلید نے انسانوں کو دین الہیٰ کا باغی بنا دیا، ان کو اللہ کے دین کے مقابلے میں دین ایجاد کرنے پر اکسایا، اجماع امت کا مخالف بنایا، حق کا دشمن بنایا اور سلف صالحین و ائمہ دین سے بیگانہ کیا۔ اسی تقلید نے انسانیت سے علم و عقل کا زیور چھین لیا اور وحدتِ امت کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے اور مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق پارہ پارہ کرتے ہوئے ہر جگہ منافرت اور کدورتوں کے بیج بو دئیے۔

◈ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تقلید کی قباحتیں ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں :
وأما المتعصبون فإنهم عكسوا القضية، ونظروا فى السنة، فما وافق أقوالهم منها قبلوه، وما خالفها تحيلوا فى رده أو رد دلالته، وإذا جاء نظير ذلك أو أضعف منه سندا ودلالة، وكان يوافق قولهم قبلوه، ولم يستجيزوا رده، واعترضوا به على منازعيهم، وأشاحوا وقرروا الاحتجاج بذلك السند ودلالته، فإذا جاء ذلك الشنذ بعينه أو أقوى منه، ودلالته كدلالة ذلك أو أقوى منه فى خلاف قولهم، دفعوه ولم يقبلوه، وسنذكر من هذا إن شاء الله طرفا، عند ذكر غائلة التقليد وفساده، والفرق بينه وبين الاتباع .
’’ متعصب لوگوں نے معاملے کو برعکس کر دیا اور جو حدیث اپنے ائمہ کے اقوال کے مطابق ملی، اسے لے لیا اور جو ان کے خلاف معلوم ہوئی، کسی نہ کسی حیلے سے اسے ردّ کر دیا، اس کا معنیٰ و مفہوم بدلنے کی کوشش کی، اس سے بہت کمزور سند والی اور کمزور دلالت والی حدیث اگر ان کے مذہب کے موافق معلوم ہوئی تو اسے قبول کر لیا، اس کو ردّ کرنے والوں کے سر ہو گئے اور اپنے مخالف کے سامنے اس پر ڈٹ گئے، اس کے لیے تمام جتن کر ڈالے، حالانکہ خود اپنے امام کے خلاف پا کر اس سے بہت واضح دلالت والی حدیث کو درخور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے پورے زور سے اسے ٹھکرا دیا تھا۔ ہم اس طرح کی مثالیں تقلید کی قباحت و شناعت کے بیان میں ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ، وہیں پر اس تقلید کی خرابیاں، برائیاں اور بیہودگیاں بھی معلوم ہوں گی اور وہیں پر ہم اتباع اور تقلید کا فرق بھی بیان کریں گے۔ ‘’ [اعلام الموقعين : 60/1 ]

◈ شیخ عزالدین بن عبدالسلام رحمہ اللہ (577-660 ھ) فرماتے ہیں :
ومن العجب العجيب أن الفقهاء المقلدين يقف أحدهم على ضعف مأخذ إمامه، بحيث لا يجد لضعفه مدفعاً، ومع هذا يقلده فيه، ويترك من شهد الكتاب والسنة والأقيسة الصحيحة لمذهبه، جموداً على تقليد إمامه، بل يتحيل لدفع ظواهر الكتاب والسنة، ويتأولها بالتأويلات البعيدة الباطلة، نضالاً عن مقلده، وقد رأيناهم يجتمعون في المجالس، فإذا ذكر لأحدهم خلاف ما وطن نفسه عليه تعجب منه غاية التعجب، من غير استرواح إلى دليل، بل لما ألفه من تقليد إمامه، حتى ظن أن الحق منحصر في مذهب إمامه، ولو تدبره لكان تعجبه من مذهب إمامه أولى من تعجبه من مذهب غيره، فالبحث مع هؤلاء ضائع، مفضٍ إلى التقاطع والتدابر من غير فائدة يجديها، وما رأيت أحداً منهم رجع عن مذهب إمامه إذا ظهر له الحق في غيره، بل يصر عليه مع علمه بضعفه وبعده !! فالأولى ترك البحث مع هؤلاء الذين إذا عجز أحدهم عن تمشية مذهب إمامه قال :لعل إمامي وقف على دليل لم أقف عليه ولم أهتد إليه، ولا يعلم هذا المسكين أن هذا مقابلٌ بمثله، ويَفضُل لخصمه ما ذكره من الدليل الواضح والبرهان اللائح، فسبحان الله ما أكثر من أعمى التقليد بصره، حتى حمله على مثل ما ذكرته، وفقنا الله لاتباع الحق أينما كان وعلى لسان من ظهر، وأين هذا من مناظرة السلف ومشاورتهم في الأحكام، ومسارعتهم إلى اتباع الحق إذا ظهر على لسان الخصم
’’ کتنی تعجب خیز بات ہے کہ ہر مقلد فقیہ اپنے امام کی کمزور بات پر ڈٹ جاتا ہے، حالانکہ وہ اس کمزوری کا کوئی توڑ بھی نہیں جانتا ہوتا۔ پھر بھی وہ اس مسئلے میں اسی امام کی تقلید کرتے ہوئے قرآن و سنت اور قیاس صحیح کے روز روشن کی طرح واضح دلائل کو ٹھکرا دیتا ہے۔ وہ یہ کام صرف اپنے امام کے مذہب پر جمود کی وجہ سے کرتا ہے۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ وہ اپنے امام کا ناحق دفاع کرنے کی خاطر قرآن و حدیث کے اصل معانی کو بدلنے اور اس میں دور از کار تاویلات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم نے مقلدین کو علمی مجالس میں جمع ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے، جب ان میں سے کسی کے سامنے ایسی بات کر دی جائے جو اس کے مذہب کے خلاف ہو تو بغیر کوئی دلیل ذکر کیے اسے عجیب و غریب قرار دیتا ہے۔ دراصل وہ اپنے امام کی تقلید سے اتنا مانوس ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اپنے امام کے مذہب کے علاوہ کسی مذہب کو حق نہیں سمجھتا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بحث فضول ہے، بلکہ اس سے بجائے فائدے کے قطع رحمی اور بغض و کینہ حاصل ہوتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے کسی کو اپنے امام کے مذہب سے رجوع کرتے ہوئے نہیں دیکھا، حالانکہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہو چکی ہوتی ہے کہ اس مسئلے میں کوئی دوسرا مذہب حق پر ہے۔ وہ اپنے امام کے مذہب کو کمزور اور دور از کار جاننے کے باوجو بھی اسی کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ جب ان میں سے کوئی اپنے امام کے مذہب کو دلائل سے ثابت کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ شاید میرے امام کے پاس وہ دلیل ہو جو مجھے معلوم نہیں ہو سکی۔ اس بیچارے کو اتنا شعور بھی نہیں ہوتا کہ اسے بھی کوئی مخالف یہی بات کہہ سکتا ہے، بلکہ اس کی طرف سے یہ بیان اس کے مخالف کے لیے زیادہ واضح اور ٹھوس دلیل بن جائے گا۔ سبحان اللہ ! لوگوں کو تقلید نے کتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کا اتباع کرنے کی توفیق دے، وہ کہیں بھی ہو اور کسی کی زبان پر جاری ہو۔ کہاں یہ روش اور کہاں سلف صالحین کا آپس میں معنیٰ خیز بحث و مباحثہ مسائل میں ان کی باہمی مشاورت اور مخالف کی زبانی حق کو سن کر اس کی پیروی میں جلدی !۔ “ [قواعد الاحكام فى مصالح الانام : 135/2، و فى نسخة : 159 ]

