تقلید (شخصی)
شرک کا ایک بڑا چور دروازہ تقلید شخصی بھی ہے، اہل اسلام میں جب کسی گروہ کے بُرے دن آتے ہیں تو وہ اصل الاصول (کتاب وسنت) کی سنہری اور نورانی کرنوں کو چھوڑ کر تقلید آباء کے مرض لا علاج میں مبتلا ہو جاتا ہے ، اور پھر ظلمت و تاریکی کی ان اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا جاتا ہے جن سے واپسی کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں ، کیونکہ تقلید ’’شرعی اصول‘‘ کے خلاف ہے بلکہ ’’شرعی اصول‘‘ کی ضد ہے، شریعت اسلامیہ کا اصل الاصول عقیدہ توحید ہے ۔ جب کہ تقلید عقیدہ تو حید کے سراسر منافی ہے، اور جو فعل بھی عقیدہ توحید کے منافی ہے وہ شرک شمار کیا جائے گا۔ ہمارے اس بیان کی تفصیل مندرجہ ذیل بحث سے ہو جائے گی:
دیکھئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دو شراکتوں کی بڑی شدت سے نفی کی ہے۔ اولاً ، عبادت کی شراکت ، جس کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا)
(الكهف : ١١٠)
’’اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بناؤ۔“
اور ثانیاً: حکم، نظام اور امر میں شراکت ، اس کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
((وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا ))
(الكهف : ٢٦)
’’اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا ہے۔“
اور سورۃ البقرہ میں فرمایا:
(( یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ))
(البقرة : ٢١)
”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو ، جس نے تمہیں پیدا کیا ، اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر گئے، تاکہ تم پر ہیز گار بن جاؤ۔“
اور سورۃ الزمر میں فرمایا:
((فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ))
(الزمر: ٢)
’’پس آپ اللہ کی بندگی ، اس کے لیے دین خالص کر کے کرتے رہے ۔“
ان آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ عبادت صرف اللہ ہی کے لیے ہے ، جس کا کوئی شریک اور مد مقابل نہیں، اس لیے اس کے سوا کسی کی عبادت جرم عظیم ہے۔ یاد رہے کہ عبادت اپنے وسیع مفہوم میں اطاعت و فرمانبرداری کا نام ہے ، جو کوئی بھی اللہ تعالی کے احکام و فرامین کو چھوڑ کر کسی کے بھی حکم یا قانون کی پیروی کرتا ہے وہ اسے اپنا الہ اور رب تسلیم کرتا ہے۔ دین اسلام اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ دین ہے ، جو لوگ دین کو اپنی طرف سے مقرر کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے منصب پر پہنچا دیتے ہیں ۔ ان کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُؕ)
(الشورى: ۲۱)
’’کیا انہوں نے شریک بنا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین سازی کرتے رہتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کی اجازت نہیں دی ۔“
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
(( مَنِ اسْتَحْسَنَ فَقَدْ شَرَّع . ))
الاحكام للأمدي : ١٦٢/٤.
’’جس نے کسی عمل کو اپنی طرف سے اچھا جانا اس نے شریعت سازی کی ۔“
اسی طرح ذخیرہ احادیث میں یہ حدیث ملتی ہے کہ آپ ﷺ کے پاس عدی بن حاتمؓ آئے ، اور ان کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی (انہوں نے زمانہ جاہلیت میں عیسائیت قبول کر لی تھی) تو رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
(اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ)
(التوبة : ۳۱)
’’ ان یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے عالموں کو اور اپنے عابدوں کو اللہ کی بجائے معبود بنا لیا۔ ‘‘
(عدی بن حاتمؓ بیان کرتے ہیں) تو میں نے کہا کہ عیسائیوں نے اپنے عالموں کی عبادت تو نہیں کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
” کیا ایسے نہیں ہوتا کہ جس چیز کو ان احبار در میان نے حرام کیا تم نے حرام کر لیا ، اور جس چیز کو انہوں نے حلال کیا ، تم نے حلال تسلیم کر لیا۔ تو عدیؓ نے عرض کیا:
ہاں، یا رسول اللہ ﷺ ! ایسا تو ہے۔ آپ سے ہم نے فرمایا:
’’یہی ان کی عبادت ہے ۔‘‘
سنن ترمذی، کتاب التفسير، رقم: ۳۰۹۵ طبرانی کبیر: ۲۱۸/۱۷- تفسير ابن أبي حاتم: ١٧٨٤/٦- تفسیر طبری: ١١٤/١٠- صحيح الترمذي للألباني، رقم: ٢٤٧١.
اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت، فرمانبرداری، اطاعت اور کہا ماننے کا نام ہے ۔ تو گویا جو آدمی کسی کی اطاعت و فرمانبرداری اور کہا مانتا ہے وہ اسے اپنا رب اور الہ تسلیم کرتا ہے ، اور قرآن مجید میں اس کے نظائر موجود ہیں ۔ ابراہیمؑ اپنے باپ کو خطاب کرتے ہیں:
(یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْــٴًـا)
(مریم: ٤٢)
”اے ابا جان! آپ ایسے کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتا ہے ، اور نہ دیکھتا ہے ، اور نہ آپ کے کسی کام آسکتا ہے۔‘‘
یہ آیت کریمہ واضح کر رہی ہے کہ ابراہیمؑ کا والد آذر بتوں کی عبادت کرتا تھا۔ تبھی تو انہوں نے اسے بتوں کی عبادت سے منع فرمایا ۔ تھوڑا آگے چل کر ابراہیمؑ پھر اپنے باپ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
(يابَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَنَ)
(مريم : ٤٤)
’’اے ابا جان! آپ شیطان کی عبادت نہ کیجیے ۔“
اور سورۃ یٰس ( آیت : ۶۰ ) میں فرمایا:
(اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَۚ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ)
’’اے آدم کے بیٹو! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرو۔‘‘
اب کوئی بھی شیطان کی عبادت و ریاضت تو نہیں کرتا، بلکہ شیطان کی تو پیروی اور اطاعت ہی کی جاتی ہے ، اسی وجہ سے اطاعت کو عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس کے نظائر مسئلہ تقلید میں مقلدین کا انداز فکر بعینہ یہی ہوتا ہے کہ قول امام یا فہم امام پر بلا چون و چرا عمل کی راہیں استوار کی جاتی ہیں ، حلال کو حرام اور حرام کو حلال کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ، حالانکہ حلت و حرمت کا معیار فقط کتاب وسنت ہے ، اور اگر اس سے صرف نظر کرلی جائے تو قانون حلت و حرمت بازیچہ اطفال کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
اب تقلید کا معنی اور مفہوم مد نظر رکھیے ،تقلید کی راجح ترین تعریف یہ ہے:
(( هُوَ الْعَمَلُ بِقَوْلٍ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إِحْدَى الْحِجَجِ بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا .))
التحرير لابن الهمام، ص : ٥٤٧.
’’کہ جس کی بات شرعی دلیلوں میں سے دلیل نہ ہو، اس کی بات پر بغیر دلیل کے عمل کرنا ( یعنی اس کی اطاعت کرنا )‘‘
اب چونکہ اطاعت عبادت ہے، اور عبادت خالص اللہ رب العزت کے لیے ہے ، تو پھر کسی اور کا قول لینا اور اس کی تقلید کرنا شرک ٹھہرا۔ کیونکہ پیارے پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام نے واضح فرما دیا کہ کسی کے حلال کو حلال کہنا ، اور کسی کے حرام کو حرام تسلیم کرنا ، اور کسی کے فتوے کو بغیر دلیل کے لینا یہ اس کی عبادت ہے۔ علماء امت تقلید کی شناعت کو جانتے تھے ، اور اس کی قباحت اور اس کے خطرناک نتائج سے بہرہ ور تھے، اس لیے وہ اس کی نفی کرتے رہتے ، اور اطاعت رسول ﷺ پر زور دیتے رہے، چنانچہ امام ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں:
((لَا أُفَلِدُ التَّابِعِيَّ لِأَنَّهُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ وَلَا يَصِحُ تَقَلِيْدُهُ .))
نور الأنوار، ص: ۲۱۹ – طبع يوسفي.
’’میں کسی تابعی کی تقلید نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں، ان کی تقلید جائز نہیں ۔‘‘
اور امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
(( إِذَا صَحٌ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِى وَإِذَا رَأَيْتُمُ كَلَامِي يُخَالِفُ الْحَدِيثَ فَاعْمَلُوا بِالْحَدِيثِ وَاضْرِبُوا بِكَلَامِي الْحَائِط لَا تُقَلِدْنِي ))
عقد الجيد، ص : ٤٩.
’’جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے اور جب میری کلام حدیث کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل کرو، اور میری کلام کو دیوار پر دے مارو، میری تقلید مت کرو۔‘‘
چنانچہ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
(( لَا تُقَلِدْنِي، وَلَا تُقَلِدُ مَالِكًا، وَلَا الشَّافِعِيُّ وَلَا الْأَوَزَاعِيُّ وَالتَّورِيُّ وَخُذُ مِنْ حَيْثُ أَخَذُوا ))
جامع بيان العلم: ١٤٩/٢ – ايقاظ هم أولى الأبصار، ص: ۱۳.
’’تم میری تقلید نہ کرو، اور نہ ہی مالک ، شافعی ، اوزاعی اور ثوریؒ کی تقلید کرو، بلکہ وہاں سے مسائل اخذ کرو جہاں سے وہ کرتے تھے (یعنی قرآن و سنت)‘‘
تقلید کی مثالیں :
ذیل کی سطور میں ہم تقلید کی چند مثالیں بھی پیش کیے دیتے ہیں، جن سے تقلید کی قباحت ، شناعت اور ہیبت واضح ہو جائے گی اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اسے کبیرہ گناہ کہیں ، یا شرک کہیں ۔ بہر کیف فیصلہ انہیں خود کرنا ہو گا۔
ملاعلی قاری مرقاۃ شرح مشکوة (۲۸۲/۳) پر ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
((وَلَا إِشَكَالَ فِي ظَاهِرِ الْحَدِيثِ عَلَى مُقْتَضَى مَذْهَبِ الشَّافِعِي فَإِنَّهُ مَعْمُولٌ عَلَى حَالَةِ الْقَصْرِ ، وَقَدْ صَلَّى بِالطَّائِفَةِ الثَّانِيَةِ تَقُلًا وَعَلَى قَوَاعِدِ مَذْهَبِنَا مُشْكِلٌ جِدًّا.))
’’حدیث اپنے معنی میں بالکل واضح اور ظاہر ہے ، اور شافعی مذہب کی صریح موید بھی (یعنی حمایت میں صاف دلیل ہے ) کہ اسے حالت قصر پر محمول کریں گے ، اور دوسرے گروہ کو آپ نے نفل نماز پڑھائی لیکن (اس حدیث پر ) ہمارے مذہب کے مطابق عمل کرنا بہت مشکل ہے۔“
اور شیخ الہند مولوی محمود الحسن کے متعلق بھی پڑھ لیں کہ جب ان کے اپنے امام کے قول پر زد پڑتی ہے تو حدیث کو کاٹ پھینکنے کے لیے تقلید کی درانتی کس بے دردی سے چلاتے ہیں۔ نعوذ باللہ ، چنانچہ خیار مجلس کے مسئلہ میں تقریر ترمذی (ص:۴۰) پر رقم طراز ہیں:
((الْحَقُّ وَالْإِنصَافُ أَنَّ التَّرْجِيع لِلشَّافِعِي فِي هَذِهِ المَسْئَلَةِ ، وَنَحْنُ الْمُقَلِدُونَ يَجِبُ عَلَيْنَا تَقْلِيدُ إِمَامِنَا أَبِي حَنِيفَةَ .))
’’حق و انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح امام شافعی کو ہے ( کیونکہ دلائل و احادیث ان کی مؤید ہیں) لیکن چونکہ ہم مقلد ہیں ، اور ہم پر امام ابو حنیفہؒ کی تقلید واجب ہے۔“
اور سب الذمی (یعنی مسلمان رعیت میں رہنے والا کافر ، اگر شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی کرتا ہے تو اس کا ذمہ ٹوٹ گیا، یہ جمہور علماء ومحد ثین کا قول ہے ) کے متعلق ابن نجیم البحر الرائق شرح کنز الدقائق (۱۱۵/۵) پر رقم طراز ہیں:
((نَفْسُ الْمُؤْمِنُ يَمِيلُ إِلَى قَوْلِ الْمُخَالِفِ فِي مَسْئَلَةِ السَّيْ لَكِن اتَّبَاعُنَا لِلْمَذْهَبِ وَاجِبٌ .))
