ترانے کے لیے قیام
تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : ہمارے ملک میں یہ طریقہ رائج ہے کہ قومی ترانہ کی تعظیم میں تمام لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں کیا یہ قیام نماز کے قیام کی طرح ہے اور کیا یہ درست ہے ؟
جواب : نماز والا قیام ایک شرعی عبادت ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ پاک کے علاوہ کسی دوسرے آدمی، عورت یا کسی ترانے و نغمے کی تعظیم کے لیے بھی اپنی جگہ کھڑا ہونا جائز نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ [2-البقرة:238]
’’ نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے خاموش ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔“ [البقرة : 238]
معلوم ہوا قیام صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کرنا چاہئیے، اللہ کے علاوہ کسی کے لیے قیام کرنا درست نہیں، جو اس چیز کو پسند کرتے ہیں کہ لوگ ان کے لیے کھڑے ہوں، ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ کی وعید سنائی ہے۔ خواہ وہ استاد ہو یا مرشد، چودھری ہو یا وڈیرا، صدر ہو یا وزیراعظم یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا افسر ہو، اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا ہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من احب ان يمثل له الرجال قياما فليتبوا مقعده من النار .
’’ جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“ [ ابودؤد، كتاب الادب : باب فى قيام الرجل للرجل : 5229، ترمذي، كتاب الادب : باب ما جآء فى كراهية قيام الرجل للرجل : 2755]
ابومجلز رحمه الله فرماتے ہیں :
ان معاوية دخل بيتا فيه ابن عامر وابن الزبير رضي الله عنهما فقام ابن عامر وجلس ابن الزبير فقال له معاوية اجلس فاني سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم: من سره ان يتمثل له العباد قياما فليتبوا مقعده بيتا في النار
’’ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک گھر میں داخل ہوئے، اس گھر میں ابن عامر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ تھے تو ابن عامر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ بیٹھے رہے، ابن عامر رضی اللہ عنہ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ بیٹھ جاؤ بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ بندے اس کے لیے مطیع ہو کر کھڑے کیے جائیں وہ اپنا گھر آگ میں بنا لے۔“ [مسند احمد : 4/ 93، 100، شرح السنة : 12/ 295، 3330]
امام بغوی رحمه الله نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے یوں بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من احب ان يتمثل له بنو آدم قياما وجبت له النار
’’ جو آدمی اس بات کو پسند کرے کہ اولاد آدم اس کے لیے قیام کی صورت میں مطیع ہو جائے اس کے لیے آگ واجب ہے۔“ [طبراني كبير : 19/ 362، مشكل الآثار : 2/ 38، 39]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت تھی لیکن اتنی شدید محبت کے باوجود وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے :
ان انس قال : لم يكن شخص احب إليهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : وكانوا إذا راوه لم يقوموا لما يعلمون من كراهيته لذلك
’’ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کو ئی شخص محبوب نہیں تھا اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قیام کو برا سمجھتے ہیں۔“ [ ترمذي، كتاب الادب : باب ما جآء فى كراهية قيام الرجل للرجل : 2754، شرح السنة : 12، 294]
اس حدیث کو امام ترمذی امام بغوی رحمه الله نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی پاکباز، اعلیٰ و ارفع ہستی کے لیے قیام جائز نہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کون ایسا ہو سکتا ہے جس کے لیے قیام کیا جائے ؟ لہٰذا کسی سکول ماسٹر، جج، وکیل، پروفیسر، ڈائریکڑ، صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، فوجی، افسر، جنرل و کرنل، بریگیڈئیر، سیاستدان، دینی و سیاسی رہنما کے احترام میں یا کسی گلوکار وغیرہ کے ترانے و نغمے یا گانے پر کھڑے ہونا شرعاً درست نہیں بلکہ جو لوگ اس قیام کو پسند کرتے ہیں وہ اس دنیا ہی میں اپنے لیے جہنم خرید رہے ہیں۔ بعض لوگ قیام کے جواز کے لیے یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے آنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا :
قوموا الی سیدکم ’’ اپنے سردار کی طرف اٹھو۔“ [بخاري، كتاب المغازي : باب مرجع النبى من الاحزاب : 4121]
اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ معلوم ہوا کہ کسی کی تعظیم کی خاطر کھڑا ہونا جائز ہے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نہیں فرمایا تھا : قوموا السیدکم ’’ اپنے سردار کی خاطر اٹھو۔“ بلکہ یوں فرمایا تھا کہ قوموا الی سیدکم ’’ اپنے سردار کی طرف اٹھ کو جاؤ۔“ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ خندق میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے۔ ایک قریشی حبان بن قیس نے ان کے بازو کی رگ میں تیر مارا تھا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خبر گیری کرنے کے لیے مسجد میں خیمہ لگوا دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس آئے تو آ کر اسلحہ اتارا اور غسل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل امین تشریف لائے۔ انہوں نے کہا: ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلحہ اتار دیا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں نے تو ابھی اسلحہ نہیں اتارا، ان کی طرف نکلیں۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ کہاں ؟“ تو جبرائیل علیہ السلام نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ قصہ مختصر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا کیونکہ انہوں نے معاہدہ توڑ کر کفار کی مدد کی تھی۔ جب وہ محاصرہ سے تنگ آ گئے تو انہوں نے قلعوں سے نکل کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کرنا اس شرط پر منظور کیا کہ سعد رضی اللہ عنہ جو حکم کریں گے۔ وہ ہمیں منظور ہے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سعد رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے۔ جب سعد رضی اللہ عنہ مسجد کے قریب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا : ’’ اپنے سردار (یا بہترین آدمی) کی طرف اٹھو۔“ [بخاري، كتاب المغازي : باب مرجع النبى من الاحزاب : 4121، 4122]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قوموا الي سيدكم فانزلوه ’’ اپنے سردار کی طرف اٹھو اور انہیں اتارو۔“ [مسند احمد : 6/ 142]
حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے، جو ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہے۔ [فتح الباري : 7/ 412]
یہی بات ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے قواعد فی علوم الحدیث میں ذکر کر ہے۔ اس حدیث سے صراحتاً معلوم ہوا کہ سعد رضی اللہ عنہ مریض تھے اور گدھے پر سوار ہو کر آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جب دیکھا کہ وہ مسجد کے قریب آ چکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو انہیں گدھے سے اتارنے کے لیے حکم دیا تھا نہ کہ اپنی جگہ کھڑے ہونے کا۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی تعظیم کے لیے قیام کا حکم دے بھی کیسے سکتے تھے ؟ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے تعظیمی قیام بھی مکروہ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں اوپر ذکر ہو چکا ہے۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے