إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
تو حید کی عظمت ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿٣٨﴾
(24-النور: 38)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” (وہ یہ کام کرتے ہیں) تا کہ اللہ انھیں ان کے اعمال کی بہترین جزا دے اور انھیں اپنے فضل سے زیادہ دے اور اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے۔“
حدیث: 1
عن أبى ذر رضي الله عنه قال: قال رسول الله: يقول الله عزوجـ زوجل من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها وازيد ، ومن جاء بالسيئة فجزاؤه سيئة مثلها ، أو أغفر، ومن تقرب مني شبرا، تقربت منه ذراعا ، ومن تقرب منى ذراعا ، تقربت منه باعا ، ومن أتاني يمشي، أتيته هرولة، ومن لقيني بقراب الأرض خطيئة لا يشرك بي شيئا، لقيته بمثلها مغفرة
صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل الذكر والدعاء، رقم الحديث: 2687.
”سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ عز وجل فرماتا ہے: جو شخص ایک نیکی کرے اس کے لیے دس گنا اجر ہے اور (بعض کو ) میں اس سے بھی زیادہ دوں گا۔ اور جو شخص ایک برائی (گناہ) کرے تو برائی کا بدلہ اسی کی مثل (برابر) ہوگا (زیادہ نہیں ) یا میں (وہ برائی بھی بعض کے لیے ) معاف کردوں گا۔ اور جو شخص مجھ سے (نیکیوں کے ذریعے ) ایک بالشت قریب ہوتا ہے۔ میں اس سے (اپنی شان کے لائق ) ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں۔ اور جو شخص مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں۔ اور جو شخص میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔ اور جو شخص مجھ سے اس حال میں ملے گا کہ اس نے زمین بھر گناہ کیسے ہوں، جبکہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو (اہل توحید میں سے ہو) تو میں اس سے اسی قدر مغفرت کے ساتھ ملوں گا۔“
شرک سے اجتناب ضروری ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨﴾
(4-النساء: 48)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک اللہ (یہ گناہ) نہیں بخشا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اس نے جھوٹ گھڑا اور بڑے گناہ کا کام کیا۔ “
حدیث: 2
وعن أنس بن مالك الله رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يقول الله تعالى لأهون أهل النار عذابا يوم القيامة: لو أن لك ما فى الأرض من شيء أكنت تفتدى به؟ فيقول: نعم، فيقول: أردت منك أهون من هذا وأنت فى صلب آدم: أن لا تشرك بي شيئا فأبيت إلا أن تشرك بي
صحيح البخارى، كتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار، رقم الحديث: 6557 ، صحیح مسلم کتاب صفات المنافقين، باب طلب الكافر الفداء بملء الأرض ذهبا رقم الحديث: 2805 .
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس جہنمی سے جسے سب سے کم عذاب ہوگا، ارشاد فرمائے گا: اگر دنیا کی تمام چیزیں تیری ہوں تو کیا تو اس عذاب سے بچنے کے لیے وہ (تمام چیزیں) فدیہ کر دے گا؟ وہ کہے گا: ہاں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جب تو پشت آدم میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے بہت کم طلب کیا تھا۔ (وہ یہ تھا) کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا مگر تو نے شرک ہی کو اختیار کیا۔“
ریاء کاری کی مزمت ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾
(107-الماعون: 4، 5)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ جو اپنی نما ز سے غافل ہیں۔ وہ جو دکھاوا کرتے ہیں ۔“
حدیث: 3
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله: قال الله تبارك وتعالى: أنا أغنى الشركاء عن الشرك، من عمل عملا أشرك فيه معى غيري ، تركته وشركه
صحيح مسلم، کتاب الزهد، باب تحريم الرياء، رقم الحديث: 2985.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میں دوسرے تمام شریکوں کے مقابلے میں شراکت اور حصہ داری سے سب سے زیادہ مستغنی اور بے نیاز ہوں۔ جو کوئی عمل کرے جس میں اس نے میرے ساتھ میرے غیر کو بھی شریک کیا ہو (ریا کاری کی ہو ) میں اسے اس کی حصہ داری والے عمل سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔“
حدیث: 4
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أول الناس يقضى يوم القيامة عليه ، رجل استشهد ، فأتي به ، فعرفه نعمه فعرفها . قال فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت قال: كذبت ، ولكثك قاتلت لان يقال جريء ، فقد قيل ، ثم أمر به فسحب على وجهه حتى ألقي فى النار ، ورجل تعلم العلم وعلمه وقرا القرآن ، فأتي به ، فعرفه نعمه فعرفها . قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم وعلمته وقرأت فيك القرآن . قال: كذبت ولكثك تعلمت العلم ليقال عالم ، وقرأت القرآن ليقال هو قاريء ، فقد قيل ، ثم أمر به ، فسحب على وجهه حتى ألقي فى النار ، ورجل وسع الله عليه واعطاه من أصناف المال كله ، فأتي به، فعرفه نعمه فعرفها ، قال: فما عملت فيها؟ قال: ما تركت من سبيل تحب أن ينفق فيها إلا أنفقت فيها لك، قال: كذبت ، ولكثك فعلت ليقال: هو جواد، فقد قيل ، ثم أمر به فسحب على وجهه ، ثم القي فى النار
صحیح مسلم، كتاب الإمارة، باب من قاتل للرياء والسمعة استحق النار، رقم الحديث: 1905.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: بے شک قیامت کے دن تمام لوگوں سے پہلے جس شخص کے خلاف فیصلہ کیا جائے گا وہ آدمی ہے جو شہید (قتل) کیا گیا تھا، اسے (اللہ کے حضور ) پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا (کہ میں نے تجھے فلاں فلاں نعمتوں سے نوازا تھا۔ ) وہ انھیں پہچان لے گا (اقرار کر لے گا۔ ) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان کے بدلے میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیرے راستے میں لڑائی کی یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا ۔ تو تو اس لیے لڑا تھا کہ تجھے جری اور بہادر کہا جائے، لہذا تجھے بہادر کہہ دیا گیا ہے (تجھے یہ صلہ مل گیا ہے) پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، چنانچہ اسے چہرے کے بل گھسیٹا جائے گا، یہاں تک کہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دوسرا وہ شخص ہے جس نے دین کا علم حاصل کیا، اسے دوسروں کو سکھایا اور قرآن پڑھا، چنانچہ اسے پیش کیا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، وہ انھیں پہچان (کر اقرار کر ) لے گا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے ان نعمتوں کے سبب (اور ان کے بدلے میں ) کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور تیری رضا کے لیے قرآن پڑھتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا۔ تو نے علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے، سو بلاشبہ تجھے دنیا میں ایسا کہہ لیا گیا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے چہرے کے بل گھسیٹا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کشادگی اور فراخی عطا فرمائی تھی اور اسے ہر قسم کے اموال سے نوازا تھا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ وہ انھیں پہچان کر اقرار کر ) لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کی وجہ سے (اور ان کے بدلے میں ) کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں نے کوئی ایسا راستہ نہیں چھوڑا جس میں خرچ کیے جانے کو تو پسند کرتا ہو، مگر میں نے اس میں تیری رضا کے لیے خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا۔ بلکہ تو نے تو یہ اس لیے کیا تھا کہ کہا جائے کہ وہ بڑا سخی ہے، چنانچہ یہ کہہ لیا گیا ہے۔ پھر اس کے متعلق حکم صادر کیا جائے گا تو اسے چہرے کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿١٧٥﴾
(4-النساء: 175)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر جو لوگ اللہ پر ایمان لے آئے اور اس (کے دین) کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو وہ ضرور انھیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا، اور انھیں اپنی طرف (پہنچنے کے لیے ) سیدھا راستہ دکھائے گا۔“
حدیث: 5
وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: قال الله عز وجل: سبقت رحمتي غضبى
صحيح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قول الله رقم الحديث: 3194 ، صحيح مسلم، كتاب التوبة، باب في سعة رحمة الله تعالي …. ، رقم الحديث: 2751 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ عز وجل فرماتا ہے: میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔“
نیکی کا ارادہ بھی نیکی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿١٦٠﴾
(6-الأنعام: 160)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جو شخص (وہاں) ایک نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے دس گنا (ثواب ) ہوگا، اور جو شخص ایک برائی لے کر آئے گا تو اسے بس اس کے برابر ہی سزا دی جائے گی۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“
حدیث: 6
وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يقول الله: إذا أراد عبدى أن يعمل سيئة فلا تكتبوها عليه ، حتى يعملها ، فإن عملها فاكتبوها بمثلها ، وإن تركها من أجلي فاكتبوها له حسنة ، وإذا أراد أن يعمل حسنة ، فلم يعملها فاكتبوها له حسنة ، فإن عملها فاكتبوها له بعشر أمثالها إلى سبع مائة
صحيح البخاری، کتاب التوحيد، باب قول الله تعالى: (يريدون ان يبدلوا كلم الله )، رقم الحديث: 7501 ، صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب إذا هم العبد بحسنة….. ، رقم الحديث: 128 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے ) فرماتا ہے: جب میرا کوئی بندہ برائی (اور گناہ) کرنے کا ارادہ کرے تو اسے اس کے خلاف اس وقت تک نہ لکھو جب تک کہ وہ اس سے سر زد نہ ہو۔ اگر اس وہ اس برائی کا ارتکاب کر لے تو اسے ایک (گناہ ) ہی لکھو۔ اور اگر اس نے اسے میری خاطر چھوڑ دیا تو اسے اس کے لیے ایک نیکی لکھو۔ اور جب وہ نیکی کرنے کا ارادہ کرنے کا ارادہ کرے لیکن اسے نہ کر سکے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو، پھر اگر وہ وہ نیکی کرلے تو وہ اس کے لیے دس سے سات سو گنا تک لکھو۔“
اللہ تعالی کی مغفرت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ﴿١٠﴾ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا ﴿١١﴾ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا ﴿١٢﴾
(71-نوح: 10تا12)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”تو میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگ لو، یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا۔ اور وہ مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں باغات عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾
(39-الزمر: 53)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی تو بے حد بخشنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔ “
حدیث: 7
وعن جندب رضی اللہ عنہ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حدث: أن رجلا قال: والله لا يغفر الله لفلان وإن الله تعالى قال: من ذا الذى يتالى على أن لا أغفر لفلان ، فإني قد غفرت لفلان، واحبطت عملك
صحيح مسلم، كتاب البر والصلة باب النهي عن تقنيط الإنسان من رحمة الله تعالى، رقم الحديث: 2621 ۔
”اور سیّد نا جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک آدمی نے یہ کہا کہ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ فلاں شخص کی مغفرت نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کون ہے جو مجھ پر اس بات کی قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں شخص کی مغفرت نہیں کروں گا؟ بے شک میں نے اس کی مغفرت کر دی اور تیرے اعمال برباد کر دیے۔“
خشیت الہی کا بیان ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ ﴿٤٦﴾
(55-الرحمن: 46)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، دو باغ ہیں۔“
حدیث: 8
وعن أبى سعيد الخدري رضي الله الله عن النبى صلى الله عليه وسلم: أنه ذكر رجلا فيما سلف أو فيمن كان قبلكم ، قال – كلمة: يعني أعطاه الله مالا وولدا، فلما حضرت الوفاة قال لبنيه: أى أب كنت لكم؟ قالوا خير أب . قال: فإنه لم يبتنر – أو لم يبتنز – عند الله خيرا ، وإن يقدر الله عليه يعذبه ، فانظروا إذا مت فأحرقوني حتى إذا صرت فحما فاسحقوني أو قال: فاسحكوني فإذا كان يوم ريح عاصف فأذروني فيها فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم فأخذ مواثيقهم على ذلك وربي ففعلوا ، ثم أذروه فى يوم عاصف ، فقال الله عز وجل: كن ، فإذا هو رجل قائم ، قال الله أى عبدي ما حملك على أن فعلت ما فعلت؟ قال: مخافتك أو فرق منك – قال: فما تلافاه أن رحمه عندها . وقال مرة أخرى فما تلافاه غيرها
صحيح البخاري، كتاب التوحيد، باب قول الله تعالي ، رقم الحديث: 7508 صحيح مسلم، كتاب التوبة، باب في سعة رحمة الله تعالى وأنها تغلب غضبه، رقم الحديث: 2757.
”اور سید نا ابوسعید رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ زمانے کے لوگوں میں سے ایک شخص کا تذکرہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے اسے مال اور اولاد سے نوازا تھا، جب (اس کی) موت کا وقت آ گیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: میں تمھارا کیسا باپ تھا؟ انھوں نے کہا کہ آپ بہترین باپ تھے۔ اس نے کہا: میں نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی نہیں بھیجی کوئی اچھا کام نہیں کیا) اور اگر اللہ کا مجھ پر بس چل گیا تو مجھے عذاب دے گا، اس لیے خیال رکھنا کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا ڈالنا، یہاں تک کہ جب میں کوئلہ ہو جاؤں تو مجھے پیس لینا اور پھر جب تیز آندھی والا دن ہو تو اس روز مجھے ہوا میں اڑا دینا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے رب کی قسم ! اس شخص نے ان سے اس بات پر عہد و پیمان لے لیا، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا (اسے جلا دیا ) اور پھر تیز آندھی والے دن اس کی راکھ ہوا میں اڑا دی، اللہ تعالیٰ نے (راکھ کو ) حکم دیا کہ حاضر ہوجا تو وہ مکمل انسان بن کر کھڑا ہو گیا۔ اللہ نے پوچھا: میرے بندے! تو نے جو کچھ کیا اس پر تجھے کس چیز نے ابھارا؟ اس نے کہا: تیرے خوف اور ڈر نے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے یہ سن کر اس پر رحم فرما دیا، یا یہ فرمایا: اس کے ساتھ اسی (رحم) کا برتاؤ کیا۔“
اللہ تعالیٰ آخرت میں اہل ایمان کے گناہوں پر پردہ ڈالے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾
(59-الحشر: 10)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (ان کے لیے ) جو لوگ ان کے بعد آئے، وہ دعائیں کرتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب ! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔“
حدیث: 9
وعن صفوان بن محرز المازني قال: بينما أنا أمشي مع ابن عمر رضى الله عنه نا آخذ بيده ، إذ عرض رجل ، فقال: كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فى النجوى؟ فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله يدنى المؤمن فيضع عليه كنفه ويستره، فيقول: أتعرف ذنب كذا؟ أتعرف ذنب كذا؟ فيقول: نعم ، أى رب! حتى إذا قرره بذنوبه ورأى فى نفسه أنه هلك ، قال: سترتها عليك فى الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم ، فيعطى كتاب حسناته ، وأما الكافر والمنافقون فيقول الأشهاد: ﴿هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّلِمِينَ﴾ (هود: 18)
صحيح البخارى، كتاب المظالم، باب قول الله تعالى الا لعنة الله على الظلمين ، رقم الحديث: 2441، صحيح مسلم، کتاب التوبة، باب في سعة رحمة الله تعالى على المؤمنين، رقم الحديث: 2768۔
”اور سید نا صفوان بن محرز مازنی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا کہ اچانک ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا: (قیامت کے دن اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی ) خفیہ گفتگو کے بارے میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب کرے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال کر اسے چھپالے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا تجھے فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا تجھے فلاں گناہ یاد ہے؟ وہ مومن کہے گا: ہاں، اے میرے پروردگار ۔ آخر جب اللہ اس سے اس کے گناہ کا اقرار کروا لے گا اور بندے کو یہ احساس ہو جائے گا کہ اب اس کی ہلاکت یقینی ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا اور آج بھی میں تجھے بخشتا ہوں۔ چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی۔ لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ (ملائکہ، انبیاء اور تمام جن وانس) کہیں گے: یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبردار! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہوگی ۔“
تکبر اللہ کو نا پسند ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿١٨﴾
(31-لقمان: 18)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور لوگوں کے لیے اپنا رخسار ٹیڑھا نہ رکھ اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک اللہ کسی اکڑنے والے، فخر کرنے والے سے محبت
نہیں کرتا۔“
حدیث: 10
وعن أبى سعيد الخدري وأبي هريرة رضی اللہ عنہ قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقول الله عز وجل: الكبرياء ردائي، والعظمة إزارى فمن نازعني واحدا منهما قذفته فى النار
صحیح مسلم كتاب البر والصلة باب تحريم الكبر ، رقم الحديث: 2620، سنن أبي داود، كتاب اللباس، باب ما جاء في الكبر ، رقم الحديث: 4090۔ سنن ابن ماجه ، أبواب الزهد، باب البراءة من الكبر والتواضع، رقم الحديث: 4174.
”اور سیدنا ابوسعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ عز و جل فرماتا ہے: بڑائی میری چادر اور عزت (قوت و طاقت اور غلبہ ) میرا پہناوا ہے۔ جو شخص ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے آگ میں ڈالوں گا۔“
اللہ عز وجل کی ناقدری
قَالَ اللهُ تَعَالَى: مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٧٤﴾
(22-الحج: 74)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق تھا۔ بے شک اللہ یقیناً بہت قوت والا ہے، سب پر غالب ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴿٩٤﴾
(6-الأنعام: 94)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور بلاشبہ یقیناً تم ہمارے پاس اکیلے آئے ہو، جیسے ہم نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور اپنی پیٹھوں کے پیچھے چھوڑ آئے ہو جو کچھ ہم نے تمھیں دیا تھا اور ہم تمھارے ساتھ تمھارے وہ سفارش کرنے والے نہیں دیکھتے جنھیں تم نے گمان کیا تھا کہ بے شک وہ تم میں حصے دار ہیں۔ بلا شبہ یقیناً تمھارا آپس کا رشتہ کٹ گیا اور تم سے گم ہوگیا، جو کچھ تم گمان کیا کرتے تھے ۔“
حدیث: 11
وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: قال الله تعالى: كذبني ابن آدم ولم يكن له ذلك ، وشتمني ولم يكن له ذلك ، فأما تكذيبه إياي فقوله: لن يعيدني كما بدأني ، وليس أول الخلق بأهون على من إعادته ، وأما شتمه إياي فقوله: اتخذ الله ولدا ، وأنا الأحد الصمد، لم ألد ولم أولد، ولم يكن لى كفتا أحد
صحيح البخاری کتاب التفسیر باب ، رقم الحديث: 4974.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم نے مجھے جھٹلایا ، حالانکہ اسے یہ حق حاصل نہیں تھا۔ اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ یہ اس کے لیے جائز نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے جس طرح مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے دوبارہ اس طرح ہرگز زندہ نہیں کرے گا، حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا میرے لیے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں (بلکہ دونوں برابر ہیں) اور اس کا مجھے گالی دینا اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد بنائی ہے، حالانکہ میں یکتا و بے نیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنم دیا ہے، نہ میں کسی سے پیدا ہوا ہوں اور نہ میرا کوئی ہم سرہی ہے۔“
اللہ تعالیٰ اہل جنت سے ہم کلام ہوگا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴿١٦٤﴾
(4-النساء: 164)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور اللہ نے موسیٰ سے (خاص طور پر ) کلام کیا۔“
حدیث: 12
وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله يقول لأهل الجنة يا أهل الجنة فيقولون: لبيك ربنا وسعديك والخير فى يديك ، فيقول: هل رضيتم؟ فيقولون: وما لنا لا نرضى يا رب وقد أعطيتنا ما لم تعط أحدا من خلقك؟ فيقول: أنا أعطيكم أفضل من ذلك؟ فيقولون: يا رب! و أى شيء أفضل من ذلك؟ فيقول: أحل عليكم رضواني فلا أسخط عليكم بعده أبدا
صحيح البخارى، كتاب التوحيد ، باب كلام الرب مع أهل الجنة، رقم الحديث: 7518، صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها ، باب إحلال الرضوان على أهل الجنة رقم الحديث: 2829.
”اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ اہل جنت کو مخاطب کرے گا: اے اہل جنت ! تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں، ہم مستعد ہیں، ساری بھلائی تیرے دونوں ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا: کیا تم خوش ہوگئے ہو؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہمیں کیا ہے کہ ہم راضی نہ ہوں، جبکہ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کر دیا ہے جو اپنی مخلوق میں کسی کو عطا نہیں کیا؟ رب تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں تمھیں ان سے افضل نعمت عطا نہ کروں؟ جنتی کہیں گے: اے ہمارے رب! ان نعمتوں سے افضل اور کون سی چیز ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: (وہ نعمت میری رضا مندی ہے) اب میں تم پر اپنی رضا مندی اتارتا ہوں، اس کے بعد تم پر کبھی غصے نہ ہوں گا۔“
جنتی لوگوں کی ہر خواہش پوری ہوگی
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ﴿٧٠﴾ يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ۖ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ ۖ وَأَنتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٧١﴾ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٧٢﴾ لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٧٣﴾
(43-الزخرف: 70تا73)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جنت میں داخل ہو جاؤ تم اور تمھاری بیویاں، تم خوش کیے جاؤ گے۔ ان کے گرد سونے کے تھال اور پیالے لے کر پھرا جائے گا اور اس میں وہ چیز ہوگی جس کی دل خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت پائیں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ اور یہی وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو، اس کی وجہ سے جو تم عمل کرتے تھے۔ تمھارے لیے اس میں بہت سے میوے ہیں، جن سے تم کھاتے ہو۔“
حدیث: 13
وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يوما يحدث وعنده رجل من أهل البادية: أن رجلا من أهل الجنة استأذن ربه فى الزرع فقال: له ألست فيما شئت؟ قال: بلى، ولكني أحب أن أزرع ، فأسرع وبذر فتبادر الطرف نباته واستواؤه واستحصاده وتكويره فكان أمثال الجبال ، فيقول الله تعالى: دونك يا ابن آدم! فإنه لا يشبعك شيء . فقال الأعرابي: يا رسول الله ! لا نجد هذا إلا قرشيا أو أنصاريا فإنهم أصحاب زرع ، فأما نحن فلسنا بأصحاب زرع، فضحك رسول الله
صحيح البخاري، كتاب التوحيد ، باب كلام الرب مع أهل الجنة، رقم الحديث: 7519 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما ر ہے تھے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بادیہ نشین بھی بیٹا ہوا تھا. اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی باڑی کرنے کی اجازت مانگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا ابھی تجھے وہ چیزیں ملی نہیں جو تو چاہتا ہے؟ بندہ عرض کرے گا: کیوں نہیں! لیکن میں پسند کرتا ہوں کہ کھیتی باڑی کروں (اسے اجازت مل جائے گی ) تو وہ جلدی کرے گا، بیج بوئے گا اور پلک جھپکنے سے پہلے کھیتی اُگے گی، برابر ہوکر پک جائے گی، اس کی کٹائی ہوکر پہاڑوں جیسے ڈھیر لگ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ابن آدم! لے لے، یقینا تیرا پیٹ کوئی چیز نہیں بھرسکتی۔ اس اعرابی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! یہ شخص قریشی یا انصاری ہی ہوگا، اس لیے کہ یہی لوگ زراعت پیشہ ہیں جبکہ ہم زراعت پیشہ نہیں، (یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔“
جہنم سے نجات پانے والا آخری شخص
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾
(3-آل عمران: 133)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی
گئی ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا ﴿٧٢﴾
(19-مريم: 72)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو ڈر گئے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔“
حدیث: 14
وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم آخر من يدخل الجنة رجل ، فهو يمشي مرة ويكبو مرة ، وتسفعه النار مرة ، فإذا ما جاوزها التفت إليها ، فقال: تبارك الذى نجاني منك ، لقد أعطاني الله شيئا ما أعطاه أحدا من الأولين والآخرين فترفع له شجرة فيقول: أى رب أدني من هذه الشجرة فاستظل بظلها وأشرب من مآئها، فيقول الله عز وجل: يا ابن آدم لعلى إن أعطيتكها سألتني غيرها ، فيقول: لا ، يا رب ويعاهده أن لا يسأله غيرها ، وربه يعذره، لأنه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها فيستظل بظلها ويشرب من مائها ، ثم ترفع له شجرة هي أحسن من الأولى فيقول: أى رب أدنني من هذه لأشرب من مائها وأستظل بظلها لا أسألك غيرها ، فيقول: يا ابن آدم! ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها؟ فيقول: لعلى إن أدنيتك منها تسألني غيرها ، فيعاهده أن لا يسأله غيرها ، وربه يعذره ، لأنه يرى ما لا صبر له عليه ، فيدنيه منها ، فيستظل بظلها ويشرب من مائها ، ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة هي أحسن من الأوليين ، فيقول: أى رب أدنني من هذه لأستظل بظلها وأشرب من مآئها ، لا أسألك غيرها ، وربه يعذره ، لأنه يرى ما لا صبر له عليها ، فيدنيه منها ، فإذا أدناه منها ، فيسمع أصوات أهل الجنة، فيقول: أى رب أدخلنيها، فيقول: يا ابن آدم! ما يصريني منك؟ أيرضيك أن أعطيك الدنيا ومثلها معها؟ قال: يا رب أتستهزء منى وأنت رب العالمين فيقول: إني لا أستهزء منك ولكني على ما أشاء قادر
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب آخر أهل النار خروجا، رقم الحديث: 187.
”اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا شخص وہ ہوگا جو کبھی تو چلے گا، کبھی منہ کے بل گرے گا اور کبھی اسے آگ جلائے گی۔ جب وہ آگ سے گزر جائے گا تو اس کی طرف متوجہ ہو کر کہے گا: بہت برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ چیز عنایت فرمائی جو اس نے اولین و آخرین میں سے کسی کو نہیں بخشی ۔ پھر اس کے لیے ایک درخت بلند کر کے سامنے کر دیا جائے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سایے سے سایہ حاصل کروں اور اس کے (نیچے موجود ) پانی سے پانی پیوں۔ اللہ عز و جل ارشاد فرمائے گا: اے ابن آدم ! ممکن ہے کہ اگر میں تیری یہ خواہش پوری کردوں تو تو مجھ سے اور مانگے ۔ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اور رب تعالیٰ سے عہد کرے گا کہ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں مانگے گا۔ رب تعالیٰ اسے معذور ہی سمجھے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھے گا جس پر اسے صبر نہیں ہو سکے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا تو یہ اس کے سایہ تلے بیٹھے گا اور اس کا پانی پیے گا۔ پھر اس کے سامنے ایک اور درخت بلند کر دیا جائے گا جو پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگا تو یہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! تو مجھے اس درخت کے قریب کر دے تا کہ میں اس کا پانی پیوں اور اس کے سایے میں بیٹھوں، اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ رب تعالیٰ کہے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ تو کچھ اور نہیں مانگے گا؟ پھر ارشاد فرمائے گا کہ اگر میں نے تجھے اس کے قریب کر دیا تو تو مجھ سے اور مانگ بیٹھے گا۔ اس پر وہ رب تعالیٰ سے عہد کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ اور نہیں مانگے گا اور اس کا رب اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھے گا جس پر وہ صبر نہیں کر سکے گا، لہذا اللہ تعالیٰ اسے اس کے قریب کر دے گا، چنانچہ وہ اس کے سایے میں بیٹھے گا اور اس کا پانی یے گا۔ اس کے بعد اس کے سامنے جنت کے دروازے کے پاس ایک اور درخت نمودار کیا جائے گا جو پہلے دو درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔ ابن آدم کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تا کہ میں اس سے سایہ حاصل کروں اور اس کا پانی پیوں۔ اس کے بعد میں تجھ سے کچھ بھی نہیں مانگوں گا۔ جبکہ رب تعالیٰ اسے معذور ہی سمجھے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہوگا جس پر اسے صبر نہیں ہو سکے گا۔ رب تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا۔ جب اسے اس کے قریب کر دے گا تو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا۔ پھر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اب اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! تیرا پیٹ کس چیز سے بھرے گا؟ کیا تو اس پر راضی ہے کہ میں تجھے دنیا اور اس کے مثل دے دوں؟ ابن آدم کہے گا: اے میرے رب! کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے، حالانکہ تو رب العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا ہوں بلکہ میں تو جو چاہوں اس کے کر گزرنے پر قادر ہوں۔“
شہداء کا مقام و مرتبہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾
(3-آل عمران: 169)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور آپ ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کر دیے گئے ، ہرگز مردہ گمان نہ کریں، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾
(2-البقرة: 154)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اور ان کو جو اللہ کے راستے میں قتل کیے جائیں، مردے مت کہو، بلکہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں سمجھتے ۔“
حدیث: 15
وعن مسروق قال: سألنا عبد الله وهو ابن مسعود عن هذه ألآية ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴾ (3-آل عمران: 169) قال: أما إنا قد سألنا عن ذلك فقال: أرواحهم فى جوف طير خضر ، لها فناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ، ثم تأوي إلى تلك القناديل ، فاطلع إليهم ربهم اطلاعة، فقال: هل تشتهون شيئا؟ قالوا: أى شيء نشتهي؟ ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ، ففعل ذلك بهم ثلاث مرات ، فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا، قالوا: يا رب نريد أن ترد أرواحنا فى أجسادنا حتى نقتل فى سبيلك مرة أخرى ، فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا
صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة، رقم الحديث: 1887.
”اور جناب مسروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴾ (3-آل عمران: 169)جولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزی دیے جاتے ہیں۔“ تو انھوں نے کہا: ہم نے اس کے بارے میں (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ) سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ عليه وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ان کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں، ان کے لیے عرش سے لٹکی ہوئی قندیلیں ہیں، جنت میں جہاں چاہیں پھرتی ہیں، پھر دوبارہ انھیں قنادیل کی جانب واپس آجاتی ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے رب نے انھیں جھانک کر دیکھا اور ارشاد فرمایا: کیا کچھ اور چاہتے ہو؟ تو وہ شہداء بولے: ہمیں اور کیا چاہیے؟ جہاں چاہیں جنت میں گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ سوال اللہ نے ان سے تین بار کیا، جب انھوں نے دیکھا کہ وہ سوال کیے بغیر نہیں چھوڑے جائیں گے تو بولے: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے اجساد میں لوٹا دے تاکہ ہم دوبارہ تیرے راستے میں قتل ہوں۔ جب اللہ نے دیکھا کہ انھیں کوئی حاجت نہیں ہے تو انھیں چھوڑ دیا گیا۔“
اہل جنت اور اہل جہنم کی صفات کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٨﴾ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٣٩﴾
(2-البقرة: 38، 39)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:
”پھر اگر کبھی تمھارے پاس میری طرف سے واقعی کوئی ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا سو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا یہ لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
حدیث: 16
وعن عياض بن حمار المجاشعي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذات يوم فى خطبته: ألا إن ربي أمرني أن أعلمكم ما جهلتم مما علمنى يومي هذا كل مال نحلته عبدا حلال ، وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم ، وحرمت عليهم ما أحللت لهم ، وأمرتهم أن يشركوا بى ما لم أنزل به سلطانا، وإن الله نظر إلى أهل الارض فمقتهم ، عربهم وعجمهم ، إلا بقايا من أهل الكتاب، وقال: إنما بعثتك لابتليك وابتلي بك، وانزلت عليك كتابا لا يغسله الماء ، تقرؤه نائما ويقظان، وإن الله أمرنى ان أحرق قريشا فقلت: رب إذا يتلغوا رأسي فيدعوه خبزة، قال: استخرجهم كما استخرجوك ، واغزهم نغزك وانفق فسننفق عليك ، وابعث جيشا نبعث خمسة مثله، وقاتل بمن أطاعك من عصاك ، قال: واهل الجنة ثلاثة: ذو سلطان مقسط متصدق موفق ، ورجل رحيم رقيق القلب لكل ذى قربى ومسلم، وعفيف متعفف ذو عيال – قال: واهل النار خمسة: الضعيف الذى لا زبر له ، الذين هم فيكم تبعا لا يبتغون أهلا ولا مالا، والخائن الذى لا يخفى له طمع – وإن دق – إلا خانه ، ورجل لا يصبح ولا يمسي إلا وهو يخادعك عن أهلك ومالك . وذكر البخل أو الكذب والشنظير الفحاس
صحيح مسلم، كتاب الجنة ونعيمها، باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا أهل الجنة والنار، رقم الحديث: 2865.