◈ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب (1863-1943ء) تقلید کے مفاسد یوں بیان کرتے ہیں :
’’ اور مفاسد کا ترتب یہ کہ اکثر مقلدین عوام، بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے، ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے، پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو، بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو، بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو، مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں، دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح و صریح پر عمل کر لیں۔ [تذكره الرشيد : 131/1 ]

◈ شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی (1114۔ 1176ھ) لکھتے ہیں :
فإن بلغنا حديث من الرسول المعصوم، الذى فرض الله علينا طاعته، بسند صالح يدل على خلاف مذهبه، وتركنا حديثة، واتبعنا ذلك التخمين، فمن أظلم منا، وما عذرنا يؤم يقوم الناس لرب العالمين ؟
’’ اگر ہمارے پاس اس رسول معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قابل حجت سند کے ساتھ پہنچ جائے، جن کی اطاعت اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہے اور وہ حدیث ہمارے امام کے مذہب کے خلاف جاتی ہو اور ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ کر اس ظن کی پیروی میں لگ جاہیں، تو ہم سے بڑا ظالم کون ہو گا اور جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے، اس دن ہمارا کیا عذر ہو گا؟“ [حجته الله البالغلة : 156/1 ]

تقلید میں ردّ حدیث کی دو مثالیں
اب ہم دو مثالیں ذکر کریں گے، جن سے معلوم ہو گا کہ مقلدین اپنے امام کے مذہب کے خلاف حدیث کو کس طرح ردّ کر تے ہیں اور کس طرح اس میں دور ازکار اور مضحکہ خیز تاویلات کرتے ہیں۔
مثال نمبر : ➊
تقلید اور سواری پر وتر کی ادائیگی

سواری پر نماز وتر کی ادائیگی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری پر وتر ادا کرنا ثابت ہے، جیسا کہ :
➊ صحابی جلیل، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کر تے ہیں :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يصلي فى السفر على راحلته، حيث توجهت به، يؤمي إيماء، صلاة الليل، إلا الفرائض، ويوتر على راحلته.
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرائض کے علاوہ باقی نماز سفر میں اپنی سواری ہی پر ادا کر لیتے تھے۔ اس کا رخ جس طرف بھی ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارے سے نماز پڑھ لیتے تھے اور وتر بھی سواری پر ادا فرماتے تھے۔“ [صحيح البخاري : 136/1، ح : 1000، صحيح مسلم : 244/1، ح : 700]

➋ عظیم تابعی، سعید بن یسار رحمہ اللہ بیا ن کرتے ہیں :
كنت أسير مع عبد الله بن عمر بطريق مكة، فقال سعيد : فلما خژيت الصبح نزلت، فاوترت، ثم لحقته، فقال عبدالله بن عمر : اين كنت؟، فقلت : خشيت الصبح، فنزلت، فأوترت، فقال عبد الله : أليس لك فى رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة حسنة ؟ فقلت : بلى، والله ! قال : فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر على البعير.
’’ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا۔ جب مجھے صبح صادق طلوع ہونے کا خدشہ ہوا تو میں نے سواری سے نیچے اتر کر وتر ادا کیے، پھر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جا ملا۔ انہوں نے پوچھا: تم کہاں وہ گئے تھے ؟ میں نے کہا: مجھے صبح صادق ہونے کا خدشہ ہوا تو میں سواری سے اتر کر وتر ادا کر لیے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ قابل عمل نہیں ہے ؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم ! کیوں نہیں۔ انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر وتر ادا کر لیا کرتے تھے۔“ [صحيح البخاري : 136/1، ح : 900 صحيح مسلم : 244/1، ح : 36/700]

◈ نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كان ابن عمر رضي الله عنه يصلي على راحلته، ويوتر عليها، ويخبر أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يفعله.
’’ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی سواری پر (نفل) نماز پڑھ لیتے اور وتر بھی اسی پر ادا فرماتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے۔“ [صحيح البخاري1095 صحيح مسلم : 700]

➍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
إن النبى صلى الله عليه وسلم كان يوتر علٰي راحلته.
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر وتر ادا فرما لیتے تھے۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي : 6/2، وسنده صحيح]

سواری پر وتر اور صحابی رسول سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما
◈ جریر بن حازم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
قلت لنافع : اكان ابن عمر يوتر على الراحلة ؟ قال: وهل للوتر فضيلة على سائر التطوع؟ إي، والله ! لقذ كان يوتر عليها.
’’میں نے نافع (مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ) سے پوچھا: کہ کیا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سواری پر وتر ادا کر لیتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : کیا وتر کو باقی نوافل پر کوئی فضلیت ہے (کہ وہ سواری پر ادا نہ کیا جا سکے) ؟ اللہ کی قسم ! وہ سواری پر وتر بھی ادا کر لیا کرتے تھے۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي : 6/2، و سنده صحيح]

◈ امام عبداللہ بن دینار تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
وكان ابن عمر يفعل ذللك .
’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سواری پر وتر ادا کیا کرتے تھے۔“ [ السنن الكبريٰ للنسائي : 456/1، تهذيب الاثار للطبري : 542/1، و سنده صحيح]

◈ عظیم تابعی، امام سالم رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :
إن عبد الله كان يصلي فى الليل، ويوتر راكبا على بعيره، لا يبالي حيث وجههٔ.
’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات کو نمار ادا فرماتے تو اپنی سواری پر ہی وتر ادا کر لیا کرتے تھے، اس کا رخ جس طرف بھی ہوتا۔“ [مسندالامام احمد : 105/2، وسنده صحيح]
سواری پر نمار وتر کی ادائیگی اور فقہائے امت :
◈ عظیم المرتبت تابعی، فقیہ امت، امام حسن بصری رحمہ اللہ (م : 100 ھ) کے بارے میں ہے :
كان الحسن لا يرى بأسا أن يوتر الرجل على راحلته.
’’ وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کرتے تھے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھے۔“ [مصنف ا بن ابي شيبه : 98/2، و سنده حسن]

◈ امام موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
وقذ رايت انا سالما يصنع ذلك .
’’ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ کو سواری پر وتر ادا کرتے ہوئے دیکھا۔“ [مسند الامام احمد : 105/2، و سنده حسن]

◈ جلیل القدر تابعی، مشہور فقیہ، نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ (م : 117 ھ) کے بیٹے ان کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إن أباه كان يوتر على البعير.
’’ ان کے والد (نافع رحمہ اللہ) اونٹ پر وتر ادا کر لیا کرتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 97/2، و سنده صحيح]

◈ فقیہ عراق، امام ابوعبداللہ، سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ (97 – 161 ھ) فرماتے ہیں :
أعجب إلى أن يوتر على الأرض، وأي ذلك فعل، أجرأہ.
’’ مجھے زمین پر وتر پڑھنا زیادہ پسند ہے لیکن جیسے بھی پڑھ لیے جائیں جائز ہیں۔“ [تهذيب الآثار للطبري : 545/1، و سنده صحيح]

◈ امام شافعی رحمہ اللہ سواری پر وتر ادا کرنے کو جائز سمجھتے تھے۔ امام ترمذ ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد ذهب بعض أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا، ورأوا أن يوتر الرجل على راحلته، وبه يقول الشافعي وأحمد وإسحاق.
’’ اس حدیث پر بعض صحابہ کرام اور دیگر اہل علم نے عمل کیا ہے اور ان کی رائے میں آدمی کا اپنی سواری پر وتر ادا کرنا جائز ہے۔ امام شافعی، امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ کا یہی مذہب ہے۔“ [سنن الترمذي‘ تحت الحديث : 472]

◈ امام اہل سنت، احمد بن حنبل رحمہ اللہ (164 – 241 ھ) کے بیٹے ابوفضل صالح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
سألت أبى : يوتر الرجل على بعيره؟ قال : نعم، قد أوتر النبى صلى الله عليه وسلم على بعيره.
’’ میں نے اپنے والد سے پوچھا: کہ کیا آدمی اپنے اونٹ پر وتر ادا کر سکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں، یقیناً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پر وتر ادا فرمائے ہیں۔“ [مسائل الامام احمد بروايته ابنه ابي الفضل صالح : 257/2، الرقم : 859]

◈ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (238-161 ھ) فرماتے ہیں :
السنة الوتر على الراحلة فى السفر.
’’ سفر میں سواری پر وتر ادا کرنا سنت رسول ہے۔“ [مسائل الامام احمد و اسحاق بن راهويه للكوسج : 650/2، الرقم : 297]

◈ مشہور امام، ابومحمد، عبداللہ بن عبدالرحمن بن فضل بن بہرام دارمی رحمہ اللہ (181-255 ھ) نے جب سواری پر وتر ادا کرنے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی تو ان سے پوچھا گیا : تاخذ به ؟ کیا آپ اس حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا : نعم ’’ ہاں (میں اس کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں)۔“ [سنن الدارمي : 991/2]

◈ امام اہل سنت، رئیس المفسرین، ابوجعفر، محمد بن جریر، طبری رحمہ اللہ (224-310 ھ) سواری پر وتر کے بارے میں اختلاف اور دلائل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
والصواب من القول فى الوتر راكبا، قول من أجازه، لمعان : أحدها صحة الخبر الوارد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه كان يفعل ذلك، وهو الإمام المقتدى به.
’’سواری پر وتر کی ادائیگی (کے جواز اور عدم جواز) کے بارے میں اس شخص کی بات درست ہے، جو اسے جائز کہتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سواری پر وتر ادا کرنے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث ثابت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ امام ہیں جن کی اقتدا کی جانے چاہئیے۔“ [تهذيب الآثار للطبري : 545/5]

◈ امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ (223-311 ھ) حدیث ابن عمر پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب إباحة الوتر على الراحلة.
’’ سواری پر وتر کے جائز ہونے کا بیان۔“ [صحيح ابن خزيمته : 249/2]

◈ امام ابن منذر رحمہ اللہ (242- 319 ھ) اس کے جواز کو ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ذكر الوتر على الراحلة، ثبت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر على الراحلة.
’’ سواری پر وتر ادا کرنے کا بیان۔ یہ بات ثابت ہو چکی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر وتر ادا فرمایا کرتے تھے۔“ [الاوسط فى السنن والاجماع والاختلاف : 201/5]
◈ علامہ نووی رحمہ اللہ (631-676 ھ) نے یوں باب قائم کیا ہے :
باب جواز الوتر جالسا، وعلى الراحلة فى السفر
’’ اس بات کا بیان کہ بیٹھ کر وتر پڑھنا اور سفر میں سواری پر وتر ادا کرنا جائز ہے۔“ [خلاصته الاحكام فى مهمات السنن وقواعد الاسلام : 562/1]

سواری پر نماز وتر کی ادائیگی اور فقہ حنفی :
اس صحیح و ثابت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عمل صحابہ، فہم ائمہ دین اور فقہائے امت کے خلاف سواری پر وتر ادا کرنے کے بارے میں فقہ حنفی کا فتویٰ یہ ہے :
ولا يجور ان يوتر علٰي راحلته .
’’ سواری پر وتر ادا کرنا جائز نہیں۔“ [الفتاوي الهنديه المعروف به فتاوه عالمگيري : 111/1، البنايه شرح الهدايه للعيني الحنفي : 477/2، البحر الرائق لابن نجيم الحنفي : 41/2]

سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اور حنفی تاویلات :
قارئین کرام صحیح احادیث سے یہ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ سواری پر وتر ادا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ ائمہ دین اور فقہائے امت نے اسے سنت رسول ہی بتایا ہے۔

اس صحیح و ثابت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی سعادت احناف کے حصے میں نہیں آئی، بلکہ انہوں نے اسے اپنی نام نہاد فقہ کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اس میں عجیب و غریب تاویلات اور گمراہ کن دعوے کیے ہیں۔ آئیے ان تاویلاتِ باطلہ کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
تاویل نمبر :

◈ دالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث، جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (1875-1933ء) لکھتے ہیں :
اما ابن عمر، فالجواب عندي انهٔ ممن لم يكن يفرق بين الوتر وصلاة الليل، وكان يطلق الوتر على المجموع، فيمكن أن يكون ما ذكره من وترم على الدابة، هي صلاة الليل.
’’ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بیان کا تو میرے پاس یہ جواب ہے کہ وہ وتر اور نماز تہجد میں فرق نہیں کرتے تھے، بلکہ ساری نماز کے لیے وتر ہی کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا جو ذکر کیا ہے، اس سے مراد تہجد کی نماز ہو۔“ [فيض الباري : 194/3]

↰ علامہ زیلعی حنفی (م : 762 ھ) اور علامہ عینی حنفی (م : 855 ھ) نے کیا خوب کہا ہے کہ :
المقلد ذهل، والمقلدجهل.
’’ مقلد حقائق سے چشم پوشی کرنے والا اور جاہل ہوتا ہے۔“ [نصب الرايته اللزيلعي : 219/1، 228/3، البنايه شرح الهدايه للعيني : 317/1]

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے فہم پر یہ جملہ دیکھ کر ہمیں بھی بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس مسئلے میں شاہ صاحب نے علم و عقل سے خوب دشمنی کمائی ہے۔ یہ احادیث بول بول کر بتا رہی ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہاں وتر اور تہجد کو نہ خود ایک سمجھا ہے، نہ اپنے شاگرد سعید بن یسار تابعی کے سامنے اسے ایک شمار کیا ہے۔ بلکہ ان کی مراد سراسر اصطلاحی وتر ہی تھی۔ یہ بات ادنیٰ شعور رکھنے والے شخص کو ادنیٰ غور و فکر سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔

تابعی سعید بن یسار رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے استفسار پر بتایا تھا کہ :
خشيت الصبح، فنزلت، فاوترت
’’ مجھے صبح صادق کے طلوع ہونے کا خدشہ ہوا تو میں نے اتر کر وتر ادا کر لیے۔“
کیا جب اتنا تھوڑا وقت ہو کہ صبح صادق کے طلوع ہونے کا خدشہ ہو رہا ہو تو پوری نماز تہجد ادا کی جا سکتی ہے ؟ کیا کوئی عقل مند اس طرح کی ہفوات پر کان دھر سکتا ہے ؟
آئیے اب ہم آپ کو یہی بات حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بتانے ہیں :
إن رجلا جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم، وهو يخطب، فقال: كيف صلاة الليل؟ فقال: مثنى مثنى، فإذا خشيت الصبح فأؤتر بواحدة .
’’ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اس نے پوچھا: رات کی نماز (تہجد) کس طرح پڑھنی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو دو رکعت کر کے، پھر جب صبح صادق طلوع ہونے کاخدشہ ہو تو ایک وتر ادا کر لے۔“ [صحيح البخاري : 473، صحيح مسلم : 749]
↰ یعنی بقول رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب صبح صادق طلوع ہونے کے قریب ہو تو اصطلاحی وتر ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ اب کس کس حدیث کی مخالفت پر افسو س کریں ! اس حدیث میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وتر پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن احناف اسے بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ بھلا مؤخر الذکر حدیث سننے کے بعد کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ صبح صادق کے طلوع ہونے کے عین قریبی وقت میں وتر پڑھنے سے مراد تہجد پڑھنا ہے ؟ یہ حدیث بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی نے بیان کی ہے۔ بھلا وہ کیسے سعید بن یسار کے اصطلاحی وتر کو تہجد سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے تھے ؟ فہم کی ایسی غلطی میں تو کوئی ادنیٰ شعور رکھنے والا عام آدمی بھی مبتلا نہیں ہو سکتا۔