’’(انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ) اس مسئلہ میں ایک مومن کا دل مخالف کی رائے کی طرف مائل ہوتا ہے ، لیکن ( کیا کریں؟) مذہب کی اتباع بھی تو واجب ہے۔‘‘
(لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا باللَّهِ)
قاعدہ یہ ہے کہ قرآنی آیت اگر ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہو گی تو اسے شیخ یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا ، اور اولیٰ یہ ہے کہ اسے تاویل پر محمول کیا جائے تا کہ توافق ظاہر ہو جائے۔
اسی طرح اگر کوئی حدیث ہمارے اصحاب ( آئمہ ) کے قول کے خلاف ہو تو اسے شیخ پر محمول کیا جائے گا یا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اپنی ہم پلہ حدیث کے معارض ہے ۔
اصول کرخی، اصول نمبر ۲۸، ص: ۲۵۔ مطبوعہ ادارہ تحقیقات اسلام ۔
تعصب کی انتہا یہاں ہو گئی کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھ دیا:
(( فَلَعْنَةُ رَبَّنَا أَعْدَادَ رَمُلٍ عَلى مَنْ رَدَّ قَوْلَ أَبِى حَنِيفَةَ .))
در مختار ۱۳۶۱، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمینی، کراچی۔
’’اس شخص پر ریت کے ذرات کے برابر لعنتیں ہوں جو امام ابو حنیفہؒ کے قول کو ٹھکرا دے۔“
ہم نے یہ چند اقوال بطور مثال پیش کیے ہیں، ورنہ اس کو چہ اسرار و رموز سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ حقیقت حال اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ ایمان اور عقیدہ کی یہ جان کنی اور سلفی منہج سے انحراف تقلید شخصی کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟
تقلید کے ثمرات:
علاوہ ازیں یہ تقلید شخصی ہی ہے جس نے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ، اور وہ گروہ بندی کا شکار ہو کر رہ گئی ، چنانچہ کوئی حنفی بنا تو کوئی شافعی ، اور کوئی مالکی بنا تو کوئی حنبلی ، پھر ایک دوسرے کو گمراہ قرار دینے کی وبا پھوٹی ۔ یہاں تک کہ فتوے صادر ہوئے :
’’ایک حنفی مسلمان کی نماز شافعی امام کے پیچھے جائز نہیں، یا اس کے برعکس !‘‘
گو یا ابلیس لعین مسلمانوں کو لڑانے اور انہیں فرقوں میں بانٹ کر منتشر کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ إِنَّا لِلهِ .
’’تقلید مذاہب کے سبب اسلام کو جو نقصان پہنچا ، اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ جیسے الشیخ محمد سلطان المعصومی الحجندی المکی نے اپنی کتاب ’’هل المسلم ملتزم باتباع مذهب معین‘‘ ص: ۳ پر ذکر کیا ہے ، اور جو امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آپ رقم طراز ہیں:
’’جاپان کے شہر ٹوکیو سے انہیں ایک خط موصول ہوا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جاپان کے چند روشن دماغ آدمی اسلام کی طرف مائل ہوئے تو انہوں نے اپنا ارادہ جمعیت المسلمین ٹوکیو کے سامنے ظاہر کیا ، تو وہاں پر جو ہندوستان کے حنفی علماء تھے وہ کہنے لگے تم ابو حنیفہ کے مذہب کو قبول کرو۔ کیونکہ وہ سراج اُمت ہیں۔ لیکن جاوا ( انڈونیشیا) کے شافعی علماء نے ان کو مشورہ دیا کہ تم شافعی مذہب قبول کرو تو وہ لوگ دونوں کی کھینچا تانی کی وجہ سے اسلام قبول نہ کر سکے ۔“
یہ ہیں تقلید کی وہ برکات جس کے پیش نظر علماء حق ہمیشہ تقلید شخصی سے منع کرتے رہے۔ کیونکہ تقلید مذاہب اُمت مسلمہ میں فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب کا سب سے بڑا سبب بنی ۔ حتی کہ یہ اسلام قبول کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقلید مذاہب کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ تعلق نہیں۔
اسلام کی حقیقی تعلیمات تو یہ تھیں کہ مسلمان ہمیشہ متفق و متحد رہیں اور دین حق کی صاف ستھری اور سادہ تعلیمات کو دیکھ کر اللہ کی مخلوق بلا تردد اسلام میں داخل ہوتی رہے۔ لیکن بعض لوگوں نے تقلید کو واجب ٹھہرا کر اسلام کی روشن تعلیمات کو گہنانے کی کوشش کی اور دین حنیف کو زبردست نقصان پہنچایا ۔
ونعوذ بالله من هذه الخزعبلات