”اور سیدنا عیاض بن حمار مجاشعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: آگاہ رہو! مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں وہ باتیں سکھلاؤں جو تمھیں معلوم نہیں اور مجھے میرے رب نے سکھائی ہیں۔ میں جو مال اپنے بندوں کو دوں وہ حلال ہے اور بلاشبہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف (ہدایت کی قابلیت پر) پیدا کیا ہے، پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انھیں ان کے دین سے ہٹا لیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں انھیں حرام قرار دیا اور انھیں حکم دیا کہ میرے ساتھ اسے شریک ٹھہرائیں جس کے بارے میں میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کو دیکھا تو ان کے عرب و عجم تمام پر غصے ہوا سوائے بقیہ اہل کتاب کے (جو توحید پر قائم تھے ) اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ میں نے آپ کو اس لیے بھیجا کہ آپ کو آزماؤں اور آپ کے ذریعے سے (اوروں کو ) آزماؤں۔ میں نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی نہیں دھو سکتا، آپ اسے سوتے میں اور بیداری میں پڑھیں گے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قریش کو جلا ڈالوں۔ تو میں نے کہا: اے میرے رب! تب تو وہ میرا سر توڑ ڈالیں گے اور اسے روٹی کی طرح چھوڑ دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انھیں نکال دیں جس طرح انھوں نے آپ کو نکالا اور ان کے خلاف غزوہ کریں ہم آپ کی مدد کریں گے اور خرچ کریں عنقریب ہم آپ پر خرچ کریں گے۔ آپ لشکر بھیجیں ہم اس کے مثل پانچ گنا بھیج دیں گے اور اپنے اطاعت گزار ساتھیوں کو لے کر ان لوگوں سے لڑائی کریں جو آپ کی نافرمانی کرتے ہیں اور فرمایا: اہل جنت کی تین قسمیں ہیں: ① انصاف کرنے والا بادشاہ جو خیرات کرتا ہے اور توفیق یافتہ ہے۔ ② مہربان اور ہر رشتہ دار اور مسلمان کے لیے نرم دل شخص ③ پاک دامن، سوال سے بچنے والا ، عیال دار شخص ۔ اور فرمایا: اہل جہنم کی پانچ قسمیں ہیں: ① کمزور شخص جسے (حلال و حرام کی ) کوئی تمیز نہیں جو تم میں تابعدار ہیں جو نہ اہل چاہتے ہیں اور نہ مال۔ ② وہ خائن جس کا لالچ چھپ نہیں سکتا اور کوئی چیز تھوڑی ہی کیوں نہ ہو وہ اس میں خیانت کر دیتا ہے۔ ③ وہ شخص جو صبح و شام آپ کو آپ کے اہل و مال کے بارے میں دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ④ اور آپ نے بخل یا جھوٹ (والے) کا بھی ذکر کیا اور گالیاں بکنے والا ⑤ اور فحش گو کا بھی (کہ یہ سب دوزخی ہیں ) ذکر فرمایا۔“
جنت اور جہنم کا مکالمہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٥٦﴾
(7-الأعراف: 156)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور تو ہمارے لیے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بھلائی لکھ دے، بے شک ہم نے تیری ہی طرف رجوع کیا ہے۔ اللہ نے کہا: میں جسے چاہتا ہوں اپنا عذاب پہنچا تا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، چنانچہ جلد ہی میں اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیز گار ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور (ان کے لیے بھی) جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ ﴿٣٠﴾ وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ ﴿٣١﴾ هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ ﴿٣٢﴾ مَّنْ خَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ ﴿٣٣﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ ﴿٣٤﴾ لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ ﴿٣٥﴾
(50-ق: 30)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ مزید ہے؟ اور جنت پر ہیز گاروں کے لیے قریب کر دی جائے گی، جو کچھ دور نہ ہوگی ۔ یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع والا ، خوب حفاظت کرنے والا ہو۔ جو رحمان سے بغیر دیکھے ڈر گیا اور رجوع کرنے والا دل لے کر آیا۔ اس میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ، یہی ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ ان کے لیے جو کچھ وہ چاہیں گے اس میں ہوگا اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔“
حدیث: 17
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: تحاجت الجنة والنار ، فقالت النار: أوثرت بالمتكبرين والمتجبرين وقالت الجنة: ما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم؟ قال الله تبارك وتعالى للجنة: أنت رحمتي أرحم بك من أشاء من عبادى، وقال للنار: إنما أنت عذابي أعذب بك من أشاء من عبادى، ولكل واحدة منهما ملؤها ، فأما النار: فلا تمتلي حتى يضع رجله فتقول: قط قط ، فهنالك تمتلء ويزوى بعضها إلى بعض، ولا يظلم الله عزوجل من خلقه أحدا، وأما الجنة: فإن الله عز وجل ينش لها خلقا
صحيح البخاري، كتاب التفسير ، باب قوله: وتقول هل من مزيد ، رقم الحديث: 4850، صحيح مسلم، كتاب الجنة ونعيمها ، باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء، رقم الحديث: 2846.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت اور جہنم (آگ) کے درمیان مناظرہ ہوا تو جہنم نے کہا: مجھے متکبروں اور جابروں کے ذریعے ترجیح دی گئی ہے۔ جنت بولی: کیا بات ہے کہ میرے اندر کمزور، معمولی اور گھٹیا قسم کے لوگ ہی آتے ہیں؟ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت سے ارشاد فرمایا: تو میری رحمت ہے، میں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں تیرے ذریعے سے رحمت کرتا ہوں۔ اور دوزخ سے کہا: تو میرا عذاب ہے، میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں تیرے ذریعے سے عذاب دیتا ہوں اور ان میں سے ہر ایک کو بھرنے کا پورا سامان ملے گا، دوزخ اس وقت تک نہ بھرے گی جب تک اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پاؤں نہ رکھ دے، اس وقت وہ کہے گی: بس بس، بس اور اس وقت وہ بھرے گی اور اس کا بعض (حصہ) سمٹ کر بعض سے لگ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کو بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق پیدا فرما دے گا۔“
دنیا اور آخرت کی حقیقت؟
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا ﴿٧٧﴾
(4-النساء: 77)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“
حدیث: 18
وعن أنس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يؤتى بأشد الناس كان بلاء فى الدنيا من أهل الجنة فيقول: اصبغوه صبغة فى الجنة، فيصبغ فيها صبغة ، فيقول الله عز وجل: يا ابن آدم! هل رأيت بوسا قط أو شيئا تكرهه؟ فيقول: لا ، وعزتك! ما رأيت شيئا أكرهه قط ، ثم يؤتى بأنعم الناس كان فى الدنيا من أهل النار فيقول: اصبغوه فيها صبغة، فيقول: يا ابن آدم! هل رأيت خيرا قط، قرة عين قط؟ فيقول: لا وعزتك! ما رأيت خيرا قط ولا قرة عين قط
مسند أحمد: 253/3 254 ، صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقين ، باب صبغ أنعم أهل الدنيا ، رقم الحديث: 2807.
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل جنت میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں تمام لوگوں سے زیادہ مصیبتوں اور سختیوں میں مبتلا رہا۔ رب تعالیٰ (فرشتوں سے ) کہے گا: اسے جنت میں ایک غوطہ دے دو، تو فرشتے اسے جنت میں ایک غوطہ دے دیں گے۔ پھر اللہ عز وجل کہے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی سختی یا نا پسندیدہ چیز دیکھی ہے؟ وہ کہے گا: نہیں ، تیری عزت کی قسم ! میں نے کبھی کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں دیکھی۔ پھر اہل دوزخ میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں تمام لوگوں سے زیادہ نعمتوں اور آسائشوں والا ہوگا۔ رب تعالیٰ (فرشتوں سے) کہے گا: اسے جہنم میں ایک غوطہ دے دو۔ (غوطہ دیے جانے کے بعد ) اللہ تعالیٰ پوچھے گا: اے ابن آدم ! کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہے اور کبھی تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوئی ہیں۔ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! میں نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی نہ کبھی میری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔“
جنت میں دیدار الہی
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿٢٣﴾
(75-القيامة: 22، 23 )
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اس دن کئی چہرے تر و تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھنے والے۔“
حدیث: 19
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قالوا يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة؟ قال هل تضارون فى رؤية الشمس فى الظهيرة، ليست فى سحابة؟ قالوا: لا ، قال: فهل تضارون فى رؤية القمر ليلة البدر ، ليس فى سحابة؟ قالوا: لا ، قال: فوالذي نفسي بيده! لا تضارون فى رؤية ربكم إلا كما تضارون فى رؤية أحدهما ، قال: فيلقى العبد فيقول: أى قل ألم أكرمك ، وأسودك ، وأزوجك ، وأسخر لك الخيل والإبل ، وآذرك تراس وتربع؟ فيقول: بلى ، قال: فيقول: أفظننت أنك ملاقي؟ فيقول: لا ، فيقول: فإني أنساك كما نسيتني ، ثم يلقى الثاني فيقول: أى قل الم أكرمك، وأسودك، وأزوجك ، وأسخر لك الخيل والإبل ، واذرك تراس وتربع؟ فيقول: بلى ، أى رب فيقول: أفظننت أنك ملاقى؟ قال: فيقول: لا ، فيقول: إني أنساك كما نسيتني، ثم يلقى الثالث فيقول له مثل ذلك ، فيقول: يارت آمنت بك وبكتابك وبرسلك وصليت وصمت وتصدقت ، ويثني بخير ما استطاع ، فيقول: ههنا إذا . قال: ثم يقال له: الآن نبعث شاهدنا عليك، ويتفكر فى نفسه: من ذا الذى يشهد على؟ فيختم على فيه، ويقال لفخذه ولحمه وعظامه انطقى ، فتنطق فخذه ولحمه وعظامه ، بعمله ، وذلك ليعذر من نفسه وذلك المنافق ، وذلك الذى يسخط الله عليه
صحیح مسلم کتاب ، الذهد باب الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر، رقم الحديث: 2968۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ) عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم دوپہر کو ایسی حالت میں سورج کے دیکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہو جب کہ بادل نہ ہوں؟ عرض کی: جی نہیں۔ فرمایا: کیا تم چودھویں رات کے چاند کو اس حالت میں دیکھنے میں دقت محسوس کرتے ہو جب کہ بادل نہ ہوں؟ عرض کی: جی نہیں، فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم اپنے رب کے دیکھنے میں صرف اتنی تکلیف برداشت کرو گے جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں محسوس کرتے ہو، فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے سے ملے گا اور فرمائے گا: اے فلاں! کیا میں نے تیرا اکرام نہ کیا تھا؟ سرداری اور سیادت و قیادت عطا نہ کی تھی؟ شادی نہ کرائی تھی؟ تیرے لیے گھوڑے اونٹ مسخر نہ کیے تھے؟ تجھے سردار نہ بنایا تھا؟ اور دنیا میں مقام و منزلت اور عیش وعشرت کی زندگی عطا نہ کی تھی؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: کیا تو نے یہ یقین کیا تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ وہ کہے گا: نہیں، تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں بھی تجھے ایسے ہی بھلا دوں گا جیسے تو مجھ کو بھولا تھا، پھر دوسرے بندے سے ملے گا اور فرمائے گا: اے فلاں ! کیا میں نے تیرا اکرام نہ کیا تھا؟ تجھے سیادت عطا نہ کی تھی؟ تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہ کیے تھے؟ اور تجھے سرداری عطا نہ کی تھی؟ اور دنیا میں وقعت و منزلت نہ دی تھی؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں ، اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یہ یقین تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے؟ وہ کہے گا: جی نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں بھی تجھے اسی طرح بھلا دوں گا جس طرح تو مجھے بھول گیا تھا، پھر تیسرے سے ملے گا اور اس سے بھی اسی طرح فرمائے گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھ پر، تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا اور میں نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور صدقہ خیرات کی اور جتنی تعریف کر سکے گا کرے گا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: بس اب ذرا صبر کر۔ فرمایا: پھر اس سے کہا جائے گا: ابھی ہم تیرے خلاف اپنا گواہ پیش کرتے ہیں، وہ دل میں سوچے گا کہ میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی ، اور اس کی ران، گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا: بولو، چنانچہ اس کی ران ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال اور کرتوت بتائیں گے، یہ اس لیے ہوگا کہ اس پر اتمام حجت ہو جائے۔ یہ منافق ہوگا اور یہ وہ شخص ہوگا جس سے اللہ جل شانہ ناراض ہوگا۔“
اللہ تعالیٰ کے ذکر کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ﴿٤١﴾
(33-الأحزاب: 41)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کو یاد کرو، بہت یاد کرنا ۔ “
حدیث: 20
وعن أبى هريرة وأبي سعيد رضي الله عنه أنهما شهدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قال العبد: لا إله إلا الله والله أكبر، قال: يقول الله عز وجل: صدق عبدى . لا إله إلا أنا وأنا أكبر . وإذا قال العبد: لا إله إلا الله وحده. قال: صدق عبدي . لا إله إلا أنا وحدى . وإذا قال: لا إله إلا الله لا شريك له. قال: صدق عبدى . لا إله إلا أنا ولا شريك لى . وإذا قال: لا إله إلا الله له الملك وله الحمد. قال: صدق عبدي . لا إله إلا أنا لي الملك ولي الحمد. وإذا قال: لا إله إلا الله، ولا حول ولا قوة إلا بالله . قال: صدق عبدى . لا إله إلا أنا ، ولا حول ولا قوة إلا بي
سنن ابن ماجه ، كتاب الأدب، باب فضل لا إله إله إلا الله، رقم الحديث: 3794، سنن الترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء ما يقول العبد إذا مرض رقم الحديث: 3430۔ صحیح ابن حبان، رقم الحديث: 851۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔
اور سیدنا ابو ہریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ انھیں دونوں گواہی دے کر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب بندہ کہتا ہے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، میں ہی (سچا) معبود ہوں، میں ہی سب سے بڑا ہوں ۔ اور جب بندہ کہتا ہے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، واقعی میرے سوا کوئی معبود (برحق ) نہیں، میں اکیلا ہوں۔ اور جب بندہ کہتا ہے: لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، تو اللہ ارشاد فرماتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، میرے سوا کوئی معبود (برحق ) نہیں، میں ہی معبود ہوں، میرا کوئی شریک نہیں۔ اور جب بندہ کہتا ہے: لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ تو الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، واقعی میرے سوا کوئی معبود (برحق ) نہیں، میرے لیے ہی بادشاہت اور ہر قسم کی تعریف ہے اور جب بندہ کہتا ہے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ تو اللہ تعالى ارشاد فرماتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، میرے سوا کوئی معبود (برحق ) نہیں، میرے سوا کوئی گناہ سے نہیں روک سکتا اور نہ کوئی میرے سوا نیکی کرنے کی قوت ہی دے سکتا ہے۔“
مجالس ذکر کی فضیلت
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٣٥﴾
(33-الأحزاب: 35)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ، ان کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔“
حدیث: 21
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله: إن لله: ملائكة يطوفون فى الطرق يلتمسون أهل الذكر ، فإذا وجدوا قوما يذكرون الله تنادوا هلموا إلى حاجتكم، قال: فيحفونهم بأجنحتهم إلى السماء الدنيا، قال: فيسألهم ربهم زوجل – وهو أعلم منهم – ما يقول عبادي؟ قال: تقول: يسبحونك ويكبرونك ويحمدونك ويمجدونك . قال: فيقول: هل رأوني؟ قال: فيقولون: لا ، والله! ما رأوك. قال: فيقول: كيف لو رأوني؟ قال: يقولون: لو رأوك كانوا أشد لك عبادة، وأشد لك تمجيدا، وأكثر لك تسبيحا. قال: يقول: فما يسألوني؟ قالوا: يسألونك الجنة . قال: يقول: وهل رأوها؟ قال: يقولون: لا ، والله يا رب ما رأوها . قال: فيقول: فكيف لو أنهم رأوها؟ قال: يقولون: لو أنهم رأوها كانوا أشد عليها حرصا، وأشد لها طلبا ، وأعظم فيها رغبة . قال: فمم يتعوذون؟ قال: يقولون من النار. قال: يقول: وهل رأوها؟ قال: فيقولون: لا ، والله يا رب ما رأوها . قال: يقول: فكيف لو رأوها؟ قال: يقولون: لو رأوها كانوا أشد منها فرارا ، وأشد لها مخافة. قال: فيقول: فأشهدكم أنى قد غفرت لهم . قال: يقول ملك من الملائكة فيهم فلان ليس منهم إنما جاء لحاجة . قال: هم الجلساء لا يشقى بهم جليسهم
صحيح البخاری ، کتاب الدعوات ، باب فضل ذكر الله عز وجل، رقم الحديث: ، 6408، صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل مجالس الذكر، رقم الحديث: 2689۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں چلتے پھرتے ہیں اور ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں اور پھر جب ایسی کسی قوم کو پاتے ہیں جو اللہ کا ذکر کر رہی ہو تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں: اپنے مقصد کی طرف آجاؤ (تمہارا مطلوب یہاں ہے ) پھر وہ فرشتے ان ذکر کرنے والوں کو زمین سے آسمان تک اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر ان سے ان کا رب پوچھتا ہے کہ میرے بندے کیا کہہ رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ ان فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں: وہ تیری پاکی حمد وثنا اور کبریائی بیان کر رہے تھے ”سبحان الله“ ، ”الحمد لله“ ، ”الله اكبر“ وغیرہ پڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: نہیں، واللہ ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ذرا بتلاؤ تو اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کیا حال ہوتا؟ فرشتے کہتے ہیں: اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو تیری اور زیادہ عبادت کرتے اور زیادہ پاکیزگی اور حمد و ثنا بیان کرتے اور کثرت سے تیری تسبیح بیان کرتے۔ پھر اللہ پوچھتا ہے: وہ مجھ سے کیا چیز مانگ رہے تھے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: وہ تجھ سے جنت طلب کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: نہیں اے ہمارے رب، انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ آپ مسلم نے ارشاد فرمایا: رب پوچھتا ہے: اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو کیا حال ہوتا؟ فرشتے کہتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اور زیادہ اس جنت کے حریص ہوتے ، انہیں اس کی طلب اور خواہش و رغبت اور زیادہ ہو جاتی۔ پھر پوچھتا ہے: وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے۔ فرشتے کہتے ہیں: آگ سے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: جی نہیں، واللہ اے رب ! انہوں نے اسے بالکل نہیں دیکھا۔ اللہ فرماتا ہے: اگر اسے دیکھ لیتے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس سے اور زیادہ بھاگتے اور اس سے مزید خوف کھاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کر دی ہے۔ ایک فرشتہ عرض کرے گا: ان لوگوں میں فلاں شخص ہے، وہ ان میں سے نہیں وہ تو اپنی کسی حاجت کی وجہ سے یہاں آیا تھا (کیا اس کی بھی مغفرت ہوگئی؟ ) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: یہ ایسے ہم نشین ہیں کہ ان کے پاس ویسے بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔“
توبہ کی قبولیت کا بیان ہے
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾
(3-آل عمران: 135)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور وہ لوگ جب کوئی برا کام کر بیٹھتے ہیں یا اپنے آپ پر ظلم کر گزرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ، پھر اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو بخشتا ہے؟ اور وہ اپنے کیے پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے ۔“
حدیث: 22
وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن عبدا أصاب ذنبا – وربما قال: أذنب ذنبا فقال: رب أذنبت ذنبا – وربما قال أصبت فاغفر لي ، فقال ربه: أعلم عبدى أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به؟ غفرت لعبدى . ثم مكث ما شاء الله ثم أصاب ذنبا أو أذنب ذنبا فقال: رب أذنبت أو أصبت آخر فاغفره ، فقال: أعلم عبدى أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به؟ غفرت لعبدي . ثم مكث ما شاء الله ثم أذنب ذنبا – وربما: قال: أصاب ذنبا فقال: رب أصبت أو قال: أذنبت آخر فاغفره لي ، فقال: أعلم عبدى أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به؟ غفرت لعبدي ، ثلاثا – فليعمل ما شاء
صحيح البخاری، کتاب التوحيد، باب قول الله تعالى: يريدون أن يبدلوا كلام الله ، رقم الحديث: 7507، صحیح مسلم، کتاب التوبة، باب قبول التوبة من الذنوب رقم الحديث: 2758.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ایک شخص سے گناہ سرزد ہو گیا، اس نے کہا: میرے رب! میں نے ایک گناہ کر لیا ہے، لہذا میری مغفرت فرما، اس کے رب نے کہا: کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور اس پر گرفت بھی کرتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کی مغفرت کر دی، پھر جب تک اللہ چاہے وہ ٹھیک ٹھیک رہتا ہے، پھر ایک اور گناہ کر لیتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! مجھ سے گناہ سرزد ہو گیا، لہذا اسے معاف فرما، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میرے بندے نے یہ جان لیا کہ اس کے گناہ معاف کرنے والا اور اس پر مواخذہ کرنے والا ایک رب موجود ہے؟ میں نے اپنے بندے کی مغفرت کر دی، پھر جتنا عرصہ اللہ چاہے گناہ سے باز رہتا ہے پھر گناہ کا ارتکاب کر لیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب! میں پھر گناہ کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں مجھے معاف کر دے تو اللہ کہتا ہے: کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو معاف بھی کرتا ہے اور گرفت بھی کرتا ہے، میں نے اپنے بندے کی (تیسری مرتبہ بھی) مغفرت کردی، تین مرتبہ یہ فرمایا، اس لیے وہ جو چاہے کرے۔“
اللہ تعالی کی اپنے بندے سے محبت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾
(3-آل عمران:134)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ لوگ جو خوشی اور سختی کے موقع پر (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہیں۔ اور اللہ نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے۔“
حدیث: 23
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله إذا احب عبدا دعا جبريل ، فقال: إني أحب فلانا فاحبه، قال: فيحبه جبريل ، ثم ينادى فى السماء فيقول: إن الله يحب فلانا فاحبوه ، فيحبه أهل السماء، قال: ثم يوضع له القبول فى الأرض ، وإذا ابغض عبدا دعا جبريل فيقول: إني أبغض فلانا فابغضه قال: فيبغضه جبريل ، ثم ينادى فى أهل السماء: ان الله يبغض فلانا فأبغضوه، قال: فيبغضونه ثم توضع له البغضاء فى الأرض
صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، باب إذا أحب الله عبدا ، رقم الحديث: 2637 ۔
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل (علیہ السلام ) کو بلا کر کہتا ہے: میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جبریل اس سے محبت کرتے ہیں اور آسمان والوں میں آواز لگاتے ہوئے کہتے ہیں: فلاں شخص سے اللہ محبت کرتا ہے، لہذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس کے لیے زمین میں بھی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے اور جب اللہ کسی سے بغض (دشمنی و عداوت) رکھے تو جبریل کو بلاتا ہے اور کہتا ہے: بے شک میں فلاں بندے سے بغض رکھتا ہوں، لہذا تم بھی اس سے بغض رکھو، چنانچہ جبریل (علیہ السلام ) اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر وہ آسمان والوں میں آواز لگاتے ہیں: اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے بغض رکھتا ہے، لہذا تم بھی اس سے بغض رکھو، چنانچہ وہ اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لیے بغض رکھ دیا جاتا ہے۔ “
لا چار کی مدد کرنے کی فضیلت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ﴿١٢﴾ فَكُّ رَقَبَةٍ ﴿١٣﴾ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ﴿١٤﴾ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ﴿١٥﴾ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ﴿١٦﴾ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ﴿١٧﴾ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ﴿١٨﴾
(90-البلد:12تا18)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ وہ مشکل گھاٹی کیا ہے؟ (وہ) گردن چھڑانا ہے۔ یا کسی بھوک والے دن میں کھانا کھلانا ہے۔ کسی قرابت والے یتیم کو ۔ پھر (یہ کہ ) ہو وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو رحم کرنے کی وصیت کی۔ یہی لوگ دائیں ہاتھ والے ہیں۔“
حدیث: 24
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله: إن الله عزوجل يقول يوم القيمة: يا ابن آدم! مرضت فلم تعدني ، قال: يا رب كيف اعودك؟ وانت رب العالمين، قال: اما علمت أن عبدى فلانا مرض ، فلم تعده ، أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده؟ يا ابن آدم استطعمتك فلم تطعمني، قال: يا رب وكيف أطعمك؟ وأنت رب العالمين، قال: أما علمت أنه استطعمك عبدي فلان فلم تطعمه ، أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي؟ يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني ، قال: يارب كيف أسقيك؟ وأنت رب العالمين، قال: استسقاك عبدي فلان ، فلم تسقه، أما إنك لو سقيته وجدت ذلك عندي
صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة، باب فضل عيادة المريض، رقم الحديث: 2569 ۔
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے انسان! میں بیمار ہوا تھا مگر تو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! تو تو رب العالمین ہے میں تیری عبادت کیسے کرتا؟ اللہ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے مگر پھر بھی تو نے اس کی عیادت نہ کی، تجھے پتہ نہیں تھا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہیں پاتا؟ اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! تو تو رب العالمین ہے، میں تجھے کس طرح کھلاتا؟ تو اللہ فرمائے گا: تجھے پتہ نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اسے کھانے کو نہ دیا، کیا تجھے پتہ نہیں تھا کہ اگر تو اسے کھلا دیتا تو میرے پاس اس کا اجر وثواب پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پینے کو مانگا لیکن تو نے مجھے پلایا نہیں، وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب! تو تو جہانوں کا رب ہے میں تجھے کیسے پلاتا؟ تو اللہ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پینے کو مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہ پلایا، سن لے اگر تو اس کو پلا دیتا تو اس کا اجر وثواب میرے پاس پاتا۔“
تنگ دست کو مہلت دینے کی فضیلت کا بیان
قَالَ الله تَعَالَى: إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿٢٧١﴾
(2-البقرة:271)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اگر تم ظاہر کر کے صدقات دو تو یہ اچھی بات ہے اور اگر تم اسے چھپا کر فقیروں کو دو تو وہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے، وہ (اللہ ) تم سے تمھارے گناہ دور کر دے گا، اور تم جو بھی عمل کرتے ہو اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔ “
حدیث: 25
وعن أبى مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : حوسب رجل ممن كان قبلكم ، فلم يوجد له من الخير شيء ، إلا أنه كان يخالط الناس ، وكان موسرا، فكان يأمر غلمانه أن يتجاوزوا عن المعسر، قال: قال الله عز وجل: نحن أحق بذلك منه ، تجاوزوا عنه
صحیح مسلم کتاب البیوع باب فضل إنظار المعسر رقم الحديث: 1561 .
” اور سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے زمانے کے ایک آدمی کا حساب لیا گیا تو اس کی کوئی نیکی نہ پائی گئی ، مگر وہ لوگوں سے معاملات (لین دین) کیا کرتا تھا، وہ مالدار تھا، وہ اپنے نوکروں کو حکم دیا کرتا تھا کہ تنگدست سے درگزر کریں، اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ہم درگزر کرنے کے اس سے زیادہ حق دار ہیں، اس سے درگزر کرو ۔“
اللہ تعالی کی خاطر محبت کرنے کی فضیلت
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾
(76-الإنسان:8، 9)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو ۔ (اور کہتے ہیں ) ہم تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ “
حدیث: 26
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله يقول يوم القيمة: أين المتحابون بجلالي ، اليوم أظلهم فى ظلي يوم لا ظل إلا ظلى
صحيح مسلم، کتاب البر والصلة، باب فضل الحب في الله تعالى: ، رقم الحديث: 2566 ۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: وہ لوگ کہاں ہیں جو میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے؟ آج میں ایسے دن میں انہیں اپنے سایے میں رکھوں گا جس دن میرے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں۔ “
اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرنے کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ ﴿١١﴾
(57-الحديد:11)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، تو وہ اسے اس کے لیے کئی گنا کر دے اور اس کے لیے باعزت اجر ہو۔“
حدیث: 27
وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال الله تبارك وتعالى: يا ابن آدم! أنفق أنفق عليك
صحيح البخاري، كتاب التفسير ، باب قوله وكان عرشه على الماء ، رقم الحديث: 4684۔ صحیح مسلم، کتاب الزكاة، باب الحث على النفقة وتبشير المنفق بالخلف، رقم الحديث: 993.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے ! تو خرچ کرتا رہ، میں تجھ پر خرچ کرتا رہوں گا۔ “
روز قیامت حساب و کتاب ہوگا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا ﴿١٣﴾ اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴿١٤﴾
(17-الإسراء:13، 14)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ہر انسان کو، ہم نے اسے اس کا نصیب اس کی گردن میں لازم کر دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے، جسے وہ کھولی ہوئی پائے گا۔ اپنی کتاب پڑھ، آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب کافی ہے۔“
حدیث: 28
وعن عدي بن حاتم رضي الله عنه قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءه رجلان: أحدهما يشكو العيلة والآخر يشكو قطع السبيل ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أما قطع السبيل فإنه لا يأتى عليك إلا قليل حتى تخرج العير إلى مكة بغير خفير ، وأما العيلة فإن الساعة لا تقوم حتى يطوف أحدكم بصدقته ، لا يجد من يقبلها منه ، ثم ليقفن أحدكم بين يدي الله ، ليس بينه وبينه حجاب ، ولا ترجمان يترجم ، ثم ليقولن له ألم أوتك مالا فليقولن: بلى ، ثم ليقولن: ألم أرسل إليك رسولا؟ فليقولن: بلى ، فينظر عن يمينه فلا يرى إلا النار ، ثم ينظر عن شماله فلا يرى إلا النار ، فليتقين أحدكم النار ولو بشق تمرة ، فإن لم يجد فبكلمة طيبة
صحيح البخارى، كتاب الزكاة، باب الصدقة قبل الرد رقم الحديث: 1413 .
”اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ دو آدمی آپ کے پاس آئے ، ان میں سے ایک آدمی فقر و فاقہ کی شکایت کر رہا تھا اور دوسرا ڈاکے کے خوف کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہاں تک ڈاکے کا تعلق ہے تو یا د رکھو تم پر تھوڑا ہی عرصہ گزرے گا کہ تم دیکھو گے کہ قافلہ مکہ سے بغیر محافظ کے نکلے گا (اور منزل پر پہنچے گا) اور رہا فقر و فاقہ تو یاد رکھو قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک وہ وقت نہ آ جائے کہ تم میں سے ایک شخص اپنا صدقہ لے کر پھرے لیکن اسے قبول کرنے والا نہ ملے، پھر تم میں سے ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوگا، اس کے اور اللہ کے درمیان نہ کوئی حجاب ہوگا اور نہ کوئی ترجمانی کرنے والا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا میں نے تجھے مال عطا نہیں کیا تھا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں! پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کیا میں نے تمہاری طرف رسول نہیں بھیجے تھے؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں! پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا اور آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا، پھر اپنی بائیں جانب دیکھے گا تو بھی آگ ہی آگ دیکھے گا، لہذا تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ آگ سے بچے خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے سے کیوں نہ ہو، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو پھر اچھی بات ہی کے ذریعے جہنم سے بچے۔ “
قبولیت دعا کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴿٦٠﴾
(40-غافر:60)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“
حدیث: 29
وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر ، يقول: من يدعوني فأستجيب له؟ من يسألني فأعطيه؟ من يستغفرني فأغفر له؟
صحيح البخارى، كتاب التهجد، باب الدعاء والصلاة من آخر الليل، رقم الحديث: 1145، صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين ، وقصرها، باب الترغيب في الدعاء والذكر رقم الحديث: 758.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر رات کو جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے کہ میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں؟“
نماز فجر وعصر کی فرضیت و فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿١٢﴾
(5-المائدة:12)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا، اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کیے تھے، اور اللہ نے کہا: بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم کرو گے، اور زکاۃ ادا کرو گے، اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے، اور اللہ کو اچھا قرض دو گے، تو میں ضرور تم سے تمھاری برائیاں دور کر دوں گا، اور ضرور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، پھر اس کے بعد جس نے کفر کیا تو یقیناً وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔“
حدیث: 30
وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ، ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ، ثم يعرج الذين باتوا فيكم ، فيسألهم – وهو أعلم بهم – كيف تركتم عبادى؟ فيقولون: تركناهم وهم يصلون، وأتيناهم وهم يصلون
صحيح البخارى، كتاب مواقيت الصلاة، باب فضل صلاة العصر، رقم الحديث: 555 صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهما ، رقم الحديث: 632 .
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے پاس رات کو اور دن کو ملائکہ باری باری آتے جاتے ہیں اور وہ صبح اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ ملائکہ جو تم میں رات گزار کر گئے ہوتے ہیں وہ اوپر آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔ اللہ ان سے پوچھتا ہے. حالانکہ اسے ان کا خوب پتہ ہوتا ہے ۔ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ان کے پاس (صبح) گئے تھے تو بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔“
سورۃ فاتحہ کی صورت میں اللہ اور بندے کا مکالمہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى:إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿١٤﴾
(20-طه:14)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، چنانچہ تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر ۔“
حدیث: 31
وعن أبى هريرة رضى الله عنه ه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله تعالى: قسمت الصلوة بيني وبين عبدى نصفين، ولعبدي ما سأل ، فإذا قال العبد الحمد لله رب العلمين قال الله تعالى: حمدني عبدى، وإذا قال: الرحمن الرحيم قال الله تعالى: أثنى على عبدي ، وإذا قال: ملك يوم الدين قال: مجدني عبدى وقال مرة: فوض إلى عبدي فإذا قال: إياك نعبد واياك نستعين قال: هذا بيني وبين عبدى ولعبدي ما سأل ، فإذا قال: اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين قال: هذا لعبدي ولعبدي ما سأل
صحيح مسلم، کتاب الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعتة رقم الحديث: 395 ۔
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: میں نے نماز (سورۂ فاتحہ ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا، آدھا تقسیم کیا ہے، میرے بندے کے لیے وہ ہے جس کا وہ مجھ سے سوال کرے، پھر جب بندہ کہتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی اور جب بندہ کہتا ہے: الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تو ارشاد ہوتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، جب بندہ کہتا ہے: مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ اور ایک مرتبہ فرمایا: میرے بندے نے سارا اختیار مجھے سونپ دیا، جب بندہ کہتا ہے: اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ کہتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مجھ سے مانگے ، جب بندہ کہتا ہے: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالينَ تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گا جس کا اس نے مجھے سوال کیا۔“
مسلہ رحمی کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى:يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴿١﴾
(4-النساء:1)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔“
حدیث: 32
وعن أبى هريرة رضي الله عنه و عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن خلق الله الخلق حتى إذا فرغ من خلقه ، قالت الرحم: هذا مقام العائد بك من القطيعة. قال: نعم، أما ترضين أن أصل من وصلك ، وأقطع من قطعك؟ قالت: بلى يا رب قال: فهو
صحيح البخارى، كتاب الأدب، باب من وصل وصله الله ، رقم الحديث: 5987، صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، وتحريم قطعيتها، رقم الحديث: 2554.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ، جب اس کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم (رشتہ داری) نے کہا: یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحمی (رشتہ داری توڑنے) سے تیری پناہ چاہتا ہوں، فرمایا: ہاں، کیا تو اس بات پر خوش نہیں کہ جو تجھے ملائے (رشتہ داری جوڑے) میں اسے (اپنی رحمت سے ) ملاؤں اور جو تجھے توڑے میں اسے توڑ دوں؟ عرض کی: کیوں نہیں اے رب! فرمایا: میں تم سے اس کا وعدہ کرتا ہوں۔“
کینہ اور بغض رکھنے کی ممانعت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ﴿٢٠٤﴾
(2-البقرة:204)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (اے نبی ! ) لوگوں میں کوئی تو ایسا ہے کہ آپ کو اس کی بات دنیا کی زندگی میں بہت بھلی لگتی ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔“
حدیث: 33
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : تفتح أبواب الجنة فى كل الاثنين وخميس ، فيغفر الله عز وجل لكل عبد عزوجل لا يشرك بالله شيئا ، إلا المتشاحنين، يقول الله للملائكة: ذروهما حتى يصطلحا
صحيح مسلم، كتاب البر والصلة باب النهي عن الشحناء، رقم الحديث: 2565 ، مسند أحمد: 268/2 .
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت کے دروازے ہر پیر اور جمعرات کو کھول دیے جاتے ہیں، پھر اللہ عزوجل ہر اس بندے کو معاف کر دیتا ہے جو اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا سوائے ان دو اشخاص کے جو آپس میں بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ملائکہ سے فرماتا ہے: ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ آپس میں صلح کرلیں۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لیے دعا اور گریہ وزاری
قَالَ اللهُ تَعَالَى: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾
(9-التوبة:128)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” (لوگو!) یقینا تمھارے پاس کبھی میں سے ایک رسول آ گیا ہے، اس پر تمھارا تکلیف میں مبتلا ہونا گراں (گزرتا) ہے، وہ تمھارے لیے (بھلائی کا ) حریص ہے، مومنوں پر نہایت شفیق ، بہت رحم کرنے والا ہے۔“
حدیث: 34
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم تلا قول الله عز وجل فى إبراهيم عليه السلام: رب إنهن أضللن كثيرا من الناس فمن تبعني فإنه منى وقال عيسى عليه السلام: إن تعذبهم فإنهم عبادك و إن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم فرفع يديه وقال: اللهم ! أمتى أمتي وبكى . فقال الله عز وجل: يا جبريل اذهب إلى محمد ، وربك أعلم ، فاسأله ما يبكيك؟ فأتاه جبريل عليه السلام، فسأله فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم بما قال، وهو أعلم ، فقال الله: يا جبريل اذهب إلى محمد فقل إنا سنرضيك فى أمتك ولا نسوءك
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب دعاء النبي لأمته وبكائه شفقة عليهم، رقم الحديث: 202.
”اور سید نا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ ابراہیم میں اللہ عزوجل کے اس فرمان کی تلاوت فرمائی: رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّى ”اے میرے رب ! بے شک انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے تو جو شخص میری پیروی کرے گا تو وہ مجھ سے ہے۔“ اور عیسی کا یہ قول: إن تُعَذِّبُهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ إِنْ تَغْفِرُ لَهُمْ فَإِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ”اگر تو ان کو سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرمادے تو تو زبردست ہے، حکمت والا ہے۔ “بھی پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: اے اللہ ! میری امت، میری امت اور رو پڑے۔ اس پر اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: اے جبریل! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ حالانکہ تیرے رب کو خوب علم ہے اور ان سے پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ (جبریل علیہ السلام آئے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے رونے کی وجہ بتائی۔ جبکہ اللہ کو خوب علم ہے۔ تو اللہ عزوجل نے جبریل سے ارشاد فرمایا:( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ یقیناً ہم آپ کو آپ کی امت کے متعلق خوش کریں گے ، ناراض اور پریشان نہیں کریں گے۔“
بدعتی کا انجام
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٧﴾
(61-الصف:7)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، جب کہ اسے اسلام کی طرف بلایا جارہا ہواور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
حدیث: 35
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم بين أظهرنا ، إذ أغفى إغفاثة، ثم رفع رأسه متبيما ، فقلنا: ما أضحكك يا رسول الله؟ قال: أنزلت على آنفا سورة، فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم إنا أعطينك الكوثرة فصل لربك وانحرن إن شانئك هو الابتر ثم قال: أتدرون ما الكوثر؟ فقلنا: الله ورسوله أعلم ، قال: فإنه نهر وعدنيه ربي عزوجل، عليه خير كثير ، هو حوض ترد عليه أمتي يوم القيمة ، انيته عدد النجوم ، فيختلج العبد منهم ، فأقول رب! إنه من أمتي ، فيقول: ما تدري ما أحدثت بعدك
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب حجة من قال البسملة آية من أول كل سورة سورة براءة، رقم الحديث: 400.
”اور سیدنا انس عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے کہ اچانک آپ پر غنودگی سی طاری ہوگئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سر مبارک اٹھایا۔ ہم نے عرض کیا: آپ کیوں مسکرا رہے ہیں اے اللہ کے رسول؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے، پھر آپ نے اس کی تلاوت کی: إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿٢﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿٣﴾ اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔ یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا، سو اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں، یقیناً آپ کا دشمن بے نسل ہے۔“ پھر آپ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: وہ ایک نہر ہے جس کا وعدہ مجھ سے میرے رب عزوجل نے کیا ہے۔ اس میں بہت خیر ہے۔ یہ ایک حوض ہے جس سے پانی پینے کے لیے قیامت کے دن میرے امتی آئیں گے، اس کے برتنوں کی گنتی ستاروں کے برابر ہے۔ اس سے میری امت میں سے کسی شخص کو ہٹا لیا جائے گا تو میں کہوں گا: اے میرے رب ! یہ میری امت میں سے ہے تو رب تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد دین میں ایجاد کیا تھا۔“
اللہ تعالیٰ بندے کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف ٹھہراتا ہے
حدیث: 36
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: لما نزلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم : ﴿لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ قال: فاشتد ذلك على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم بركوا على الركب فقالوا: أى رسول الله كلفنا من الأعمال ما نطيق: الصلاة والصيام والجهاد والصدقة ، وقد أنزلت عليك هذه الآية ولا نطيقها . قال رسول الله: أتريدون أن تقولوا كما قال أهل الكتابين من قبلكم: سمعنا وعصينا؟ بل قولوا سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير ، قالوا: سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير ، فلما اقترأها القوم ذلت بها السنتهم فأنزل الله فى إثرها: ﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴾ فلما فعلوا ذلك ، نسخها الله تعالى ، فأنزل الله عز وجل: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾ قال: نعم ﴿رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا﴾ قال: نعم ﴿رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ﴾ قال: نعم: ﴿وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾ قال: نعم
صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب بیان تجاوز الله تعالي عن حديث النفس، رقم الحديث: 125 .
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت کریمہ اتری: ﴿لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کر دو جو تمہارے دلوں میں ہے یا اسے چھپاؤ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ۔ تو یہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تم پر گراں گزری، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کی: اے اللہ کے رسول ! ہم بعض ایسے اعمال کے مکلف بنائے گئے ہیں جن کی ہم (واقعتاً) طاقت رکھتے ہیں، جیسے: نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ اور اب آپ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے جبکہ ہم اس کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ ایسی بات کہو جیسی تم سے پہلے دو کتابوں والوں نے کہی تھی کہ ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔ بلکہ تم (یہ ) کہو: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، ہماری مغفرت فرما، اے ہمارے رب! اور تیری ہی طرف واپسی ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ”ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، ہماری مغفرت فرما اے ہمارے رب! اور تیری ہی طرف واپسی ہے۔ جب لوگوں نے یہ الفاظ پڑھے تو ان کی زبانوں سے روانی سے ادا ہونے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ﴾ ”رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے اور اہل ایمان بھی، سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر۔ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، ہماری مغفرت فرما اے ہمارے رب! اور خاص تیری طرف واپسی ہے۔ جب لوگوں نے یہ کام کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت ﴿وَ اِنْ تُبُدُوا﴾ کا حکم منسوخ کر دیا اور یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾ الله کسی نفس کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی طاقت کے مطابق، اسی کے لیے ہے جو اس نے نیکی کمائی اور اسی پر ہے جو اس نے گناہ کمایا۔ اے ہمارے رب! تو ہمارا مواخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم خطا کر جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں میں ایسا ہی کروں گا ﴿رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا﴾ ”اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں (میں ایسا ہی کروں گا ﴿رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ﴾ ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی طاقت ہم میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں (ایسا ہی ہوگا ) ﴿وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾ اور ہم سے درگزر کر اور ہماری مغفرت فرما اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے تو کا فرقوم کے خلاف ہماری مدد کر فرمایا: ہاں (ایسا ہی ہوگا)۔“
یوم عرفہ کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ﴿١٩٨﴾
(2-البقرة:198)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم (حج کے دوران ) اپنے رب کا فضل تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور تم اسے اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمھیں ہدایت دی اور یقیناً اس سے پہلے تم گمراہوں میں سے تھے ۔“
حدیث: 37
وعن عائشة رضي الله عنه إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار، من يوم عرفة، وإنه ليدنو ثم يباهي بهم الملائكة فيقول: ما أراد هؤلاء؟
صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل يوم عرفة، رقم الحديث: 1348 .
” اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ اور کسی دن اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ سے چھٹکارا عطا نہیں فرماتا اور اللہ تعالیٰ (اس دن ) بندوں کے قریب ہو جاتا ہے اور ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر فرماتے ہوئے پوچھتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟“
روزہ کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٤﴾
(2-البقرة:184)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور تمھارا روزہ رکھنا تمھارے لیے کہیں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔“
حدیث: 38
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : قال الله: كل عمل ابن آدم له إلا الصيام، فإنه لي ، وأنا أجزى به ، والصيام جنة، وإذا كان يوم صوم أحدكم ، فلا يرفث ولا يصخب، فإن سابه أحد أو قاتله ، فليقل: إني امرؤ صائم. والذي نفس محمد بيده لـخـلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك ، للصائم فرحتان يفرحهما: إذا أفطر فرح بفطره، وإذا لقي ربه فرح بصومه
صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب هل يقول: إني صائم إذا شئتم ، رقم الحديث: 1904، صحیح مسلم، کتاب الصيام، باب فضل الصيام، رقم الحديث: 1151.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لیے ہے سوائے روزے کے، وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ نہ بے ہودہ بات کہے اور نہ چلائے ، اگر کوئی اس سے جھگڑے یا برا بھلا کہے تو کہہ دے: میں تو روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو ، اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، جن کی بنا پر وہ خوشی اٹھاتا ہے، ایک تو جب روزہ افطار کرتا ہے تو اس کے افطار پر خوش ہوتا ہے اور دوسری خوشی اس وقت ہوگی جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہوگا۔“
اللہ عز وجل کی برکات کا نظارہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿٨٣﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ ﴿٨٤﴾
(21-الأنبياء:83، 84)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (یاد کریں ) ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے، اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ چنانچہ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور جو بھی تکلیف اسے تھی، اس کو ہم نے دور کر دیا اور ہم نے اسے اس کے اہل وعیال بھی دیے اور اپنی طرف سے مہربانی کے لیے ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی عطا کیے، اور عبادت گزاروں کی نصیحت کے لیے۔“
حدیث: 39
وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: بينما أيوب يغتسل عريانا خر عليه رجل جراد من ذهب، فجعل يحيي فى ثوبه، فناداه ربه: يا أيوب ألم أكن أغنيتك عما ترى؟ قال: بلى ، يا رب ولكن لا غنى لي عن بركتك
صحيح البخاري، كتاب أحاديث الانبياء، باب قول الله تعالي: وايوب إذ نادى ربه اني مسني الضر وانت ارحم الرحمين ، رقم الحديث: 3391 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایوب ( علیہ السلام ) برہنہ ہوکر نہا رہے تھے کہ اسی اثنا میں ان پر سونے کی ٹڈیوں کا ایک ڈھیر گرا۔ وہ لپیں بھر بھر کے اسے اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے تو رب تعالیٰ نے انھیں آواز دی اے ایوب ! کیا جو تو دیکھ رہا ہے میں نے تجھے اس سے مستغنی نہیں کیا؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں، اے میرے رب ! لیکن مجھے آپ کی برکت سے کوئی استغنا نہیں۔“
تمام مخلوقات اللہ کی محتاج ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٦﴾
(3-آل عمران:26)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”آپ کہہ دیجیے: اے اللہ ! اے بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے، اور تو ہی جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے۔ سب بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر خوب قادر ہے۔“
حدیث: 40
وعن أبى ذر رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم فيما روى عن الله تبارك وتعالى أنه قال: يا عبادى إني حرمت الظلم على نفسي، وجعلته بينكم محرما ، فلا تظالموا، يا عبادي كلكم ضال إلا من هديته، فاستهدونى اهدكم، يا عبادي كلكم جائع إلا من أطعمته ، فاستطعموني أطعمكم ، يا عبادي كلكم عار إلا من كسوته، فاستكسوني أكسكم ، يا عبادى إنكم تخطئون بالليل والنهار ، وانا اغفر الذنوب جميعا ، فاستغفروني أغفر لكم ، يا عبادي إنكم لن تبلغوا ضرى فتضروني، ولن تبلغوا نفعي فتنفعوني، يا عبادي لو أن اولكم وآخركم ، وإنسكم وجنكم ، كانوا على أتقى قلب رجل واحد منكم ، ما زاد ذلك فى ملكي شيئا، يا عبادي لو ان اولكم وآخركم ، وإنسكم وجنكم ، كانوا على أفجر قلب رجل واحد منكم ، ما نقص ذلك من ملكى شيئا، يا عبادي! لو أن أولكم وآخركم ، وإنسكم وجنكم ، قاموا فى صعيد واحد فسألوني ، فأعطيت كل إنسان مسألته ، ما نقص ذلك مما عندى إلا كما ينقص المخيط إذا أدخل البحر ، يا عبادي! إنما هى أعمالكم ، أحصيها لكم ثم أوفيكم إياها ، فمن وجد خيرا فليحمد الله، ومن وجد غير ذلك فلا يلومن إلا نفسه
صحیح مسلم کتاب البر والصلة، باب تحريم الظلم، رقم الحديث: 2577 .
” اور سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالٰی سے روایت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے، اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو، اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہومگر جسے میں ہدایت دوں، لہذا مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دے دوں گا، اے میرے بندو! تم میں سے ہر شخص بھوکا ہے مگر وہ جسے میں کھانے کو دے دوں، سو مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا دوں گا، اے میرے بندو! تم میں سے ہر کوئی ننگا ہے سوائے اس کے جسے میں لباس پہنا دوں، سو تم مجھ سے لباس مانگو، میں تمہیں لباس پہنا دوں گا، اے میرے بندو! تم سب دن رات غلطیاں کرتے ہو اور میں سارے گناہ معاف کرتا ہوں، لہذا تم مجھ سے مغفرت طلب کرو، میں تمہیں بخش دوں گا، اے میرے بندو! تم مجھے نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہو سکتے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور نہ نفع پہنچانے پر قادر ہو سکتے ہو کہ نفع پہنچا سکو، اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر، انسان اور جن سب کے سب تم میں سے کسی ایک شخص کے متقی ترین دل کی طرح بن جائیں تب بھی میری حکومت وسلطنت میں اس سے کوئی اضافہ نہ ہوگا، اے میرے بندو! اگر تم میں سے اول و آخر ، انسان اور جن سب کے سب کسی ایک شخص کے بدترین فاجر دل کی طرح بن جائیں تب بھی میری حکومت میں اس سے کمی نہ آئے گی ، اے میرے بندو! اگر تم میں سے اول و آخر ، جن وانس سب کے سب ایک جگہ کھڑے ہو کر مانگیں اور میں ہر شخص کو اس کی مطلوبہ چیزیں دے دوں، تب بھی میرے خزانے میں اس سے کمی نہ آئے گی ، مگر جتنی سمندر میں اس سوئی سے آتی ہے جسے سمندر میں ڈال کر نکال لیا جائے ۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لیے محفوظ رکھتا ہوں، پھر تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دوں گا، اس لیے جو نیکی پائے تو وہ اللہ کی حمد وثنا کرے اور جو اس کے علاوہ، یعنی بد اعمالیاں پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔“
اللہ کا نام ہر چیز پر بھاری ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ ﴿45﴾
(العنكبوت:۴۵)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور بلاشبہ اللہ کا ذکر تو سب سے بڑی چیز ہے۔“
حدیث: 41
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه قال: قال: رسول الله: إن الله سيخلص رجلا من أمتي على رؤوس الخلائق يوم القيامة ، فينشر عليه تسعة وتسعين سجلا ، كل سجل مثل مة البصر ثم يقول: أتنكر من هذا شيئا؟ أظلمك الحافظون فيقول: لا ، يا رب فيقول: أفلك عذر فيقول: لا يا رب فيقول: بلى ، إن لك عندنا حسنة ، فإنه لا ظلم عليك اليوم فتخرج بطاقة فيها أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ، فيقول: احضر وزنك ، فيقول: يا رب ما هذه البطاقة مع هذه السجلات؟ فقال: إنك لا تظلم ، قال: فتوضع السجلات فى كفة ، والبطاقة فى كفة فطاشت السجلات وثقلت البطاقة ، فلا ينقل مع اسم الله
سنن الترمذى، كتاب الإيمان، باب ما جاء فيمن يموت وهو يشهد أن لا إله إلا الله ، رقم الحديث : 2639، سنن ابن ماجه ، كتاب الزهد، باب ما يرجى من رحمة الله يوم القيامة، رقم الحديث: 4300، مسند أحمد: 212/2 ، 213۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سید نا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ملا ہم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالی ساری مخلوق کے سامنے میری امت کے ایک آدمی کو نجات دے گا، چنانچہ اس کے سامنے ننانوے رجسٹر پھیلا دیے جائیں گے، ہر رجسٹر اتنا دراز ہوگا کہ جہاں تک نگاہ جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: کیا تو ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے ان فرشتوں نے جو حفاظت و کتابت کے لیے مقرر ہیں تجھ پر کوئی ظلم کیا ہے؟ وہ جواب دے گا: جی نہیں، اے میرے رب! پھر ارشاد فرمائے گا: تو کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! تو رب تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: ہاں، ہاں کیوں نہیں! تیری ایک نیکی ہمارے پاس موجود ہے اور آج (قیامت) کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا، چنانچہ ایک پر چہ نکالا جائے گا جس میں لکھا ہوگا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اس کا وزن کرانے کے لیے آجاؤ، اس پر وہ آدمی عرض کرے گا: اے میرے رب! کہاں یہ چھوٹا سا پرچہ اور کہاں یہ اتنے بڑے بڑے رجسٹر، اس پرچے کی ان رجسٹروں کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ اللہ عز وجل فرمائے گا: آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر تمام رجسٹر ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے اور وہ کلمے والا پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا تو وہ تمام رجسٹر ہوا میں اڑنے لگیں گے اور یہ پرچہ بھاری ہو جائے گا اور اللہ کے نام کے سامنے کوئی چیز وزنی ہو ہی نہیں سکتی۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين