انبیاء کرام سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد!

● انبیاء کرام علیہ السلام کے فضائل

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎ ﴿٦﴾ ‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎ ﴿٧﴾ ‏
(1-الفاتحة:5، 6)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ہم کو سیدھے رستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا﴾
(4-النساء:69)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔“

حدیث 1

«عن أبى سعيد عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا تخيروا بين الأنبياء»
صحيح البخاری، رقم : 6916 ، صحیح مسلم، رقم : 2374/163.
”حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء کو ایک دوسرے پر برتری نہ دو۔ “

حدیث 2

«وعن أبى ذر رضى الله عنه قال: قلت: يا رسول الله! أى الأنبياء كان اول؟ قال: أدم قلت: يا رسول الله ونبي كان؟ قال: نعم ، نبي مكلم . قلت: يا رسول الله كم المرسلون؟ قال: ثلث مائة وبضعة عشر جما غفيرا . وفي رواية عن أبى أمامة : قال ابوذر رضى الله عنه قلت: يا رسول الله! كم وفاء عدة الأنبياء؟ قال: مائة ألف واربعة وعشرون الفا، الرسل من ذلك ثلثمائة وخمسة عشر جما غفيرا»
مسند أحمد : 178/5، رقم : 21879، مشكوة المصابيح، كتاب احوال القيامة وبدء الخلق، رقم : 5737 ، مستدرك حاكم : 282/2۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! سب سے پہلے نبی کون تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدم علیہ السلام ۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا وہ نبی تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، ایسے نبی تھے جن پر صحیفہ نازل کیا گیا تھا۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! رسول کتنے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین سو اور دس سے کچھ اوپر کا جم غفیر تھا۔ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے، ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! انبیاء علیہ السلام کی کل تعداد کتنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار، ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو پندرہ ایک جم غفیر ہے۔“

حدیث 3

«وعن أبى حازم قال: قاعدت أبا هريرة خمس سنين فسمعته يحدث عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي وإنه لا نبي بعدي ، وسيكون خلفاء فيكثرون ، قالوا: فما تأمرنا ؟ قال: فوا ببيعة الأول فالأول ، أعطوهم حقهم ، فإن الله سائلهم عما استرعاهم»
صحيح بخاري كتاب احاديث الانبياء، رقم : 3455.
”اور حضرت ابو حازم (سلمان اشجعی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوں، میں نے انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل کی حکومت حضرات انبیاء علیہ السلام چلاتے اور ان کے امور کا انتظام کرتے تھے۔ جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کا جانشین دوسرا نبی ہو جاتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہوگا ، البتہ خلفاء ہوں گے اور وہ بھی بکثرت ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی خلیفہ ہو جائے (اور تم نے اس سے بیعت کر لی ہو ) تو اس سے کی ہوئی بیعت پوری کرو۔ پھر اس کے بعد جو پہلے ہو اس کی بیعت پوری کرو۔ انھیں ان کا حق دو۔ اگر وہ ظلم کریں گے تو اللہ ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنی رعایا کا حق کیسے ادا کیا ؟ “

حدیث 4

«وعن أبى مسعود عقبة رضى الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : إن مما أدرك الناس من كلام النبوة: إذا لم تستحي فافعل ما شئت»
صحیح بخاری، کتاب احاديث الانبياء ، رقم : 3483.
”اور حضرت ابو مسعود عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں نے (سابقہ) کلام نبوت میں سے جو کچھ پایا ہے، اس میں یہ جملہ بھی ہے: جب تم میں شرم وحیا نہ ہو تو جو چاہو کرو “

حدیث 5

«وعن أبى ذر رضى الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لم يبعث الله نبينا إلا بلغة قومه»
مسند احمد بن حنبل : 1518/5، رقم : 21410۔ شیخ شعیب نے کہا اس کا متن صحیح ہے۔
” اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ مبعوث فرمایا۔“

حدیث 6

«وعن أوس بن أبى أوس رضى الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله عزوجل حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء صلوات الله عليهم»
مسند احمد بن حنبل : 8/4، رقم : 16162 ، سنن ابوداؤد، رقم: 1047، 1531، سنن ابن ماجه، رقم : 1085 ، 1636، سنن النسائی، رقم : 91/3۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت اوس بن ابی اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر اس چیز کو حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیا کے جسم کھائے ، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی ہو۔“

● حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور فضائل

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴾
(2-البقرة:34)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں سے ہو گیا۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ‎﴾
(3-آل عمران:59)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہو جا، سو وہ ہو جاتا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾
(7-الأعراف:23)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔“

حدیث 7

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: خلق الله آدم وطوله ستون ذراعا فلما خلقه قال: اذهب فسلم على أولئك من الملائكة . فاستمع ما يحيونك ، تحيتك وتحية ذريتك، فقال: السلام عليكم ، فقالوا: السلام عليك ورحمة الله ، فزادوه: ورحمة الله . فكل من يدخل الجنة على صورة آدم ، فلم يزل الخلق ينقص حتى الآن»
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبياء، رقم : 3326 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو سلام کرو، نیز غور سے سنو وہ تمھیں کیا جواب دیتے ہیں؟ وہی تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: السلام عليكم، تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔ فرشتوں نے جواب دیا: السلام عليك ورحمته الله تجھ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ انھوں نے ورحمة الله کا اضافہ کیا۔ بہر حال جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ سب حضرت آدم علیہ السلام کی شکل وصورت پر ہوں گے گو یہ لوگ ابتدائے پیدائش سے اب تک جسامت میں کم ہورہے ہیں۔ “

حدیث 8

«وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن أول زمرة يدخلون الجنة على صورة القمر ليلة البدر ، ثم الذين يلونهم على أشد كوكب دري فى السماء إضائة ، لا يبولون ولا يتغوطون، ولا يتفلون ولا يمتخطون، أمشاطهم الذهب ورشحهم المسك، ومجامرهم الألوة الأنجوج عود الطيب- وأزواجهم الحور العين ، على خلق رجل واحد على صورة أبيهم آدم ستون ذراعا فى السماء»
صحیح بخاری کتاب احادیث الانبياء رقم : 3327 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے جو جماعت جنت میں داخل ہو گی ان کے چہرے بدر منیر کی طرح چمکتے ہوں گے۔ اور جوان کے بعد داخل ہوں گے ان کے چہرے آسمان میں روشن ستارے کی طرح تابناک ہوں گے۔ وہ نہ تو بول و براز کریں گے، نہ وہ تھوکیں گے اور نہ ناک سے ریزش نکالیں گے۔ ان کی کھنکیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ کستوری کی طرح مہکے گا۔ ان کی انگیٹھیوں میں عود سلگتا رہے گا . یہ نہایت پاکیزہ، خوشبودار عود ہوگا۔ ان کی بیویاں موٹی موٹی سیاہ آنکھوں والی ہوں گی۔ سب کی شکل وصورت ایک جیسی ہوگی، یعنی اپنے والد حضرت آدم علیہ السلام کے قد و قامت کے مطابق ساٹھ ساٹھ اونچے ہوں گے۔“

حدیث 9

«وعن أنس ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لما صور الله أدم فى الجنة تركه ما شاء الله أن يتركه ، فجعل إبليس يطيف به ينظر ما هو، فلما راه أجوف عرف أنه خلق خلقا لا يتمالك»
صحیح مسلم، رقم : 2611/111، مشكوة المصابيح، كتاب احوال القيامة وبدء الخلق، رقم : 5702.
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ نے آدم علیہ السلام کا خاکہ بنایا تو اللہ نے جس قدر چاہا کہ وہ انہیں جنت میں چھوڑ دے تو اس نے اسے اس قدر جنت میں چھوڑ دیا، ابلیس ان کے گرد چکر لگانے لگا تا کہ وہ دیکھے کہ وہ کیا چیز ہے؟ جب اس نے انہیں (اندر سے) خالی دیکھا تو اس نے پہچان لیا کہ یہ ایسی مخلوق تخلیق کی گئی ہے، جو (اپنے نفس کی خواہشات پر ) قابو نہیں رکھ سکے گی۔ “

