لَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تجھ سے وہ لوگ اجازت نہیں مانگتے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اس سے کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کریں اور اللہ متقی لوگوں کو خوب جاننے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو تم سے اجازت نہیں مانگتے (کہ پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور خدا ڈرنے والوں سے واقف ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ویقین رکھنے والے تو مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
44۔ جو لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپ سے ایسی رخصت [48] نہیں مانگتے کہ انہیں اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
[48] اللہ اور آخرت پر ایمان سے مراد اللہ کے وعدوں کو سچا سمجھنا ہے:۔
یہاں اللہ پر ایمان لانے سے مراد اللہ کے وہ وعدے ہیں جو اس نے فتح و نصرت سے متعلق مسلمانوں سے کیے ہیں اور آخرت پر ایمان سے مراد بھی جنت میں داخل کرنے اور بڑے درجات عطا کرنے کے وعدے ہیں اس لحاظ سے جن لوگوں کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے وہ تو فوراً اپنے اموال اور جانوں سے جہاد پر روانہ ہو جائیں گے اور ایسے لوگوں کو رخصت مانگنے کی نوبت ہی پیش نہیں آتی۔ البتہ جن منافقوں کا یہ یقین ہی نہیں کہ اللہ کے وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گی اور نہ ہی آخرت کے وعدوں پر پورا یقین ہے۔ وہ بس اپنے دنیوی مفادات کا ہی موازنہ کرنے میں مشغول ہیں۔ کبھی یہ سوچتے ہیں کہ شاید ان کا جہاد پر جانا سودمند ثابت ہو اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ کہیں الٹا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اور وہیں موت سے دوچار ہونا پڑے۔ بس اسی گومگو کی حالت میں پڑے سوچتے ہیں۔ بالآخر انہیں یہی تدبیر کامیاب نظر آتی ہے کہ حیلوں بہانوں سے آپ سے معذرت کر لیں تاکہ ان کے جھوٹ اور بدنیتی پر پردہ پڑا رہے۔