عبدالله بن زید بن اسلم اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں:
ہم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے جب وہ رات میں مدینہ منورہ کا گشت لگا رہے تھے۔ انہوں نے تھکن محسوس کی تو ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور اس وقت آدھی رات گزر چکی تھی۔ انہوں نے ایک عورت کی آواز سنی جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی : میری بیٹی اٹھو اور دودھ میں تھوڑا پانی ملا دو۔ لڑکی نے کہا: امی کیا آج تم نے امیر المومنین کی منادی نہیں سنی؟ ماں نے پوچھا:”وہ کیا تھی؟“ لڑکی نے جواب دیا: انہوں نے کسی شخص کو حکم دیا تھا کہ وہ بلند آواز سے منادی کر دے کہ کوئی دودھ میں پانی نہ ملائے۔ ماں نے کہا : ”اٹھو اور دودھ میں پانی ملا دو تم ایسی جگہ پر ہو جہاں عمر رضی اللہ عنہ تم کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ لڑکی نے ماں سے کہا : میں ایسا نہیں کر سکتی کہ لوگوں کے سامنے ان کے حکم پر عمل کروں اور تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کروں۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ سن رہے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا: ”جاؤ اور دیکھو یہ لڑکی کون ہے اور کس سے یہ باتیں کر رہی ہے اور کیا وہ شادی شدہ ہے۔“چنانچہ میں اس جگہ گیا اور ان کا حال معلوم کیا۔ وہ ایک غیر شادی شد لڑکی تھی دوسری عورت اس کی ماں تھی۔ اس کا بھی شوہر نہ تھا۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور جو کچھ معلوم کیا تھا بتا دیا۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا : تم میں سے کوئی شادی کرنا چاہتا ہے تو میں تمہاری شادی کا انتظام کیے دیتا ہوں اگر میری شادی کی خواہش ہوتی تو میں سب سے پہلے اس لڑکی کو نکاح کا پیغام دیتا۔ عبداللہ نے کہا: میرے پاس بیوی نہیں ہے میری شادی اس سے کر دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عاصم کی شادی اس لڑکی سے کر دی۔ اس لڑکی سے عاصم کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی والدہ ہوئیں۔
تحقیق الحدیث :
أسناده ضعيف۔
اخبار عمر بن عبد العزيز للأجرى ص48، 49 اس میں عبد اللہ بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے۔
نسائی کہتے ہیں قوی نہیں۔ مزید دیکھیں : میزان الاعتدال جلد 4 ص 103۔ تهذيب الكمال (664/2) تهذيب التهذيب (222/5) (284) تقريب التهذيب (417/1، 316) الکاشف (88/2) تاريخ البخاري الكبير (94/5) الجرح والتعديل (275/5) الضعفاء والمتروكين للنسائی ت (340) المجرومين لابن حبان (10/2) دیوان الضعفاء ت (2175)