سوال
“العفو” کا راجح مفہوم کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب ضرورت سے زائد چیز ہے یا پسندیدہ مال؟ اور کیا یہ کہنا درست ہے کہ ضرورت سے زائد چیز پر ہمارا کوئی حق نہیں، اسے اللہ کے راستے میں خرچ کر دینا چاہیے؟
جواب از فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ ، فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
العفو کے معنی
لغوی اور شرعی مفہوم:
لفظ “العفو” کے دو مفاہیم ہیں، اور دونوں معانی کتاب و سنت سے ثابت ہیں:
- پسندیدہ مال:
امام قاموس کے مطابق "العفو” کا مطلب “خيار الشيء و أجوده” یعنی "چیز کا عمدہ اور پسندیدہ حصہ” ہے۔
اس مفہوم کے مطابق بہترین مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہیے۔ - ضرورت سے زائد مال:
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ایسا مال جو انسان کے اہل و عیال کی ضروریات سے زائد ہو، اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔
اس مفہوم کی تائید کئی اقوالِ اسلاف سے ملتی ہے۔
اسلاف کے اقوال
- امام طاؤس رحمہ اللہ: فرمایا: تھوڑا تھوڑا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔
- امام ربیع رحمہ اللہ: بہترین اور عمدہ مال اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہیے۔
- امام حسن بصری رحمہ اللہ: ایسا مال خرچ کرنا چاہیے جس کے بعد انسان خود محتاج نہ ہو۔
احادیث کی روشنی میں وضاحت
زائد مال کا استعمال:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کی مدد کرے جس کے پاس سواری نہیں ہے۔ اور جس کے پاس ضرورت سے زائد زادِ راہ ہو، وہ اس کے ذریعے ایسے شخص کی مدد کرے جس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے”
(صحیح مسلم: 1728)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت سے زائد مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا مستحب عمل ہے۔
پسندیدہ مال خرچ کرنے کی فضیلت:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ”
(سورہ آل عمران: 92)
"تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اس میں سے کچھ خرچ نہ کرو جسے تم پسند کرتے ہو۔”
حکم اور افضلیت
- ضرورت سے زائد مال:
ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنا مستحب اور افضل عمل ہے لیکن یہ فرض نہیں ہے۔
زکوٰۃ شریعت کا وہ نظام ہے جو ضرورت سے زائد مال رکھنے کے جواز کو بھی واضح کرتا ہے۔ - پسندیدہ اور زائد مال دونوں:
اگر مال پسندیدہ بھی ہو اور زائد بھی، تو اسے خرچ کرنا دگنے اجر کا باعث بنے گا۔
راجح موقف
- راجح مفہوم:
"العفو” کا دونوں مفاہیم (پسندیدہ مال اور زائد مال) درست ہیں، اور کتاب و سنت سے ثابت ہیں۔ - ضرورت سے زائد مال پر حق:
یہ کہنا علی الاطلاق درست نہیں کہ ضرورت سے زائد مال پر ہمارا کوئی حق نہیں، کیونکہ شریعت نے اس کو افضلیت کا درجہ دیا ہے، فرضیت کا نہیں۔
زکوٰۃ کا نظام یہ واضح کرتا ہے کہ زائد مال رکھنے کی اجازت ہے جب تک کہ اس پر شرعی حقوق ادا کیے جا رہے ہوں۔ - اشتراکیت کی بو:
یہ کہنا کہ زائد مال کا رکھنا جائز نہیں، اشتراکیت کی سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو واقعاتی طور پر ناکام نظام ثابت ہو چکا ہے۔
شریعت کا حکم متوازن اور انسان کی ضروریات کے مطابق ہے، اور اس میں افضلیت کی ترغیب دی گئی ہے، جبر نہیں۔
خلاصہ
- "العفو” کے دونوں معانی درست ہیں: پسندیدہ مال اور ضرورت سے زائد مال۔
- زائد مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا مستحب اور افضل عمل ہے، لیکن فرض نہیں۔
- زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہی شریعت کا متوازن نظام ہے۔