آپریشن کے ذریعہ ولادت نفاس کا واجب ہونا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

جب عورت درد زہ میں مبتلا ہو اور اسے ہسپتال میں منتقل کر دیا جائے ، اس کے لیے نارمل ڈلیوری مشکل ہو جائے اور اس کے پیٹ سے بچہ کو نکالنے کے لیے اس کا آپریشن کیا جائے ، تو کیا یہ عورت نفاس والی عورت کے حکم میں ہو گی اور نفاس کی مدت معینہ میں نماز روزہ کو ترک کر دے گی یا نہیں ؟ ہمیں : جواب سے نوازیں اللہ آپ کو اجر عطا کرے ۔

جواب :

ہاں ، جب ولادت کے سبب اس کی شرمگاہ سے خون نکلے تو وہ نفاس والی شمار ہو گی اور اس پر نماز روزہ لازم نہیں ہو گا ، پس یقیناًً علماء نے ذکر کیا ہے کہ بلاشبہ جب عورت اس طرح بچہ پیدا کرے کہ اس سے خون نفاس خارج نہ ہو تو یقیناًً وہ نفاس والی شمار نہیں ہو گی ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک ایسی عورت کے متعلق ارشاد فرمایا جس نے اس طرح بچے کو جنم دیا کہ نہ اس سے خون نفاس خارج ہوا اور نہ ہی کوئی اور فاسد مادہ اور پانی خارج ہوا : تلك امرأة طهرها الله (اس عورت کو اللہ نے پاک کر دیا ہے ) یعنی وہ نماز ادا کرے اور روزے رکھے ۔
حاصل کلام : بلاشبہ جب عورت اس طرح بچہ جنم دے کہ اس کی شرگاہ سے خون نکلے تو یہ خون نفاس شمار ہو گا اور یہ عورت پاک ہونے تک (نماز روزہ سے ) بیٹھی رہے ، پھر (پاک ہونے کے بعد) غسل کرے اور نماز ادا کرے ۔ لیکن جب اس سے بوقت ولادت بالکل کوئی چیز خارج نہ ہو تو اس پر لازم ہے
کہ وہ نماز ادا کرے اس کا نفاس نہیں ہے اور یہی وہ موقف ہے جس کو حنابلہ وغیرہ اہل علم نے تسلیم کیا ہے ۔ واللہ اعلم
(عبداللہ بن حمید رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: