ابلیس نے بھی اللہ عزو جل کی نافرمانی کی اور آدم نے بھی، پھر کیسے ابلیس آگ میں داخل ہو گا اور آدم جنت میں ؟
جواب :
اس کا جواب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
« فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿٣٧﴾ »
”پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اس نے اس کی توبہ قبول کر لی، یقیناً وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“
[البقرة: 37]
آدم علیہ السلام نے توبہ کی اور کہا:
«قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٢٣﴾ »
”دونوں نے کہا : اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔“
[الأعراف: 23]
اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، جب کہ ابلیس نے انکار کیا اور کہا :
« أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ»
میں اس سے بہتر ہوں۔“
[الأعراف: 12]
اس نے توبہ نہیں کی، لہٰذا اس کا ٹھکانا آگ ہے۔
ابلیس سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سامنے آیا اور ان سے کہا: آپ کلیم اللہ ہیں، میرے لیے اپنے رب سے سفارش ہی کر دیں، پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! ابلیس توبہ کرنا چاہتا ہے، اللہ عزوجل نے فرمایا: اے موسی اسے کہو: وہ آدم کی قبر پر جائے اور اسے سجدہ کرے۔ موسیٰ نے جب اسے یہ بات کہی تو اس نے کہا: میں نے اسے زندہ ہونے کی حالت میں سجدہ نہیں کیا، تو کیا اب مردہ ہونے کی حالت میں سجدہ کروں؟ اس نے ذلت کو اپنایا تو اس کا ٹھکانا آگ ہے۔