فَلَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ تَزۡہَقَ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۵۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تجھے نہ ان کے اموال بھلے معلوم ہوں اور نہ ان کی اولاد، اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان کے ذریعے دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تم ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے اور (جب) ان کی جان نکلے تو (اس وقت بھی) وہ کافر ہی ہوں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
پس آپ کو ان کے مال واوﻻد تعجب میں نہ ڈال دیں۔ اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

55۔ ان لوگوں کے مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ انہیں دنیا کی زندگی میں سزا [59] دے اور جب ان کی جان نکلے تو اس وقت یہ کافر ہی ہوں
[59] منافقوں کو مال اور اولاد سے سزا کیسے ملی؟
مدینہ میں جتنے منا فق تھے سب سن رسیدہ اور مالدار لوگ تھے اور منافقوں کا مطمح نظر محض دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے لہٰذا عام مادہ پرستوں اور دنیا پرستوں کی طرح ان کے نزدیک بھی عز و جاہ کا معیار اولاد اور مال و دولت کی فراوانی تھی۔ اب انہیں مشکل یہ پیش آئی کہ ان کی اولادیں مسلمان ہو گئیں۔ جن کے نزدیک عز و جاہ کا معیار ان کے معیار سے بالکل برعکس تھا۔ جن کی نظروں میں مال اور جائیداد کی قدر و قیمت اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کے مقابلہ میں ہیچ تھی اور ان کے نزدیک عز و جاہ کا معیار یہ تھا کہ جتنا بھی کوئی اللہ کے رسول کا شیدائی اور فرمانبردار ہو گا اتنا ہی وہ اسلامی معاشرہ میں معزز و مکرم سمجھا جائے گا۔ اس نظریاتی اختلاف نے انہیں اپنی اولاد ہی کی نظروں میں ذلیل کر دیا۔ اس طرح اللہ نے ان کی اولاد ہی کے ذریعہ انہیں دنیا میں سزا دے دی۔ اور چونکہ وہ اپنی خود پرستی والی طبیعت کو بھی بدل نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا وہ آخر دم تک اسی ننانوے کے چکر میں ہی پڑے رہے تا آنکہ انہیں موت آ گئی اور وہ اسی نفاق اور ذلت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