↰ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ذکر کردہ پہلی حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد اور وتر دونو ں کو الگ الگ ذکر کر کے یہ صراحت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد اور وتر دونوں کو سواری پر ادا فرمایا کرتے تھے۔ کیا اب بھی کوئی یہ بہانہ کر سکے گا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تہجد اور وتر، دونوں کو وتر کہتے تھے۔

↰ تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے ذکر کردہ تیسری روایت میں نافع تابعی رحمه الله نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ وتر اپنی سواری ہی پر ادا کر لیا کرتے تھے۔ کیا کو ئی کہہ سکتا ہے کہ نافع تابعی رحمه الله بھی تہجد کو وتر کہتے تھے ؟

↰ چوتھی بات یہ کہ احناف کے متقدمین علماء اس بات کے اقراری تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اصطاحی وتر ہی ادا کیے تھے۔ آئندہ اعتراض کے ضمن میں امام طحاوی حنفی کا یہ اعتراف آپ ملاحظہ فرما لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواری پر وتر سے مراد تہجد لینا خالص کشمیری اختراع ہے۔ ہمارے علم کے مطابق ان سے پہلے کسی مسلمان نے ایسا نہیں کیا۔

↰ پانچویں بات یہ کہ سعید بن یسار تابعی رحمه الله نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث سن کر کوئی معارضہ نہیں کیا اور یہ نہیں کہا: کہ میں نے تو وتر ادا کیا ہے، جبکہ آپ کی بیان کردہ حدیث کے مطابق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورای پر وتر نہیں، بلکہ تہجد کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ پھر ائمہ دین اور فقہائے امت کا فہم اس پر مستزاد ہے۔ امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابن خزیمہ وغیرہم رحمه الله کے علاوہ امام بخاری رحمه الله نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواری پر وتر کو باب الوتر على الدابة ”سواری پر وتر پڑھنے کا بیان“ کی تبویب کر کے اصطلاحی وتر ہی سمجھا ہے۔ امام بخاری رحمه الله کے اجتہاد اور ان کی فقاہت کا اعتراف کرتے ہوئے تو خود انور شاہ کشمیری صاحب نے لکھا ہے :
فانه ليس بمقلد للاحناف والشافعية
’’امام بخاری رحمه الله حنفی یا شافعی مقلد نہیں تھے۔“ [العرف الشذي : 106/1]
یعنی ان احادیث میں وتر سے اصطلاحی وتر ہی مراد ہے، مجتہدین امت کا یہی فیصلہ ہے، ایسا نہیں کہ ہم احناف کی مخالفت میں ایسا کر رہے ہیں۔ جب محدثین کرام نے احادیث پر فقہی تبویب کی ہے، سب نے اس حدیث سے اصطلاحی وتر ہی مراد لیا ہے۔

↰ اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے باوجود بھی مقلدین واضح احادیث کی باطل تاویلات پر اتر آتے ہیں، کیونکہ انہوں نے حدیث کے خلاف اپنے امام کی ’’ لایجوز“ کی لاج جو رکھنی ہے، خواہ انہیں منکرین حدیث کا انداز ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔ ہم تو حدیث کی مخالفت پر ایسے لوگوں سے وہی سوال کریں گے جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سعید بن یسار تابعی سے سواری پر وتر نہ پڑھنے پر فرمایا تھا کہ :
أما لك فى رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة حسنة.
’’ کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ قابل عمل نہیں ہے ؟“
فرق صرف یہ ہے کہ سعید بن یسار تابعی رحمه الله نے تو حدیث کا علم نہ ہونے کی بنا پر ایسا کیا تھا، لیکن ہمارے احناف بھائی نہ صرف حدیث کو بخوبی جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں، بلکہ اس سنت سے روکنے کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈے بھی اپناتے ہیں، جن سے فہم صحابہ و فقاہت فقہائے امت کی فقاہت پر سخت زد آتی ہے۔ اہل انصاف کو غورو فکر کی درد مندانہ اپیل ہے !

اعتراض نمبر : ➋

امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں :
فيجوز أن يكون ما روى ابن عمر رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من وتره على الراحلة كان ذلك منهٔ قبل تأكيدم اياه، ثم آكدهٔ من بعد نسخ ذلك .
’’ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سواری پر وتر پڑھنا ذکر کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ وتر کی تاکید (وجوب) سے پہلے کا واقعہ ہو، پھر اس کے نسخ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی تاکید کر دی ہو۔“ [شرح معاني الآثار : 430/1]

↰ امام طحاوی حنفی رحمه الله کے دعوئ نسخ پر شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمه الله (773-852 ھ) یوں تبصرہ فرماتے ہیں :
لكنه يكثر من ادعاء النسخ بالاحتمال.
’’ لیکن امام طحاوی محض احتمال کی بنا پر بکثرت نسخ کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔“ [فتح الباري فى شرح صحيح البخاري : 478/9]
جب اپنا فقہی مذہب حدیث کے خلاف ہو اور کوئی جواب نہ بن پڑے تو آلہ نسخ کا بلا دریغ استعمال کرتے ہوئے احادیث کو ردّ کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ نماز وتر کے وجوب کی حقیقت ایک مفروضے سے بڑھ کر نہیں، دلائل شرعیہ یہی بتاتے ہیں کہ نماز وتر نفل ہی ہے۔ دوسرے کوئی احناف سے پوچھے کہ نماز وتر کی تاکید کب ہوئی؟ جب تک ٹھوس قرائن و شواہد سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ کون سا معاملہ پہلے کا اور کون سا بعد کا ہے، اس وقت تک نسخ کا دعویٰ ہی مردود ہوتا ہے۔

امام بیہقی رحمه الله (384- 458 ھ) سواری پر وتر پڑھنے کو منسوخ کہنے کا ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ولا يجوز دعوي النسخ فيما روينا فى ذلك، بما روي فى تأكيد الوتر، من غير تاريخ، ولا سبب يدل على النسخ.
’’ وتر کی تاکید والی حدیث سے سواری پر وتر کی ادائیگی کے بارے میں مروی حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ جائز نہیں۔ دعویٰ نسخ پر وقت کا علم، کوئی تاریخ یا کوئی سبب موجود نہیں۔“ [معرفة السنن والآثار : 448/3]
وما روي فى تاكيد الوتر يدل على انه اول ما شرع النبى صلى الله عليه وسلم الوتر، وإنما صلاها على الراحلة، بعد ما شرعها، وأخبر أمته بأمرهم بها، إن ثبت الحديث عنه، فكيف يكون ذلك ناسخا لما صنع فيها بعدة؟
’’وتر کی تاکید کے بارے میں جو احادیث مروی ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نماز وتر کی مشروعیت کے بالکل آغاز کی بات ہے، جبکہ سواری پر وتر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشروعیت اور اس کی تاکید کے بعد پڑھے ہیں پھر یہ تاکید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد والے عمل (سواری پر وتر) کو کیسے منسوخ کر سکتی ہے ؟“ [معرفة السنن والآثار : 447/3]

اہل خرد انصاف کریں کہ صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سواری پر وتر ادا کرنے کو امت کے لیے بیان کرتے ہیں، وہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سواری پر وتر ادا کرتے تھے اور اسے اسوۂ حسنہ قرار دے کر دوسروں کو اس کی تاکید بھی کرتے تھے۔ اگر سواری پر وتر ادا کرنا منسوخ ہو چکا تھا تو انہیں کیوں علم نہ ہوا؟ امام طحاوی حنفی سے پہلے، سوا تین سو سال تک، کسی امام و فقیہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ سواری پر وتر ادا کرنا منسوخ ہو چکا ہے۔ اس پر مستزاد کہ امام بیہقی رحمه الله جیسے محدث شہیر نے اس کا سختی سے علمی ردّ بھی کر دیا ہے۔

