وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ وَ قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ ﴿۴۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے کچھ سامان ضرور تیار کرتے اور لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا نا پسند کیا تو انھیں روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے سامان تیار کرتے لیکن خدا نے ان کا اُٹھنا (اور نکلنا) پسند نہ کیا تو ان کو ہلنے جلنے ہی نہ دیا اور (ان سے) کہہ دیا گیا کہ جہاں (معذور) بیٹھے ہیں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر ان کا اراده جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وه اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہی رہو

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

46۔ اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا [49] تو وہ اس کے لئے کچھ تیاری بھی کرتے لیکن اللہ کو ان کی روانگی پسند ہی نہ تھی۔ لہذا اس نے انہیں سست بنا دیا اور کہہ دیا گیا کہ ”تم بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہی رہو
[49] منافقوں کی سچائی کا معیار:۔
اگر انہوں نے جہاد کی تیاری مکمل طور پر کر لی ہوتی تو پھر کوئی ایسا حادثہ پیش آجاتا جس کی وجہ سے وہ فی الواقع جہاد پر جانے سے معذور ہوتے تو اس صورت میں تو ان کی سچائی پر اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جس صورت میں انہیں کوئی ایسی فکر لاحق ہی نہ ہوتی ہو اور ان کا سارا دار و مدار صرف حیلوں بہانوں پر ہی موقوف ہو تو اس صورت میں انہیں سچا کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی جہاد میں شمولیت اللہ کو پسند بھی نہیں جس سے اسلامی فوج کو ان سے کسی فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ زیادہ ہو۔ چنانچہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ گھروں میں ہی بیٹھ رہنا ان کے نصیب ہوا۔