إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
أَبْوَابُ اِثْبَاتِ وُجُودِ الْجَنَّةِ وَنَعِيمِهَا
باب جنت کے وجود کا ثبوت اور اس کی نعمتیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوا خَيْرًا ۗ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ . جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْزِي اللَّهُ الْمُتَّقِينَ.﴾
[النحل: 30، 31]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جب متقی لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے کیا نازل کیا گیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں خیر اتری ہے۔ ایسے نیک لوگوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے، اور آخرت کا گھر تو ان کے لیے بہت ہی بہتر ہے، اور کیا ہی خوب پرہیز گاروں کا گھر ہے۔ دائمی قیام کی جنتیں جن میں وہ داخل ہوں گے ان قیام گاہوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جو کچھ یہ خواہش کریں گے ان کے لیے موجود ہو گا۔ پرہیز گار لوگوں کو اللہ ایسا ہی بدلہ عطا فرماتا ہے۔ “
حدیث 1:
«عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا مات أحدكم فإنه يعرض عليه مقعده بالغداة والعشي ، فإن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار»
صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق، باب ما جاء فى صفة الجنة، رقم: 3240
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی فوت ہوتا ہے تو اسے صبح و شام اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے۔ اگر جنتی ہے تو جنت میں (اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے) اور اگر جہنمی ہے تو جہنم میں (اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے)۔ “
حدیث 2:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنة وغلقت أبواب النار وصفدت الشياطين»
صحیح مسلم، کتاب الصيام، رقم: 2495
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب ماه رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔“
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.﴾
[السجدة: 17]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اہل جنت کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے جو کچھ ان سے چھپا کر رکھا گیا ہے اسے کوئی نہیں جانتا یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے۔“
حدیث 3:
عن سهل بن سعد الساعدي يقول شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مجلسا وصف فيه الجنة حتى إنتهى ثم قال صلى الله عليه وسلم فى آخر حديثه ، فيها ما لا عين رات ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر ثم قرأ هذه الآية</ ﴿تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ. فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
صحيح مسلم، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة، رقم: 7135
”حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں حاضر تھا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا حال بیان کیا یہاں تک کہ بے انتہا تعریف بیان فرمائی، آخر میں ارشاد فرمایا: جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں، کسی کان نے ان کی تعریف نہیں سنی ، اور نہ ہی ان کا تصور کسی آدمی کے دل میں پیدا ہوا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”ان کی کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اسے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ کوئی نفس نہیں جانتا ان نعمتوں کو جو ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی ہیں اور ان سے چھپا کر رکھی گئی ہیں یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ “
حدیث 4:
«عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: موضع سوط فى الجنة خير من الدنيا وما فيها»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة، رقم: 3250
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں چھڑی کے برابر جگہ دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔“
حدیث 5:
«عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة ، وإن ريحها توجد من مسيرة أربعين عاما»
صحیح بخاری، کتاب الجهاد و السير، باب اثم من قتل معاهدا، رقم: 3166
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے کسی ذمی کو (ناحق) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا اور جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آئے گی۔ “
بَابُ أَسْمَاءِ الْجَنَّةِ
جنت کے ناموں کا بیان
قَالَ اللهُ تعالى: ﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ . فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ.﴾
[الدخان: 51، 52]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک پرہیز گار لوگ امن والی جگہ میں ہوں گے، اور وہ جنتوں اور چشموں میں رہیں گے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ . أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ . فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ.﴾
[الواقعة: 10تا 12]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں۔ وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں، نعمتوں والی جنتوں میں ۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾
[يونس: 25]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف تم کو بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ “
و قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ﴾
[غافر: 39]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے میری قوم کے لوگو! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے قرار کی جگہ تو آخرت ہی ہے۔ “
حدیث 6:
«عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يؤتى بأنعم أهل الدنيا، من أهل النار ، يوم القيامة ، فيصبع فى النار صبغة ، ثم يقال: يا ابن آدم هل رأيت خيرا قط؟ هل مر بك نعيم قط؟ فيقول: لا والله! يا رب ويؤتى بأشد الناس بوسا فى الدنيا ، من اهل الجنة فيصبغ صبغة فى الجنة فيقال له: يا ابن آدم هل رأيت بوسا قط؟ هل مر بك شدة قط؟ فيقول: لا ، والله ! يارب ما مربي بؤس قط، ولا رأيت شدة قط»
صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقين باب في الكفار، رقم: 7088
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روز قیامت ایسے شخص کو لایا جائے گا جس کا جہنم میں جانا طے ہو چکا ہو گا، دنیا میں اس نے بڑی عیش وعشرت کی ہوگی اسے دوزخ میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور اسے پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا دنیا میں تم نے کوئی عیش و عشرت دیکھی، کبھی دنیا میں تمہارا ناز و نعم سے واسطہ پڑا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! تیری قسم، کبھی نہیں۔ پھر ایک ایسے آدمی کو لایا جائے گا جو جنتی ہو گا لیکن دنیا میں بڑی تکلیف کی زندگی بسر کی ہوگی اسے جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور اسے پوچھا جائے گا: اے ابن آدم ! کبھی دنیا میں تو نے کوئی تکلیف دیکھی یا رنج و غم سے کبھی تمہارا واسطہ پڑا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے تیری قسم! کبھی نہیں۔ مجھے تو نہ کبھی رنج وغم سے واسطہ پڑا اور نہ کبھی کوئی دکھ یا تکلیف دیکھی ۔“
حدیث 7:
«عن معاذ رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس يتحسر أهل الجنة على شيء إلا على ساعة مرت بهم لم يذكروا الله عزوجل فيها»
صحيح الجامع الصغير للالبانی، رقم الحديث: 5322
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اہل جنت کو کسی چیز پر اتنی حسرت نہیں ہوگی جتنی اس لمحہ پر جو دنیا میں اللہ کی یاد کے بغیر گزر گیا۔ “
بَابُ سِعَةِ الْجَنَّةِ
جنت کی وسعت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ﴾
[آل عمران: 133]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کی وسعت کے برابر ہے، پرہیز گار لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ “
حدیث 8:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن فى الجنة لشجرة يسير الراكب فى ظلها مائة سنة واقرءوا إن شئتم ﴿وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ﴾ ولقاب قوس أحدكم فى الجنة خير مما طلعت عليه الشمس أو تغرب»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة، رقم: 3353، 3357
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک (گھوڑ ) سوار سو برس تک چلتا رہے (تب بھی ختم نہ ہو) اگر (قرآن سے سمجھنا) چاہو تو آیت پڑھ لو: ﴿وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ﴾ (اور لمبا سایہ) اور جنت میں کسی شخص کی کمان رکھنے کے برابر جگہ (دنیا کی ) ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔ “
بَيَانُ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ
جنت کے دروازوں کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ.﴾
[الزمر: 73]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”پرہیز گار لوگوں کو گروہ در گروہ جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے اور جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، جنت کے خازن (فرشتے) ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو اور اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخل ہو جاؤ۔“
حدیث 9:
«عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أتي باب الجنة يوم القيامة فأستفتح فيقول الخازن من أنت؟ فأقول محمد ، فيقول بك أمرت لا أفتح لأحد قبلك»
صحیح مسلم، كتاب الايمان، رقم: 486
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن میں (سب سے پہلے) جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا۔ جنت کا خازن (دروازہ کھٹکھٹانے پر) پوچھے گا کون ہے؟ میں جواب دوں گا: محمد ! خازن کہے گا: مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے روازہ نہ کھولوں۔ “
حدیث 10:
«عن أبى هريرة رضي الله عنه فى حديث الشفاعة فيقول الله تعالى يا محمد أدخل الجنة من أمتك من لا حساب عليه من الباب الأيمن من أبواب الجنة وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الأبواب والذي نفس محمد بيده أن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة لكما بين مكة وهجر أو كما بين مكة ويصرى»
صحیح مسلم، كتاب الايمان، رقم: 480
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث شفاعت میں روایت ہے کہ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کے بعد) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: اے محمد ! اپنی امت کے ان لوگوں کو دائیں دروازے سے جنت میں داخل کرو جن پر کوئی حساب کتاب نہیں ہے اور وہ جنت کے دوسرے دروازوں میں سے داخل ہونے والے لوگوں کے ساتھ بھی شریک ہیں (یعنی اگر کسی دوسرے دروازے سے داخل ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! جنت کی چوکھٹ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر (بحرین کے ایک شہر کا نام ہے) کے درمیان ہے یا جتنا مکہ اور بصری (شام کے ایک شہر کا نام ہے) کے درمیان ہے۔“
حدیث 11:
«عن عمر بن الخطاب رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما منكم من أحد يتوضأ فيبلغ – أو فيسع الوضوء ثم يقول: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبد الله ورسوله إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية ، يدخل من آيها شاء»
صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء، رقم: 553
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے جو شخص اچھی طرح پورا وضو کرے پھر کہے «أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبد الله ورسوله» (یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ) اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جس سے چاہے داخل ہو۔ “
حدیث 12:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا صلت المرآة خمسها و صامت شهرها و حصنت فرجها وأطاعت زوجها قيل لها ادخلي الجنة من أى أبواب الجنة ما شئت»
صحيح الجامع الصغير و زيادته للالبانی، رقم الحديث: 673
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو عورت پانچ نمازیں ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کرے اسے (قیامت کے دن ) کہا جائے
گا، جنت کے (آٹھوں ) دروازوں میں سے جس سے چاہو داخل ہو جاؤ۔“
حدیث 13:
«عن أنس بن مالك رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم ما من مسلم يموت له ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنت إلا تلقوه من أبواب الجنة الثمانية من أيها شاء دخل»
سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من اصيب بوالده، رقم: 1604 ۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس مسلمان کے تین نابالغ بچے فوت ہو گئے (اور اس نے صبر کیا) تو وہ بچے اسے جنت کے آٹھوں دروازوں پر ملیں گے جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جائے گا۔“
حدیث 14:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تفتح أبواب الجنة يوم الاثنين ، ويوم الخميس ، فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا ، إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء ، فيقال: انظروا هذين حتى يصطلحا ، انظروا هذين حتى يصطلحا، انظروا هذين حتى يصطلحا»
صحيح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6544
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کو کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو بخش دیا جاتا ہے جو اللہ سے شرک نہ کرتا ہو اور سوائے اس آدمی کے جو کسی دوسرے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو (ان دونوں کے بارے میں فرشتوں سے ) کہا جاتا ہے ان دونوں آدمیوں کو مہلت دو یہاں تک کہ یہ دونوں آپس میں مل جائیں ان دونوں کا انتظار کر وحتی کہ آپس میں صلح کر لیں۔ “
بَابُ دَرَجَاتِ الْجَنَّةِ
جنت کے درجات کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّن فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِيَّةٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ﴾
[الزمر: 20]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہے ان کے لیے بلند عمارتیں ہیں منزل بہ منزل بنی ہوئی ہیں ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ اپنے وعدہ کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ “
حدیث 15:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى فَاسْئلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَمَا الْوَسِيلَةُ؟ قَالَ: أَعْلَى دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ ، لَا يَنَالُهَا إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَاَرْجُو أنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ
مسند احمد، رقم الحديث: 7588
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم مجھ پر درود بھیجو تو میرے لیے اللہ تعالیٰ سے ”وسیلہ“ کی دعا کرو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! وسیلہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں اعلیٰ ترین درجہ، جو صرف ایک آدمی کو حاصل ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا۔ “
حدیث 16:
«عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فى الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء و الأرض والفردوس أعلى الجنة وأوسطها ، وفوق ذلك عرس الرحمن ، ومنها تفجر أنهار الجنة الأربعة، ومن فوقها يكون العرس ، فإذا سألتم الله فسلوه الفردوس»
سنن ترمذی ابواب صفة الجنة، باب ما جاء في صفة درجات الجنة، رقم: 2530 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان آسمان و زمین کے برابر فاصلہ ہے سب سے اعلیٰ ترین درجہ کا نام فردوس ہے، فردوس سے جنت کی چاروں نہریں (سیحان، جیجان، فرات اور نیل) جاری ہوئی ہیں۔ فردوس کے او پر اللہ رحمن کا عرش ہے جب بھی اللہ تعالیٰ سے (جنت کا ) سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو۔ “
حدیث 17:
«عن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أهل الجنة ليتراءون اهل الغرف من فوقهم كما تتراءون الكوكب الدرئ الغابر من الأفق من المشرق او المغرب، لتفاضل ما بينهم ، قالوا: يا رسول الله تلك منازل الأنبياء ، لا يبلغها غيرهم، قال: بلى، والذي نفسي بيده! رجال آمنوا بالله وصدقوا المرسلين»
صحیح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 7144
”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنتی لوگ اپنے سے اوپر والے محلات کے جنتیوں کو دیکھیں گے (تو ایسا محسوس کریں گے ) جیسا کہ دور آسمان کے مشرقی یا مغربی کنارے پر کوئی تارا چمک رہا ہو، اتنا فاصلہ جنتیوں کے باہمی درجات کے فرق کی وجہ سے ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اس بلند مقام پر انبیاء کے علاوہ اور کون پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں (پہنچے گا )، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی۔“
حدیث 18:
«عن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن المتحابين فى الله لترى غرفهم فى الجنة كالكوكب الطالع الشرقي ، أو الغربي فيقال: من هؤلاء؟ فيقال: هؤلاء المتحابون فى الله عزوجل»
مسند احمد: 87/3- مجمع الزوائد: 422/10۔ علامہ ہیثمی نے کہا ہے اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔
”حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں کے گھر جنت میں تمہیں اس طرح نظر آئیں گے جیسے مشرق یا مغرب سے طلوع ہونے والا ستارہ! لوگ پوچھیں گے یہ کون ہیں؟ انہیں بتایا جائے گا یہ اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ “
بَابُ قُصُورِ الْجَنَّةِ
جنت کے محلات کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.﴾
[التوبة: 72]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں ایسی جنتیں دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ان باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہو گی یہی بڑی کامیابی ہے۔ “
حدیث 19:
«عن أبى هريرة قال: قلت يا رسول الله! مم خلق الخلق؟ قال: من الماء ، قلنا: الجنة ما بناؤها؟ قال: لبنة من فضة ولبنة من ذهب، وملاطها المسك الأذفر، وحصباؤها اللؤلو والياقوت، وتربتها الزعفران، من دخلها ينعم لا يبأس ، ويخلد لا يموت لا تبلى ، ثيابهم ولا يفنى شبابهم»
سنن الترمذی، ابواب صفة الجنة، باب ما جاء في صفة الجنة ونعيمها، رقم: 2526 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مخلوق کس چیز سے پیدا کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پانی سے، میں نے عرض کیا: جنت کس چیز سے بنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کی ایک اینٹ چاندی کی ہے ایک سونے کی، اس کا سیمنٹ تیز خوشبو والا مشک ہے، اس کے سنگریزے موتی اور یاقوت کے ہیں اس کی مٹی زعفران ہے۔ جو شخص اس میں داخل ہوگا وہ عیش کرے گا کبھی تکلیف نہیں دیکھے گا، ہمیشہ زندہ رہے گا کبھی نہیں مرے گا، جنتیوں کے کپڑے کبھی پرانے نہیں ہوں گے اور ان کی جوانی کبھی فنا نہیں ہوگی۔ “
بَابُ خِيَامِ الْجَنَّةِ
جنت کے خیموں کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ . فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔﴾
[الرحمن: 72، 73]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (گوری رنگت کی) حوریں اہل جنت کے خیموں میں ٹھہرائی گئی ہوں گی پس (اے انسانو اور جنو!) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ “
حدیث 20:
«عن عبد الله بن قيس عن أبيه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فى الجنة خيمة من لؤلوة مجوفة عرضها ستون ميلا ، فى كل زاوية منها أهل ، ما يرون الآخرين ، يطوف عليهم المؤمن»
صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 7159
”جناب عبد اللہ اپنے والد گرامی قیسں بھی اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں موتی کا ایک خول دار خیمہ ہو گا جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہوگی ، اس خیمہ کے ہر کونے میں (مومن شخص کی ) بیویاں ہوں گی، جنہیں دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکیں گے۔ مومن آدمی ان (بیویوں) کے درمیان چکر لگاتا رہے گا۔“
بَابٌ فِى سُوقِ الْجَنَّةِ
جنت کے بازار کا بیان
حدیث 21:
«عن أنس بن مالك ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن فى الجنة لسوفا، يأتونها كل جمعة، فتهب ريح الشمال فتحتو فى وجوههم وثيابهم ، فيزدادون حسنا وجمالا ، فيرجعون إلى أهليهم وقد ازدادوا حسنا وجمالا ، فيقول لهم أهلوهم: والله لقد ازددتم بعدنا حسنا وجمالا، فيقولون: وأنتم والله! لقد ازددتم بعدنا حسنا وجمالا»
صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 7146
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک بازار ہے، جس میں ہر جمعہ کے دن جنتی لوگ آیا کریں گے، شمال کی طرف سے ایک ہوا چلے گی جس کا نم دار گرد و غبار جنتیوں کے چہروں اور کپڑوں پر پڑے گا تو اس سے ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو جائے گا جب وہ پلٹ کر اپنے گھر والوں کے پاس آئیں گے تو ان کے گھر والوں کا حسن و جمال بھی پہلے سے زیادہ ہو گا ، وہ ان سے کہیں گے واللہ ! تمہارا حسن و جمال ہمارے بعد تو بہت بڑھ گیا ہے۔ جتنی لوگ کہیں گے: واللہ! ہمارے بعد تمہارا حسن و جمال بھی پہلے سے بہت بڑھ گیا ہے۔ “
بَابُ اشْجَارِ الْجَنَّةِ
جنت کے درختوں کا بیان
قالَ اللهُ تعالى: ﴿وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ﴾
[الواقعة: 30]
حديث 22:
«عن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: طوبي شجرة فى الجنة ، مسيرتها مائة عام، ثياب اهل الجنة تخرج من اكمامها»
مسند احمد: 71/3- سلسلة الأحاديث الصحيحة رقم الحديث: 1985
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”طوبیٰ جنت کا درخت ہے جس کا سایہ سو سال کی مسافت کے برابر ہے۔ اہل جنت کے کپڑے اس کے خوشے سے تیار کیے جائیں گے۔ “
بَابُ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ
جنت کی نہروں کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَّثَلُ الْجَنَّـةِ الَّتِىْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ۖ فِـيْهَآ اَنْهَارٌ مِّنْ مَّآءٍ غَيْـرِ اٰسِنٍۚ وَاَنْهَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّـرْ طَعْمُهٝۚ وَاَنْهَارٌ مِّنْ خَـمْـرٍ لَّـذَّةٍ لِّلشَّارِبِيْنَۚ وَاَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى﴾
[الأحقاف: 15]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”متقین لوگوں سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں میٹھے پانی کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ ایسے دودھ کی نہریں جس کے ذائقے میں ذرا فرق نہ آیا ہو، ایسی شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہوں اور صاف شفاف شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔“
حدیث 23:
«عن حكيم بن معاوية عن أبيه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن فى الجنة بحر الماء و بحر العسل و بحر اللبن و بحر الخمر ، ثم تشقق الأنهار بعد»
سنن الترمذی، ابواب الجنة، باب ما جاء فى صفة انهار الجنة ، رقم: 2571 ـ المشكاة، رقم: 5650 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہما اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں پانی، شہد، دودھ اور شراب کی نہریں ہیں اور ان نہروں سے (چھوٹی ) نہریں نکلیں گی۔ “
بَابٌ فِي الْحَوْضِ
حوض کوثر کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ﴾
[الكوثر: 1]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک ہم نے آپ کو (حوض) کوثر عطا کیا ہے۔“
حدیث 24:
«عن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن لكل نبي حوضا وإنهم يتباهون أيهم أكثر واردة ، وانى ارجو أن أكون أكثرهم واردة»
سنن الترمذی، ابواب صفة القيامة، رقم: 2443 ـ سلسلة الصحيحة، رقم: 1589
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر نبی کے لیے ایک حوض ہے اور تمام انبیاء آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر پانی پینے والے زیادہ آتے ہیں، اور میں یقین رکھتا ہوں کہ میرے حوض پر آنے والے سب سے زیادہ ہوں گے۔ “
يَابُ لِبَاسِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَحُلِيهِمُ
اہل جنت کے لباس اور زیورات کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا . أُولَٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۚ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا.﴾
[الكهف: 30، 31]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ہم ایسے نیک عمل کرنے والوں کا ثواب ضائع نہیں کریں گے۔ ان کے لیے ہمیشگی والی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، اور سبز رنگ کے نرم و بارک اور موٹے ریشم کے لباس پہنیں گے، اور اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے، بہت ہی اچھا ثواب اور بہت ہی اچھی آرام گاہ ہے۔“
حدیث 25:
«عن أبى هريرة قال: سمعت خليلي صلى الله عليه وسلم يقول: تبلغ الحلية من المومن حيث يبلغ الوضوء»
صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم: 586
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اپنے دوست (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سنا ہے وہ ارشاد فرماتے تھے: (جنت میں) مومن کو وہاں تک زیور پہنایا جائے گا جہاں جہاں تک اس کا وضو پہنچتا ہے۔“
حدیث 26:
«عن سعد بن أبى وقاص، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لو أن ما يقل ظفر مما فى الجنة بدا لتزخرفت له ما بين خوافق السموات و الأرض ، ولو ان رجلا من أهل الجنة، اطلع فبدا أساوره لطمس ضوء الشمس كما تطمس الشمس ضوء النجوم»
سنن الترمذی، ابواب صفة الجنة، باب ما جاء فى صفة اهل الجنة، رقم: 2538 ـ المشكاة، رقم: 5637 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت کی چیزوں میں سے کوئی چیز ایک ناخن کے برابر ظاہر ہو جائے تو زمین و آسمان کے کناروں کے درمیان جو کچھ ہے اسے چمکا دے اور اگر ایک جنتی شخص اپنے کنگن سمیت (دنیا میں ) جھانکے تو سورج کی روشنی کو اس طرح ختم کر دے جس طرح سورج کی روشنی تاروں کی روشنی کو ختم کر دیتی ہے۔ “
بَابُ نِسَاءِ الْجَنَّةِ
جنت کی عورتوں کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً . فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا . عُرُبًا أَتْرَابًا.﴾
[الواقعة: 35]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”ہم نے ان حوروں کو بطورِ خاص پیدا کیا ہے اور انہیں کنواری بنایا ہے، انہیں اپنے شوہروں سے محبت کرنے والیاں اور (ان کی ) ہم عمر بنایا ہے۔ یہ سب کچھ داہنے ہاتھ والوں کے لیے ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَحُورٌ عِينٌ﴾
[الواقعة: 22]
اور مزید اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔“
حدیث 27:
«عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: غدوة فى سبيل الله أو روحة خير من الدنيا وما فيها ، ولقاب قوس أحدكم – أو موضع قدم – من الجنة خير من الدنيا وما فيها ، ولو أن امرأة من نساء أهل الجنة اطلعت إلى الأرض لأضائت ما بينهما ، ولملات ما بينهما ريحا، ولنصيفها – يعنى الخمار – خير من الدنيا وما فيها»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: 6568
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کی راہ میں نکلنا پہلے پہر یا پچھلے پہر دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سب سے بہتر ہے، اور اگر جنت کی عورتوں میں سے ایک عورت دنیا میں جھانک لے تو مشرق و مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کر دے، اور فضا کو معطر کر دے، جنتی عورت کے سرکا دو پٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سب سے بہتر ہے۔“
حدیث 28:
«عن أبى سعيد عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن أول زمرة يدخلون الجنة يوم القيامة ضوء وجوههم على مثل ضوء القمر ليلة البدر، والزمرة الثانية على مثل أحسن كوكب دري فى السماء، لكل رجل منهم زوجتان على كل زوجة سبعون حلة يرى مخ ساقها من ورائها»
سنن الترمذی، ابواب الجنة، باب ما جاء في صفة نساء أهل الجنة، رقم: 2535 ـ سلسلة الصحيحة، رقم: 1736
”حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے روز (مردوں اور عورتوں کا) سب سے پہلا گروہ جو جنت میں جائے گا ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔ دوسرے گروہ کے چہرے آسمان میں چمکتے ستاروں کی طرح چمک رہے ہوں گے۔ دونوں گروہوں کے مردوں کو دو دو بیویاں عطا کی جائیں گی ہر عورت
ستر جوڑے پہنے ہوگی جن میں سے اس کی پنڈلی کا گودا نظر آ رہا ہوگا۔“
حدیث 29:
«عن محمد ، قال: إما تفاخروا وإما تذاكروا الرجال فى الجنة اكثر ام النساء؟ فقال أبو هريرة: أولم يقل أبو القاسم: إن أول زمرة تدخل الجنة على صورة القمر ليلة البدر ، والتى تليها على أضواء كوكب دري فى السماء، لكل امرء منهم زوجتان ، اثنتان، يرى مخ سوقهما من وراء اللحم ، وما فى الجنة عزب»
صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 7147
”تابعی کبیر محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے آپس میں فخر کیا یا ذکر کیا کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ارشاد فرمایا: جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکیں گے، اور دوسرے گروہ کے چہرے آسمان پر چمک دار ستارے کی مانند چمک رہے ہوں گے، اور دونوں گروہوں میں سے ہر مرد کے لیے دو دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اندر سے نظر آ رہا ہوگا اور جنت میں کوئی آدمی بن بیاہا نہیں ہوگا۔“
بَابُ رِضْوَانِ اللهِ تَعَالَى فِي الْجَنَّةِ
جنت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾
[التوبة: 72]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”ان ایمان دار مردوں اور عورتوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسی جنتیں عطا فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ان ہمیشگی والی جنتوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سب سے بڑی چیز ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ “
حدیث 30:
«عن أبى سعيد الخدري ، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الله عز وجل يقول لاهل الجنة: يا أهل الجنة فيقولون: لبيك ربنا ، وسعديك، والخير فى يديك ، فيقول: هل رضيتم؟ فيقولون: وما لنا لا نرضى؟ يا رب وقد أعطيتنا ما لم تعط أحدا من خلقك . فيقول: الا أعطيكم أفضل من ذلك؟ فيقولون: يا رب و أى شيء أفضل من ذلك؟ فيقول: أحل عليكم رضواني فلا أسخط عليكم بعده أبدا»
صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 7140
”حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جنتیوں سے ارشاد فرمائے گا: اے جنتی لوگو! وہ عرض کریں گے: اے ہمارے پروردگار ہم حاضر ہیں ، تیری جناب میں اور تیری اطاعت میں، بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کیا تم راضی ہو؟ وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب! ہم راضی کیوں نہ ہوں گے تو نے تو ہمیں وہ کچھ عطا کر دیا جو اپنی مخلوق میں سے اور کسی کو عطا نہیں کیا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں تمہیں اس سے زیادہ بہتر چیز نہ عطا کروں؟ جنتی عرض کریں گے اے پروردگار! اس سے زیادہ بہتر کون سی چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں تمہیں اپنی رضامندی سے نواز رہا ہوں آج کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ “
بَابُ رُؤْيَةِ اللهِ تَعَالٰى فِي الْجَنَّةِ
جنت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ . إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ .﴾
[القيامة: 22، 23]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ “
حدیث 31:
«عن ابي هريرة أخبره: أن ناسا قالوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل تضارون فى رؤية القمر ليلة البدر؟ قالوا: لا يا رسول الله قال: هل تضارون فى الشمس ليس دونها سحاب؟ قالوا: لا ، يارسول الله قال: فإنكم ترونه كذلك»
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات رؤية المومنين في الآخرة ربهم سبحانه و تعالى، رقم: 451
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا: جب بادل نہ ہوں تو کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت پیش آتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: پھر تم اسی طرح (بغیر کسی دقت اور مشقت کے قیامت کے روز ) اپنے رب کا دیدار کرو گے۔ “
بَابُ أَوْصَافِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
اہل جنت کے اوصاف کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾
[الأعراف: 43]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور جو کچھ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کدورت (رہی) ہوگی اسے ہم دور کر دیں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں (ایمان اور نیک اعمال کا) یہ راستہ دکھایا، اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت کی توفیق نہ دیتا تو ہم خود کبھی (سیدھی) راہ نہ پاسکتے تھے۔ ہمارے رب کے رسول واقعی حق بات لے کر آئے تھے۔ اس وقت جنتی لوگ پکارے جائیں گے یہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اور یہ تمہیں ان اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم (دنیا میں)
کرتے رہے۔ “
حدیث 32:
عن أبى سعيد و أبى هريرة رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ينادي مناد إن لكم أن تصحوا فلا تسقموا آبدا ، وإن لكم ان تحيوا فلا تموتوا ابدا ، وإن لكم أن تشبوا فلا تهرموا أبدا، وإن لكم أن تنعموا فلا تباسوا ابدا ، فذلك قوله عز وجل: ﴿وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾
صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 7157
حضرت ابوسعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” (قیامت کے روز ) ایک پکارنے والا پکارے گا، تم لوگ ہمیشہ صحت مند رہو گے کبھی بیمار نہیں ہو گے، ہمیشہ زندہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی، ہمیشہ جوان رہو گے تمہیں کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، ہمیشہ مزے کرو گے تم کبھی رنجیدہ نہیں ہو گے اور یہی مطلب ہے اللہ عز وجل کے ارشاد مبارک کا (جس کا ترجمہ یہ ہے ) ”جنتی لوگ پکارے جائیں گے یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے بدلے میں جو تم کرتے تھے۔ “
حدیث 33:
«عن جابر بن عبد الله يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يأكل اهل الجنة فيها ويشربون، ولا يتغوطون ولا يمتخطون ولا يبولون، ولكن طعامهم ذاك جشاء كرشح المسك، يلهمون التسبيح والتحميد ، كما تلهمون النفس»
صحیح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها و أهلها، رقم: 7154
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنتی کھا ئیں اور پئیں گے لیکن نہ تھوکیں گے نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ کریں گے، نہ ناک سنکیں گے ۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: تو پھر کھانا کہاں جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ڈکار اور پسینہ آئیں گے (جس سے کھانا ہضم ہو جائے گا) جنتی تسبیح اور تحمید اسی طرح کریں گے جس طرح سانس لیتے ہیں۔“
حدیث 34:
«عن عبد الله رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم النوم أخو الموت ولا ينام أهل الجنة»
سلسلة احاديث الصحيحة، رقم: 1087
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نیند موت کی بہن ہے لہذا جنتی لوگ نیند نہیں کیا کریں گے ۔ “
حدیث 35:
«عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فكل من يدخل الجنة على صورة آدم وطوله ستون ذراعا، فلم يزل الخلق ينقص بعده حتى الآن»
صحیح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 7163
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جنت میں جائے گا وہ آدم علیہ السلام کی طرح ساٹھ ہاتھ لمبا ہو گا (شروع میں لوگوں کے قد ساٹھ ہاتھ تھے ) جو بعد میں گھٹتے گئے حتی کہ موجودہ قد پر آگئے۔ “
حدیث 36:
«عن معاذ بن جبل أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يدخل اهل الجنة الجنة جردا مردا مكحلين أبناء ثلاثين أو ثلاث وثلاثين سنة»
سـنـن تـرمــذى، صفة ابواب الجنة، باب ما جاء في سن اهل الجنة، رقم: 2545 – محدث البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنتی لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے بدن پر بال نہیں ہوں گے، نہ ہی (چہرے پر) داڑھی اور مونچھ ہو گی ، آنکھیں سرمگیں ہوں گی اور عمر تیسں یا تینتیس سال تک ہوگی۔ “
بَاب كَثْرَةِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّد ﷺ
جنت میں امت محمدیہ کی کثرت کا بیان
حدیث 37:
«عن أبى أمامة يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: وعدني ربى أن يدخل الجنة من أمتي سبعين الفالا حساب عليهم و لا عذاب مع كل ألف سبعون ألفا، وثلاث حيات من حثياته»
سنن ترمذی، ابواب صفة القيامة، رقم: 2437 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے رب نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار افراد کو وہ بلا حساب اور عذاب جنت میں داخل فرمائے گا، اور ہزار کے ساتھ ستر ہزار آدمی جنت میں داخل فرمائے گا، اور تین لپ بھرے ہوئے میرے رب کے اور بھی جنت میں داخل ہوں گے۔ “
بَابُ الْمُبَشَّرُوْنَ بِاْلجَنَّةِ
جنت کی بشارت پانے والے لوگوں کا بیان
حدیث 38:
«عن على بن أبى طالب قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ طلع أبوبكر وعمر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين، إلا النبيين والمرسلين، يا على لا تخبرهما»
سنن ترمذی، ابواب المناقب، رقم: 3665۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اچانک ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ دونوں حضرات بڑی عمر میں فوت ہونے والے مسلمانوں کے جنت میں سردار ہوں گے خواہ اگلی امتوں سے ہوں یا پچھلی امتوں سے سوائے انبیاء اور رسولوں کے، اے علی ! انہیں مت بتانا۔ “
حدیث 39:
«عن أبى هريرة أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما من أحد يدخله عمله الجنة، فقيل: ولا أنت؟ يا رسول الله قال: ولا أنا إلا أن يتغمدني ربى برحمة»
صحيح مسلم، كتاب صفات المنافقين، رقم: 7113
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت میں نہیں جائے گا۔“ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہاں میں بھی ، مگر یہ کہ میرا رب اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے۔ “
حدیث 40:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لو يعلم الكافر بكل الذى عند الله من الرحمة لا يباس من الجنة، ولو يعلم المؤمن بكل الذى عند الله من العذاب لم يامن من النار»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب الرجاء مع الخوف، رقم: 6469
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: اگر کافر کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر وسیع ہے تو وہ جنت سے کبھی مایوس نہ ہو۔ اور اگر مومن کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا کیا عذاب ہے تو وہ کبھی جہنم سے بے خوف نہ ہو۔ “
بَابُ سُؤالِ الْجَنَّةِ
جنت مانگنے کا بیان
حدیث 41:
«عن ابن مسعود رضى الله عنه أن النبى كان يدعو اللهم إنا نستلك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك و الغنيمة من كل بر و الفوز بالجنة والنجاة من النار»
مستدرك حاكم: 525/1۔ حاکم نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ ! ہم آپ سے آپ کی رحمت کے اسباب اور آپ کی مغفرت کے سامان اور ہر نیکی سے حصہ مانگتے ہیں۔ اے اللہ ! ہم آپ سے جنت کے حصول میں کامیابی اور آگ سے نجات کا سوال کرتے ہیں۔ “
و صلى الله تعالى على خير خلقه محمد و آله و أصحابه أجمعين