حدیث 10

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة فيه خلق آدم ، وفيه أهبط ، وفيه تيب عليه وفيه قبض ، وفيه تقوم الساعة»
سنن النسائي، كتاب الجمعة، رقم : 1430 ، مستدرك الحاكم : 593/2۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہیں زمین پر اتارا گیا اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن ان کی روح قبض کی گئی اور اسی دن قیامت بپا ہوگی ۔ “

● سیدنا نوح علیہ السلام کے فضائل

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‎ ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ‎ ﴿١٤﴾ ‏ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ ‎ ﴿١٥﴾ ‏
(29-العنكبوت: 15، 14)

❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس کم ہزار برس رہا، پھر انھیں طوفان نے پکڑ لیا، اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ پھر ہم نے اسے بچالیا اور کشتی والوں کو بھی اور اسے جہانوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔“

حدیث 11

«وعنه قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ألا أحدتكم حديثا عن الدجال ما حدث به نبي قومه ۚ إنه أعور وإنه يجيء معه بمثال الجنة والنار ، فالتى يقول: إنها الجنة، هي النار وإني أنذركم كما أنذر به نوح قومه»
صحیح بخاری، کتاب احاديث الانبياء، رقم : 3338.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمھیں دجال کے متعلق ایسی خبر نہ دوں جو کسی نبی نے آج تک اپنی قوم کو نہیں بتائی؟ بے شک وہ کانا ہے اور اپنے ساتھ جنت اور دوزخ کی شیبہ بھی لائے گا۔ درحقیقت جسے وہ جنت کہے گا وہ آگ ہو گی اور جس کو جہنم کہے گا وہ دراصل جنت ہو گی ، نیز میں تمھیں اس سے خبر دار کرتا ہوں جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا۔“

حدیث 12

«وعنه رضى الله عنه مرفوعا: إن أهل الموقف يأتون نوحا فيقولون: يانوح أنت اول الرسل إلى أهل الارض وسماك الله عبدا شكورا، فاشفع لنا عند ربك ، ألا ترى ما نحن فيه ، إلا ترى ما قد بلغنا؟ فيقول نوح إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ، ولن يغضب بعده مثله ، وإنه كانت لي دعوة على قومي، نفسي نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري»
صحیح مسلم، رقم : 194 ، مسند احمد بن حنبل، رقم : 9621.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک میدان حشر والے لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آکر کہیں گے: اے نوح! آپ اہل زمین کی طرف پہلے رسول تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت شکر گزار بندہ کہا ہے، پس اپنے رب کے ہاں ہمارے لیے سفارش تو کر دو، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس حالت میں ہیں، کیا آپ کو نظر نہیں آرہا ہے کہ ہم کس تکلیف میں مبتلا ہیں؟ نوح علیہ السلام کہیں گے: بیشک میرا رب آج اتنے غصے میں ہے کہ نہ اس سے پہلے اتنے غصے میں آیا تھا اور نہ بعد میں اتنے غصے میں آئے گا، مجھے ایک دعا کا حق تھا، لیکن وہ میں نے اپنی قوم پر پورا کر لیا، ہائے میری جان، میری جان، میری جان، جاؤ تم چلے جاؤ کسی اور کے پاس۔“

حدیث 13

«وعن عبد الله بن عمرر رضى الله عنه ، قال: أتى النبى صلى الله عليه وسلم أعرابي عليه جبة من طيالسة مكفوفة بديباج أو مزرورة بديباج ، فقال: إن صاحبكم هذا يريد أن يرفع كل راع ابن راع ، ويضع كل فارس ابن فارس فقام النبى صلى الله عليه وسلم مغضبا فأخذ بمجامع جبته فاجتذبه وقال: لا أرى عليك ثياب من لا يعقل – ثم رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس فقال: إن نوحا عليه السلام لما حضرته الوفاة دعا ابنيه فقال: إني قاصر عليكما الوصية ، آمركما باثنين وأنهاكما عن اثنتين ، أنهاكما عن الشرك والكبر ، وآمركما بلا إله إلا الله ، فإن السموت والارض و ما فيهما لو وضعت فى كفة الخيرات، ووضعت لا إله إلا الله فى الكفة الأخرى كانت أرجح، ولو أن السماوات والأرض كانتا حلقة فوضعت لا إله إلا الله عليهما لفصمتهما أو لقصمتهما ، وآمركما بسبحان الله وبحمده فإنها صلاة كل شيء، وبها يرزق كل شيء»
مسند احمد، رقم : 7101 ، مسند البزار، رقم : 3069 ، الادب المفرد، رقم : 548 ۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بدو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے سبز شال کا جبہ پہنا ہوا تھا، اس کو ریشم کے ساتھ بند کیا گیا تھا، اس نے کہا : تمہارا یہ ساتھی چاہتا ہے کہ چرواہوں کو بلند کر دیا جائے اور گھڑ سواروں کو پست کر دیا جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہوئے ، اس کو سینے والے مقام سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور فرمایا: میں تجھ پر بیوقوفوں کا لباس نہ دیکھنے پاؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آکر بیٹھ گئے اور فرمایا: بے شک جب نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انھوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا: میں تم کو وصیت کرنے لگا ہوں، میں تم کو دو چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور دو سے ہی منع کرتا ہوں، میں تم کو شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں اور لا إله إلا الله کا حکم دیتا ہوں، اگر آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان والی چیزوں کو نیکیوں والے پلڑے میں اور لا إله إلا الله کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو دوسرا پلڑا بھاری ہو جائے گا، اور اگر آسمان اور زمین ایک کڑا ہوتے اور پھر ان پر لا إله إلا الله کو رکھ دیا جاتا تو یہ کلمہ ان کو توڑ دیتا اور میں تم کو سبحان الله وبحمده کہنے کا حکم دیتا ہوں، کیونکہ یہ ہر چیز کی نماز ہے ۔ اور اسی کی وجہ سے ہر چیز کو رزق دیا جاتا ہے۔“

● سیدنا سلیمان علیہ السلام کی فضیلت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ‎ ﴿٧٨﴾ ‏ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ ‎ ﴿٧٩﴾ ‏
(21-الأنبياء:78، 79)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (یاد کریں) داود اور سلیمان کو جب وہ دونوں اس کھیتی کی بابت میں فیصلہ کر رہے تھے جس رات کو (ایک) قوم کی بکریاں چر گئی تھیں، اور ہم ان کے فیصلے کے شاہد تھے۔ چنانچہ ہم نے وہ (فیصلہ ) سلیمان کو سمجھا دیا، اور ہر ایک کو ہم نے حکم ( نبوت ) اور علم دیا، اور ہم نے داود کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے تھے، وہ تسبیح کرتے تھے، اور ( یہ ) ہم ہی کرنے والے تھے۔ “

حدیث 14

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كانت امرأتان معهما ابناهما جاء الذتب فذهب بابن إحداهما ، فقالت صاحبتها ، إنما ذهب بابنك . وقالت الأخرى: إنما ذهب بابنك . فتحاكمتا إلى داود ، فقضى به للكبرى ، فخرجنا على سليمان بن داود عليهما السلام فأخبرناه فقال: ائتوني بالسكين أشقه بينهما . فقالت الصغرى لا تفعل يرحمك الله ، هو ابنها فقضى به للصغرى»
صحيح البخارى، كتاب أحاديث الانبياء ، رقم : 3427، صحیح مسلم، کتاب الأقضية، رقم : 1720 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو عورتیں تھیں اور دونوں کے ساتھ دونوں کے بچے تھے۔ اتنے میں ایک بھیڑیا آیا اور ایک عورت کے بچے کو اٹھا لے گیا۔ ان دونوں میں سے ایک عورت نے کہا بھیڑیا تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے اور دوسری نے کہا کہ تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے۔ دونوں داؤد علیہ السلام کے ہاں اپنا مقدمہ لے گئیں۔ آپ نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں سیدنا سلیمان بن داؤد کے یہاں آئیں اور انہیں اس جھگڑے کی خبر دی۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا چھری لاؤ۔ اس بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان بانٹ دوں۔ چھوٹی عورت نے یہ سن کر کہا، اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ ایسا نہ کیجئے ، میں نے مان لیا کہ یہ اسی بڑی کا لڑکا ہے۔ اس پر سلیمان علیہ السلام نے اس چھوٹی کے حق میں فیصلہ کیا۔“

● حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴾
(9-التوبة:114)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا بس ایک وعدے کے باعث تھا جو وعدہ انھوں نے اس سے کیا تھا، پھر جب ابراہیم پر واضح ہو گیا کہ یقیناً وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے ۔ بے شک ابراہیم بڑے نرم دل بہت تحمل والے تھے۔“

حدیث 15

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يلقى إبراهيم أباه آزر يوم القيامة، وعلى وجه آزر قترة وغبرة، فيقول له إبراهيم ألم أقل لك لا تعصني؟ فيقول أبوه: فاليوم لا أعصيك . فيقول إبراهيم: يا رب إنك وعدتني أن لا تخزيني يوم يبعثون ، ف أى خزي أخزى من أبى الأبعد؟ فيقول الله تعالى إني حرمت الجنة على الكافرين، ثم يقال: يا إبراهيم ما تحت رجليك؟ فينظر فإذا هو بذيخ ملتطح ، فيؤخد بقوائمه فيلقى فى النار»
صحيح بخاري، كتاب أحاديث الانبياء ، رقم : 3350.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے (والد کے ) چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا۔ سید نا ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے ۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب ! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہوگی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم ! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہوگا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“

حدیث 16

«وعن أنس رضى الله عنه ، قال : قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم : يا خير البرية فقال: ذاك إبراهيم أبى»
مسند احمد : 184/3، رقم : 12908 ، صحیح مسلم، رقم : 2369 .
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے مخلوق میں سے بہترین؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ تو میرے باپ ابراہیم تھے۔ “

● سیدنا لوط علیہ السلام کا ذکر

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ ‎ ﴿٧٨﴾ ‏ قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ ‎ ﴿٧٩﴾ ‏ قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ ‎ ﴿٨٠﴾
(11-هود:78تا80)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
” اور اس کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئے ، جبکہ وہ پہلے ہی سے برے عمل کرتے تھے۔ اس نے کہا: اے میری قوم! یہ میری ( قوم کی) بیٹیاں ہیں (ان سے نکاح کر لو )، یہ تمھارے لیے پاکیزہ تر ہیں لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں؟ انھوں نے کہا: یقیناً تو جانتا ہے کہ ہمارے لیے تیری (قوم کی) بیٹیوں میں کوئی حق (دلچپسی) نہیں اور بلاشبہ تو یقیناً جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اس (لوط) نے کہا: کاش! میرے لیے تمھارے مقابلے میں کوئی قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔“

حدیث 17

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الكريم بن الكريم بن الكريم بن الكريم يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم خليل الرحمن عزوجل، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لو لبثت فى السجن مالبث يوسف ، ثم جاءني الداعى لا جبته إذ جاء الرسول فقال: ﴿ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النَّسْوَةِ اللَّاتِى قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ﴾ و رحمة الله على لوط إن كان ليأوي إلى ركن شديد ، إذ قال لقومه: ﴿لَوْ أَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِى إِلَى رُكْنٍ شَدِيْدٍ﴾ و ما بعث الله من بعده من نبي إلا فى ثروة من قومه »
مسند احمد، رقم : 8373 ، صحيح البخاري ، رقم : 3375 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میں جیل میں اتنا عرصہ ٹھہرتا، جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں فوراً اس کی بات قبول کرتا ، لیکن یوسف علیہ السلام نے کہا: تو لوٹ جا اپنے آقا کی طرف اور اس سے ان عورتوں کے بارے میں پوچھ، جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے، بے شک میرا رب ان کے مکرو کو جاننے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا: اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، انھوں نے اپنی قوم سے کہا: کاش کہ مجھ میں تمہارا مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔ (ہود: 80) ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا، اس کو اس کی قوم کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔“

● سیدنا موسیٰ اور خضر علیہ السلام کا قصہ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا ‎ ﴿٦٠﴾ ‏ فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا ‎ ﴿٦١﴾ ‏فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَٰذَا نَصَبًا ‎ ﴿٦٢﴾ ‏
(18-الكهف:60، 61، 62)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جب موسیٰ نے اپنے جوان (یوشع بن نون ) سے کہا: میں تو چلتا ہی رہوں گا حتی کہ (مجمع البحرين) ”دو دریاؤں کے سنگم“ پر پہنچ جاؤں، یا میں مدت ہائے دراز گزاروں (چلتا رہوں)۔ پھر جب وہ دونوں ان دونوں (دریاؤں) کی آپس میں ملنے کی جگہ پر پہنچے، (تو) وہ اپنی مچھلی بھول گئے ، سو اس نے دریا میں سرنگ نما اپنا راستہ بنا لیا۔ پھر جب وہ دونوں آگے گزر گئے تو اس (موسی) نے اپنے جوان سے کہا کہ ہمیں ہمارا ناشتہ دے، بلاشبہ یقیناً اپنے اس سفر سے ہم تھکاوٹ سے دو چار ہوئے ہیں۔“

حدیث 18

«وعن سعيد بن جبير قال: قلت لابن عباس: إن نوفا الشامي يزعم أو يقول: ليس موسى صاحب خضر موسى بنى إسرائيل، قال: كذب نوف عدو الله ، حدثني أبى بن كعب رضى الله عنه ، عن النبى صلى الله عليه وسلم إن موسى عليه السلام قام فى بني إسرئيل خطيبا فقالوا له: من أعلم الناس؟ قال: أنا ، فأوحى الله تبارك وتعالى إليه إن لي عبدا أعلم منك ، قال: رب فارنيه؟ قال: قيل تأخذ حونا فتجعله فى مكتل فحيتما فقدته فهو ثم ، قال: فأخذ حوتا فجعله فى مكتل وجعل هو و صاحبه يمشيان على الساحل حتى أتيا الصخرة رقد موسٰى عليه السلام واضطرب الحوت فى المكتل فوقع فى البحر ، فحبس الله حرية الماء فاضطرب الماء فاستيقظ موسٰى فقال: ﴿لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَ نَا لَقَد لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبَّا﴾ ولم يصب النصب حتى جاوز الذى آمره الله تبارك وتعالى فقال: ﴿اَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرِةِ فَإِنِّى نَسِيتُ الْحُوْتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ﴾ ﴿فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا﴾ فجعلا يقصان آثارهما ﴿وَاتَّخَذَ سَبِيْلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا﴾ قال: أمسك عنه جرية الماء فصار عليه مثل الطاق فكان للحوت سربا وكان لموسى عليه عجبا حتى انتهيا إلى الصخرة فإذا رجل مسجى عليه ثوب ، فسلم موسى ، فقال: وأنى بأرضك السلام، قال: أنا موسى، قال: موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم ﴿اَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلَّمَنِ مِمَّا عُلَّمْتَ رُشْدًا﴾ ، قال: يا موسى! إنى على علم من الله تبارك وتعالى لا تعلمه، وأنت على علم من الله تعالى علمكه الله ، فانطلقا يمشيان الساحل فمرت سفينة فعرفوا الخضر فحمل بغير نول فلم يعجبه، ونظر فى السفينة فاخذ القدوم يريد أن يكسر منها لوحا، فقال: حملنا بغير نول و تريد أن تخرقها لتغرق أهلها ﴿قَالَ اَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا﴾ قال: إني نسيت ، و جاء عصفور فنقر فى البحر قال الحضر: ما ينقص علمي ولا علمك من علم الله تعالى إلا كما ينقص هذا العصفور من هذا البحر ﴿فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا آتَيَا أَهْلَ قِرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوا أن يُضَيَّفُوهُمَا﴾ فرأى غلاما فاخذ رأسه فانتزعه فقال: ﴿اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا﴾ قال: سفيان: قال عمرو : وهذه أشد من الأولى، قال: فانطلقا فإذا جدار يريد أن ينقض فأقامه ، أرانا سفيان بيده فرفع يده هكذا رفعا فوضع راحتيه فرفعهما لبطن كفيه رفعا فقال: ﴿لَوْ شِئْتَ لَا تَخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ﴾ قال ابن عباس: كانت الأولى نسيانا ، فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : يرحم الله موسٰى لو كان صبر حتى يقص علينا من أمره»
مسند أحمد، رقم : 21431، صحيح البخاری، رقم : 122، 3401،3278، صحیح مسلم، رقم : 2380 ۔
” اور سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: نوف شامی کا خیال ہے کہ جس موسی کی خضر سے ملاقات ہوئی تھی، وہ بنی اسرائیل والے موسی نہیں ہیں، انھوں نے کہا: اللہ کے دشمن نوف نے جھوٹ بولا ہے، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک موسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ، لوگوں نے ان سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے؟ انھوں نے کہا: میں ہوں، اُدھر سے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کر دی کہ میرا ایک بندا تجھ سے زیادہ علم والا ہے، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو پھر وہ مجھے دکھاؤ، ان سے کہا گیا کہ تم ایک مچھلی پکڑو اور اس کو ایک ٹوکرے میں ڈالو، جہاں تم اس کو گم پاؤ گے، تو وہ وہاں ہو گا، پس انھوں نے مچھلی پکڑی اور اس کو ایک ٹوکرے میں رکھا اور انھوں نے اور ان کے ایک ساتھی نے ساحل کی طرف چلنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچ گئے ، موسی علیہ السلام وہاں سو گئے، مچھلی نے ٹوکرے میں حرکت کی اور سمندر میں کود گئی ، اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے داخل ہونے والی جگہ کا پانی روک لیا (اور یوں ایک غار سی نظر آنے لگی )، جب پانی مضطرب ہوا تو موسیٰ علیہ السلام بیدار ہو گئے (اور کہیں آگے جا کر اپنے نوجوان سے) کہا: ”لا ہمارا کھانا دے، ہمیں تو اپنے اس سفر سے تھکاوٹ اٹھانی پڑی۔“
موسی علیہ السلام نے اس مقام سے آگے گزر کر تھکاوٹ محسوس کی، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا، آگے سے اس نوجوان نے جواب دیا کہ کیا آپ نے دیکھا بھی؟ جب کہ ہم چٹان پر ٹیک لگا کر آرام کر رہے تھے، وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا، دراصل شیطان نے مجھے بھلا دیا۔ چنانچہ وہیں سے وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس لوٹے ۔ پس انھوں نے اپنے قدموں کے نشانات کو ڈھونڈنا شروع کر دیا، اور اس مچھلی نے انوکھے طریقہ سے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کا چلاؤ روک لیا اور وہ جگہ طاق کی طرح نظر آنے لگی، یہ مچھلی کے لیے انوکھا اور موسیٰ علیہ السلام کے لیے عجیب کام تھا، بہر حال وہ دونوں بالآخر اس چٹان تک پہنچ گئے ، مطلوبہ مقام پر پہنچ کر انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی ہے، اس نے کپڑا ڈھانپا ہوا ہے ، موسیٰ علیہ السلام نے اس کو سلام کہا، اس نے آگے سے کہا: تیری علاقے میں سلام کیسے آگیا؟ انھوں نے کہا: میں موسی ہوں، خضر علیہ السلام نے کہا:” بنو اسرائیل کا موسی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں آپ کی تابعداری کروں کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں۔“
خضر علیہ السلام نے کہا: اے موسی! بیشک مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ تم اس کو نہیں جانتے اور تم کو اسی کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ میں اس کی معرفت نہیں رکھتا، پھر وہ دونوں ساحل پر چل پڑے ( اور خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام پر پابندی لگا دی کہ انھوں نے اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کرنا )، وہاں سے ایک کشتی گزری، انھوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا، اس لیے ان کو بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا گیا، لیکن اس چیز نے ان کو تعجب میں ڈالا ، پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کو دیکھا اور کلہاڑا لے کر اس کی ایک تختی کو توڑنا چاہا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ان لوگوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کر لیا اور اب تم اس کشتی کو توڑ کر سب سواروں کو غرق کرنا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہا:
” میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔ “موسی علیہ السلام نے کہا: بیشک میں بھول گیا تھا، پھر ایک پرندہ آیا اور اس نے سمندر سے اپنی چونچ بھری ، خضر علیہ السلام نے اس کو دیکھ کر کہا: اے موسی ! میرے اور تیرے علم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں اتنی کمی کی ہے، جتنی کہ اس پرندے نے اس سمندر میں کی ہے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ وہ دونوں ایک گاؤں والوں کے پاس آکر ان سے کھانا طلب کیا، لیکن انھوں نے ان کی مہمان داری سے صاف انکار کر دیا۔“ نیز خضر علیہ السلام نے وہاں ایک لڑکا دیکھا اور اس کو پکڑ کر اس کا سر اکھاڑ دیا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا تو نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا، بیشک تو نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی، انھوں نے کہا: کیا میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہر گز صبر نہیں کر سکتے ۔ عمرو نے اپنی روایت میں کہا: یہ پہلے کام سے زیادہ سخت کام تھا، پھر وہ دونوں چل پڑے، جب خضر علیہ السلام نے دیوار کو گرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اس کو سیدھا کر دیا، سفیان راوی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو اس طرح بلند کیا، پھر اپنی ہتھیلیوں کو رکھا اور پھر ان کو ہتھیلیوں کی اندرونی سمت کی طرف سے بلند کیا، موسی علیہ السلام نے کہا: ”اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے ، اس نے کہا: بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان۔“ سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: پہلی بار تو موسیٰ علیہ السلام بھول گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، کاش وہ صبر کرتے تا کہ وہ ہم پر اپنے مزید معاملات بیان کرتے ۔“

● حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بنی اسرائیل کے ساتھ قصہ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ‎﴾
(5-المائدة:24)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! ہم ہر گز اس زمین میں داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں، چنانچہ تو اور تیرا رب جائے، پھر تم دونوں ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔“

حدیث 19

«وعن أنس رضى الله عنه ، قال : لما سار رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بدر ، خرج فاستشار الناس ، فأشار عليه أبوبكر ، رضى الله عنه استشارهم فأشار عليه عمر رضى الله عنه ، فسكت ، فقال رجل من ا الأنصار: إنما يريدكم فقالوا: يارسول الله والله لا نكون كما قالت بنوا إسرئيل لموسى عليه السلام : ﴿اذْهَبُ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُونَ﴾ ولكن والله لو ضربت اكباد الإبل حتى تبلغ برك العماد لكنا معك»
مسند أحمد، رقم : 12045 ، صحیح مسلم، رقم : 2874.
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف روانہ ہونے لگے تو باہر تشریف لائے اور لوگوں سے مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک مشورہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ طلب کیا، اس بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رائے دی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اتنے میں ایک انصاری کھڑا ہوا اور اس نے کہا: انصاریو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم سے مخاطب ہیں، پس انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم ! ہم اس طرح نہیں ہوں گے، جیسا کہ بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: ” تو جا اور تیرا رب جائے اور تم دونوں جا کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھنے والے ہیں ۔ اللہ کی قسم ہے، اے اللہ کے رسول ! اگر آپ اونٹوں کے جگروں پر مارتے ہوئے سفر کرتے جائیں، یہاں تک کہ برک الغماد تک پہنچ جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہی رہیں گے۔“

● سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا بنی اسرائیل کے ساتھ دوسرا قصہ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ‎﴾
(7-الأعراف:138)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
”اور (جب ) ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پارا تار دیا، تو ان کا ایسے لوگوں پر گزر ہوا جو اپنے بتوں کی عبادت میں لگے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا: اے موسیٰ! تو ہمارے لیے ایک معبود بنا دے جس طرح کہ ان کے معبود ہیں۔ موسیٰ نے کہا: بے شک تم لوگ تو (نرے) جاہل ہو۔ “

حدیث 20

«وعن أبى واقد الليثي رضى الله عنه ، أنهم خرجوا عن مكة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى حنين قال: وكان للكفار سدرة يعكفون عندها ويعلقون بها أسلحتهم، يقال لها: ذات انواط، قال: فمررنا بسدرة خضراء عظيمة ، قال: فقلنا: يارسول الله اجعل لنا ذات أنواط، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : قلتم والذي نفسي بيده كما قال قوم موسى ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلَها كَمَا لَهُمْ آلِهَةً قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾ إنها لسنن ، لتركبن سنن من كان قبلكم سنة سنة»
مسند احمد، رقم : 22242 ، سنن الترمذي ، رقم : 2180 .
”اور حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مکہ مکرمہ سے حنین کی طرف نکلے، راستے میں کافروں کا بیری کا ایک درخت تھا، وہ اس کے مجاور بنتے اور اس کے ساتھ اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے ، اس کو ذات انواط کہا جاتا تھا، راوی کہتے ہیں: پس جب ہم ایک سرسبز اور بڑی بیری کے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے ایک ذات انواط بنا دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے تو وہی بات کر دی ہے، جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی ، انھوں نے کہا:تو ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دے، جیسے ان کے معبود ہیں، بیشک تم جاہل قوم ہو۔ یہ بنی اسرائیل کے طریقے تھے تم ایک ایک کر کے پہلے والے لوگوں کے سب طریقوں کو اختیار کر لو گے۔ “

● سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ذکر

حدیث 21

«وعن سعيد بن جبير جبير، قال: حدثنا ابن عباس رضى الله عنه ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: عرضت على الأمم فرأيت النبى و معه الرهط النبى و معه الرجل والرجلين و النبى ليس معه أحد ، إذ رفع لي سواد عظيم ، فقلت: هذه أمتي ؟ فقيل: هذا موسى و قومه، ولكن انظر إلى الأفق ، فإذا سواد عظيم ، ثم قيل: انظر إلى هذا الجانب الآخر ، فإذا سواد عظيم ، فقيل: هذه أمتك ومعهم سبعون ألفا يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذابفقال بعضهم : لعلهم الذين صحبوا النبى صلى الله عليه وسلم وقال بعضهم لعلهم الذين ولدوا فى الإسلام و لم يشركوا بالله شيئا قط، وذكروا أشياء ، فخرج إليهم النبى صلى الله عليه وسلم فقال: ما هذا الذى كنتم تخوضون فيه ؟ فأخبروه بمقالتهم ، فقال: هم الذين لا يكترون، ولا يسترقون، ولا يتطيرون ، وعلى ربهم يتوكلون – فقام عكاشة بن محصن الاشعرى ده ، فقال: أنا منهم يارسول الله! فقال: أنت منهم ثم قام الآخر فقال: أنا منهم يا رسول الله فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم : سبقك بها عكاشة»
مسند احمد، رقم : 2448، صحيح البخاری، رقم : 6541، صحیح مسلم، رقم: 220۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر امتیں پیش کی گئیں، پس میں نے کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت، کسی کے ساتھ ایک فرد کسی کے ساتھ دو افراد اور کسی کے ساتھ کوئی آدمی نہیں دیکھا، اچانک مجھے ایک بڑا لشکر دکھایا گیا، میں نے کہا: یہ میری امت ہے؟ جواب دیا گیا: یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے، اب آپ افق کی طرف دیکھیں، اُدھر ایک بڑا لشکر موجود تھا، پھر مجھ سے کہا گیا: اب آپ اس طرف دیکھیں، اُدھر بھی بڑا لشکر موجود تھا، پھر مجھے کہا گیا: یہ آپ کی امت ہے اور اس کے ساتھ ستر ہزار افراد ایسے ہیں، جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ صحابہ نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ممکن ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، کسی نے کہا: ایسے لگتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے، جو اسلام میں پیدا ہوئے اور انھوں نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا، دوسرے صحابہ نے مزید آراء کا ذکر بھی کیا، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: تم کس چیز کے بارے میں غور و خوض کر رہے تھے ؟ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی باتوں کی خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونے والے لوگ وہ ہیں جو نہ داغ لگواتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں، نہ برا شگون لیتے ہیں اور وہ صرف اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں۔ سیدنا عکاشہ بن محصن اشعری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں ان میں سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ان میں سے ہے۔ پھر ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں بھی ان میں سے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا ہے۔“

● سیدنا یوسف علیہ السلام کی فضیلت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎ ﴿٣٠﴾ ‏فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ ‎ ﴿٣١﴾ ‏
(12-يوسف:30، 31)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور شہر کی عورتیں کہنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس کے جی سے پھسلاتی ہے، اس کے دل میں (یوسف کی ) محبت گھر کر گئی ہے۔ بے شک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھتی ہیں۔ چنانچہ جب اس (عورت) نے ان کی پر مکر باتیں سنیں تو اس نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں، اور اس نے ان میں سے ہر ایک (عورت) کو ایک چھری دی اور (پھر یوسف سے) کہا: ان کے سامنے نکل آ۔ پھر جب انھوں نے اسے دیکھا تو انھوں نے اس ( کی شان) کو بڑا خیال کیا اور اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور بولیں: (حاش لله) ”اللہ کی پناہ“ یہ بشر نہیں ، یہ تو نہایت معزز فرشتہ ہے۔“

حدیث 22

«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أعطي يوسف عليه الصلاة والسلام شطر الحسن»
مسند احمد، رقم : 14096 ، صحیح مسلم، رقم : 162 .
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یوسف علیہ السلام کو نصف حسن دیا گیا۔“

● سیدنا صالح علیہ السلام کا ذکر

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا ‎ ﴿١١﴾ ‏ إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا ‎ ﴿١٢﴾ ‏ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا ‎ ﴿١٣﴾ ‏ فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا ‎ ﴿١٤﴾ ‏ وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا ‎ ﴿١٥﴾ ‏
(91-الشمس:11تا15)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” ( قوم) ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے جھٹلا دیا۔ جب اس کا سب سے بڑا بد بخت اٹھا۔ تو ان سے اللہ کے رسول نے کہا اللہ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری ( کا خیال رکھو)۔ تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، پس اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں، تو ان کے رب نے انھیں ان کے گناہ کی وجہ سے پیس کر ہلاک کر دیا، پھر اس ( بستی) کو برابر کر دیا۔ اور وہ اس (سزا) کے انجام سے نہیں ڈرتا۔“

حدیث 23

«وعن جابر رضى الله عنه ، قال: لما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحجر قال: لا تسألوا الآيات و قد سألها قوم صالح فكانت ترد من هذا الفج ، وتصدر من هذا الفج فعدوا عن أمر ربهم فعقروها ، فكانت تشرب ماء هم يوما و يشربون لبنها يوما فعقروها فاخذتهم صيحة ، أهمد الله عزوجل من تحت أديم السماء منهم إلا رجلا واحدا كان فى حرم الله عزوجل- قيل: من هو؟ يا رسول الله قال: ابو رغال فلما خرج من الحرم أصابه ما أصاب قومه»
مسند احمد، رقم : 14207، مسند البزار، رقم : 1844، مستدرك الحاكم : 320/2۔ شیخ شعیب نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ تبوک کے سفر کے دوران قوم ثمود کے شہر ) حجر کے پاس سے گزرے تو فرمایا: معجزات کی طرح کی نشانیوں کا مطالبہ نہ کیا کرو، صالح علیہ السلام کی قوم نے ان کے بارے میں سوال کیا تھا، (پس اونٹنی کی صورت میں ان کا یہ مطالبہ پورا کیا گیا)، وہ ایک راستے سے آتی تھی اور دوسرے راستے سے نکل جاتی تھی ،لیکن انھوں نے سرکشی کی اور اس کی کونچیں کاٹ دیں، وہ ایک دن میں ان کا پانی پی جاتی تھی اور وہ ایک دن میں ان کا دودھ پیتے تھے، لیکن انھوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں، اس وجہ سے ایک چیخ ان پر چھا گئی اور اللہ تعالیٰ نے آسمانی کی نچلی سطح کے نیچے والے ان سب کو ہلاک کر دیا، صرف ایک آدمی بچا، وہ اللہ تعالیٰ کے حرم میں تھا۔ کسی نے کہا: وہ آدمی کون تھا ؟ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ ابور غال تھا، جب حرم سے نکلا تو وہ اسی مصیبت میں مبتلا ہو گیا، جس میں اس کی قوم مبتلا ہوئی تھی ۔“

