مضمون کے اہم نکات:
اہل بدعت کے ساتھ تعلق کا حکم
اہل بدعت کے ساتھ میل جول گمراہی کا باعث ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ﴾
﴿الانعام: 116﴾
’’اور اگر (اے پیغمبر!) آپ زمین میں بسنے والے اکثر لوگوں کی بات مانیں گے تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے۔‘‘
امام اسماعیلی سلف صالحین کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿ويرون أهل الحديث مجانبة البدعة والآثام ، وترك الغيبة إلا لمن أظهر بدعة وهو يدع إليها ، فالقول فيها ليس بغيبة عندهم﴾
اعتقاد آئمه الحديث: 87 .
’’گناہ اور غیبت سے بچتے تھے ہاں اس شخص کے بارے میں بات چیت کرتے جس کا بدعتی ہونا واضح ہو جاتا، اور وہ شخص اس بدعت کی دعوت بھی دیتا ہو۔ ایسے شخص (کی غیر موجودگی میں اس) کے بارے میں بات چیت کرنا اہل السنہ کے نزدیک غیبت نہیں ہے۔‘‘
امام بغویؒ :
امام بغویؒ فرماتے ہیں:
یقیناً اللہ کے نبی ﷺ نے اس اُمت کے فرقوں میں بٹ جانے اور ان میں خواہشات و بدعات کے پیدا ہو جانے کی بھی خبر دے دی ہے، اور نجات کا فیصلہ اس جماعت کے حق میں کر دیا جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طریقے پر چلے گی۔ اب یہ بات ایک مسلمان پر لازم ہے کہ جب کوئی شخص بدعات و خواہشات کو عقیدہ بنا کر سر انجام دے یا پھر وہ ایسا کرم کرے جو سنت کو کمزور کر دے تو اس سے قطع تعلقی کرے اور اس سے برأت و بیگانگی کا اظہار کرے اور اس کو زندگی وموت دونوں صورتوں میں چھوڑ دے (یعنی اس کے خوشی و غمی کے معاملات میں شریک نہ ہو) جب کبھی ملاقات ہو تو سلام بھی نہ کہے اور اگر وہ پہلے سلام کہے تو اس کا جواب نہ دے یہاں تک کہ وہ اس بدعت کو چھوڑ کر حق کی طرف لوٹ آئے ، امام بغوی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑنا اس وقت حرام ہے جب اس کی وجہ سے محبت اور معاشرت پر منفی اثر ہو، مگر جب دین کے معاملہ میں ہو اور دین کے حق میں ہو تو تب یہ گناہ نہیں بلکہ خواہشات پرست لوگوں سے اس وقت تک بات چیت بند رکھی جائے جب تک وہ تو بہ نہ کر لیں ۔
شرح السنة: 223/1، 227 .
حسن بصریؒ :
حسن بصریؒ کہتے ہیں:
’’زمانہ ماضی میں اہل سنت اقلیت میں تھے، آئندہ بھی وہ اقلیت میں ہی رہیں گے۔ یہ وہ ہیں جو نہ تو تکبر میں متکبر لوگوں کے ساتھی بنے، اور نہ بدعت میں اہل بدعت کے ساتھی بنے، بلکہ سنت پر رہ کر صبر کرتے رہے، یہاں تک کہ اپنے رب سے جاملے اور تم بھی ایسے ہی ہو جاؤ ۔‘‘
بحواله نجات یافته کون؟ ص : 149 .
امام فضیل بن عیاضؒ :
امام فضیل بن عیاضؒ نے فرمایا:
’’یقینا اللہ کے فرشتے ذکر کے حلقے تلاش کرتے رہتے ہیں لہذا دیکھو کہ تمھارا اُٹھنا بیٹھنا کس کے ساتھ ہے؟ بدعتی کے ساتھ نہ ہو کیونکہ اُن (بدعتیوں) کی طرف (رحمت سے) نہیں دیکھتا اور نفاق کی علامت یہ ہے کہ آدمی کا اٹھنا بیٹھنا بدعتی کے ساتھ ہو۔‘‘
الطيوريات 318/2، رقم : 258 ، حلية الأولياء: 104/8 .
