بیوہ عورت کا عدت کے دوران گھر تبدیل کرنا
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1

سوال

اگر ایک عورت کا شوہر فوت ہو جائے اور وہ کرائے کے مکان میں رہتی ہو، جبکہ اُس کے میکے والے بھی دور رہتے ہوں اور بھائی بھی کام کی مصروفیات کی بنا پر اُس کے ساتھ نہ رہ سکتا ہو، تو کیا یہ عورت عدت گزارنے کے لیے اپنے میکے منتقل ہو سکتی ہے؟

الجواب

بیوہ عورت کے لیے اپنے اُسی گھر میں عدت گزارنا واجب ہے جس میں وہ رہائش پذیر تھی اور جہاں اُسے شوہر کی وفات کی اطلاع ملی۔ یہ حکم رسول اللہ ﷺ کے ارشاد پر مبنی ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان

«امكثي في بيتك الذي جاء فيه نعي زوجك حتى يبلغ الكتاب أجله»
(رواه أبو داود (2300)، الترمذي (1204)، النسائي (200)، ابن ماجه (2031)، وصححه الألباني)
"تم اسی گھر میں رہو جس گھر میں تمہیں شوہر کی وفات کی اطلاع ملی تھی، یہاں تک کہ عدت کی مدت پوری ہو جائے۔”
فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاریں۔

اہل علم کا مؤقف

اکثر اہل علم اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کو اپنے اُس گھر میں ہی عدت گزارنی چاہیے جہاں اُسے شوہر کی وفات کی خبر ملی تھی۔ تاہم، انہوں نے کچھ حالات میں استثناء کی اجازت دی ہے:

    ◈ اگر عورت کو اپنی جان کا خطرہ ہو
    ◈ اگر کوئی ضروریات پوری کرنے والا نہ ہو اور عورت خود بھی اپنی ضروریات پوری نہ کر سکے

امام ابن قدامہ کا قول

"بیوہ کے لیے اپنے گھر میں عدت گزارنا ضروری ہے، جیسا کہ حضرت عمر، عثمان، ابن عمر، ابن مسعود، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ امام مالک، امام ثوری، امام اوزاعی، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔”
(المغنی، جلد 8، صفحہ 127)
اگر بیوہ کو گھر کے منہدم ہونے، سیلاب، یا دشمن کے حملے کا خطرہ ہو، تو اُس کے لیے کسی دوسری جگہ منتقل ہونا جائز ہے کیونکہ یہ عذر کی حالت ہے۔

مستقل فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ

اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہو گیا ہو اور اُس علاقے میں کوئی اُس کی ضروریات پوری کرنے والا نہ ہو، تو ایسی صورت میں وہ کسی دوسرے شہر منتقل ہو کر عدت گزار سکتی ہے جہاں اُسے امن ہو اور اُس کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
(فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، جلد 20، صفحہ 473)

نتیجہ

لہٰذا، اگر مذکورہ عورت کرائے کا مکان برداشت نہیں کر سکتی یا اکیلے رہنے سے خوف محسوس کرتی ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے میکے منتقل ہو کر عدت گزار سکتی ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے