لَقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَۃَ مِنۡ قَبۡلُ وَ قَلَّبُوۡا لَکَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰی جَآءَ الۡحَقُّ وَ ظَہَرَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ ﴿۴۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بلاشبہ یقینا انھوں نے اس سے پہلے فتنہ ڈالنا چاہا اور تیرے لیے کئی معاملات الٹ پلٹ کیے، یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ کا حکم غالب ہوگیا، حالانکہ وہ ناپسند کرنے والے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
یہ پہلے بھی طالب فساد رہے ہیں اور بہت سی باتوں میں تمہارے لیے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ حق آپہنچا اور خدا کا حکم غالب ہوا اور وہ برا مانتے ہی رہ گئے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یہ تو اس سے پہلے بھی فتنے کی تلاش کرتے رہے ہیں اور تیرے لئے کاموں کو الٹ پلٹ کرتے رہے ہیں، یہاں تک کہ حق آپہنچا اور اللہ کا حکم غالب آگیا باوجودیکہ وه ناخوشی میں ہی رہے
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
48۔ یہ لوگ اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی [52] کر چکے ہیں اور آپ کے امور کو درہم برہم کرنے کے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں تا آنکہ اللہ کا سچا وعدہ (اسلام کے غلبہ کا) آ گیا اور اللہ کا حکم غالب ہوا جبکہ یہ ناک بھوں چڑھا رہے تھے
[52] عبد اللہ بن ابی کا فتنہ:۔
منافقوں کی فتنہ انگیزیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ عبد اللہ بن ابی کو در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پیشتر عبد اللہ بن ابی کے سر پر اوس و خزرج دونوں کی سرداری کا تاج رکھا جانے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس کی سرداری کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ یہی وہ حسد اور کینہ تھا جس نے اسے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر عمر بھر اکسائے رکھا۔ غزوہ بدر سے پہلے اس کی قریش مکہ سے مراسلت رہی۔ پھر جب بدر میں قریش مکہ کو شکست فاش اور مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی تو یہ جل بھن گیا مگر اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کر لیا مگر دل میں اسلام دشمنی بدستور موجود رہی۔ جنگ احد میں اس نے مسلمانوں سے غداری کی اور نہایت نازک موقع پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لشکر سے کاٹ لایا تاکہ مسلمان شکست سے دو چار ہوں۔ زندگی بھر اس کی ہمدردیاں یہودیوں سے رہیں۔ انہیں اکسا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا اس کا پسندیدہ شغل تھا۔ وہ بھی اس کی مہربانی سے مسلمانوں کے ہاتھوں پٹتے ہی رہے اور ہر موقعہ پر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال رہی۔ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر اس نے سیدۃ عائشہؓ پر تہمت لگا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ذہنی کوفت میں مبتلا کیے رکھا تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے سیدۃ عائشہؓ کی بریت نازل فرمائی۔ اسی غزوہ میں اس نے انصار کو اکسایا کہ اس نبی کو مدینہ سے نکال دو۔ پھر مسجد ضرار تعمیر کر کے انہی ناپاک سازشوں کے لیے ایک نیا اڈا بنا لیا۔ اور قیصر روم سے ساز باز شروع کر دی۔ غرض ہر موقع پر اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام مغلوب ہو اور مدینہ کا رئیس اعظم میں بن جاؤں۔ آخر یہی حسرت دل میں لیے ہوئے اس نے اس جہان سے کوچ کیا۔