لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ۚ وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اگر وہ تم میں نکلتے تو خرابی کے سوا تم میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور ضرور تمھارے درمیان (گھوڑے) دوڑاتے، اس حال میں کہ تم میں فتنہ تلاش کرتے، اور تم میں کچھ ان کی باتیں کان لگا کر سننے والے ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اگر وہ تم میں (شامل ہوکر) نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے حق میں شرارت کرتے اور تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے دوڑے دوڑے پھرتے اور تم میں ان کے جاسوس بھی ہیں اور خدا ظالموں کو خوب جانتا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لئے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑا دیتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں، اور اللہ ان ﻇالموں کو خوب جانتا ہے

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

47۔ اگر وہ نکلتے بھی تو تمہارے اندر خرابی ہی کا اضافہ کرتے [50] اور تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لئے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ پھر تم میں [51] بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو ان کی باتیں دھیان سے سنتے ہیں اور اللہ ایسے ظالموں کو خوب جانتا ہے
[50] میدان کارزار میں منافقوں کے فتنے:۔
یعنی ایسے منافقوں سے لشکر مجاہدین میں شامل ہونے پر بھی خیر اور بھلائی کی توقع کم تھی بلکہ الٹا یہ کئی طرح کی خرابیاں پیدا کر سکتے تھے۔ مثلاً جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے دوسروں کے حوصلے بھی توڑ دیتے۔ یا دشمن کو اسلامی لشکر کے حالات سے مطلع کر دیتے یا اس سے ساز باز شروع کر دیتے۔ یا اسلامی لشکر میں اختلاف کا سبب بن جاتے اور ان میں باہمی نزاع پیدا کر دیتے یا بے بنیاد افواہیں اڑا کر مسلمانوں میں بد دلی پھیلانے لگتے۔ لہٰذا اللہ کی مشیئت میں ان کا نہ جانا ہی بہتر تھا۔
[51] سادہ لوح مسلمانوں کو ہدایت:۔
یعنی اے مسلمانو! تم میں بھی بعض ایسے سادہ لوح افراد موجود ہیں۔ جو ان منافقوں کی باتیں بڑے غور سے سنتے اور ان سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ وہ انہیں اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جو منافقوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کے حالات سے انہیں مطلع کرتے رہیں اور ایسے مسلمانوں کی نیت میں چونکہ فتور نہیں ہوتا اس لحاظ سے ان کی یہ اطلاعات مسلمانوں کے حق میں مفید بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی جب وہ مسلمانوں کی اولوالعزمی اور بے جگری سے لڑنے کے واقعات منافقوں سے بیان کریں گے تو خواہ مخواہ ان کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت قائم ہو گی۔ تاہم اس آیت میں مسلمانوں کو یہی تنبیہ کی جا رہی ہے کہ ایسے سادہ لوح مسلمانوں کے بارے میں بھی تمہیں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے کہ کہیں ان کی یہی سادہ لوحی تمہارے لیے کسی فتنہ کا موجب نہ بن جائے۔