” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جابر اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا۔۔۔ “
چند سال پہلے پاکستانی بریلویوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور اس من گھڑت روایت کی سند دریافت کر لی ہے۔ پندرھویں صدی میں کیے جانے والے اس مضحکہ خیز دعوے کا علمی رد ایک تحقیقی مقالے کی صورت میں پیش خدمت ہے۔
الجواب :
قلمی اور مطبوعہ کتابوں سے استدلال کی شرائط
قرآن مجید، اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو اس نے اپنے بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل فرمائی اور مسلمانوں کے ہاتھوں اور سینوں میں بعینہ و مِن و عَن محفوظ ہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ من و عن اور بعینہ محفوظ ہیں۔ ان دونوں کتابوں کی صحت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ دیکھئے علوم الحدیث لابن الصلاح [ص41، 42] و اختصار علوم الحدیث [ص128، 124]
شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی فرماتے ہیں کہ : ”صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع حدیث یقیناًً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں، جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔ “ [حجة الله البالغه، اردو : 242/1، مترجم : عبدالحق حقاني ]
ان تینوں کتابوں کے علاوہ دنیا کی کسی کتاب سے بھی استدلال کرنے کے لئے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے۔
➊ صاحبِ کتاب ثقہ و مصدوق ہو، مثلاً امام ابوداؤد (صاحب السنن ) امام ترمذی (صاحب الجامع) امام نسائی رحمہ اللہ (صاحب المجتبی و الکبری) امام ابن ماجہ (صاحب السنن ) امام مالک (صاحب المؤطا) وغیرہ م ثقہ بلکہ فوق الثقہ تھے۔
اگر صاحبِ کتاب ثقہ و صدوق نہ ہو بلکہ مجروح و مجہول و ساقط العدالت ہو تو اس کی کتاب سے استدلال باطل ہو جاتا ہے مثلاً احمد بن مروان بن محمد الدینوری صاحب المجالسۃ وجواھر العلم یضع الحدیث : لسان المیزان 309/1 وثقہ مسلمۃ و مسلمۃ مجروح الدولابی صاحب الکنی (ضعیف) محمد بن الحسن الشیبانی صاحب المؤطا (کذاب بقول ابن معین )ابوجعفر الکلیبی صاحب الکافی (رافضی غیر موثق ) یہ سب ساقط العدالت تھے لہٰذا ان کتابوں سے استدلال مردود ہے۔
➋ کتاب کے مخطوطے کا ناسخ و کاتب : ثقہ و صدوق ہو۔
حافظ ابن الصلاح الشہرزوری فرماتے ہیں کہ :
وهو أن يكون ناقل النسخة من الأصل غير سقيم النقل، بل صحيح النقل، قليل السقط
اور (تیسری ) شرط یہ ہے کہ اصل کتاب سے نسخے کا ناقل (کاتب و ناسخ) غلط نقل کرنے والا نہ ہو، بلکہ صحیح نقل کرنے اور کم غلطیاں کرنے والا ہو۔ [علم الحديث لا بن الصلاح ص 303، نوع : 25 ]
اس شرط سے معلوم ہوا کہ اگر کتاب کا کاتب غیر ثقہ اور مجہول ہو تو اس کتاب سے استدلال جائز نہیں ہے۔
حبیب الرحمٰن اعظمی دیوبندی کی تحقیق سے چھپی ہوئی مسند الحمیدی کے مخطوطے مخطوطہ دیوبندیہ، نوشتہ 1324 حبیب الرحمٰن اعظمی دیوبندی کی تحقیق سے چھپی ہوئی مسند الحمیدی کے مخطوطے (مخطوطہ دیوبندیہ، نوشتہ 1324ھ) اور نسخہ سعیدیہ (نوشتہ 1311ھ) کے کا تبین کا ثقہ و مصدوق ہونا نامعلوم ہے، ان کے نسخوں کے مطالعے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات کثیر الغلاط ہیں۔ مسند حمیدی للاعظمی کے نسخے کا کوئی صفحہ بھی نکالیں، غلطیوں اور تصاحیف سے بھرا ہوا ہے مثلاً ص 1 پر لکھا ہوا ہے کہ في الأصل : يزيد، والصواب زيد یعنی اس نسخے کی ابتداء ہی غلط ہے۔ ایک جگہ اعظمی صاحب خود لکھتے ہیں : في الأصل : تقوت، وهى محرفة [مسند الحميدي 15/1 تحت ح 24] یعنی اصل میں ”تقوت“ کا لفظ محرف ہے، تحریف ہو گئی ہے۔
عرض ہے کہ ایسی محرف کتابوں سے وہی لوگ استدلال کرتے ہیں جو تحریفات و اکاذیب سے محبت رکھتے ہیں۔
➌ ناسخ مخطوطہ سے صاحب کتاب تک سند صحیح ہو، مثلاً :
ابن ابی حاتم الرازی کی کتاب”اصول الدین“ کی سند، صاحب مخطوطہ سے لے کر ابن ابی حاتم تک صحیح ہے۔ [ديكهئے الحديث حضرو، ج اشماره : 2 ص 41]
جبکہ شرح السنہ للبر بہاری کی سند میں دو راوی مجروح ہیں۔
اول : غلام خلیل کذاب ہے [الحديث : 2، ص25 ]
دوم : قاضی احمد بن کامل متساھل (ضعیف) ہے۔ [ ايضاً ص25 ]
لہٰذا اس کتاب (شرح السنہ للبر بہار ی : مطبوع و مخطوط ) سے استدلال صحیح نہیں ہے۔
➍ مخطوطہ ( کتاب کے قلمی نسخے ) کا محل وقوع، خط، تاریخ نسخ پہچاننا اور قدامت کی تحقیق ضروری ہے، جو نسخہ پر ان ا اور قلیل الغلط ہو، اسے بعد والے تمام نسخوں پر فوقیت حاصل ہے۔
➎ نسخہ پر علمائے کرام اور ائمہ دین کے سماعات ہوں، مثلاً مسند حمیدی کا مخطوطہ ظاہریہ، نسخہ دیوبندیہ و نسخہ سعیدیہ سے قدیم ترین ( نوشتھ 689ھ) ہے اور اس پر جلیل القدر علماء کے سماعات بھی ہیں اور قلیل الغلط بھی ہے لہٰذا ان دونوں (دیوبندیہ و سعیدیہ ) پر فوقیت حاصل ہے۔
( سماع کی جمع سماعات ہیں، جب ایک قلمی نسخہ علماء کرام خود پڑھتے یا انہیں سنایا جاتا تو وہ اس پر لکھ دیتے تھے کہ یہ فلاں فلاں نے پڑھایا سنا ہے، اسے سماعات کہتے ہیں۔ )
➏ نسخہ علماء کے درمیان مشہور ہو۔
آج اگر کوئی شخص افغانستان، قزاقستان، گرجستان وغیرہ کے کسی کونے کھدرے سے خود ساختہ نسخہ پیش کر کے شور مچانا شروع کر دے کہ مخطوطہ مل گیا ہے تو علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
➐ اس کتاب کے دیگر نسخوں کو مدنظر رکھا جائے مثلاً قاسم بن قطلوبغا (کذاب) نے مصنف ابن ابی شیبہ کے ایک (نامعلوم )نسخہ سے ”تحت السرۃ“ کے اضافے والی حدیث نقل کی ہے جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے دیگر نسخوں میں یہ اضافہ قطعاً موجود نہیں ہے خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب ایک اصول سمجھاتے ہیں کہ :
اگر ایک عبارت بعض نسخوں میں ہو اور بعض میں نہ ہو تو :
فعلي هذا هذه العبارة مشكوك فيها
اس طرح سے یہ عبارت مشکوک ہو جاتی ہے۔ [ بذل المجهود 471/4 تحت ح : 748 ]
➑ اس کتاب کی عبارات و روایات کا ان کتابوں سے مقارنہ کیا جائے جن میں اس کتاب سے روایت یا نقل موجود ہے، مثلاً سنن ابی داؤد کی احادیث کا السنن الکبری للبیہقی میں احادیث ابی داؤد سے مقارنہ مقابلہ کیا جائے۔ امام بیہقی رحمہ الله اپنی سند کے ساتھ امام ابوداؤد سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔
➒ یہ بھی شرط ہے کہ علمائے کرام اور محدثین عظام سے نسخہ مذکورہ پر طعن و جرح نہ کر رکھی ہو۔
➓ صاحبِ کتاب سے اگر کتاب صحیح و ثابت ہو تو پھر بھی یہ شرط ضروری ہے کہ :
صاحبِ کتاب سے لے کر صاحبِ قول یا صاحبِ روایت تک سند صحیح یا حسن لذاتہ ہو۔ ان شرائط میں اگر ایک شرط بھی موجود نہ ہو تو اس کتاب کی روایت سے استدلال کرنا باطل و مردود ہوجاتا ہے۔
تنبیہ : محمد محب اللہ نوری بریلوی نے دعویٰ کیا ہے کہ :
”حال ہی میں فضیلۃ الشیخ عیسی مانع (سابق منسٹر اوقاف دبئی ) اور اہلسنت کے نامور عالم دین اور محقق حضرت علامہ محمد عباس رضوی کی جسجتو سے مصنف عبدالرزاق کا مخطوطہ افغانستان سے دستیاب ہوا ہے، جس میں تخلیق نور محمدی پر مستقل باب موجود ہے اور اس میں حدیث جابر کم و بیش پانچ سندوں کے ساتھ درج ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی اشاعتی ادارہ اس مخطوطہ کی شایانِ شان اشاعت کا اہتمام کر دے۔ “ [ ماهنامه اهلسنت گجرات، اگست 2003 ء ص4 ]
عرض ہے کہ بریلوی و دیوبندی دونوں گروہ اہل سنت نہیں ہیں، ان کے اصول و عقائد اہل سنت سے مختلف ہیں۔
تنبیہ : بریلوی و دیوبندی حضرات حنفی بھی نہیں ہیں۔
مصنف عبدالرزاق کے اس نو دریافت شدہ مخطوطے سے استدلال اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب اس میں درج ذیل شرائط موجود ہوں۔
① ناسخ مخطوطہ ثقہ و صدوق ہو۔
② اس بات کا ثبوت ہو کہ یہ مخطوطہ واقعی اسی ناسخ نے لکھا ہے۔
③ صاحب ناسخ مخطوطہ سے لے کر امام عبدالرازق تک سند صحیح و حسن ہو۔
④ امام عبدالرزاق سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صاحبِ قول تک سند صحیح و حسن ہو۔
⑤ اس مخطوطے میں وہ تمام شرائط موجود ہوں جن کا تذکرہ اس مضمون میں کیا گیا ہے۔
ایک تبصرہ
اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے ۔
فرصت سے آئندہ