قاضی فضیل بن عیاضؒ مزید فرماتے ہیں:
میں کسی یہودی یا عیسائی کے ہاں کھانا کھاؤں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ کسی بدعتی کے ہاں سے کھانا کھاؤں، کیونکہ جب میں یہودی و عیسائی کے ہاں کھانا کھاؤں گا تو اس بات میں میری پیروی نہیں کی جائے گی، لیکن جب میں کسی بدعتی کے ہاں کھانا کھاؤں گا تو لوگ اس میں میری پیروی کریں گے، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے اور بدعتی کے درمیان لوہے کا قلعہ (یا پردہ) ہو، سنت کے مطابق تھوڑا سا عمل کرنا یہ بدعتی کے (بہت سارے) اعمال سے بہتر ہے اور جو شخص بدعتی کے ساتھ بیٹھتا ہے تاکہ وہ اس بدعتی کو اللہ سے ڈرائے تو یہ صحیح ورنہ اس کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں یہ بھی عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائے اور بدعتی کو اپنے دین کے بارے میں نہ بتاؤ اور اپنے معاملات میں اس سے مشورہ بھی نہ لو ۔
حلية الاولياء أبي نعيم: 301/8 .
ابن مفلح حنبلیؒ :
ابن مفلح حنبلیؒ فرماتے ہیں:
’’متوکل نے اپنے دور حکومت میں فتویٰ پوچھنے کے لیے امام احمدؒ کے پاس آدمی کو بھیجا کہ ہم حکومتی کاموں کے لیے عیسائیوں کو مزدور، ملازم رکھیں یا پھر بدعتی اور خواہش پرست لوگوں کو ملازم رکھیں؟ امام احمد بن حبلؒ نے فتویٰ دیا کہ عیسائیوں کو ملازم رکھنا بدعتیوں کو ملازم رکھنے سے بہتر ہے، پھر جب متوکل کا قاصد چلا گیا تو امام احمد کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں نے آپ سے سوال کیا۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ یہود و نصاریٰ تو ذلیل و رسوا کیے ہوئے ہیں اور ان کی برائی واضح ہے، لیکن یہ اہل بدعت لوگوں پر ان کے دین کو خلط ملط کرتے ہیں اور ان سے ان کے صحیح دین کو چھیاتے ہیں ۔‘‘
الآدب الشرعية: 165 .
فضيلة الشيخ صالح بن فوزان الفوزان:
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظ اللہ اپنی کتاب ’’بدعت‘‘ میں رقمطراز ہیں:
بدعتیوں کے پاس آنا جانا، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا حرام ہے، ہاں اگر مقصد ان کو نصیحت کرنا اور ان کے اس فعل پر نکیر ہو تو جائز ہے۔ اس لیے کہ بدعتی سے ملنا جلنا، ملنے والے پر بہت برا اثر چھوڑتی ہے جس کی برائیاں دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور جب انھیں بدعت سے روکنے اور گرفت کرنے کی طاقت نہ ہو تو ان سے اور ان کی برائیوں سے ڈرانا ضروری ہے۔ اور ممکن ہونے کی صورت میں مسلم علماء کرام اور ان کے اولی الامر پر ان کی گرفت کرنا، ان کی برائیوں سے انھیں باز رکھنا اور انھیں بدعتوں سے روکنا واجب ہے اس لیے کہ اسلام پر ان کے خطرات بہت سخت ہیں۔
پھر یہ جاننا ضروری ہے کہ کافر ممالک بدعت کی نشر و اشاعت میں بدعتیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں اسلام کا خاتمہ نظر آتا ہے اور اس کی صورت دوسروں کی نظریں بگاڑ نا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد فرمائے اور اپنے کلے کو بلند کرے اور دشمنوں کو رسوا کرے۔