اذان فجر میں الصلاة خير من النوم کہنا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا اذان فجر میں الصلاة خير من النوم کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اضافہ ہے ؟ تفصیل سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب : نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو اذان کا جو طریقہ بذات خود سکھایا، اس میں صبح کی اذان کے لیے حي على الفلاح کے بعد دو مرتبہ الصلاة خير من النوم کہنا ثابت ہے۔ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
قلت : يا رسول الله، علمني سنة الاذان، قال : فمسح مقدم راسي، وقال : ” تقول : الله اكبر الله اكبر، الله اكبر الله اكبر، ترفع بها صوتك، ثم تقول : اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، تخفض بها صوتك، ثم ترفع صوتك بالشهادة : اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، فإن كان صلاة الصبح، قلت : الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم، الله اكبر الله اكبر، لا إله إلا الله ” . [ ابوداؤد، كتاب الصلاة : باب كيف الاذان 500، 501، موارد الظمآن 289، طبراني كبير 174/7 حلية الأولياء 8/ 310، عبد الرزاق 458/1، شرح السنة 263/2، ابن خزيمة 201/1، دارقطني 233/1 ]
”میں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر کے اگلے حصہ کو چھوا اور فرمایا : ’’ تو کہہ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔۔۔ اگر صبح کی نماز ( کے لیے اذان) ہو تو تو کہہ الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم۔
عن انس رضى الله عنه قال من السنة إذا قال المؤذن فى أذان الفجر حي على الفلاح قال الصلاة خير من النوم [ابن خزيمة 386، دار قطني 242/1، التحقيق لا بن الجوزي311/1، بيهقي 423/1]
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسں کی سند صحیح ہے۔ نیز دارقطنی میں الصلاة خير من النوم ، الصلاة خير من النوم مرتین کے الفاظ ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ”یہ سنت ہے کہ جب مؤذن فجر کی اذان میں”حی علی الفلاح“ کہے تو دو مرتبہ ”الصلاۃ خیر من النوم“ کہے۔ “
اور یہ بات اصول حدیث میں واضح ہے کہ جب صحابی کسی امر کے بارے میں کہے کہ یہ سنت ہے تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہوتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأصحاب النبى لا يقولون السنة ألا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم [ كتاب الأم 240/1]
” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لفظ ’’سنت“ صرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر بولتے تھے۔“
پس ثابت ہوا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا الصلاة خير ممن النوم کو فجر کی اذان میں حي على الفلاح کے بعد دو بار سنت کہنے کا مطلب یہی ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔
عن بلال، انه اتى النبى صلى الله عليه وسلم يؤذنه بصلاة الفجر، فقيل : هو نائم، فقال : ” الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم "، فاقرت فى تاذين الفجر، فثبت الامر على ذلك . [ابن ماجه، كتاب الأذان: باب السنة فى الأذان 716 ]
اس کی سند میں انقطاع ہے لیکن چونکہ اوپر صحیح سند سے ثابت ہے اس لیے بطور تائید اور شاہد کے ذکر کر دیا ہے۔
” بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فجر کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے تشریف لائے تو بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں تو بلال رضی اللہ عنہ نے دوبار کہا: الصلاة خير من النوم ”نماز نیند سے بہتر ہے“ تو اسے فجر کی اذان میں مقرر کر دیا گیا پھر معالمہ اس پر پختہ ہو گیا۔“
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ فجر کی اذان میں حي على الفلاح کے بعد دومرتبہ الصلاة خير من النوم کہنا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم فرمائی۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایجاد نہیں ہے، جیسا کہ روافض کا کہنا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے وہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتی۔ ملاحظہ ہو:
عن مالك انهٔ بلغه أن المؤذن جاء إلى عمر بن الخطاب يؤذنه لصلاة الصبح فوجده نائما فقال: الصلاة خير من النوم فأمره عمر أن يجعلها فى نداء الصبح [موطاء كتاب الصلاة باب ما جاء فى النداء للصلاة (8) 42 مع ضوء السالك ]
”امام مالک رحمہ اللہ کو یہ بات پہنچی کہ مؤذن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس نماز صبح کی اطلاع دینے کے لیے آیا تو اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سوتا ہوا پایا۔ مؤذن نے کہا: الصلاة خير من النوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ اسے صبح کی اذان میں کہے۔“
مؤطا کی یہ روایت معضل و مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ یہی روایت سنن دارقطنی (1 / 243) میں بھی موجود ہے لیکن اس کی سند بھی صحیح نہیں۔ اس میں کئی علل ہیں : ① سفیان ثوری مدلس ہے اور اس روایت میں تصریح بالسماع موجود نہیں۔
② محمد بن عجلان بھی مدلس ہیں اور ان کی بھی تصریح بالسماع نہیں ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ مشکوۃ کی تحقیق میں فرماتے ہیں:
وهو ضعيف لاعضاله او ارساله [المشكوة 206/1]
”یہ روایت معضل یا مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔“
③ اس کی سند میں ایک العمری نامی راوی ضعیف ہے۔
اگر یہ روایت صحیح بھی تسلیم کر لی جائے تو اس کی مراد وہ نہیں ہے جو روافض ذکر کرتے ہیں بلکہ مفہوم یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سو رہے تھے اور مؤذن نے آ کر یہ کلمہ ان کے پاس کہا تو انہوں نے بتایا کہ امیر کے دروازے پر آ کر نیند سے بیدار کرنے کے لیے یہ کلمہ نہیں کہتے بلکہ اس کا تعلق فجر کی اذان کے ساتھ ہے، لہذا اسے وہاں ہی رکھا جائے۔ جیسا کہ درج بالا صحیح احادیث سے یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی اذان میں یہ کلمہ سکھایا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سنت رسول کی حفاظت کس انداز سے کرتے تھے کہ آپ کی تعلیمات میں کمی پیشی کو ناپسند کرتے تھے۔ جو کلمات جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے، انہیں وہیں رکھنے کا حکم دیا۔ تو اس لحاظ سے یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی منقبت اور شان کی دلیل ہو گی جو روافض کے لیے سم قاتل ہے۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ شیعہ حضرات نے جو اپنی اذان میں اشهد أن أمير المؤمنين وامام المتقين على حجة الله على الخلق وغیرہ کا اضافہ کیا ہے یہ کسی صحیح تو کجا ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ابو محذورہ یا بلال رضی اللہ عنہما میں سے کسی کو سکھایا ہو بلکہ فقہ جعفریہ کی کتب میں ایسا کلمہ کہنے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے