یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَ الرُّہۡبَانِ لَیَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک بہت سے عالم اور درویش یقینا لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری دے دے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مومنو! (اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنادو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے ایمان والو! اکثر علما اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راه سے روک دیتے ہیں اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
34۔ اے ایمان والو! یہودیوں کے اکثر عالم اور درویش لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے اور اللہ کے راستہ [34] سے روکتے ہیں۔ جو لوگ سونا اور چاندی [35] جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (اے نبی) انہیں آپ دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے
[34] اہل کتاب کی حرام خوری:۔
ان کے ناجائز طریقے یہ تھے کہ انہوں نے سود کو جائز قرار دے لیا تھا۔ بالخصوص غیر یہود سے سود وصول کرنا نیکی کا کام سمجھتے تھے۔ نیز غیر یہود کے اموال جس جائز و ناجائز طریقہ سے ہاتھ لگ جائیں وہ ان کے نزدیک حلال اور طیب تھے۔ رشوتیں لے کر غلط فتوے دیتے تھے۔ نجات نامے فروخت کرتے تھے۔ حرام کردہ چیزوں مثلاً چربی کو پگھلا کر ان کی قیمت کھا لیتے تھے۔ شادی یا غمی کی کوئی رسم ہو اس میں اپنا حصہ اور نذرانے وصول کرتے تھے۔ اور ان کی یہی کارستانیاں بالواسطہ اللہ کے دین میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی تھیں۔
[35] خزانہ جمع کرنے سے مراد:۔
اس جملہ کے مخاطب صرف اہل کتاب ہیں یا ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس بارے میں صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی اختلاف تھا۔ مثلاً سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ اس بات کے قائل تھے کہ جس مال سے زکوٰۃ ادا کر دی جائے وہ خزانہ کے حکم میں نہیں رہتا جبکہ سیدنا ابو ذر غفاری اور سیدنا ابن عباسؓ خزانہ جمع کرنے کے مخالف تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے:
1۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ ابھی زکوٰۃ کی فرضیت نازل نہیں ہوئی تھی۔ پھر جب زکوٰۃ فرض ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے اموال کو زکوٰۃ سے پاک کر دیا۔ [بخاري۔ كتاب الزكوٰة۔ باب ما اُدِّي زكوٰته فليس بكنز]
2۔ احنف بن قیس کہتے ہیں کہ: میں قریش کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے بال سخت، موٹے جھوٹے کپڑے اور سیدھی سادی شکل تھی۔ اس نے سلام کیا۔ پھر کہنے لگا ”ان کو خوشخبری سنا دو کہ ایک پتھر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا وہ ان کی چھاتی پر رکھ دیا جائے گا اور ان کے مونڈھے کی اوپر والی ہڈی پر رکھ دیا جائے گا جو چھاتی کی بھٹنی سے پار ہو جائے گا اسی طرح وہ پتھر ڈھلکتا رہے گا۔“ یہ کہہ کر اس نے پیٹھ موڑی اور ایک درخت کے پاس جا بیٹھا۔ میں نے اس سے کہا ”میں سمجھتا ہوں تمہاری یہ بات ان لوگوں کو ناگوار گزری ہے“ وہ کہنے لگا۔ یہ لوگ تو بے وقوف ہیں۔ مجھ سے میرے جانی دوست نے کہا۔ میں نے پوچھا ”تمہارا جانی دوست کون ہے؟“ کہنے لگا ”رسول اللہ اور کون؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابو ذر! تو احد پہاڑ دیکھتا ہے؟“ میں نے عرض کیا ''جی ہاں '' فرمایا ”میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ برابر سونا ہو۔ اگر ہو تو میں تین دینار کے علاوہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالوں۔“ اور یہ لوگ تو بے وقوف ہیں جو روپیہ اکٹھا کرتے ہیں اور میں تو اللہ کی قسم! ان سے نہ تو دنیا کا کوئی سوال کروں گا اور نہ دین کی کوئی بات پوچھوں گا۔ یہاں تک کہ اللہ سے جا ملوں۔ [بخاري۔ كتاب الزكوٰة۔ باب ما ادي زكوٰته فليس بكنز]
3۔
سیدنا ابو ذر غفاری کا مسلک:۔
زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے ربذہ (مدینہ کے قریب ایک مقام ہے) میں ابو ذر غفاری کو دیکھا تو پوچھا ”تم یہاں جنگل میں کیسے آگئے؟“ انہوں نے کہا ”ہم ملک شام میں تھے۔ مجھ میں اور معاویہ (گورنر شام) میں جھگڑا ہو گیا۔ میں نے یہ آیت پڑھی: ﴿وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ تو امیر معاویہ نے کہا کہ یہ آیت مسلمانوں کے حق میں نہیں (اگر وہ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں) بلکہ اہل کتاب کے حق میں ہے جبکہ میں یہ کہتا تھا کہ یہ آیت (عام) ہے اور ان کے اور ہمارے درمیان مشترک ہے۔“ [حواله ايضاً]