اگر قربانی کا جانور خریدنے کے بعد نقص پیدا ہوجائے تو
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، پی ڈی ایف لنک

سوال:

اگر کوئی شخص قربانی کے لئے جانور خریدے، جانور خریدنے کے بعد اُس کے اندر عیب پیدا ہو جائے مثلاً اس کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا کانا ہو جائے تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے جانور نیا خریدنا چاہئے یا وہی جانور قربان کر دیا جائے ۔ قرآن وحدیث ، آثار صحابہ اور اجماع امت کی روشنی میں جواب ارشاد فرما ئیں اور یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا اہلحدیث اجماع امت اور اجتہاد شرعی کے قائل ہیں۔ اجماع واجتہاد کا حجت ہونا کس دلیل سے ثابت ہے؟

جواب مفصل تحریر فرمائیں۔

الجواب:

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کانے یالنگڑے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((أربع لا تجوز فى الأضاحي: الــعــراء بين عورها، والمريضة بين مرضها والعرجاء بين عرجها والكسير التي لا تنقى.))

چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے :

واضح طور پر کانا ، واضح طور پر بیمار ، صاف طور پر لنگڑا اور اتنا کمزور جانور کہ اس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو۔

(سنن ابی داود :۲۸۰۲ وسنده صحیح، وصححہ الترمذی: ۱۴۹۷ وابن خزیمہ: ۲۹۱۲ وابن حبان : ۱۰۴۶، ۱۰۴۷، وابن الجارود: ۴۸۱ ، ۹۰۷ والحاکم ار۴۶۷، ۴۶۸ و وافقہ الذہبی )

یہ اس حالت میں ہے جب قربانی کے لئے جانور خریدا جائے۔

اگر ان عیوب سے صاف ستھرا جانور برائے قربانی خریدا گیا ہو اور بعد میں اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو اس کے بارے میں سیدنا عبد اللہ بن الزبیرؓ فرماتے ہیں:

’’ إن كان أصابها بعد ما اشتريتموها فأمضوها و إن كان أصابها قبل أن تشتر وها فأبد لوها‘‘

اگر یہ نقص و عیب تمھارے خریدنے کے بعد واقع ہوا ہے تو اس کی قربانی کر لو اور اگر نقص و عیب تمھارے خریدنے سے پہلے واقع ہوا تھا تو اس جانور کو بدل لو یعنی دوسرے جانور کی قربانی کرو۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی ج ۹ص ۲۸۹ سندہ صحیح)

اہل سنت کے مشہور ثقہ امام اور جلیل القدر تابعی امام ابن شہاب الزہریؒ فرماتے ہیں:

’’إذا اشترى الرجل أضحية فمرضت عنده أو عرض لها مرض فهى جائزة

اگر کوئی شخص قربانی کا جانور خریدے پھر وہ اس کے پاس بیمار ہو جائے تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔

(مصنف عبدالرزاق ۳۸۶/۴ ح ۸۱۶۱ وسنده صحیح، دوسرا نسخہ ۸۱۹۲)

خلاصہ یہ کہ صورتِ مسئولہ میں قربانی والے جانور کی قربانی جائز ہے۔

الحمد للہ اہل حدیث اجماع امت کے حجت ہونے اور اجتہاد شرعی کے جائز ہونے کے قائل ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

(لا يجمع الله أمتي على ضلالة أبدًا ويد الله على الجماعة)

اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت (یعنی اجماع) پر ہے۔

(المستدرک للحاکم ج ا ص ۱۱۶ ح ۲۹۹ وسندہ صحیح)

اس حدیث سے حاکم نیشاپوری نے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔

سیدنا عمرؓ نے قاضی شریحؒ کی طرف لکھ کر بھیجا تھا:

اگر کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی نہ ملے تو دیکھنا کہ کس بات پر لوگوں کا اجماع ہے پھر اسے لے لینا۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۷ ص ۲۴۰ ح ۲۲۹۸۰ وسنده صحیح، المختارة للضياء المقدسی ۱/ ۲۳۸ ح ۱۳۴ سنن الدارمی : ۱۶۹، ماہنامہ الحدیث حضرو: ۴۷ ص ۴۸)

سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:

’’ما رأى المسلمون حسنًا فهو عند الله حسن وما رآه المسلمون سيئًا فهو عندالله ن سيئًا فهو عند الله سي ….

تمام مسلمان جسے اچھا سمجھیں تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جسے تمام مسلمان بُرا سمجھیں تو وہ اللہ کے نزدیک بھی بُرا ہے۔

(المستدرک للحاکم ۷۸/۳ح۴۴۶۵ وسنده حسن وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی )

سید نا ابو مسعود عقبہ بن عمر والانصاریؓ فرمایا:

’’ أوصيك بتقــوى الـلـه ولـزوم الجماعة فإن الله لم يكن ليجمع أمة محمد ﷺ على ضلالة

میں تجھے اللہ کے تقویٰ اور جماعت (اجماع) کے لازم پکڑنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ محمد ﷺ کی امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔

(النقیہ والمنفقہ للخطیب (۱۹۷/۱، وسندہ صحیح)

امام محمد بن ادریس الشافعیؒ نے اپنی مشہور کتاب الرسالہ میں حجیت اجتماع پر دلائل ذکر کئے ہیں۔

دیکھئے ص ۴۷۱۔ ۴۷۶ فقرہ:۱۳۰۹ تا ۱۳۲۰

حافظ ابن حزم اندلسی اپنے غرائب وشذوذ کے باوجود اعلان فرماتے ہیں:

