قُلۡ ہَلۡ تَرَبَّصُوۡنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡدَی الۡحُسۡنَیَیۡنِ ؕ وَ نَحۡنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمۡ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنۡ عِنۡدِہٖۤ اَوۡ بِاَیۡدِیۡنَا ۫ۖ فَتَرَبَّصُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ مُّتَرَبِّصُوۡنَ ﴿۵۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہہ دے تم ہمارے بارے میں دو بہترین چیزوں میں سے ایک کے سوا کس کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمھارے بارے میں انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تمھیں اپنے پاس سے کوئی عذاب پہنچائے، یا ہمارے ہاتھوں سے۔ سو انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) تمھارے ساتھ منتظر ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کہہ دو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظر ہو اور ہم تمہارے حق میں اس بات کے منتظر ہیں کہ خدا (یا تو) اپنے پاس سے تم پر کوئی عذاب نازل کرے یا ہمارے ہاتھوں سے (عذاب دلوائے) تو تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں جس چیز کا انتظار کر رہے ہو وه دو بھلائیوں میں سے ایک ہے اور ہم تمہارے حق میں اس کا انتظار کرتے ہیں کہ یا تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا تمہیں دے یا ہمارے ہاتھوں سے، پس ایک طرف تم منتظر رہو دوسری جانب تمہارے ساتھ ہم بھی منتظر ہیں
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
52۔ نیز ان سے کہئے کہ: ”تم ہمارے حق میں جس چیز کا انتظار کر سکتے ہو وہ یہی ہے کہ ہمیں دو بھلائیوں میں سے کوئی ایک بھلائی مل جائے اور ہم تمہارے حق میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تمہیں اپنے ہاں سے خود سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں [56] دلواتا ہے۔ لہذا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں
[56] مسلمان اور منافق سب کو دو باتوں کا انتظار ہے:۔
یعنی اے منافقو! تم ہمارے متعلق صرف یہ انتظار کر رہے ہو کہ مسلمان شاہ روم سے شکست کھاتے ہیں یا اس کے مقابلہ میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ ہے کہ ہم ہر حال میں کامیاب ہی کامیاب ہیں۔ اگر فتح ہوئی اور مال غنیمت سمیت گھروں کو واپس آگئے تو اسے تو تم بھی کامیابی سمجھتے ہو اور اگر ہم شہید ہو گئے تو پھر بھی ہماری کامیابی ہے اور ضمیر مطمئن کہ راہ حق میں جان دے دی اور پھر آخرت میں جنت بھی ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے:
سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اللہ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو شخص میری راہ میں نکلے اور اس کو مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے علاوہ اور کسی چیز نے نہ نکالا ہو تو میں اسے یا تو اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس کر دوں گا یا جنت میں داخل کروں گا۔“ [بخاري۔ كتاب الايمان۔ باب الجهاد من الايمان مسلم۔ كتاب الامارة۔ باب فضل الجهاد والخروج فى سبيل الله]
اور سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ احدی الحسنیین سے مراد فتح یا شہادت ہے۔ [بخاري۔ كتاب التفسير] اور تمہارے متعلق ہماری سوچ بھی دو باتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تو یقینی بات ہے کہ تمہیں سزا مل کے رہے گی۔ اب ہم اس انتظار میں ہیں کہ آیا یہ سزا اللہ تمہیں خود ہی کوئی عذاب بھیج کر دیتا ہے۔ یا تمہیں ہمارے ہاتھوں سے دلواتا ہے۔ لہٰذا تم اپنی سوچ کے مطابق انتظار کرو اور ہم اپنی سوچ کے مطابق انتظار کرتے ہیں۔