● سیدنا ایوب علیہ السلام کے فضائل

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ‎﴾
(21-الأنبياء:83)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (یاد کریں) ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے، اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“

حدیث 24

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: بينما أيوب يغتسل الله عريانا خر عليه رجل جراد من ذهب، فجعل يحيي فى ثوبه، فناداه ربه: يا أيوب ألم أكن أغنيتك عما ترى؟ قال . بلى يا رب ولكن لا غنى لي عن بركتك»
صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبياء ، رقم : 3391، مسند أحمد : 314/2 ۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایوب علیہ السلام ننگے غسل کر رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں ان پر گرنے لگیں۔ وہ ان کو اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے۔ ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ اے ایوب! جو کچھ تم دیکھ رہے ہو (سونے کی ٹڈیاں ) کیا میں نے تمہیں اس سے بے پروا نہیں کر دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ صحیح ہے، اے رب العزت لیکن تیری برکت سے میں کس طرح بے پروا ہوسکتا ہوں ۔ “

● سیدنا یونس علیہ السلام کا حج اور ان کی دعا

حدیث 25

«وعن سعد قال: مررت بعثمان بن عفان فى المسجد فسلمت عليه فملا عينيه منى ثم لم يرد على السلام فأتيت امير المؤمنين عمر بن الخطاب فقلت: يا أمير المؤمنين! هل حدث فى الإسلام شيء؟ مرتين ، قال: لا ، و ما ذاك؟ قال: قلت: لا ، إلا إنى مررت بعثمان آنفا فى المسجد فسلمت عليه فملا عينيه منى ثم لم يرد على السلام ، قال: فأرسل عمر إلى عثمان فدعاه فقال: ما منعك أن لا تكون رددت على أخيك السلام؟ قال عثمان: ما فعلت ، قال سعد: قلت: بلى، قال: حتى حلف وحلفت ، قال : ثم إن عثمان ذكر فقال: بلى واستغفر الله واتوب اليه ، إنك مررت بي آنفا و أنا أحدث نفسي بكلمة سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم لا والله! ما ذكرتها قط إلا تغشى بصري و قلبي غشاوة، قال: قال سعد: فأنا أنبئك بها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر لنا أول دعوة ثم جاء أعرابي فشغله قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتبعته فلما أشفقت أن يسبقني إلى منزله ضربت بقدمي الأرض فالتفت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: من هذا أبو إسحاق؟ قال: قلت: نعم يا رسول الله قال: فمه! قال: قلت: لا والله إلا أنك ذكرت لنا أول دعوة ثم جاء هذا الاعرابي فشغلك ، قال : نعم، دعوة ذي النون إذ هو فى بطن الحوت ﴿لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ﴾ فإنه لم يدع بها مسلم ربه فى شيء إلا استجاب له»
مسند أحمد، رقم : 1462، سنن ترمذی، رقم: 3505۔ شیخ شعیب نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
”اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا، جبکہ وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، اور میں نے ان کو سلام کہا، لیکن انھوں نے آنکھ بھر کر مجھے دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہیں دیا، پس میں امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور کہا: اے امیر المؤمنین ! کیا اسلام میں کوئی چیز نئی ظاہر ہو گئی ہے؟ دو دفعہ کہا، انھوں نے کہا: جی نہیں، بھلا بات کون سی ہے؟ میں نے کہا: جی کوئی بات نہیں، بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ میں ابھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا، ان کو سلام کہا، انھوں نے آنکھ بھر کر مجھے دیکھا، لیکن میرے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا: کس چیز نے تم کو اپنے بھائی کے سلام کا جواب دینے سے روک دیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی میں نے تو ایسا کوئی کام نہیں کیا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں ، ایسے ہوا ہے، یہاں تک کہ انھوں نے بھی قسم اٹھا دی اور میں نے بھی قسم کھالی، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جی کیوں نہیں، اور میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں، ابھی تم میرے پاس سے گزرے تھے اور میں اپنے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث یاد کر رہا تھا، نہیں، اللہ کی قسم، میں جب بھی اس حدیث کو یاد کرتا ہوں تو میری آنکھوں اور دل پر ایک پردہ چڑھ جاتا ہے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی تم کو ایک بات بتلاتا ہوں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بات بتلانا چاہی کہ پہلی دعا، پھر ایک بدو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مصروف کر دیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیا، جب مجھے یہ شبہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کی طرف مجھ سے آگے نکل جائیں گے، تو میں نے اپنا پاؤں زمین پر مارا، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف توجہ کی اور ارشاد فرمایا: یہ کون ہے؟ ابو اسحاق ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم ! کوئی بات نہیں، بس آپ صلى الله عليه وسلم نے ذکر کیا تھا کہ پہلی دعا، پھر یہ بد و آ گیا اور اس نے آپ کو مصروف کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں، وہ مچھلی والے کی دعا ہے، جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو انھوں نے یہ دعا کی تھی:
﴿لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ﴾
” نہیں ہے کوئی معبودِ برحق، مگر تو ہی، تو پاک ہے، بے شک میں ظالموں میں سے ہوں ۔“
جو مسلمان جس چیز کے لیے ان الفاظ کے ساتھ اپنے رب کو پکارے گا، اللہ تعالیٰ اس کی پکار قبول کرے گا۔“

● سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام کی فضیلت کا بیان

حدیث 26

« وعن أبى هريرة ، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : إن الشمس لم تحبس على بشر إلا ليوشع بن نون ليالي سار إلى بيت المقدس»
مسند احمد، رقم : 8298۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سورج کو کسی بشر کے لیے نہیں روکا گیا، ما سوائے یوشع بن نون علیہ السلام کے، یہ ان دنوں کی بات ہے، جب وہ بیت المقدس کی طرف جارہے تھے۔ “

● سید نا زکریا علیہ السلام کی فضیلت

حدیث 27

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كان زكريا عليه السلام نجارا»
مسند احمد، رقم : 9246 ، صحیح مسلم، رقم : 2379.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: زکریا علیہ السلام م بڑھی تھے۔ “

● اللہ تعالی کا یحیی بن زکریا علیہ السلام کو پانچ کلمات کا حکم

قَالَ الله تَعَالَى: ‎ ﴿يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ‎ ﴿١٢﴾ ‏ وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا ‎ ﴿١٣﴾ ‏ وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا ‎ ﴿١٤﴾ ‏ وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ‎ ﴿١٥﴾
(19-مريم:12تا15)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے یحیی ! کتاب کو قوت سے پکڑ ، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکم عطا کیا۔ اور اپنی طرف سے شفقت اور پاکیزگی (وحی)، اور وہ نہایت متقی تھا۔ اور اپنے والدین سے نیکی کرنے والا تھا ور وہ سرکش، نا فرمان نہیں تھا۔ اور اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا، اور جس دن وہ مرے گا اور جس دن وہ دوبارہ زندہ (کر کے) اٹھایا جائے گا۔“

حدیث 28

«وعن الحارث الأشعرى رضى الله عنه ، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: إن الله عزوجل أمر يحي بن زكريا بخمس كلمات أن يعمل بهن، أن يأمر بني إسرئيل أن يعملوا بهن فكاد أن يبطيء، فقال له عيسى إنك قد أمرت بخمس كلمات أن تعمل بهن و ان تأمر بني إسرئيل أن يعملوا بهن، فإما أن تبلغهن وإما أبلغهن؟ فقال له: يا أخي إني أخشى إن سبقتني أن أعذب أو يخسف بي، قال: فجمع يحيي بني إسرئيل فى بيت المقدس حتى امتلا المسجد وقعد على الشرف فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: إن الله عزوجل أمرني بخمس كلمات أن أعمل بهن وآمركم ان تعملوا بهن ، اولهن ان تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا، فإن مثل ذلك مثل رجل اشترى عبدا من خالص ماله بورق أو ذهب فجعل يعمل ويؤدى عمله إلى غير سيده فأيكم يسره أن يكون عبده كذلك؟ وإن ربكم عزوجل خلقكم ورزقكم فاعبدوه ولا تشركوا به شيئا، وآمركم بالصلاة فإن الله عزوجل ينصب وجهه بوجه وجه عبده ما لم يلتفت ، فإذا صليتم فلا تلتفتوا ، وآمركم بالصيام فإن مثل ذلك كمثل رجل معه صرة من مسك فى عصابة كلهم ريح المسك، وإن خلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك ، وآمركم بالصدقة فإن مثل ذلك كمثل رجل كثيرا وإن مثل ذلك كمثل رجل طلبه العدو سراعا فى أثرها فأتى حصنا حصينا فتحصن فيه ، وإن العبد أحصن ما يكون من الشيطان إذا كان فى ذكر الله عزوجل – قال: و قال رسول الله : أنا أمركم بخمس ، الله أمرني به ، بالجماعة و السمع والطاعة، و الهجرة، والجهاد فى سبيل الله، فإنه من خرج من الجماعة قيد شبر فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه إلى أن يرجع ، و من دعا بدعوة الجاهلية فهو من جثاء جهنم، قالوا: يارسول الله! وإن صام وصلى؟ قال: وإن صام و صلى وزعم أنه مسلم، فادعوا المسلمين بما سماهم المسلمين المؤمنين عباد الله عز وجل»
مسند احمد، رقم : 17302، سنن ترمذی، رقم : 2863، 2864۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے یحیی بن زکریا علیہ السلام کو پانچ کلمات کا حکم دیا کہ وہ خودان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں، انھوں نے لوگوں کو بتانے میں دیر کی عیسی علیہ السلام نے ان سے کہا: آپ کو پانچ کلمات کے بارے میں حکم دیا گیا تھا کہ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں، اب آپ ان کو بتلائیں یا میں بتلا دیتا ہوں، انھوں نے کہا: اے میرے بھائی! اگر آپ مجھ سے پہلے بتلا دیں تو مجھے یہ ڈر ہو گا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے عذاب دیا جائے یا مجھے دھنسا دیا جائے۔ پس یحیی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا، یہاں تک کہ مسجد بھر گئی، پھر وہ اونچی جگہ پر بیٹھے، پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ کلمات کا حکم دیا ہے کہ خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دوں، پہلا حکم یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، پس بیشک مشرک کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے اپنے خالص مال چاندی یا سونے کے عوض غلام خریدا، لیکن ہوا یوں کہ وہ غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے لیے کام کرنے لگا، اب تم میں سے کس کو یہ بات خوش کرے گی کہ اس کا غلام اس قسم کا ہو، اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے اور تم کو رزق دیا ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور میں تم کو نماز کا حکم دیتا ہوں، پس بیشک اللہ تعالیٰ اپنا چہرہ بندے کے چہرے کی خاطر اس وقت تک متوجہ کیے رکھتے ہیں، جب تک وہ ادھر اُدھر متوجہ نہ ہو، اس لیے جب نماز پڑھو تو ادھر اُدھر متوجہ نہ ہوا کرو، اور میں تمہیں روزوں کا حکم دیتا ہوں، ان کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس کے پاس کستوری کی تھیلی ہو اور سارے لوگ کستوری کی خوشبو محسوس کر رہے ہوں، روزے دار کے منہ کی بدلی ہوئی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے ، اور میں تمہیں صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہوں، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس کو اس کے دشمن نے قید کر کے اس کے ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھ دیا ہو اور اس کی گردن کاٹنے کے لیے اس کو قریب کرے اور وہ آگے سے کہے: اگر میں اپنے نفس کے عوض اتنا فدیہ دے دوں تو کیا تم مجھے چھوڑ دو گے؟ پھر اس نے کم مقدار اور زیادہ مقدار فدیہ دینا شروع کر دیا، یہاں تک کہ اپنے آپ کو بچا لیا، اور میں تم کو کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا حکم دیتا ہوں، اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے، جس کا دشمن جلدی کرتے ہوئے اس کا تعاقب کر رہا ہو، لیکن وہ مضبوط قلعے میں پہنچ کر قلعہ بند ہو گیا، اور بیشک بندہ شیطان سے سب سے زیادہ حفاظت میں اس وقت ہوتا ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف ہوتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں بھی تم کو پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے، (وہ پانچ چیزیں یہ ہیں:) جماعت، امیر کی بات سننا اور اطاعت کرنا، ہجرت کرنا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، پس جو آدمی ایک بالشت کے بقدر جماعت سے نکل گیا، اس نے واپس پلٹنے تک اپنی گردن سے اسلام کا معاہدہ اتار پھینکا اور جس نے جاہلیت کی پکار پکاری، وہ جہنم کی جماعت میں سے ہوگا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر چہ وہ روزے بھی رکھے اور نماز بھی پڑھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر چہ وہ روزہ بھی رکھے اور نماز بھی پڑھے اور یہ گمان بھی کرے کہ وہ مسلمان ہے، پس مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے نام سے پکارو، یعنی مسلمان، مؤمن، اللہ تعالیٰ کے بندے۔“

● حضرت یحییٰ اور حضرت عیسی علیہ السلام کی فضیلت

حدیث 29

«وعن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة إلا ابنى الخالة: عيسى ابن مريم يحيى ابن زكريا»
مستدرك حاكم : 166/3-167 ، حلية الأولياء : 71/5 ، تاریخ بغداد : 207/4۔ امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث کئی وجوہ سے صحیح ہے اور مجھے تعجب ہے کہ بخاری ومسلم نے اسے تخریج نہیں کیا۔
”اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہا تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں، سوائے دو خالہ زاد بھائیوں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسی علیہ السلام کے ۔ “

● عیسی بن مریم علیہ السلام قرب قیامت آسمانوں سے نازل ہوں گے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‎ ﴿وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ‎ ﴿١٥٧﴾ ‏ بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎ ﴿١٥٨﴾ ‏
(4-النساء:157، 158)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسی ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کیا، حالانکہ انھوں نے نہ انھیں قتل کیا اور نہ انھیں سولی پر چڑھایا بلکہ انھیں شبہے میں ڈال دیا گیا۔ اور بے شک جنھوں نے عیسی کے بارے میں اختلاف کیا وہ ضرور ان کے متعلق شک میں ہیں۔ ان لوگوں کے پاس ان کے بارے میں کوئی علم نہیں سوائے گمان کی پیروی کے، اور انھوں نے یقیناً انھیں قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے انھیں اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ بڑا زبردست، بہت حکمت والا ہے۔ “

حدیث 30

«وعن جابر رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ينزل عيسى ابن مريم، فيقول: أميرهم المهدي: تعال صل بنا ، فيقول: لا ، إن بعضهم أمير بعض، تكرمة الله لهذه الأمة»
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم : 395 ، السلسلة الصحيحة، رقم : 2236 .
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جب عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) اتریں گے تو مسلمانوں کے امیر مہدی انھیں کہیں گے: آئیں اور نماز پڑھا ئیں۔ وہ کہیں گے نہیں تم ہی ایک دوسرے کے امام و امیر ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کی عزت و تکریم ہے۔ “

حدیث 31

«وعن أبى هريرة ، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الأنبياء اخوة لعلات ، أمهاتهم شتى ودينهم واحد، وأنا أولى الناس بعيسى بن مريم لأنه لم يكن بيني وبينه نبي ، وإنه نازل فإذا رأيتموه فاعرفوه رجلا مربوعا إلى الحمرة و البياض عليه ثوبان ممصران كأن رأسه يقطر و إن لم يصبه بلل ، فيدق الصليب، ويقتل الخنزير ، ويضع الجزية، ويدعو الناس إلى الإسلام، فيهلك الله فى زمنه الملل كلها إلا الإسلام ، ويهلك الله فى زمانه المسيح الدجال ، وتقع الآمنة على الأرض حتى ترتع الأسود مع الإبل ، والنمار مع البقر ، و الذتاب مع الغنم ، ويلعب الصبيان بالحيات لا تضرهم ، فيمكث أربعين سنة ثم يتوفى ويصلى عليه المسلمون (زاد فى رواية) ويدقنونه»
مسند احمد، رقم : 9259، سنن ابوداؤد، رقم : 4324. شیخ شعیب نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیائے کرام علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے، میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا سب سے زیادہ قریبی ہوں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے، بے شک وہ نازل ہونے والے ہیں، پس ان کو پہچان لینا، وہ معتدل قد کے آدمی ہیں، ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل ہے، ان پر ہلکی زردی کے دو کپڑے ہوں گے، ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو، حالانکہ نمی (پانی) لگا نہیں ہوگا، ( یعنی وہ انتہائی نظیف اور چمک دار رنگ کے نظر آ رہے ہوں گے ) ، پس وہ صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے، پس اللہ تعالیٰ ان کے اُس عہد میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کو ختم کر دے گا، اللہ تعالیٰ ان کے ہی زمانے میں مسیح دجال کو ہلاک کرے گا، زمین پر اتنا امن وامان واقع ہو گا کہ سانپ اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائیوں کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ چریں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہیں دیں گے، عیسی علیہ السلام زمین میں چالیس سال قیام کریں گے، پھر وہ فوت ہو جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کر کے ان کو دفن کریں گے۔“

● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عیسی علیہ السلام کو سلام کہا ہے

حدیث 32

«وعن أبى هريرة والله عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال: إني لارجو ان طال بي عمر أن ألقى عيسى بن مريم عليه السلام فإن عجل لي موت فمن لقيه منكم فليقرته منى السلام»
مسند احمد، رقم : 7957۔ شیخ شعیب نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میں امید کرتا ہوں، اگر میری عمر لمبی ہوئی تو میں عیسی بن مریم علیہ السلام سے ملاقات کر لوں گا اور اگر میری موت جلدی آ گئی تو تم میں سے جو آدمی ان کو ملے، ان کو میرا سلام کہہ دے۔ “

● سيد نا عيسي عليہ السلام كی حكمت و بصيرت كا واقعہ

حدیث 33

«وعنه ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: رأى عيسى ابن مريم رجلا يسرق ، فقال له: أسرقت؟ قال: كلا والله الذى لا إله إلا هو . فقال عيسى آمنت بالله وكذبت عيني»
صحيح البخاري، كتاب أحاديث الانبياء ، رقم : 3444، صحیح مسلم، کتاب الفصائل، رقم : 2368.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عیسی ابن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا پھر اس سے دریافت فرمایا تو نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا کہ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں، سید نا عیسی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور میری آنکھوں کو دھوکا ہوا۔ “

● سیدنا عیسی ، موسیٰ اور سید نا ابراہیم علیہ السلام کے مزید شمائل

حدیث 34

«وعن ابن عباس رضى الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : رأيت عيسى بن مريم ، وموسى، وإبراهيم، فأما عيسى فأحمر جعد عريض الصدر، واما موسى جسيم ، قالوا له: فإبراهيم؟ قال: أنظروا إلى صاحبكم يعني نفسه»
مسند احمد، رقم : 2697 صحيح البخاري ، رقم : 2438.
” اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے عیسی علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، عیسی علیہ السلام کا رنگ سرخ اور بال گھنگریالے تھے اور وہ چوڑے سینے والے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام دراز قد تھے۔ لوگوں نے کہا: اور ابراہیم علیہ السلام ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنی ساتھی کو دیکھ لو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد آپ کا اپنا وجود تھا۔ “

● آخری نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾
(94-الشرح:4)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا۔“

حدیث 35

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة أسري بى رأيت موسى وإذا هو رجل ضرب رجل كأنه من رجال شنوئة، ورأيت عيسى فإذا هو رجل ربعة أحمر كأنما خرج من ديماس ، وأنا أشبه ولد إبراهيم به ثم أتيت بإناتين فى أحدهما لبن وفي الآخر خمر فقال: اشرب أيهما شئت، فأخذت اللبن فشربته ، فقيل: أخذت الفطرة، أما إنك لو أخذت الخمر غوت أمتك»
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبياء، رقم : 3394 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس رات مجھے معراج ہوئی تو میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا وہ ایک دبلے پتلے، سیدھے بالوں والے آدمی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبیلہ شنوہ سے ہوں۔ اور میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ ایسے تر و تازہ اور پاک و صاف جیسے ابھی غسل خانے سے نکلے ہیں۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ان کے ساتھ بہت ملتا جلتا ہوں۔ اس دوران میں میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ان میں سے ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ ان میں سے جسے چاہیں نوش کریں۔ میں دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیا اور اسے نوش کیا۔ تو مجھ سے کہا گیا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔ اگر آپ شراب پیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی ۔“

حدیث 36

«وعنه رضى الله عنه قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم : مثلي ومثل الأنبياء كمثل قصر أحسن بنيانه ترك منه موضع لبنة ، فطاف به النظار يتعجبون من حسن بنيانه إلا موضع تلك اللبنة لا يعيبون سواها . فكنت أنا سددت»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب صفة النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3535 ، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه خاتم النبيين، رقم : 2286 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اور دوسرے انبیاء کی مثال اس (بہترین ) محل کی سی ہے جس کی عمارت بڑھے اچھے طریقے پر بنائی گئی (مگر) اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی۔ دیکھنے والوں نے اس کے اردگرد چکر لگائے انھیں اس (محل) کی خوبصورت عمارت سے (بہت) تعجب ہوتا تھا سوائے اس اینٹ والی جگہ کے (جسے خالی چھوڑ دیا گیا تھا) وہ کسی چیز میں عیب نہیں نکالتے تھے۔ میں وہ ہوں جس نے اس اینٹ والی جگہ کو بھر دیا (میرے ساتھ اس عمارت کی تعمیر کا خاتمہ ہوا اور میرے ساتھ ہی رسولوں کا سلسلہ ختم ہوا)۔“

حدیث 37

«وعنه رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : أنا سيد ولد آدم يوم القيامة، واول من ينشق عنه القبر ، وأول شافع واول مشفع»
صحيح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 5940 ۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا، اور سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی ، اور سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔“

حدیث 38

«وعن جبير بن مطعم رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن لى أسماء: أنا محمد، وأنا أحمد، وأنا الماحى الذى يمحى بي الكفر، وأنا الحاشر الذى يحشر الناس على عقبي، وأنا العاقب والعاقب ، الذى ليس بعده نبي»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم 3532 ، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم: 2354 ۔
”اور سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے (بہت سے) نام ہیں۔ میں احمد ہوں، محمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں، میرے ساتھ اللہ کفر کو مٹائے گا، اور میں حاشر (اکٹھا کرنے والا) ہوں، لوگ (قیامت کے دن ) میرے قدموں پر اکٹھے ہوں گے، اور میں العاقب ہوں۔ جس کے بعد کوئی نبی (پیدا) نہ ہو۔ “

حدیث 39

«وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ قال: قيل يا رسول الله ادع على المشركين. قال: إنى لم أبعث لعانا، وإنما بعثت رحمة»
صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة باب النهي عن لعب الدواب وغيرها، رقم: 6613 .
’اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : اے اللہ کے رسول! آپ مشرکوں کے لیے بددعا کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔“

حدیث 40

«وعن جابر بن عبد الله رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلى نصرت بالرعب مسيرة شهر ، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل ، وأحلت لي المغانم ولم تحل لأحد قبلي ، وأعطيت الشفاعة، وكان النبى يبعث إلى قومه خاصة وبعثت إلى الناس عامة»
صحیح بخاری، کتاب التيمم ،رقم ،335 ، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاة رقم 521 ۔
اور سیدنا جابر عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے پانچ چیزیں (ایسی) دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ (دشمنوں پر) میری مدد ایک مہینے کی مسافت کے رعب سے کی گئی ہے، اور میرے لیے (ساری) زمین کو مسجد اور طہور (پاک اور پاک کرنے والی) بنایا گیا ہے پس میری امت میں سے جس آدمی کی نماز کا وقت ہو جائے وہ نماز پڑھ لے، اور میرے لیے (جہاد کی غنیمتیں حلال کر دی گئی ہیں مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کی گئیں اور مجھے شفاعت بخشی گئی (میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا)۔ اور (مجھ سے پہلے ہر) نبی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جب کہ مجھے تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!