أن الإجماع من علماء أهل الإسلام حجة و حق مقطوع به في دين الله عز وجل‘‘

علمائے اہلِ اسلام کا اجماع حجت اور اللہ کے دین میں قطعی حق ہے۔

(الاحکام فی اصول الاحکام جلد اول حصہ چہارم ص ۵۲۵)

امام بخاریؒ کے مشہور ثقہ استاذ امام ابوعبید القاسم بن سلام فرماتے ہیں:

’’ إلا أن يوجد علمه في كتاب أو سنة أو إجماع ‘‘

سوائے یہ کہ اس کا علم کتاب ( قرآن ) یا سنت (حدیث) یا اجماع میں پایا جائے۔

(کتاب الطہو للامام ابی عبید ص ۱۲۴‘ قبل ح ۳۳۵)

اس طرح کے بے شمار حوالے کتب حدیث وغیرہ میں مذکور ہیں۔

برصغیر کے اہل حدیث علماء بھی اجماع کو حجت تسلیم کرتے ہیں مثلاً

سید نذیر حسین دہلویؒ کے شاگرد حافظ عبد اللہ غازیپوریؒ فرماتے ہیں:

واضح رہے کہ ہمارے مذہب کا اصل الاصول صرف اتباع کتاب وسنت ہے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل حدیث کو اجماع امت وقیاس شرعی سے انکار ہے۔ کیونکہ جب یہ دونوں کتاب وسنت سے ثابت ہیں تو کتاب وسنت کے ماننے میں ان کا ماننا آ گیا“۔

(ابراء اہل الحدیث والقرآن باب اہل حدیث کے اصول و عقائد ص ۳۲)

معلوم ہوا کہ اہلِ حدیث کے نزدیک ہر دور میں اُمت مسلمہ کا اجماع شرعی حجت ہے۔ اجتہاد کا جواز کئی احادیث سے ثابت ہے مثلاً نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت علم ديا –

((لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة))

بنوقریظہ کے پاس پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز کوئی نہ پڑھے۔

صحابہ کی ایک جماعت نے (اجتہاد کرتے ہوئے) راستے میں نماز پڑھ لی اور دوسرے گروہ نے بنو قریظہ جا کر ہی نماز پڑھی تو نبی کریم ﷺ نے کسی کو بھی برا نہیں کہا۔

( صحیح بخاری: ۱۹۴۶ صحیح مسلم: ۱۷۷۰)

معلوم ہوا کہ نص ( واضح دلیل : قرآن ، حدیث اور اجماع ) نہ ہونے یا نص کے فہم میں اختلاف ہونے کی صورت میں اجتہاد جائز ہے لیکن یہ اجتہاد عارضی اور وقتی ہوتا ہے، اسے دائمی قانون کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔

اجتہاد کی کئی اقسام ہیں مثلاً :

➊ آثار سلف صالحین کو تر جیح دینا

➋ اولیٰ کو اختیار کرنا

➌ قیاس کرنا ( نص کے مقابلے میں ہر قیاس مردود ہے۔)

➍ مصالح مرسلہ کا خیال رکھنا وغیرہ

بعض اہل تقلید دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ادلہ اربعہ چار ہیں یعنی قرآن ، حدیث، اجماع اور اجتہاد لیکن یہ لوگ صرف اپنے خود ساختہ اور مزعوم امام کا اجتہاد ہی حجت سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے تمام اماموں کے اجتہادات کو دیوار پر دے مارتے ہیں۔ مثلاً مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی صاحب نے ایک اہلِ حدیث عالم مولانا محمد حسین بٹالویؒ سے کہا:

” دوسرے یہ کہ میں مقلد امام ابو حنیفہ کا ہوں، اس لئے میرے مقابلہ میں آپ جو قول بھی بطور معارضہ پیش کریں وہ امام ہی کا ہونا چاہئے ۔ یہ بات مجھ پر حجت نہ ہوگی کہ شامی نے یہ لکھا ہے اور صاحب در مختار نے یہ فرمایا ہے، میں ان کا مقلد نہیں ۔“

(سوانح قاسمی ج ۲ ص ۲۲)

محمود حسن دیوبندی صاحب لکھتے ہیں لیکن سوائے امام اور کس کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے .‘‘

(ایضاح الادلہ ص ۲۷۶ سطر نمبر ۱۹‘۲۰)

احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:

’’کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے۔“

(جاء الحق حصہ دوم ص ۹)

نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں:

’’ اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے۔ کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں۔ ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابو حنیفہؓ کا فرمان ہے۔ ہم یہ آیت واحادیث مسائل کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں۔ احادیث یا آیات امام ابو حنیفہؓ کی دلیلیں ہیں ۔“

(جاءالحق حصہ دوم ص ۹۱)

اہل حدیث کے نزدیک اس طرح کی تنگ نظری اور تقلید باطل ہے بلکہ مسائل اجتہادیہ میں جمہور سلف صالحین کو ترجیح دیتے ہوئے اجتہاد جائز ہے اور جو شخص اجتہاد نہیں کرتا وہ بھی قابل ملامت نہیں ہے لیکن ہم تو واضح دلیل نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد اور اس کے جواز کے قائل ہیں ۔

وما علينا إلا البلاغ

(۱۹/ جون ۲۰۰۸ء)

[فتاویٰ علمیہ۶۵۳/۱]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!