ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
33۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب ادیان [33] پر غالب کر دے۔ خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو
[33] آپ کی بعثت کا مقصد اسلام کی نظریاتی اور سیاسی بالا دستی:۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے رسول اس لیے بھیجا ہے کہ ساری دنیا کو مسلمان بنا کے چھوڑے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ دنیا میں جو جو دین یا نظام ہائے زندگی رائج ہیں ان سب پر بلحاظ عقل اور دلیل و حجت اسلام کی بالا دستی قائم ہو جائے۔ مثلاً دور نبوی میں یہودیت ایک دین تھا۔ عیسائیت، مجوسیت، منافقت، صائبیت، مشرکین کا دین۔ ان سب ادیان کے عقائد الگ الگ تھے۔ اور انہی عقائد کی مناسبت سے ان کا پورے کا پورا نظام زندگی ترتیب پاتا تھا۔ رسول کی بعثت کا مقصد اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ ان تمام باطل ادیان کے نظام ہائے زندگی پر اسلام کی برتری اور بالا دستی قائم کر دے۔ اور عقل اور دلیل و حجت کے لحاظ سے اسلام کی یہ برتری اور بالا دستی آج تک قائم ہے۔ بیرون عرب ادیان باطل کی مثالیں۔ ہندو ازم، سکھ ازم، بدھ ازم، جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ ہیں۔ ایسے سب ادیان پر اسلام کی برتری اور بالا دستی کو بہ دلائل ثابت کرنا علمائے اسلام کا فریضہ ہے۔ یہ تو نظریاتی برتری ہوئی۔ اور سیاسی برتری کے لحاظ سے بھی اللہ نے اسے کئی صدیوں تک غالب رکھا۔ بعد میں جب مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط اور انتشار رو نما ہوا تو مسلمانوں سے یہ نعمت چھین لی گئی۔ اور اس کا اصول یہ ہے کہ جب تک اور جہاں تک مسلمان اپنے نظام زندگی اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالیں گے اسی حد تک مسلمانوں کو غیر مسلم اقوام پر سیاسی بالا دستی اور برتری حاصل ہو گی جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں بالقوۃ یہ استعداد موجود ہے کہ وہ سیاسی طور پر بھی تمام غیر مسلم اقوام اور نظریات پر غلبہ حاصل کرے۔ اگرچہ مسلمانوں کی عملی کوتاہیوں کی وجہ سے یہ استعداد بالفعل منظر عام پر نہ آسکتی ہو۔