علامہ عبدالحی حنفی نے بھی امام طحاری کے دعویٰ نسخ کا ردّ کرتے ہوئے لکھا ہے :
وفيه نظر لا يخفى، إذ لا سبيل إلى إثبات النسخ بالاختمال ما لم يعلم ذلك بنص وارد فى ذلك.
’’ امام طحاوی حنفی کا دعویٰ نسخ واضح طور پر مردود ہے، کیونکہ نسخ کبھی بھی احتمال کے ساتھ ثابت نہیں ہوتا، جب تک اس بارے میں قرآن و سنت کی واضح تعلیمات معلوم نہ ہو جائیں۔“ [التعليق الممجد على مؤطا مالك : 133]
تنبیہ :
اگر کوئی کہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے :
إنه كان يصلي على راحلته، ويوتر بالأرض، ويزعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يفعل ذلك.
’’ وہ سواری پر (نفل) نماز ادا کرتے تھے، پھر وتر زمین پر ادا فرماتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے۔“ [شرح معاني الآثار للطحاوي : 429/1، وسنده صحيح]
تو ایسا کرنا بالکل جائز اور درست ہے۔ سواری پر وتر ادا کیے جائیں یا زمین پر، دونوں صورتیں بالکل درست ہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس عمل کو سواری پر وتر ادا کرنے کے خلاف پیش کرنا دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ہم ان سے سواری پر وتر ادا کرنے کے بارے میں ان کے کئی شاگردوں کے صحیح الاسناد روایات پیش کر چکے ہیں۔
اگر پھر بھی کسی کو کوئی شبہ ہو تو وہ یہ روایت پڑھ لے۔ نافع رحمه الله بیان فرماتے ہیں :
إن ابن عمر كان ربما أوتر على راحلته، وربما نزل.
’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کبھی سواری پر وتر ادا فرماتے اور کبھی نیچے اتر کر۔“ [تهذيب الآثار للطبري : 541/1، سنن الدارقطني : 339/2، و سنده صحيح]
معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا سواری سے اتر کر وتر ادا کرنا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ سواری پر وتر کو ناجائز سمجھتے تھے، کیونکہ خود ان سے سواری پر وتر ادا کرنا بھی ثابت ہے، یعنی وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دونوں صورتوں کو جائز سمجھتے تھے۔
امام ابن منذر رحمه الله (242-319ھ) فرماتے ہیں :
أما نزول ابن عمر عن راحلته حتي أوتر بالأرض، فمن المباح، إن شاء الذى يصلي الوتر صلى على الراحلة، وإن شاء صلى على الأرض، أى ذلك فعل يجزيه، وقد فعل ابن عمر الفعلين جميعا، روينا عن ابن عمر أنه كان ربما أوتر على راحلته، وربما نزل، والوتر على الراحلة جائز، للثابت عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه أوتر على الراحلة، ويدل ذلك على أن الوتر تطوع خلاف قول من شذ عن أهل العلم، وخالف السنة، فزعم أن الوتر فرض.
’’ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا سواری سے اتر کر وتر ادا کرنا جواز کی دلیل ہے۔ وتر پڑھنے والا چاہے تو سواری پر پڑھ لے اور چاہے تو اتر کر۔ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دونوں طرح سے وتر پڑھے ہیں۔ ہمیں یہ روایت مل گئی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کبھی سواری پر وتر ادا فرماتے اور کبھی اتر کر۔ سواری پر وتر ادا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیث کی بناء پر جائز ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وتر نفل ہے، جن لوگوں نے اہل علم (سلف صالحین) اور سنت کی مخالفت میں وتر کو فرض سمجھا ہے، یہ حدیث ان کے خلاف ہے۔“ [الاوسط فى السنن والاجماع والاختلاف : 247/5]

◈ امام طبری رحمه الله اس بارے میں فرماتے ہیں :
وأما ما روي فى ذلك عن ابن عمر، أنه كان يصلي التطوع على راحلته بالليل، فإذا أراد أن يوتر نزل، فأؤتر على الأرض، فإنه لا حجة فيه لمحتج بان ابن عمر كان يفعل ذلك من اجل انه كان لا يرى جائز اللمرء ان يوتر راكبا، و انهٔ كان يرى ان الوتر فرض كسائر الصلوات المكتوبات، وذلك أنه جائز أن يكون نزوله للوتر إلى الأرض كان اختيارا منه ذلك لنفسه، وطلبا للفضل لا على أن ذلك كان عنده الواجب عليه الذى لا يجوز غيره، هذا لو لم يكن ورد عن ابن عمر بخلاف ذلك خبر، فكيف والأخبار عنه بخلاف ذلك من الفعل متظاهرة ؟
’’ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو یہ روایت ہے کہ وہ رات کو نفل نماز سواری پر ادا فرماتے اور جب وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو اتر کر زمین پر ادا کرتے، اس میں کسی کے لیے یہ دلیل نہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سواری پر وتر کو ناجائز سمجھتے ہوئے کرتے تھے یا وہ وتر کو فرضی نمازوں کی طرح فرض سمجھتے تھے، بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے زمین پر اتر کر زیادہ ثواب کے لیے ایسا کرتے تھے، اس لیے نہیں کہ وہ اسے ضروری سمجھتے تھے۔ اگر ان سے اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہ ہو تو بھی اس روایت سے یہی ثابت ہو گا، چہ جائیکہ اس کے خلاف ان سے (سواری پر وتر ادا کرنے کی) بہت سی روایات ثابت ہیں۔“ [تهذيب الآثار : 541/1]

◈ امام بیہقی رحمه الله سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سواری سے اتر کر وتر پڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں :
وقد ذكرنا . . . وتر على وابن عمر على الراحلة، بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونزول ابن عمر لوتره لا يرفع جوازه على الراحلة .
’’ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ۔۔۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سواری پر وتر ادا فرماتے تھے۔ جبکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا سواری سے اتر کر وتر ادا کرنا سواری پر وتر ادا کرنے کے جواز کو ختم نہیں کرتا۔“ [معرفة السنن والآثار : 448/3]

◈ امام طحاوی حنفی رحمه الله سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس عمل کے بارے میں فرماتے ہیں :
ووتره على الأرض فيما لا ينفي أن يكون قد كان يوتر على الراحلة أيضا، ثم جاء سالم ونافع وأبو الخباب، فأخبروا عنه أنه كان يوتر على راحلته.
’’ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا زمین پر وتر ادا کرنا اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ وہ سواری پر بھی وتر ادا فرمایا کرتے تھے۔ پھر سالم، نافع اور ابوالحباب نے یہ بیان بھی کر دیا ہے کہ وہ سواری پر وتر ادا فرمایا کرتے تھے۔“ [شرح معاني الآثار : 430/1]

◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمه الله (773-852 ھ) فرماتے ہیں :
قال الطحاوي : ذكر عن الكوفيين أن الوتر لا يصلى على الراحلة، وهو خلاف السنة الثابتة، واستدل بعضهم برواية مجاهد أنه رأى ابن عمر نزل فأوتر، وليس ذلك بمعارض، لكونه أوتر على الراحلة، لأنه لا نزاع أن صلاته على الأرض أفضل.
’’ امام طحاوی نے کوفیوں سے یہ بات ذکر کی ہے کہ سواری پر وتر نہ پڑھے جائیں۔ یہ بات ثابت شدہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ بعض لوگوں نے امام مجاہد کی اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، انہوں نے اتر کر زمین پر وتر ادا کیے۔ لیکن یہ روایت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سواری پر وتر ادا کرنے کے خلاف نہیں، کیونکہ بالاتفاق زمین پر وتر کرنا افضل ہے۔“ [ فتح الباري : 488/2]

اعتراض نمبر : ➌

جناب تقی عثمانی دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں :
’’ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ وتر کو قدرت على القيام کی صورت میں قاعدا (بیٹھ کر) پڑھنا جائز نہیں، جس کا تقاضا ہے کہ وتر على الراحله (سواری پر) بطریق اولیٰ ناجائز ہو، کیونکہ راحله (سواری) پر نماز نہ صرف قیام سے بلکہ استقبال قبلہ اور قعود (بیٹھنے) کی ہے ہیئت مسنونہ سے بھی خالی ہوتی ہے۔“ [تقرير ترمذي : 224/1]

↰ ’’ عقل بڑی کہ بھینس؟“ کی مصداق یہ وہ رائے ہے جس کی محدثین کرام مذمت کرتے ہیں۔ صحیح و صریح سنت نبوی کے خلاف یہ قیاس کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر نماز وتر ادا کی ہے تو پھر یہ اعتراض کیسا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر نماز جائز تھی یا ناجائز؟ اگر جائز تھی تو اس حیلہ و حجت سازی کا کیا جواز؟

اعتراض نمبر :

شارح ہدایہ، ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں :
إنه واقعة حال، لا عموم لها، فيجوز كون ذلك لعذر، والاتفاق على أن الفرض يصلى على الدابة لعذر الطين والمطر ونحوه.
’’ یہ خاص واقعہ ہے، اس میں عموم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عذر کی بنا پر سواری پر وتر ادا کیا ہو اور اس بات پر اتفاق ہے کہ کیچڑ اور بارش کی مجبوری میں فرائض سواری پر ادا کیے جا سکتے ہیں۔“ [فتح القدير : 371/1]

↰ راوی حدیث، صحابی جلیل، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسے اسوۂ حسنہ قرار دے کر یہ تعلیم دے رہے کہ سواری پر وتر جائز ہے اور اس کے خلاف ابن ہمام صاحب اسے ایک خاص واقعہ کہہ کر سواری پر وتر کو ناجائز قرار دے رہے ہیں۔ ائمہ محدثین کے فہم کے مطابق یہ سنت رسول ہے، جبکہ احناف بغیر دلیل شرعی کے نماز وتر کی سواری پر ادائیگی کو ناجائز کہتے ہیں۔ اسی بناء پر محدثین کرام ان کو مخالف سنت سمجھتے ہیں۔
کیا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی کو یہ بات معلوم نہ ہو سکی کہ یہ ایک خاص واقعہ ہے ؟ صرف ابن ہمام کو یہ بات سوجھی ہے۔

یہ ہے تقلید کا بھیانک انجام کہ مقلدین کو اپنے امام کے بے دلیل مذہب بچانے کی خاطر کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور نتیجے میں سوائے سنت کی مخالفت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تقلید اور تعصب کو چھوڑ کر ہمیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کر نے کے توفیق عطا فرمائے۔

مثال نمبر :
تقلید اور جانور کے پیٹ کا بچہ
❀ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ذكاه الجنين ذكاة أمره
’’ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہو جا تاہے۔ [مسند الامام احمد : 39/3، سنن الداقطني : 274/4، السنن الكبريٰ للبيهقي : 335/9، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کے راوی یونس بن ابواسحاق سبیعی، صحیح مسلم کے راوی ہیں اور جمہور محدثین کرام کے نزدیک ثقہ ہیں۔ ان پر تدلیس کا الزام ثابت نہیں۔ ان کے بارے میں امام یحییٰ بن معین [سوالات ابن الجنيد : 430] ، امام عجلی [تاريخ الثقات : 486] ، امام ابن سعد [الطبقات الكبريٰ : 344/6] رحمها الله نے ثقہ، امام عبدالرحمن بن مہدی رحمه الله [الجرح والتعديل لابن ابي حاتم : 244/9، و سنده صحيح] نے لم يكن به باس ”ان میں کوئی خرابی نہیں“ اور امام ابوحاتم رازی رحمه الله (ایضاً) نے كان صدوقا ”یہ سچے تھے“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ امام ابن حبان رحمه الله [الثقات : 650/7] اور امام ابن شاہین رحمه الله [الثقات : 1621] نے انہیں ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
له احاديث حسان
’’ انہوں نے حسن درجے کی احادیث بیان کی ہیں۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 179/7]◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو حسن الحديث ’’ یہ حسن الحدیث راوی ہیں۔“ [سير اعلام النبلاء : 27/7]
◈ نیز انہیں ثقہ بھی قرار دیا ہے۔ [من تكلم فيه و هو موثق : 393]

اس روایت کے دوسرے راوی ابوودّاک جبر بن نوف بکالی بھی ثقہ ہیں۔
ان کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فلم أر من ضعفه، وقد احتج به مسلم.
’’ میں نہیں جانتا کہ انہیں کسی نے ضیعف قرار دیا ہو، البتہ امام مسلم رحمہ اللہ نے ان کی حدیث سے حجت لی ہے۔“ [التلخيص الحبير : 157/4، ح : 2009]
◈ اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔ [صحيح ابن حبان : 5889]
◈ حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’ حسن“ کہا ہے۔“ [مختصر السنن : 120/4]
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ’’صحیح“ کہا ہے۔ [المجموع : 562/2]
◈ نیز فرماتے ہیں :
و هو حديث حسن ’’ یہ حدیث حسن ہے۔“ [تهذيب الاسماء واللغات : 111/3]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علامہ غزالی سے نقل کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :
فقال: هو حديث صحيح، وتبع فى ذلك إمامة (إمام الحرمين الجويني)
’’ انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، اس سلسلے میں انہوں نے اپنے امام (امام الحرمین جوینی) کی پیروی کی ہے۔“ [ التخيص الحبير : 157/4]
◈ علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے
◈ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذه متابعة قوية. ’’ یہ مضبوط متابعت ہے۔“ [ايضا]
↰ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر بکر ی، گائے، اونٹنی وغیرہ کو ذبح کیا جائے تو اس کے پیٹ میں جو بچہ ہو گا، وہ بھی ذبح ہو جائے گا اور اس کا کھانا حلال ہو گا۔ یہ اہل حق کا اجماعی مسئلہ ہے۔

اس کے برعکس :

امام ابوحنیفہ اور ان کے مقلدین کے نزدیک ایسے بچے کا کھانا حرام ہے۔ ان کے نزدیک اپنی ماں کے ذبح ہونے سے وہ بچہ ذبح نہیں ہو گا۔ اسے کھانا ناجائز ہے۔ [المبسوط للسرخسي : 6/12، الهداية للمرغيناني : 351/4، بدائع الصنائع للكاسني : 421/5، النتفت فى الفتاوي للسعدي : 228/1، البحر الرائق لابن نجيم : 195/8، مجمع الانهر فى شرح ملتقي الابحر لشيخي زاده : 512/2، رد المحتار على الدد المختار : 304/6]

↰ یہ موقف صحیح احادیث، اجماع امت اور فہم محدثین کے سراسر خلاف ہے۔ یہ بے اصل اور بے دلیل بات ہے، جیسا کہ :
◈ امام ابن منذر رحمہ اللہ (242-319ھ) فرماتے ہیں :
لم يرو عن أحد من أحد من الصحابة والتابعين وسائر العلماء أن الجنين لا يؤكل، إلا باستئناف الذكاة فيه، إلا ما روي عن أبى حنيفة، ولا احسبب اصحابه وافقوه عليه .
’’ صحابہ و تابعین اور باقی اہل علم میں سے کسی سے بھی یہ بات مروی نہیں کہ (حلال جانور کے) پیٹ کے بچے کو الگ ذبح کیے بغیر نہیں کھایا جا سکتا۔ صرف امام ابوحنیفہ سے یہ روایت کیا گیا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس مسئلے میں ان کے شاگردوں نے بھی ان کی موافقت کی ہو۔“ [نصب الرية اللزيلعي الحنفي : 192/4]

◈ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) فرماتے ہیں :
وأما قول أبى حنيفة وزفر، فليس له فى حديث النبى صلى الله عليه وسلم، ولا فى قول أصحابه، ولا فى قول الجمهور أصل.
’’ امام ابوحنیفہ اور زفر کے قول کی کوئی دلیل نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں موجود ہے، نہ صحابہ کرام کے اقوال میں، نہ جمہور اہل علم کے مذہب میں۔“ [الاستذكار : 265/5]

◈ شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691-751ھ) فرماتے ہیں :
رد السنة الصحيحة الصريحة المحكمة بأن ذكاة الجنين ذكاة أمه، بأنها خلاف الأصول، وهو تحريم الميتة، فيقال : الذى جاء على لسانه تحريم الميتة هو الذى أباح الأجنة المذكورة، فلو قدر أنها ميتة لكان استثناؤها بمنزلة استثناء السمك والجراد من الميتة، فكيف وليست بميتة ؟ فإنها جزء من أجزاء الام، والذكاة قد أتت على جميع أجزائها، . فلا يحتاج أن يفرد كل جزء منها بذكاة، والجنين تابع للأم، جزء منها، فهذا هو مقتضى الأصول الصحيحة، ولو لم ترد السنة بالإباحة، فكيف وقد وردت بالاباحة الموافقة للقياس والاصول؟
’’ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے، اس بارے میں ثابت شدہ، صریح اور محکم سنت نبوی کو یہ کہہ کہ ردّ کیا گیا كہ یہ اصول کے خلاف ہے، اصول یہ ہے کہ مردار حرام ہے۔ ایسی باتیں کرنے والوں سے کہا جائے کہ جس ہستی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان پر مردار کی حرمت نازل ہوئی، اسی نے مذکورہ پیٹ کے بچوں کو حلال قرار دیا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ (ذبح شدہ حلال جانور کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ) مردہ ہے تو بھی یہ حرمت سے مستثنیٰ ہو گا، جیسے مردار کی حرمت سے مچھلی اور جراد (ٹڈی) مستثنیٰ ہے، چہ جائیکہ یہ مردہ ہے ہی نہیں۔ پیٹ کا بچہ ماں کے اجزاء میں سے ایک جزء ہوتا ہے۔ ذبح کرنے سے جانور کے تمام اجزاء ذبح ہو جاتے ہیں، ہر ہر جزو جسم کو الگ الگ ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پیٹ کا بچہ بھی ماں کا جزو جسم ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ ذبح ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں اگر ہمیں سنت نبوی نہ بھی ملتی تو صحیح اصولوں کا تقاضا یہی تھا، اب جبکہ اس بارے میں قیاس و اصول کے موافق سنت نبوی بھی مل گئی ہے، تو اسے ردّ کرنا کیسے جائز ہوا؟“ [ اعلام الموقعين عن رب العالمين : 334/2]

◈ علامہ ابومحمد، ابن قدامہ، مقدسی رحمہ اللہ (541-620ھ) فرماتے ہیں :
ولأن هذا إجماع الصحابة ومن بعدهم، فلا يعول على ما خالفه، ولأن الجنين متصل بها اتصال خلقة، يتغذى بغذائها، فتكون ذكاته ذكاتها، كأعضائها، ولأن الذكاة فى الحيوان تختلف على حسب الإمكان فيه والقدرة، بدليل الصيد الممتنع والمقدور عليه والمتردية، والجنين لا يتوصل إلى ذبحه بأكثر من ذبح أمه، فيكون ذكاة له.
’’ صحابہ کرام اور بعد والے اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے (کہ ماں کے ذبح ہونے سے اس کے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے)، لہٰذا اس کے خلاف کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پیٹ کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ تخلیقی حوالے سے متصل ہوتا ہے، اسی کی غذا سے وہ غذا پاتا ہے۔ یوں ماں کے ذبح ہونے سے اس کے دوسرے اعضاء کی طرح وہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جانوروں میں ذبح کا طریقہ امکان و قدرت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس شکار کو زندہ پکڑنے پر انسان قادر نہ ہو اور جس کو زندہ پکڑ لینے پر قادر ہو اور کنویں وغیرہ میں گر گیا ہو، ان کو ذبح کا طریقہ الگ الگ ہے۔ اسی طرح پیٹ کے بچے کو صرف اسی طرح ذبح کیا جا سکتا ہے کہ اس کی ماں کو ذبح کر دیا جائے۔ یوں اس کی ماں کو ذبح کرنے سے وہ بھی ذبح ہو جائے گا۔“ [المغني : 401/9]

◈ نیز امام ابن منذر رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
كان الناس على إباحته، لا نعلم أحدا منهم خالف ما قالوا إلى أن جاء النغمان، فقال: لا يحل، لأن ذكاة نفس لا تكون ذكاة نفسين.
’’ لوگ (صحابہ و تابعین اور اہل علم) اس (جانور کے پیٹ کے بچے) کو حلال ہی سمجھتے تھے۔ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے صحابہ و تابعین اور اہل علم کی اس بات میں مخالفت کی ہو، حتی کہ نعمان (امام ابوحنیفہ) آئے اور کہا: یہ حلال نہیں، (اور یہ عقلی دلیل دی) کہ ایک جان کو ذبح کرنے سے دو جانیں ذبح نہیں ہوتیں۔“ [المغني : 401/9]

◈ علامہ عبدالحئ لکھنوی حنفی اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وبالجملة، فقول من قال بموافقة الحديث أقوى.
’’ الحاصل، جس کا قول حدیث کے موافق ہے، وہی زیادہ قو ی ہے۔“ [التعليق الممجد على الموطا لمحمد : 287]
↰ بعض احناف مقلدین نے اس صحیح حدیث کو اپنے بے دلیل مذہب کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور کہہ دیا ہے کہ :

اس حدیث میں، ذكاةُ امه کو ذكاةَ امه یعنی نصب کے ساتھ پڑھا جائے گا، یوں اس کا معنیٰ یہ ہو گا کہ بچے کو بھی اس کی ماں کی طرح ذبح کیا جائے۔

یہ ایسی مردود اور باطل تاویل ہے، جو صحابہ و تابعین اور محدثین کرام کے متفقہ فہم کے خلاف ہے۔ یہ حدیث بھی اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔

◈ مشہور لغوی، علامہ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) اس باطل تاویل کے ردّ میں فرماتے ہیں :
والرواية المشهورة : ذكاة أمه، برفع ذكاة، وبعض الناس ينصبها، ويجعلها بالنصب دليلا لأصحاب أبى حنيفة، رحمه الله تعالى، فى أنه لا يحل إلا بذكاة، ويقولون : تقديره كذكاة أمه، حذفت الكاف، فانتصب، وهذا ليس بشيء، لأن الرواية المعروفة بالرفع. وكذا نقله الإمام أبو سليمان الخطابي وغيره، وتقديره على الرفع يحتمل أوجها، أحسنها أن ”ذكاة الجنين“ خبر مقدم، و ”ذكاة أمه“ مبتدأ، والتقدير : ذكاة ام الجنين ذكاة له كقول الشاعر : بنونا بنو ابنائنا، ونظائره، وذلك لأن الخبر ما حصلت به الفائدة، ولا تحصل إلا بما ذكرناه، وأما رواية النصب على تقدير صحتها، فتقديرها ”ذكاة الجنين حاصلة وقت ذكاة أمه“، وأما قولهم : تقديره ”كذكاة أمه“، فلا يصح عند النحويين بل هو لحن، وإنما جاء النصب بإسقاط الحرف فى مواضع معروفة عند الكوفيين بشرط ليس موجودا ههنا.
’’ مشہور روایت ذكاةُ امه یعنی رفع کے ساتھ ہی ہے۔ البتہ بعض الناس اسے نصب سے پڑھتے ہیں اور اسے امام ابوحنیفہ رحمه الله کے مقلدین کے لیے اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ پیٹ کا بچہ ذبح کرنے ہی سے ذبح ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل عبارت كذكاةِ امه ہے، یعنی پیٹ کا بچہ اپنی ماں کی طرح ذبح ہو گا۔ کاف کو حذف کر دیا گیا تو یہ منصوب ہو گیا۔ لیکن یہ بات بالکل فضول ہے۔ امام ابوسلیمان خطابی وغیرہ نے اسے اسی طرح (رفع کے ساتھ) ہی نقل کیا ہے۔ رفع کی حالت میں اصل عبارت کئی طرح سے ہو سکتی ہے۔ سب سے بہتر یہ ہے ذكاةُ الجنين کو خبر مقدم بنایا جائے اور ذكاةُ امه مبتدا ہو۔ اصل عبارت یوں ہو گی ذكاةُ ام الجنين ذكاة له ”ماں کا ذبح پیٹ کے بچے کے لیے بھی ذبح ہے“، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : بنونا بنو ابنائنا ”ہمارے بیٹوں کے بیٹے بھی ہمارے بیٹے ہیں“ وغیرہ۔ اس لیے کہ خبر وہ ہوتی ہے، جس سے کوئی فائد ہ حاصل ہو اور فائدہ تب حاصل ہو گا، جب ہماری مذکورہ صورت مراد لی جائے۔ رہی نصب والی صورت تو اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو اصل عبارت یہ ہو گی ذكاة الجنين حاصلة وقت ذكاة امه کہ پیٹ کا بچہ اسی وقت ذبح ہو جاتا ہے جب اس کی ماں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اصل عبارت كذكاةِ امه ہے، یہ نحویوں کے ہاں درست نہیں، بلکہ غلط ہے، کیونکہ صرف کوفیوں کے ہاں کسی حرف کے حذف ہونے سے نصب آتی ہے اور وہ خاص ہے بعض معروف مقامات کے ساتھ اور وہ بھی ایک شرط کے پورا ہونے پر، جو یہاں پائی ہی نہیں جا رہی۔“ [تهذيب الاسماء واللغات : 112/3]

◈ علامہ زیلعی حنفی (م : 762 ھ) بعض الناس کے ردّ میں لکھتے ہیں :
وقال المنذري فى مختصره : وقد روى هذا الحديث بعضهم لغرض له : ”ذكاة الجنين ذكاة أمه“، بنصب ”ذكاة“ الثانية، لتوجب ابتداء الذكاة فيه إذا خرج، ولا يكتفى بذكاة أمه، وليس بشيء، وإنما هو بالرفع، كما هو المحفوظ عن أئمة هذا الشأن، وأبطله بعضهم بقوله : ”فان ذكاتهٔ ذكاة امه“، لانهٔ تعليل لاباحته، من غير احداث ذكاة.
’’ علامہ منذری رحمه الله نے مختصر السنن میں فرمایا ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے خاص مقصد کے تحت اس حدیث کو دوسرے لفظ ذكاة کی نصب کے ساتھ ذكاةُ ام الجنين ذكاة امه روایت کیا ہے، تاکہ اس حدیث سے بچے کے پیٹ سے نکلنے کے بعد اسے دوبارہ ذبح کرنا ضروری قرار دیا جائے اور اس کی ماں کے ذبح ہونے کو اس کے لیے کافی نہ سمجھا جا سکے۔ لیکن یہ فضول حرکت ہے۔ یہ حدیث لفظ ذكاة کے رفع کے ساتھ ہی ہے۔ جیسا کہ ائمہ حدیث سے ثابت ہے۔ بعض محدثین کرام نے اس بات کا ردّ حدیث میں موجود ان الفاظ سے کیا ہے : فان ذكاته ذكاة امه ، کیونکہ یہ الفاظ تو بغیر ذبح کیے جانے والے بچے کے حلال ہونے کی علت کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔“ [نصب الراية : 191/4، 192]

◈ علامہ عبدالحئ لکھنوی حنفی نے بھی یوں اس کا ردّ کیا ہے :
وفيه نظر، فإن المحفوظ عن أئمة الشأن الرفع، صرح به المنذري.
’’ یہ محل نظر بات ہے، کیونکہ ائمہ حدیث سے رفع ہی منقول ہے۔ علامہ منذری رحمه الله نے اس بات کی صراحت کی ہے۔“ [التعليق الممجد على الموطا لمحمد : 287]

تنبیہ : بعض لوگوں نے اس مسئلے میں صحیح و صریح حدیث نبوی اور اجماع امت کے خلاف امام ابراہیم نخعی تابعی کا یہ قول پیش کیا ہے :

لا يكون ذكاة نفس ذكاة نفسين، يغني أن الجنين إذا ذبحت أمة لم يؤكل حتى يدرك ذكاته.
’’ایک جان کا ذبح دو جانوں کے ذبح کا کام نہیں دے سکتا، یعنی جب ماں کو ذبح کیا جائے تو اس کے پیٹ کا بچہ ذبح نہیں ہو گا، ہاں، اگر خود اس بچے کو بھی ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو وہ حلال ہو گا۔“ [كتاب الآثار لمحمد بن الحسن الشيباني، ص : 186]

لیکن امام ابراہیم نخعی سے یہ قول ثابت نہیں کیونکہ :
➊ صاحب کتاب محمد بن حسن شیبانی محدثین کے ہاں ’’ متروک“ اور ’’ کذاب“ ہے۔
➋ ان کے استاذ بھی باتفاق محدثین غیر معتبر اور غیر ثقہ ہیں۔
➌ حماد بن ابوسلیمان ’’ مختلط“ راوی ہیں۔ امام ابوحنیفہ ان لوگوں میں سے نہیں، جنہوں نے حماد سے اختلاط سے پہلے روایات لی ہیں، جیسا کہ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
ولم يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء، شعبة وسفيان الثوري والدستوائي، ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الاختلاط.
’’ حماد کی وہی حدیث قبول ہو گی جو اس سے اس کے پرانے شاگردوں، یعنی شعبہ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی نے بیان کی ہے۔ باقی لوگوں نے ان سے اختلاط کے بعد ہی روایا ت لی ہیں۔“ [مجمع الزوائد : 119/1]

ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ تک تمام صحابہ و تابعین اور اہل علم کے نزدیک صحیح حدیث کی روشنی میں پیٹ کا بچہ اپنی ماں کے ذبح ہونے کے ساتھ ہی ذبح ہو جاتا ہے۔ اب امام ابوحنیفہ کو یہ حدیث نہ ملی اور انہوں نے اپنی رائے سے یہ بات کہہ دی۔ چاہئیے تو یہ تھا کہ صحابہ و تابعین کے اجماع کی پاسداری کرتے ہوئے حدیث نبوی پر عمل کیا جاتا، لیکن برا ہو تقلید کا کہ وہ دین الہیٰ کے مقابلے میں نے نیا دین کھڑا کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن و سنت پر عمل کر نے کی توفیق دے اور تقلید جیسی بیماری سے محفوط فرمائے۔ آمین !

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے