احکام و مسائل طلاق سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ﴾ (الطلاق: 1)
اللہ تعالیٰ کے فرمان: ”اے نبی ! تم اور تمہاری امت کے لوگ جب عورتوں طلاق دینے لگیں تو ایسے وقت طلاق دو کہ ان کی عدت اسی وقت شروع ہو جائے اور عدت کا شمار کرتے رہو“ کا بیان

حدیث 1:

«عن عبد الله بن عمر أنه طلق امرأته وهى حائض على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مره فليراجعها ، ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض ، ثم تطهر ، ثم إن شاء أمسك بعد وإن شاء طلق قبل أن يمس ، فتلك العدة التى أمر الله أن تطلق لها النساء»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، 5251
”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار ) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں ) ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے ہونی چاہیے یہی (طہر کی ) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ “

باب: إذا طلقت الحائض يعتد بذلك الطلاق
باب: اگر حائضہ کو طلاق دے دی جائے تو یہ طلاق شمار ہوگی یا نہیں؟

حدیث 2:

«وعن أنس بن سيرين ، قال: سمعت ابن عمر، قال: طلق ابن عمر امرأته وهى حائض ، فذكر عمر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: ليراجعها . قلت: تحتسب قال: فمه؟ وعن قتادة عن يونس بن جبير عن ابن عمر قال: مره فليراجعها. قلت: تحتسب؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق؟»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5252
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ وسلم نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: چاہیے کہ رجوع کر لیں۔ (انس نے بیان کیا) کہ) میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا یہ طلاق ، طلاق سمجھی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ چپ رہ پھر کیا سمجھی جائے گی؟ اور قتادہ نے بیان کیا، ان سے یونس بن جبیر نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) فرمایا: اسے حکم دو کہ رجوع کرلے (یونس بن جبیر نے بیان کیا کہ) میں نے پوچھا، کیا یہ طلاق طلاق سمجھی جائے گی؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تو کیا سمجھتا ہے کہ اگر کوئی کسی فرض کے ادا کرنے سے عاجز بن جائے یا احمق ہو جائے۔ “

باب من طلق، وهل يواجه الرجل امرأته بالطلاق؟
باب: طلاق دینے کا بیان اور کیا طلاق دیتے وقت عورت کے سامنے طلاق دے

حدیث 3:

«وعن عائشة رضي الله عنها أن ابنة الجون لما أدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ودنا منها قالت: أعوذ بالله منك. فقال لها: لقد عدت بعظيم الحقي بأهلك»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5254
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جون کی بیٹی (امیمہ یا اسماء ) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے تو اس نے یہ کہہ دیا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: تم نے بہت بڑی چیز سے پناہ مانگی ہے، اپنے میکے چلی جاؤ۔ “

باب من أجاز طلاق الثلاث
باب کسی نے تین طلاق دے دیں تو کیا تینوں طلاق پڑ جائیں گی؟

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا﴾
(الأحزاب: 28)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اور تمھیں رخصت کر دوں ، اچھے طریقے سے رخصت کرنا ۔ “

حدیث 4:

«وعن عائشة ، أخبرته أن امرأة رفاعة القرظي جآئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الربير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا ، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5260
”اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! رفاعہ نے مجھے طلاق دے دی تھی اور طلاق بھی بائن، پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا لیکن ان کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے (یعنی وہ نامرد ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غالبا تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے۔ “

باب من خير نسائه
باب: جس نے اپنی عورتوں کو اختیار دیا

حدیث 5:

«وعن عائشة قالت: خيرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخترنا الله ورسوله ، فلم يعد ذلك علينا شيئا»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5262
”اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا اور ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو ہی پسند کیا تھا لیکن اس کا ہمارے حق میں کوئی شمار (طلاق) میں نہیں ہوا تھا۔ “

باب من قال لا مرأته: أنت على حرام
باب: جس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ”تو مجھ پر حرام ہے“

حدیث 6:

«وعن ابن عمر إذا سئل عمن طلق ثلاثا قال: لو طلقت مرة أو مرتين فإن النبى صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا، فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيره»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5264
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر ایسے شخص کا مسئلہ پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوتی تو وہ کہتے اگر تو ایک بار یا دو بار طلاق دیتا تو رجوع کر سکتا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ایسا ہی حکم دیا تھا لیکن جب تو نے تین طلاق دے دی تو وہ عورت اب تجھ پر حرام ہوگئی یہاں تک کہ وہ تیرے سوا اور کسی شخص سے نکاح کرے۔ “

بَابٌ: ﴿لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾ (لتحريم: 1)
باب: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا اے پیغمبر ! جو چیز اللہ نے تیرے لیے حلال کی ہے اسے توں اپنے اوپر کیوں حرام کرتا ہے

حدیث 7:

وعن يعلى بن حكيم، عن سعيد بن جبير ، أنه أخبره أنه ، سمع ابن عباس، يقول: إذا حرم امرأته ليس بشيء . وقال: ﴿لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب: 21)
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5266
”اور حضرت یعلی بن حکیم نے، ان سے سعید بن جبیر نے ، انہوں نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کہا تو یہ کوئی چیز نہیں اور فرمایا: تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی عمدہ پیروی ہے۔ “

حدیث 8:

«وعن عائشة أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يمكث عند زينب ابنة جحش ، ويشرب عندها عسلا ، فتواصيت أنا وحفصة أن أيتنا دخل عليها النبى صلى الله عليه وسلم فلتقل إني أجد منك ريح مغافير ، أكلت مغافير فدخل على إحداهما فقالت له ذلك ، فقال: لا بل شربت عسلا عند زينب ابنة جحش ولن أعود له . فنزلت: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾ إلى ﴿إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ﴾ (التحريم: 1 تا 4) لعائشة وحفصة ﴿وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ﴾ (التحريم: 3) لقوله: بل شربت عسلا»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5267
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں ٹھہرتے تھے اور ان کے یہاں شہد پیا کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے مل کر صلاح کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے یہاں بھی تشریف لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر (ایک خاص قسم کے بدبودار گوند) کی بو آتی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد ہم میں سے ہر ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ میں نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ: اے نبی ! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے تا ﴿إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ﴾ ، یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف خطاب ہے۔ ﴿وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ﴾ میں حدیث سے آپ کا یہی فرمانا مراد ہے کہ میں نے مغافیر نہیں کھایا بلکہ شہد پیا ہے۔“

باب: لا طلاق قبل النكاح
باب: نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی

حدیث 9:

«وقال ابن عباس: جعل الله الطلاق بعد النكاح»
صحیح بخاری ، کتاب الطلاق، معلقاً
محکم دلائل سے مزین متنوع و منفرد موضوعات پر مشتمل مفت آن لائن مکتبہ
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد رکھا ہے۔ “

باب: إذا قال لا مراته وهو مكره هذه أحيي فلا شيء عليه
باب: اگر کوئی (کسی ظالم کے ڈر سے) جبراً بیوی کو اپنی بہن کہہ دے تو کچھ نقصان نہ ہوگا نہ اس عورت پر طلاق پڑے گی نہ ظہار کا کفارہ لازم ہوگا

حدیث 10:

«قال النبى صلى الله عليه وسلم: قال إبراهيم لسارة: هذه أختي وذلك فى ذات الله عز وجل»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، معلقًا
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی سارہ کو کہا کہ یہ میری بہن ہے (یعنی اللہ کی راہ میں دینی بہن ) ۔ “

باب الطلاق فى الإغلاق
باب: زبردستی اور جبراً طلاق دینے کا حکم

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾
(البقرة: 286)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے تو ہماری گرفت نہ کرنا۔“

حدیث 11:

«وقال النبى صلى الله عليه وسلم للذي أقر على نفسه: أبك جنون . وقال علي: بقر حمزة خواصر شارفي، فطفق النبى صلى الله عليه وسلم يلوم حمزة فإذا حمزة قد ثمل محمرة عيناه، ثم قال حمزة: وهل أنتم إلا عبيد لأبي؟ فعرف النبى النبى صلى الله عليه وسلم أنه قد ثمل ، فخرج وخرجنا»
صحیح بخاری، كتاب الطلاق، معلقًا
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کر رہا تھا: کہیں تجھ کو جنون تو نہیں ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا جناب امیر حمزہ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے (ان کے گوشت کے کباب بنائے ) آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو ملامت کرنی شروع کی پھر آپ نے دیکھا کہ وہ نشہ میں چور ہیں، ان کی آنکھیں سرخ ہیں۔ انہوں نے (نشہ کی حالت میں ) یہ جواب دیا تم سب کیا میرے باپ کے غلام نہیں ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا کہ وہ بالکل نشے میں چور ہیں، آپ نکل کر چلے آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ “

حدیث 12:

«وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم: قال: إن الله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ، ما لم تعمل أو تتكلم . قال قتادة: إذا طلق فى نفسه فليس بشيء»
صحیح بخاری ، کتاب الطلاق، رقم: 5269
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خیالات فاسدہ کی حد تک معاف کیا ہے، جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے ادا نہ کرے۔ قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دیدی تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا جب تک زبان سے نہ کہے۔ “

حدیث 13:

«وعن ابن شهاب ، قال: أخبرني أبو سلمة ، عن جابر ، أن رجلا ، من أسلم أتى النبى صلى الله عليه وسلم وهو فى المسجد فقال: إنه قد زنى. فأعرض عنه فتنحى لشقه الذى أعرض فشهد على نفسه أربع شهادات ، فدعاه فقال: هل بك جنون هل أحصنت؟ : قال نعم . فأمر به أن يرجم بالمصلى ، فلما أذلقته الحجارة جمز حتى أدرك بالحرة فقتل»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5270
”اور ابن شہاب نے کہا، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ماعز نامی مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ انہوں نے زنا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ موڑ لیا لیکن پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگئے (اور زنا کا اقرار کیا) پھر انہوں نے اپنے اوپر چار مرتبہ شہادت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تم پاگل تو نہیں ہو، کیا واقعی تم نے زنا کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں، پھر آپ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید گاہ پر رحم کرنے کا حکم دیا۔ جب انہیں پتھر لگا تو وہ بھاگنے لگے لیکن انہیں حرہ کے پاس پکڑا گیا اور جان سے مار دیا گیا۔ “

باب الخلع وكيف الطلاق فيه
باب: خلع کے بیان میں اور خلع میں طلاق کیونکر ہوگی؟

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ﴾
(البقرة: 229)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور تمھارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم انھیں جو دے چکے ہواس میں سے کچھ واپس لو الا یہ کہ دونوں کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے۔“

حدیث 14:

«وعن ابن عباس ، أن امرأة ، ثابت بن قيس أتت النبى صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله ثابت بن قيس ما أعتب عليه فى خلق ولا دين، ولكني أكره الكفر فى الإسلام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتردين عليه حديقته؟ قالت: نعم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقبل الحديقة وطلقها تطليقة»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5273
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی۔ (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کر سکتی ) اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے (ثابت رضی اللہ عنہ سے ) ارشاد فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور انہیں طلاق دے دو۔ “

باب الشقاق وهل يشير بالخلع عند الضرورة
باب: میاں بیوی میں نا اتفاقی کا بیان اور ضرورت کے وقت خلع کا حکم دینا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا﴾
(النساء: 35)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اگر تمھیں دونوں (میاں بیوی) میں جھگڑے کا ڈر ہو تو ایک شخص مرد کے کنبے سے اور ایک عورت کے کنبے سے منصف مقرر کرو، اگر وہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں (میاں بیوی) میں موافقت پیدا کر دے گا۔ “

حدیث 15:

«وعن المسور بن مخرمة ، قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إن بني المغيرة استأذنوا فى أن ينكح على ابنتهم ، فلا آذن»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5278
”اور حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد سنا، آپ فرما رہے تھے کہ: بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔“

باب: لا يكون بيع الأمة طلاقا
باب: اگر لونڈی کسی کے نکاح میں ہو اور بیچی جائے تو بیع سے طلاق نہ ہوگی

حدیث 16:

«وعن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم قالت: كان فى بريرة ثلاث سنن، إحدى السنن أنها أعتقت، فخيرت فى زوجها . وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولاء لمن أعتق . ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم والبرمة تفور بلحم ، فقرب إليه حبر وأدم من أدم البيت فقال: ألم أر البرمة فيها لحم؟ قالوا: بلى ، ولكن ذلك لحم تصدق به على بريرة، وأنت لا تأكل الصدقة. قال: عليها صدقة، ولنا هدية»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5279
”اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے دین کے تین مسئلے معلوم ہو گئے ۔ اول یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا اور پھر ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا (کہ چاہیں ان کے نکاح میں رہیں ورنہ الگ ہو جائیں ) اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے (انہیں کے بارے میں ) فرمایا کہ ولاء اسی سے قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے اور ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو ایک ہانڈی میں گوشت پکایا جارہا تھا، پھر کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تو دیکھا کہ ہانڈی میں گوشت بھی پک رہا ہے؟ عرض کیا گیا کہ جی ہاں لیکن وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے بریرہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ “

باب خيار الأمة تحت العبد
باب: اگر لونڈی غلام کے نکاح میں ہو پھر وہ لونڈی آزاد ہو جائے تو اسے اختیار ہو گا خواہ وہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کر ڈالے 

حدیث 17:

«وعن ابن عباس ، قال: ذاك مغيث عبد بني فلان يعني – زوج بريرة كأني أنظر إليه يتبعها فى سكك المدينة ، يبكي عليها»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5281
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہ مغیث بنی فلاں کے غلام تھے۔ آپ کا اشارہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کی طرف تھا۔ گویا اس وقت بھی میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ مدینہ کی گلیوں میں وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں۔ “

باب شفاعة النبى صلى الله عليه وسلم فى زوج بريرة
باب: بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفارش کرنا

حدیث 18:

«وعن ابن عباس ، أن زوج بريرة كان عبدا يقال له: مغيت كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي، ودموعه تسيل على لحيته ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم لعباس: يا عباس! ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بعض بريرة مغيثا؟ فقال النبى صلى الله عليه وسلم: لو راجعتيه. قالت: يا رسول الله تأمرني قال: إنما أشفع قالت: فلا حاجة لي فيه»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5283
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا۔ گویا میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں جب وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے تھے اور آنسوؤں سے انکی ڈاڑھی تر ہو رہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہما سے ارشاد فرمایا: عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں ہوئی؟ آخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: کاش ! تم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیتیں۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مجھے اس کا حکم فرما رہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے۔ “

بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ﴾ (البقرة: 221)
اللہ تعالیٰ کے فرمان ”اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں اور یقیناً مومنہ لونڈی مشرکہ عورت سے بہتر ہے گو مشرک عورت تم کو بھلی لگے۔ “ کا بیان

حدیث 19:

«وعن ابن عمر ، كان إذا سئل عن نكاح النصرانية ، أو اليهودية، قال: إن الله حرم المشركات على المؤمنين، ولا أعلم من الإشراك شيئا أكثر من أن تقول المرأة: ربها عيسى، وهو عبد من عباد الله»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5285
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اگر یہودی یا نصرانی عورتوں سے نکاح کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں سے نکاح مومنوں کے لیے حرام قرار دیا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہوگا کہ ایک عورت یہ کہے کہ اس کے رب سیدنا عیسی علیہ السلام ہیں حالانکہ وہ اللہ کے مقبول بندوں میں سے ایک مقبول بندے ہیں۔ “

باب نكاح من أسلم من المشركات وعدتهن
باب: اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح اور ان کی عدت کا بیان

حدیث 20:

«وعن ابن عباس: كان المشركون على منزلتين من النبى صلى الله عليه وسلم والمؤمنين، كانوا مشركي أهل حرب يقاتلهم ويقاتلونه ، ومشركي أهل عهد لا يقاتلهم ولا يقاتلونه، وكان إذا هاجرت امرأة من أهل الحرب لم تخطب حتى تحيض وتطهر ، فإذا طهرت حل لها النكاح ، فإن هاجر زوجها قبل أن تنكح ردت إليه ، وإن هاجر عبد منهم أو أمة فهما حران ولهما ما للمهاجرين . ثم ذكر من أهل العهد مثل حديث مجاهد وإن هاجر عبد أو أمة للمشركين أهل العهد لم يردوا ، وردت أثمانهم»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5286
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کے لیے مشرکین دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو مشرکین لڑائی کرنے والوں سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے جنگ کرتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرتے تھے۔ دوسرے عہد و پیمان کرنے والے مشرکین کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے جنگ نہیں کرتے تھے اور نہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرتے تھے اور جب اہل حرب کی کوئی عورت (اسلام قبول کرنے کے بعد ) ہجرت کر کے (مدینہ منورہ) آتی تو انہیں اس وقت تک پیغام نکاح نہ دیا جاتا یہاں تک کہ انہیں حیض آتا اور پھر وہ اس سے پاک ہوتیں، پھر جب وہ پاک ہوجاتیں تو ان سے نکاح جائز ہو جاتا، پھر اگر ان کے شوہر بھی، ان کے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لینے سے پہلے ہجرت کر کے آجاتے تو یہ انہیں کو ملتیں اور اگر مشرکین میں سے کوئی غلام یا لونڈی مسلمان ہو کر ہجرت کرتی تو وہ آزاد سمجھے جاتے اور ان کے وہی حقوق ہوتے جو تمام مہاجرین کے تھے۔ پھر عطاء نے معاہد مشرکین کے سلسلے میں مجاہد کی حدیث کی طرح سے صورتِ حال بیان کی کہ اگر معاہد مشرکین کی کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آجاتی تو انہیں ان کے مالک مشرکین کو واپس نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ جو ان کی قیمت ہوتی وہ واپس کر دی جاتی تھی۔ “

باب إذا أسلمت المشركة أو النصرانية تحت اللقي أو الحربي
اس بیان میں کہ جب مشرک یا نصرانی عورت جو معاہد مشرک یا حربی مشرک کے نکاح میں ہو اسلام لائے

حدیث 21:

«وعن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم قالت: كانت المؤمنات إذا ها جرن إلى النبى صلى الله عليه وسلم يمتحنهن بقول الله تعالى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ﴾ (الممتحنة: 10) إلى أخر الآية قالت عائشة: فمن أقر بهذا الشرط من المؤمنات فقد أقر بالمحنة، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أقررن بذلك من قولهن قال لهن رسول الله صلى الله عليه وسلم: انطلقن فقد بايعتكن . لا والله! ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امرأة قط، غير أنه بايعهن بالكلام ، والله! ما أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم على النساء إلا بما أمره الله يقول لهن إذا أخذ عليهن قد بايعتكن ، كلاما»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5288
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مومن عورتیں جب ہجرت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں آزماتے تھے بوجہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے کہ اے وہ لوگو ! جو ایمان لے آئے ہو، جب مومن عورتیں تمہارے پاس ہجرت کر کے آئیں تو انہیں آزماؤ ، آخر آیت تک۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ان (ہجرت کرنے والی ) مومن عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتی (جس کا ذکر اسی سورہ ممتحنہ میں ہے کہ (اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گی) تو وہ آزمائش میں پوری سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ جب وہ اس کا اپنی زبان سے اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے کہ اب جاؤ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ واللہ ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے بیعت لیتے وقت کسی عورت کا ہاتھ کبھی نہیں چھوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے صرف زبان سے (بیعت لیتے تھے ) واللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے صرف انہیں چیزوں کا عہد لیا جن کا اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا۔ بیعت لینے کے بعد آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ یہ آپ صرف زبان سے کہتے کہ میں نے تم سے بیعت لے لی۔ “

بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىٕهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ﴾
اللہ تعالیٰ کے فرمان ”وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ایلاء کرتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مدت مقرر ہے“ کا بیان

حدیث 22:

«وعن أنس بن مالك ، يقول آلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من نسائه ، وكانت انفكت رجله فأقام فى مشربة له تسعا وعشرين ، ثم نزل فقالوا: يا رسول الله اليت شهرا. قال: الشهر تسع وعشرون»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5289
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں موچ آگئی تھی ۔ اس لیے آپ نے اپنے بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام فرمایا، پھر آپ وہاں سے اترے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ “

حدیث 23:

«وعن نافع ، أن ابن عمر كان يقول فى الإيلاء الذى سمى الله تعالى لا يحل لأحد بعد الأجل إلا أن يمسك بالمعروف ، أو يعزم بالطلاق ، كما أمره الله عز وجل»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5290
”اور حضرت نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ایلاء کے بارے میں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے، فرماتے تھے کہ مدت پوری ہونے کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں ، سوا اس کے کہ قاعدہ کے مطابق (اپنی بیوی کو ) اپنے پاس ہی روک لے یا پھر طلاق دے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔“

باب حكم المفقود فى أهله وماله
باب: جو شخص گم ہو جائے اس کے گھر والوں اور جائیداد میں کیا عمل ہوگا

حدیث 24:

«وعن يزيد، مولى المنبعث أن النبى صلى الله عليه وسلم سئل عن ضالة الغنم فقال: خذها ، فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب . وسئل عن ضالة الإبل ، فغضب واحمرت وجنتاه ، فقال: ما لك ولها، معها الحذاء والسقاء، تشرب الماء ، وتأكل الشجر، حتى يلقاها ربها . وسئل عن اللقطة فقال: اعرف وكانها وعفاصها ، وعرفها سنة ، فإن جاء من يعرفها ، وإلا فاخلطها بمالك . قال سفيان: فلقيت ربيعة بن أبى عبد الرحمن – قال سفيان: ولم أحفظ عنه شيئا غير هذا – فقلت: أرأيت حديث يزيد مولى المنبعث فى أمر الضالة، هو عن زيد بن خالد قال: نعم . قال يحيى: ويقول ربيعة عن يزيد مولى المنبعث عن زيد بن خالد. قال سفيان: فلقيت ربيعة فقلت له»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5292
”اور منبعث کے مولیٰ یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھوئی ہوئی بکری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو، کیونکہ یا وہ تمہاری ہوگی (اگر ایک سال تک اعلان کے بعد اس کا مالک نہ ملا) یا تمہارے کسی بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑیے کی ہوگی (اگر یہ انہی جنگلوں میں پھرتی رہی ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھوئے ہوئے اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غصہ ہو گئے اور غصہ کی وجہ سے آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے اور آپ نے فرمایا: تمہیں اس سے کیا غرض ! اس کے پاس (مضبوط) کھر ہیں (جس کی وجہ سے چلنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی ) اس کے پاس مشکیزہ ہے جس سے وہ پانی پیتا رہے گا اور درخت کے پتے کھاتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی رسی کا (جس سے وہ بندھا ہو ) اور اس کے ظرف کا (جس میں وہ رکھا ہو ) اعلان کرو اور اس کا ایک سال تک اعلان کرو، پھر اگر کوئی ایسا شخص آجائے جو اسے پہچانتا ہو (اور اس کا مالک ہو تو اسے دے دو) ورنہ اسے اپنے مال کے ساتھ ملا لو۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ پھر میں ربیعہ بن عبدالرحمن سے ملا اور مجھے ان سے اس کے سوا اور کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ گم شدہ چیزوں کے بارے میں منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ زید بن خالد سے منقول ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں (سفیان نے بیان کیا کہ ہاں) یحیی نے بیان کیا کہ ربیعہ نے منبعث کے مولیٰ یزید سے بیان کیا، ان سے زید بن خالد نے۔ سفیان نے بیان کیا کہ پھر میں نے ربیعہ سے ملاقات کی اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔ “

باب الإشارة فى الطلاق والأمور
باب: اگر طلاق وغیرہ اشارے سے دے مثلاً کوئی گونگا ہو تو کیا حکم ہے؟

حدیث 25:

«وعن ابن عباس، طاف رسول الله صلى الله عليه وسلم على بعيره، وكان كلما أتى على الركن أشار إليه ، وكبر . وقالت زينب: قال الني صلى الله عليه وسلم فتح من يأجوج ومأجوج مثل هذه . وعقد تسعين»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5293
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اپنے اونٹ پر سوار ہو کر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رکن کے پاس آئے تو اس کی طرف اشارہ کر کے تکبیر کہتے اور زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یا جوج ماجوج کے دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں سے نوے کا عدد بنایا۔ “

حدیث 26:

«وعن أبى هريرة ، قال: قال أبو القاسم صلى الله عليه وسلم: فى الجمعة ساعة لا يوافقها مسلم قائم يصلي، يسأل الله خيرا ، إلا أعطاه. وقال بيده، ووضع أنملته على بطن الوسطى والخنصر . قلنا يزهدها»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5294
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جو مسلمان بھی اس وقت کھڑا نماز پڑھے اور اللہ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ اسے ضرور دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس ساعت کی وضاحت کرتے ہوئے ) اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا اور اپنی انگلیوں کو درمیانی انگلی اور چھوٹی انگلی سے بیچ میں رکھا جس سے ہم نے سمجھا کہ آپ اس ساعت کو بہت مختصر ہونے کو بتا رہے ہیں۔“

حدیث 27:

«وعن أنس بن مالك ، عدا يهودي فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم على جارية ، فأخذ أوضاحا كانت عليها ورضخ رأسها، فأتى بها أهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهى فى آخر رمق، وقد أصمتت، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قتلك فلان؟ لغير الذى قتلها ، فأشارت برأسها أن لا ، قال: ففلان لرجل آخر غير الذى قتلها، فأشارت أن لا ، فقال: ففلان؟ لقاتلها فأشارت أن نعم، فأمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فرضخ رأسه بين حجرين»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5295
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لڑکی پر ظلم کیا، اس کے چاندی کے زیورات جو وہ پہنے ہوئے تھی چھین لیے اور اس کا سر کچل دیا۔ لڑکی کے گھر والے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو اس کی زندگی کی بس آخری گھڑی باقی تھی اور وہ بول نہیں سکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس نے مارا ہے؟ فلاں نے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس واقعہ سے غیر متعلق آدمی کا نام لیا۔ اس لیے اس نے اپنے شخص
سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے کا نام لیا اور وہ بھی اس واقعہ سے غیر متعلق تھا تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں، پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا کہ فلاں نے تمہیں مارا ہے؟ تو اس لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا۔ اس کے بعد اس یہودی نے بھی اس جرم کا اقرار کر لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں سے کچل دیا گیا۔ اس حدیث میں بھی کچھ اشارات کو قابل استناد جانا گیا۔ یہی وجہ مطابقت ہے۔ “

حدیث 28:

«وعن ابن عمر قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: الفتنة من هاهنا . وأشار إلى المشرق»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5296
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ فتنہ ادھر سے اٹھے گا اور آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ “

حدیث 29:

«وعن عبدالله بن أبى أوفى، قال: كنا فى سفر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما غربت الشمس قال لرجل: انزل فاجدح لي . قال: يا رسول الله لو أمسيت . ثم قال: انزل فاجدح . قال: يارسول الله! لو أمسيت إن عليك نهارا . ثم قال: انزل فاجدح . فنزل فجدح له فى الثالثة ، فشرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم أو مأ بيده إلى المشرق فقال: إذا رأيتم الليل قد أقبل من هاهنا فقد أفطر الصائم»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5297
”اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ جب سورج ڈوب گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی (سیدنا بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول (کیونکہ آپ روزہ سے تھے ) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر اندھیرا ہونے دیں تو بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا کہ اتر کر ستو گھول ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ اور اندھیرا ہو لینے دیں تو بہتر ہے، ابھی دن باقی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اتر و اور ستو گھول لو۔ آخر تیسری مرتبہ کہنے پر انہوں نے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ستو گھولے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا، پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آرہی ہے تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہیے۔ “

حدیث 30:

«وعن عبد الله بن مسعود قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: لا يمنعن أحدا منكم نداء بلال أو قال: أذانه من سحوره، فإنما ينادي أو يؤذن ليرجع قائمكم . وليس أن يقول: كأنه يعني الصبح أو الفجر ، وأظهر يزيد يديه ثم مد إحداهما من الأخرى»
صحیح بخاری کتاب الطلاق، رقم: 5298
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کو (سحری کھانے سے ) بلال کی پکار نہ روکے، یا آپ نے فرمایا، ان کی اذان کیونکہ وہ پکارتے ہیں، یا فرمایا، اذان دیتے ہیں تاکہ اس وقت نماز پڑھنے والا رک جائے۔ اس کا اعلان سے یہ مقصود نہیں ہوتا کہ صبح صادق ہو گئی۔ اس وقت یزید بن زریع نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے (صبح کاذب کی صورت بتانے کے لیے) پھر ایک ہاتھ کو دوسرے پر پھیلایا (صبح صادق کی صورت کے اظہار کے لیے)“

حدیث 31:

«وعن أبى هريرة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مثل البخيل والمنفق كمثل رجلين عليهما جبتان من حديد، من لدن تديهما إلى تراقيهما ، فأما المنفق فلا ينفق شيئا إلا مادت على جلده حتى تجن بنانه وتعفو أثره ، وأما البخيل فلا يريد ينفق إلا لزمت كل حلقة موضعها ، فهو يوسعها فلا تتسع ، ويشير بإصبعه إلى حلقه»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5299
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بخیل اور سخی کی مثال دو آدمیوں جیسی ہے جن پر لوہے کی دو زر ہیں سینے سے گردن تک ہیں۔ سخی جب بھی کوئی خرچ کرتا ہے تو زرہ اس کے چمڑے پر ڈھیلی ہو جاتی ہے اور اس کے پاؤں کی انگلیوں تک پہنچ جاتی ہے (اور پھیل کر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ) اس کے نشان قدم کو مٹاتی چلتی ہے لیکن بخیل جب بھی خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کا ہر حلقہ اپنی اپنی جگہ چمٹ جاتا ہے، وہ اسے ڈھیلا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ڈھیلا نہیں ہوتا۔ اس وقت آپ نے اپنی انگلی سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا۔ “

باب اللعان
لعان کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ﴾
(النور: 6)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس اپنے سوا کوئی گواہ نہ ہوں ، تو ان میں سے ایک کی شہادت اس طرح ہوگی کہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ بے شک وہ بچوں میں سے ہے۔“

حدیث 32:

«وعن أنس بن مالك ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا أخبركم بخير دور الأنصار؟ قالوا: بلى يا رسول الله قال: بنو النجار ، ثم الذين يلونهم بنو عبد الأشهل ، ثم الذين يلونهم بنو الحارث بن الخزرج ، ثم الذين يلونهم بنو ساعدة . ثم قال بيده ، فقبض أصابعه ، ثم بسطهن كالرامي بيده ثم قال: وفي كل دور الأنصار خير»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5300
”اور حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں بتاؤں کے قبیلہ انصار کا سب بے بہتر گھرانہ کون سا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا کہ بنو نجار کا۔ اس کے بعد ان کا مرتبہ ہے جو ان سے قریب ہیں یعنی بنو عبد الاشہل کا ، اس کے بعد وہ ہیں جو ان سے قریب ہیں، بنی الحارث بن خزرج کا۔ اس کے بعد وہ ہیں جو ان سے قریب ہیں، بنو ساعدہ کا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اپنی مٹھی بند کی ، پھر اسے اس طرح کھولا جیسے کوئی اپنے ہاتھ کی چیز پھینکتا ہے پھر فرمایا کہ انصار کے ہر گھرانہ میں خیر ہے۔ “

باب اللعان ومن طلق بعد اللعان
لعان اور لعان کے بعد طلاق دینے کا بیان

حدیث 33:

«وعن سهل بن سعد الساعدي اخبره، ” ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الانصاري، فقال له: يا عاصم، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فتقتلونه، ام كيف يفعل؟ سل لي يا عاصم عن ذلك، فسال عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى اهله جاءه عويمر، فقال: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عاصم لعويمر: لم تاتني بخير، قد كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسالة التى سالته عنها، فقال عويمر: والله لا انتهي حتى اساله عنها، فاقبل عويمر حتى جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال: يا رسول الله، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فتقتلونه، ام كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد انزل فيك وفي صاحبتك، فاذهب فات بها، قال سهل: فتلاعنا وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما فرغا من تلاعنهما، قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله، إن امسكتها فطلقها ثلاثا قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب: فكانت سنة المتلاعنين»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5308
”اور حضرت سہل بن سعد ساعدی نے خبر دی کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی انصاری کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ عاصم آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے تو کیا اسے قتل کر دے گا لیکن پھر آپ لوگ اسے بھی قتل کر دیں گے۔ آخر اسے کیا کرنا چاہیے؟ عاصم، میرے لیے یہ مسئلہ پوچھ دو۔ چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اظہار ناگواری کیا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا اس کا بہت اثر لیا۔ پھر جب گھر واپس آئے تو عویمر ان کے پاس آئے اور پوچھا۔ عاصم ! آپ کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا، عویمر تم نے میرے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا، جو مسئلہ تم نے پوچھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نا پسند فرمایا۔ عویمر نے کہا کہ اللہ کی قسم جب تک میں یہ مسئلہ آپ کی صلى الله عليه وسلم سے معلوم نہ کر لوں ، باز نہیں آؤں گا۔ چنانچہ عویمر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صحابہ کے درمیان میں موجود تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا اس شخص کے متعلق کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ لوگ اسے (قصاص) میں قتل کر دیں گے، تو پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں ابھی وحی نازل ہوئی ہے۔ جاؤ اور اپنی بیوی کو لے کر آؤ۔ سہل نے بیان کیا کہ پھر ان دونوں نے لعان کیا۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت موجود تھا۔ جب لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر اب بھی میں اسے (اپنی بیوی کو ) اپنے ساتھ رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے انہیں تین طلاقیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی دے دیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر یہی لعان کرنے والوں کے لیے سنت طریقہ مقرر ہو گیا۔ “

باب التفريق بين المتلاعنين
باب: لعان کرنے والوں میں جدائی کرانا

حدیث 34:

«وعن ابن عمر أن ابن عمر أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرق بين رجل وامرأته قذفها ، وأحلفهما»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5313
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کرا دی تھی جنہوں نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تھی اور دونوں سے قسم لی تھی ۔ “

حاملہ عورت کی عدت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾
(الطلاق: 4)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں۔“

حدیث 35:

«وعن أم سلمة ، زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن امرأة من أسلم يقال لها: سبيعة كانت تحت زوجها ، توفي عنها وهى حبلى، فخطبها أبو السنابل بن بعكك ، فأبت أن تنكحه، فقالت: والله ما يصلح أن تنكحيه حتى تعتدي آخر الأجلين ، فمكتت قريبا من عشر ليال ثم جاءت النبى صلى الله عليه وسلم فقال: انكحي»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5318
”اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ایک خاتون جو اسلام لائی تھیں اور جن کا نام سبیعہ تھا، اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں، شوہر کا جب انتقال ہوا تو وہ حاملہ تھیں۔ ابو سنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے نکاح کرنے سے انکار کیا۔ ابوالسنابل نے کہا کہ اللہ کی قسم ! جب تک عدت کی دو مدتوں میں سے لمبی مدت نہ گزار لو گی ، تمہارے لیے اس سے (جس سے نکاح وہ کرنا چاہتی تھیں ) نکاح کرنا صحیح نہیں ہو گا۔ پھر وہ (وضع حمل کے بعد ) تقریباً دس دن تک رکی رہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نکاح کر لو ۔ “

باب قصة فاطمة بنت قيس
باب: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ﴾
(الطلاق: 1)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو۔“

حدیث 36:

«وعن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه ، قال عروة بن الزبير لعائشة: ألم ترى إلى فلانة بنت الحكم طلقها زوجها البتة فخرجت فقالت: بئس ما صنعت قال: ألم تسمعي فى قول فاطمة قالت: أما إنه ليس لها خير فى ذكر هذا الحديث»
صحیح بخاری کتاب الطلاق، رقم: 5325، 5326
”اور حضرت عبدالرحمن بن قاسم نے ، ان سے ان کے والد نے کہ عروہ بن زبیر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ فلانہ (عمرہ) بنت حکم کا معاملہ نہیں دیکھتیں۔ ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائنہ دے دی اور وہ وہاں سے نکل آئیں (عدت گزارے بغیر) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ جو کچھ اس نے کیا بہت برا کیا۔ عروہ نے کہا آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق نہیں سنا۔ بتلایا کہ اس کے لیے اس حدیث کو ذکر کرنے میں کوئی خیر نہیں ہے۔ “

باب: تحد المتوفى عنها زوجها أربعة أشهر وعشرا
باب: جس عورت کا شوہر مر جائے وہ چار مہینے دس تک سوگ منائے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾
(البقرة: 234)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں، وہ اپنی ذات کے معاملے میں دستور کے مطابق جو چاہیں کریں (انھیں اختیار ہے) اور اللہ تمھارے ہر عمل سے خوب خبر دار ہے جو تم کرتے ہو۔ “

حدیث 37:

«وعن زينب قالت: دخلت على أم حبيبة زوج النبى صلى الله عليه وسلم حين توفي أبوها أبو سفيان بن حرب ، فدعت أم حبيبة بطيب فيه صفرة خلوق أو غيره فدهنت منه جارية، ثم مست بعارضيها ، ثم قالت: والله ما لي بالطيب من حاجة ، غير أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث ليال ، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5334
”اور زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس وقت گئی جب ان کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا۔ ام حبیبہ نے خوشبو منگوائی جس میں خلوق خوشبو کی زردی یا کسی اور چیز کی ملاوٹ تھی، پھر وہ خوشبو ایک لونڈی نے ان کو لگائی اور ام المؤمنین نے خود اپنے رخساروں پر اسے لگایا۔ اس کے بعد کہا کہ واللہ ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن میں نے رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوا شوہر کے (کہ اس کا سوگ ) چار مہینے دس دن کا ہے۔ “

باب القسط للحادة عند الطهر
باب: زمانہ عدت میں حیض کی پاکی کے وقت عود کا استعمال کرنا جائز ہے

حدیث 38:

«وعن حفصة ، عن أم عطية، قالت: كنا ننهى أن نحد على ميت فوق ثلاث ، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا، ولا نكتحل، ولا نطيب ، ولا نلبس ثوبا مصبوعا ، إلا ثوب عصب ، وقد رخص لنا عند الطهر إذا اغتسلت إحدانا من محيضها فى نبذة من كست أظفار ، وكنا ننهى عن اتباع الجنائز . قال أبو عبد الله: كلاهما يقال: الكست والقسط والكافور والقافور»
”اور حضرت حفصہ نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہمیں اس سے منع کیا گیا کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوا شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن کی عدت تھی۔ اس عرصہ میں ہم نہ سرمہ لگاتے ، نہ خوشبو استعمال کرتے اور نہ رنگا کپڑا پہنتے تھے۔ البتہ وہ کپڑا اس سے الگ تھا جس کا (دھاگا) بننے سے پہلے ہی رنگ دیا گیا ہو۔ ہمیں اس کی اجازت تھی کہ اگر کوئی حیض کے بعد غسل کرے تو اس وقت اظفار کا تھوڑا سا عود استعمال کر لے اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے کی بھی ممانعت تھی۔ “

باب: تلبس الحادة ثياب العصب
باب: سوگ والی عورت یمن کے دھاری دار کپڑے پہن سکتی ہے

حدیث 39:

«وعن حفصة ، عن أم عطية ، قالت: قال النبى صلى الله عليه وسلم: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد فوق ثلاث، إلا على زوج ، فإنها لا تكتحل ولا تلبس ثوبا مصبوعا إلا ثوب عصب»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق ، رقم: 5342
”اور حضرت حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوا شوہر کے۔ وہ اس کے سوگ میں نہ سرمہ لگائے نہ رنگا ہوا کپڑا پہنے مگر یمن کا دھاری دار کپڑا (جو بننے سے پہلے ہی رنگا گیا ہو ) پہن سکتی ہے۔ “

باب مهر البغي والنكاح الفاسد
زانیہ کی کمائی اور نکاح فاسد کا بیان

حدیث 40:

«وعن أبيه ، قال: لعن النبى صلى الله عليه وسلم الواشمة، والمستوشمة، وآكل الربا ومؤكله، ونهى عن ثمن الكلب، وكسب البغي ، ولعن المصورين»
صحیح بخاری، کتاب الطلاق، رقم: 5347
”اور حضرت عون بن ابی جحیفہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی اور گدوانے والی، سود کھانے والے اور سود کھلانے والے پر لعنت بھیجی اور آپ نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی کمائی کھانے سے منع فرمایا اور تصویر بنانے والوں پر لعنت کی۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1